|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، آزاد کشمیر|
9 جون کو سدھنوتی کے سیاحتی مقام چاربیاڑ میں ہونے والے ٹوور ازم کے فیسٹیول میں ہنگامہ آرائی، ریاستی غنڈہ گردی، تشدد اور گرفتاریوں کے بعد ”آزاد“ کشمیر کے عوام پھر احتجاجی تحریک میں بڑے پیمانے پر متحرک ہو گئے ہیں۔
9جون کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کارکن سردار شبیر اور دیگر ساتھیوں کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب تراڑکھل سے ٹوور ازم کے فیسٹیول پہ جاتے ہوئے وزیر سیاحت کے قافلے سے ان کا سامنا ہوا۔ وزیر سیاحت کے مسلح غنڈوں نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران کی گاڑی کی توڑ پھوڑ کی اور گاڑی میں موجود لوگوں پر تشدد کیا۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے جب متاثرین بلوچ تھانے میں گئے تو وہاں سردار شبیر اور دیگر ساتھیوں کو وکلاء سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
ابھی اسیران میرپور کی رہائی کے لیے میرپور اور دیگر شہروں میں لوگ سراپا احتجاج ہی تھے کہ 9 جون کو پیش آنے والے اس واقعہ نے عوامی غم و غصے میں کئی گنا اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں احتجاجی مارچ کی صورت میں عوام ہزاروں کی تعداد میں ایک بار پھر سڑکوں پہ نکل آئے۔
13جون کو ہزاروں لوگوں نے پلندری شہر کا رخ کیا جہاں اسیران چاربیاڑ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر کے رکھا گیا تھا۔ پلندری مارچ میں ڈویژن بھر سے بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور پرزور احتجاج کیا۔ پونچھ ڈویژن اور کوٹلی سے قافلوں کی شکل میں آئے احتجاجی مظاہرین جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کارکن شبیر خان سمیت 6 اسیران چاربیاڑ کی رہائی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
یہ بالکل واضح ہے کہ وزیر حکومت کے حکم پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے، ان پر حملہ کیا گیا، ان کو زدوکوب کیا گیا، توڑ پھوڑ کے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنا کر انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
13مئی کی تاریخی شکست کے بعد حکمران مکمل بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ وہ عوام سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ اپنے آقاؤں کے حکم پر ”استحکام پاکستان“ ریلیز کی ناکامی کے بعد یہ حکمران مزید فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگے ہیں۔
محکمہ سیاحت کے زیر انتظام کرائے گئے ٹوور ازم فیسٹول (جس کا مقصد خطے میں سیاحت کو فروغ دینا بتایا جاتا ہے) میں مخصوص حکومتی بیانیہ لوگوں پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ وزیر موصوف نے سٹیج سے خود الحاق پاکستان کے نعرے لگا کر ہنگامہ آرائی کا ماحول پیدا کیا جب آزادی پسند نوجوانوں نے جوابی نعرے بازی کی۔
سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ویڈیوز میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ راشد نامی ایک شخص جو وزیر سیاحت فہیم ربانی کا خاص بندہ سمجھا جاتا ہے، سرعام اسلحہ لہراتے ہوئے پولیس کے شانہ بشانہ فائرنگ کر رہا ہے۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن ایک بدمعاش وزیر کی ضد کی وجہ سے سیر و تفریح کے لیے آئے لوگوں کو خوف و ہراس اور ذلت سے گزرنا پڑا۔
13جون کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران اور دیگر اسیران کی گرفتاریوں کے خلاف پلندری میں ہونے والے مارچ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ایک بار پھر حکمرانوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ جبر کے ذریعے عوام کی آواز کو اب مزید دبایا نہیں جا سکتا۔
مبعینہ طور پر سردار شبیر اور دیگر ساتھیوں کو کوٹلی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے جس کے بعد 13 جون کی رات کومارچ کے شرکاء نے پلندری سے کوٹلی کی طرف مارچ کا آغاز کر دیا ہے۔ رات کے وقت مارچ کے شرکا نے سرساوہ کے مقام پر قیام کیا جہاں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد یہ احتجاجی مارچ قافلے کی شکل میں کوٹلی کی طرف رواں دواں ہے۔
اب شہد چوک، کوٹلی میں اس احتجاجی مارچ کا جلسہ منعقدہو گا جس میں اسیران چاربیاڑ، اسیران عوامی تحریک میرپور کی رہائی اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے منظور شدہ مطالبات پر عمل درآمد کے لیے تحریک کے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس عوامی مارچ اور اس کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، پسماندگی اور ریاستی جبر کی بنیاد یہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ جو صرف 2 فیصد سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔
محنت کش طبقہ اپنے مسائل کا حل صرف اسی صورت میں کر سکتا ہے جب وہ اس کرہ ارض کے تمام وسائل کو محنت کش طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دے جو محض سرمایہ دار طبقے کی عیاشیوں اور ان کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس لڑائی میں آخری فتح محنت کش طبقے کی ہی ہو گی۔
لیکن ایسا کرنے کے لیے محنت کش طبقے کی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا موجود ہونا ناگزیر ہے۔ ہم پوری دنیا میں اس انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کر رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کے لیے ہم محنت کشوں اور نوجوانوں اس انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔
عوامی جدوجہد زندہ باد!
جینا ہے تو لڑنا ہو گا!