|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کشمیر|
”آزاد“ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت بالآخر نئے بجلی بلات 3 روپے فی یونٹ کے حساب سے جاری کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ایک دفعہ پھر عوامی دباؤ نے حکومت کے تمام تاخیری حربوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ اگرچہ ایکشن کمیٹی نے بجلی بلات کی ادائیگی کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن 13 مئی کو کمیٹی کے ساتھ کیے گئے وعدے پر حکومت پوری طرح عمل کرنے سے گریزاں ہے۔
معاہدے کے مطابق بقایا جات دو سال کی اقساط میں ادا ہونے تھے اور پرانے بلات بھی نئی قیمت یعنی 100 یونٹ تک 3 روپے فی یونٹ کے حساب سے جاری کیے جانے تھے۔ لیکن حکومت نے پھر دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے اقساط 24 کے بجائے 12 کر دی ہیں اور پرانے بقایا بلات بھی پرانے ٹیرف کے ساتھ جاری کیے ہیں۔
اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے دیگر نقاط، آٹے کی ایلوکیشن اور وولٹیج میں کمی وغیرہ جیسے مسائل کو حل نہ کرنے پر حکومتی دھوکہ دہی پر عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور کچھ علاقوں سہنسہ اور چڑھوئی میں ابھی بھی لوگ سراپاء احتجاج ہیں اور حکومتی پالیسیوں کوتسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ایکشن کمیٹی نے ان مسائل کو حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر احتجاج دوبارہ شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
بلاشبہ عوام نے ایک تاریخ ساز جدوجہد کے ذریعے آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کروائی ہے لیکن باقی ماندہ مسائل کے حل سمیت جیتی گئی حاصلات کا دفاع تبھی ممکن ہے کہ عوام متحد اور منظم رہیں اور مزاحمتی جدوجہد سے جڑے رہیں۔ آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی تقریباً ایک سال سے جاری عوامی تحریک کے نتیجے میں مئی 2024ء میں حاصل ہوئی تھی۔ جس میں پورے نام نہاد ”آزاد“ کشمیر کے عوام ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم پر متحد ہوئے تھے۔
غربت اور مہنگائی سے پریشان لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین احتجاجی تحریک میں متحرک ہو کر حکمران طبقے سے اپنا حق چھیننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 13 مئی کے لانگ مارچ میں لاکھوں لوگ مظفرآباد میں جمع ہوئے۔ رینجرز کی فائرنگ سے 3 نوجوان شہید ہو گئے۔ ریاست جبر کے ذریعے عوام کو منتشر کرنے میں ناکام رہی اور اسے بالآخر قیمتوں میں کمی کرنی پڑی۔
اس طرح عوامی تحریک سرخرو ہوئی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کامیاب عوامی تحریک میں عوام کے ساتھ پوری طرح عملی جدوجہد میں شریکِ کار رہی ہے۔ محنت کشوں کی نجات کی جدوجہد کے نقطہ نظر سے یہ ایک تاریخی فتح ہے۔ آنے والے دنوں میں طبقاتی لڑائی کے نئے میدان سجیں گے۔
مسلسل بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مہنگی تعلیم، لاعلاجی اور غربت سے عوام تنگ آ گئے ہیں۔ حکمرانوں کی لوٹ مار اور معاشی جبر کے خاتمے کے لیے دہائیوں کی خاموشی کے بعد عوام نے جدوجہد کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستانی ریاست کی ”مدد“ سے کشمیر کی آزادی کا چورن عوام کے سامنے اب مکمل طور پر بے نقاب ہو گیا ہے۔ ”آزاد“ کشمیر اب پاکستان کی سامراجی ریاست کے خلاف ایک مزاحمت کا بیس کیمپ بن چکا ہے۔
مروجہ سیاسی قیادتوں اور سیاسی پارٹیوں کو عوام مسترد کر چکے ہیں۔ قوم پرست اور مذہبی تنظیمیں عوام کے مسائل، موڈ اور مستقبل کے تناظر کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ایسے میں ایک انقلابی پروگرام سے لیس سیاسی قوت اگر محنت کش عوام کو میسر آ جاتی ہے تو مزاحمتی جدوجہد ایک انقلابی سرکشی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
سوشلزم کے تحت ہی آج کے عہد میں مہنگائی، بیروزگاری اور سامراجی غلامی سے نجات ممکن ہے۔ طبقاتی نظام سے آزادی ہی کشمیر اور دیگر مظلوم قومیتوں کی مکمل آزادی کی ضمانت ہے۔ اس وقت بھی پاکستان، کینیا، بنگلہ دیش سمیت دنیا کے بے شمار ممالک میں جبر پر مبنی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف نئی بغاوتیں ابھر رہی ہیں۔ عوامی بغاوتوں پر مبنی ایک نیا معمول دنیا بھر میں عوامی شعور میں معیاری تبدیلی کا عکاس ہے۔
ایک متبادل دنیا کی خواہش اور بحث سیاسی افق پر اپنا اظہار کرنے کو بے تاب ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے معاشی حملے اگر تیز تر ہو رہے ہیں تو محنت کش طبقے کی تحریکیں بھی سیاسی افق پر نئی انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی موجودگی فیصلہ کن طور پر تاریخ کا دھارا مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے حق میں تبدیل کر سکتی ہے۔ جبر کی سیاہ رات کا خاتمہ کرنے کے لیے اس انقلابی پارٹی کی تعمیر آج کے وقت کا اہم ترین فریضہ بن چکا ہے۔