|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کشمیر|
25 ستمبر کو ایک با ر پھر کشمیر بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر راولاکوٹ میں منعقد ہونے والے پہلے یوم تاسیس و بیداری شعور کانفرنس میں شریک ہوئے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کے علاوہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے چیئر مین اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کامریڈ احسان علی بھی اس پروگرام میں خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
اس سے پہلے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں اسی طرح کی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے جس میں عوام جوق در جوق شرکت کرتی رہی ہے۔ کانفرنس میں آزادی اور انقلاب، مہنگائی کے خاتمے سمیت دیگر ایشوز پر بھرپور نعرے بازی کی گئی۔
ریلی کا آغاز بوائز ڈگری کالج کے گراؤنڈ سے کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل تھے۔ لوگوں کا جوش و جذبہ اس پروگرام میں قابل دید تھا۔ مشکل ترین حالات میں بھی کشمیر بھر سے بڑی تعداد میں سیاسی کارکنان اور محنت کش عوام نے تاریخی اجتماع کر کے حکمرانوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ تمہارے انڈین ایجنٹ ہونے کے جھوٹے الزامات ہوں یا ضمیر فروش پالتو ملاؤں کے ذریعے دہریت کے بے ہودہ فتوے، عوام اب اپنے حقوق کی جنگ لڑنے سے باز نہیں آئیں گے۔
آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور تحریک کی کامیابی نے عوام کو یہ حوصلہ و یقین دلایا ہے کہ متحد ہو کر جدوجہد کی جائے تو عوامی طاقت سے کچھ بھی جیتا جا سکتا ہے۔ دہائیوں سے حکمرانوں کے جھوٹے دلاسوں اور استحصال نے عوام کو درست طور پر یہ نتائج اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اب احتجاج اور سیاسی جدوجہد کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں رہا۔ تحریک کے اثرات اور عوامی شعور کو کُند کرنے کے لیے ریاست کے تمام ہتھکنڈے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک سابق وزیراعظم نے بھی اپنا پروگرام رکھا تھا جس میں کروڑوں روپے لگانے کے باوجود بھی محض چند سو افراد کی شرکت ہی کروائی جا سکی۔ جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ پروگرام جس گراؤنڈ میں ہوا آج تک کوئی حکمران طبقے کی پارٹی کروڑوں روپے لگانے کے باوجود اس گراؤنڈ میں اتنی تعداد میں لوگوں کو نہیں جمع کر سکی، جتنی عوامی ایکشن کمیٹی کے پروگرام میں لوگوں نے شرکت کی۔
بنیادی طور پر یہ واقعات معروض کی تبدیلی کے ساتھ عوامی شعور میں معیاری تبدیلی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ 77 سالوں سے یہاں کے استحصال زدہ عوام حکمرانوں اور ریاست کی طرف سے مسلط کردہ جبر، غربت اور پسماندگی کو برداشت کرتے رہے ہیں۔
ریاستِ پاکستان اور اس کے مسلط کردہ ان تمام حکمرانوں نے سوائے دھوکہ دہی اور جھوٹے وعدوں کے کچھ نہیں دیا۔ جبکہ یہاں کا گماشتہ حکمران طبقہ اسلام آباد میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی آشیرباد سے امیر سے امیر تر ہوتا گیا اور عام عوام زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات آٹا، دالیں بھی خریدنے کی استطاعت سے محروم ہو گئے۔
مگر گزشتہ چند سالوں سے عوام نے اپنے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے عملی جدوجہد اور احتجاج کا راستہ منتخب کیا ہے۔ اس تحریک کے دوران اور خاص کر اس کی جزوی کامیابی کے بعد کشمیری عوام اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ لڑائی ہے اور عوامی لڑائی کے ذریعے ہی ہر چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس کانفرنس میں پُرجوش عوامی شرکت نے جہاں ریاست پر واضح کیا کہ اب مزید استحصال ناقابل برداشت ہے، وہیں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو پیغام دیا ہے کہ عوام لڑائی کے لیے تیار ہیں اور آپ آگے کے لیے پروگرام دیں۔ عوام آٹے اور بجلی پر ریلیف کے بعد اب دیگر بنیادی مسائل کے لیے بھی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
کانفرس کے اختتام پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کوئی نئے عوامی ایشوز کو چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ بنا کر عوام کے سامنے رکھنے میں ناکام رہی جبکہ یہ ضروری تھا کہ صحت و تعلیم اور بیروزگاری جیسے سلگتے ہوئے مسائل کو بھی تحریک کی بنیادی ڈیمانڈز کا حصہ بنایا جائے۔ بجلی بلات کی درستی، آٹے کے معیار کی بہتری اور ایلوکیشن میں اضافے کے ساتھ دیگر مسائل کے حل کے لیے حکومت کو 15 اکتوبر تک کا وقت دیا گیا ہے۔
یہ اعلان بھی کیا گیا کہ مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں 24 اکتوبر کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی دوبارہ مظفرآباد کی طرف مارچ کرے گی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی عوامی تحریک میں سرگرمی کے ساتھ محنت کش عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ قومی جبر سمیت معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے عوام منتخب کمیٹیز میں متحد ہو کر ہی جابر حکمرانوں، استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کو شکست دے سکتے ہیں۔