|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، آزاد کشمیر|
دسمبر 2024ء کا پہلا عشرہ نام نہاد ”آزاد“ کشمیر کے استحصال زدہ محنت کش عوام کی مزاحمتی جدوجہد میں ایک تاریخی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ 13 مئی کو آٹے پر سبسڈی کے حصول اور بجلی کی قیمت کو 3 روپے فی یونٹ کروانے جیسی کامیابیوں کے بعد پہلے سے زیادہ پُر اعتماد عوام خود کو مزید منظم کرنے اور شعوری طور پر بیدار کرنے کے عمل میں مصروف ہی تھے کہ حکمران طبقے نے اپنے سامراجی آقاؤں کی ایما پر مزاحمت کو کچلنے کے لیے دیگر حملوں کے ساتھ ساتھ صدارتی آرڈیننس کے نام سے ایک کالا قانون نافذ کر دیا۔
اس کالے قانون میں بنیادی جمہوری آزادیوں کو سلب کیا گیا تھا جس کے مطابق کوئی بھی غیر رجسٹرڈ تنظیم سیاسی اجتماع یا احتجاج نہیں کر سکتی تھی اور اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے 7 دن قبل ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینی پڑے گی یا کم از کم 48 گھنٹے پہلے بذریعہ درخواست اجازت لے گا، جس کے بعد ڈپٹی کمشنر سیکیورٹی ایجنسیوں سے رپورٹ کے بعد درخواست کو منظور یا مسترد کرے گا۔
لیکن اگر کسی نے بلا اجازت کوئی میٹنگ یا جلسہ کیا تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا اور اسے پابند سلاسل کرتے ہوئے سات سال تک کی سزا دی جائے گی۔ جس کے خلاف مزاحمتی عوام اور سیاسی کارکنان میں غم و غصّے کی ایک نئی لہر نے جنم لیا۔ 16 نومبر کو آزادی پسند تنظیموں کے الائنس کے زیر اہتمام راولاکوٹ میں احتجاج کیا گیا۔
آرڈیننس کے تحت مختلف رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے گئے اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ ریاست نے طاقت کی بنیاد پر احتجاجی سلسلے کو کچلنے کی کوشش شروع کرتے ہوئے راولاکوٹ اور کوٹلی میں احتجاجی شرکاء پر بدترین آنسو گیس اور تشدد کیا جس کا جواب عوام نے مثالی اتحاد سے دیتے ہوئے ریاست کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ جبکہ صدارتی آرڈیننس کو جس وقت نافذ کیا گیا اس دوران عوامی ایکشن کمیٹیز کی بیداری شعور کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ ڈویژنل سطح کے مشاورتی اجلاس بھی چل رہے تھے جن میں عوامی رائے کے ساتھ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں عوام کے چندبنیادی نوعیت کے سلگتے ہوئے مسائل جن میں مفت صحت، تعلیم اور روزگار یا بیرزگاری الاؤنس وغیرہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
ریاستی جبر اور گرفتاریوں کے پیش نظر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 19 نومبر کو راولاکوٹ میں ہنگامی بنیادوں پر منعقدہ کردہ جلسے میں پانچ دسمبر سے غیر معینہ مدت کی پہیہ جام شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ مکمل لاک ڈاؤن کی کال تاخیر سے دی گئی لیکن یہ ایک ایسا جوابی حملہ تھا جس کے آگے ریاست کا زیادہ دیر ٹِک پانا مشکل تھا۔ 5 دسمبر کو پورے ”آزاد“ کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہر، بازار اور سڑکیں بند کر کے لاکھوں لوگوں نے آرڈیننس اور بنیادی مسائل کے خاتمے کے لیے جلسے منعقد کیے۔
6دسمبر تک بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ حکومت کو ہڑتال سے کوئی فرق نہیں پڑا پھر ایکشن کمیٹی نے 7 دسمبر سے تمام داخلی راستوں کی مکمل بندش کا اعلان کر دیا۔ کشمیر کے تمام داخلی راستوں کی طرف لاکھوں لوگ مارچ کرتے ہوئے پہنچے۔ لیکن راولاکوٹ سے ٹائیں ڈھلکوٹ کی بجائے قافلے نے کوہالہ انٹری پوائنٹ جو دارلحکومت مظفرآباد سے کچھ ہی فاصلے پر ہے، جانے کا اعلان کر دیا۔
مذکورہ صدارتی آرڈیننس دراصل عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے لایا گیا تھا۔ حکمران طبقہ متحرک عوام سے خائف ہے اور بوکھلاہٹ میں ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جن کے نتیجے میں بار بار منظم عوامی طاقت کے ہاتھوں ذلت امیز شکستوں کا سامنا کر رہا ہے۔ جوائنٹ ایکش کمیٹی نے آرڈیننس پر آغاز میں چھوٹی سطح پر احتجاجوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جبکہ اس وقت نام نہاد ”آزاد“ کشمیر میں عوام کا حقیقی ترجمان فورم ایکشن کمیٹی ہے جس کی کال پر راتوں رات لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔
آغاز میں قیادت کی آرڈیننس کی واپسی کے حوالے کمزور حکمت عملی کے بعد دسمبر کی غیرمعینہ مدت کی ہڑتال نے اس خطے کی مزاحمتی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ 7 دسمبر کے بر وقت، سمجھداری اور جرات مندی پر مبنی فیصلے نے یکسر صورت حال کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔
کل تک حکمران آرڈیننس پر بات تک کرنے کو تیار نہیں تھے اب گرفتار شدگان کی رہائی اور تمام مقدمات کے خاتمے سمیت آرڈیننس واپس لینے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ لیکن قیادت، جو مختلف موقعوں پر کمزور فیصلے بھی کرتی رہی، نے اس بار جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب آرڈیننس پر بات کرنے کا وقت گزر گیا ہے اور کمیٹی کے منظور شدہ مطالبات پر نوٹیفیکیشن کے اجراء تک ہڑتال جاری رہے گی۔
لاکھوں لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ حکمرانوں کے سامنے دو ہی راستے تھے یا وہ عوامی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں یا 13 مئی سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں لوگوں کو مظفر آباد شہر میں داخل ہوتا دیکھیں۔ حکمرانوں نے فوری پسپائی کے راستہ کا انتخاب کیا۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں تھا کہ مظفرآباد میں جمع ہوئے لاکھوں لوگ اس بار بھی چند اصلاحات کروا کر پُر امن طور پر واپس نکل آتے۔
آرڈیننس کے تحت تمام اسیران کو رہا کر دیا گیا، تحریک کے دوران قائم کیے گئے تمام مقدمات کی واپسی سمیت آرڈیننس بھی شرمناک شکست کے بعد واپس لیا گیا۔ اکتوبر 2023ء میں کمیٹی کے ساتھ معاہدے میں تسلیم کردہ تمام مطالبات پر فوری نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یوں ایک سال میں منظم عوام کی یہ دوسری بڑی تاریخی فتح اور حکمرانوں کی دوسری ذلت امیز شکست تھی۔ اب فتح کے جذبے سے سرشار منظم عوام کی ایکتا کو قائم رکھنا سب سے سنجیدہ اور بنیادی فریضہ ہے۔ پے درپے کامیابیوں کے بعد عوامی کمیٹیوں سے لاکھوں لوگوں کا اعتماد جڑا ہے۔
سرمایہ داری کا بحران حکمرانوں کو نئے حملے کرنے پر مجبور کرے گا۔ یہ لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک استحصال اور جبر کی بنیاد پر قائم یہ نظام موجود ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام کو کمیٹیوں میں منظم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی پہلے دن سے عوامی تحریک کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست عام عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ حکمرانوں کی لوٹ مار اور عیاشیوں کا سامان پیدا کرنے پر معمور اس ریاست اور اس جابرانہ نظام کے خاتمے تک یہ جدوجہد رکنے والی نہیں ہے۔
حتمی فتح عوام کی ہو گی!
عوامی اتحاد زندہ باد!
عوامی راج کے قیام کے لیے جدوجہد تیز ہو!