|تحریر: گلباز خان|
13مئی کے تاریخ ساز مارچ کے بعد ”آزاد“ کشمیر کے مختلف علاقوں میں کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 26 اکتوبر کو راولاکوٹ کے ایک مضافاتی سیاحتی مرکز بنجونسہ جھیل کے پاس چھوٹا گلہ ہیلی پیڈ کے مقام پر علاقائی کمیٹیز کے زیر اہتمام منعقدہ ’بیداری شعور کانفرنس‘ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔
کامیاب کانفرنس کے ذریعے غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام نے حکمرانوں اور استحصالی ریاست کو واضع پیغام دیا کہ سلگتے ہوئے مسائل کے خاتمے کے لیے عوام پہلے سے زیادہ متحد و منظم ہیں۔ بڑی تعداد میں خواتین کی شرکت اور ایک موضوع ”ریاست کا کردار اور تحریک کا لائحہ عمل“ پر بحث، بلند ہوتے سیاسی اور ثقافتی معیار کی عکاسی ہے۔
پُر جوش عوام کی بھرپور شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ عوام اپنے حالات زندگی تبدیل کرنے کے لیے جرات اور استقامت کے ساتھ تحریک سے جڑے ہوئے ہیں اور جدوجہد کے لیے پُر عزم ہیں۔
عوام علاقہ نے اتفاق رائے سے صحت و تعلیم کی جدید سہولیات کی مفت فراہمی اور روزگار جیسے مطالبات کو جوائنٹ کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ بنانے کی قرار داد بھی پیش کی اور جزوی کامیابی سے آگے لڑائی کیے لیے رہنمائی کا کردار بھی ادا کیا۔
بنیادی حقوق کی جدوجہد میں متحرک نئے نوجوانوں نے ایجنڈے پر گفتگو کو آگے بڑھا کر سنجیدہ موضوعات کو سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر ”اعلیٰ قیادت“ نے ایجنڈے پر بات کرنے کی بجائے اپنے مخصوص مؤقف پر تقاریر کرنا ہی ضروری سمجھا۔
کانفرنس میں کمیٹی کی قیادت اور کچھ قوم پرست تنظیموں کی قیادت کی طرف سے کی جانے والی تقاریر سے تحریک کے پروگرام اور لائحہ عمل پر مختلف آراء اور تقسیم کا تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا بھی اہم ہو گا کہ تحریکیں لاامتناہی طور پرایک ہی سطح پر یا سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتیں، بلکہ اتار چڑھاؤ، عارضی وقفے اور شکستیں وغیرہ اس عمل کا لازمی حصہ ہو اکرتے ہیں۔
بنیادی مسائل یا معاشی مطالبات کے گرد بننے والی تحریکوں کے دوران سیاسی، نظریاتی اور حکمت عملی کے سوالات کا ابھرنا قدرتی امر ہے۔ عملی جدوجہد کے دوران لوگ نظام، ریاست اور حکمران طبقے سے وابستہ ماضی کی خوش فہمیوں پر مبنی تصورات ٹوٹنے کے تکلیف دہ عمل سے بھی گزرتے ہیں۔
وہ طرز حکمرانی اور ریاست کے جابرانہ کردار پر سوال اٹھانا سیکھتے ہیں۔ حالات کا جبر انہیں دہائیوں کی اطاعت سے انکار پر مجبور کر دیتا ہے۔ استحصال زدہ عوام اپنا مقدر بدلنے کی تمنائیں لیے میدان عمل میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
منظم عوام نے 12، 13 مئی کو حکمران طبقے اور اس کی پروردہ ریاست کو ہوا میں معلق کر کہ رکھ دیا تھا۔ ریاست عوامی طاقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور بنیادی مطالبات پر فوری ریلیف کا اعلان کیا گیا۔
لیکن آج تحریک کو درپیش چیلنجز اور سوالات کو سمجھ کر نئی مگر مسلسل تبدیل ہو رہی صورت حال کے مطابق ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ چارٹر آف ڈیمانڈ یا پروگرام کیا ہونا چاہئے جس کے گرد وسیع تر عوامی اتحاد برقرار رہ سکتا ہے؟
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی جس خود رو عوامی تحرک کو اپنے اندر سمو کر کشمیر بھر کے عوام کی ایکتا کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوئی تھی، اب کیسے تحریک کو تقسیم ہونے سے بچا سکتی ہے؟ عوامی تحریک کا بنیادی کردار اور فوری و طویل مدتی مقاصد کیا ہیں؟
یہ آج کے وہ بنیادی سوالات ہیں جو مزاحمتی تحریک سے جڑے مزاحمتی کارکنان کے ذہنوں میں کشمکش اور ابہامات کو جنم دے رہے ہیں۔ جن کو اگر سنجیدہ نہ لیا گیا تو تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ نئے تقاضوں کے مطابق لڑائی کے اگلے مرحلے کی بہتر تیاری کی ناگزیر ضرورت سے پہلو تہی کرنے کے بجائے تعمیری تنقید اور نئے سوالات کو زیر بحث لا کر ایک زیادہ جاندار پروگرام اور لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ یقینی طور پر ہر سطح پر منظم عوامی کمیٹیز ہی وہ فورم ہو سکتے ہیں جہاں ان سوالات کو جمہوری انداز میں زیر بحث لا کر درست راستے کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
یہ جوائنٹ کمیٹی کی بنیادی کمزوری ثابت ہوئی ہے کہ وہ مختلف سطح کی حقیقی کمیٹیز کو بنانے میں ناکام ہوئی ہے۔ غیر ضروری احتجاجی ایکٹو ازم اور بے مقصد مارچوں کی بجائے مرکزی کمیٹی کے ارکان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ذیلی کمیٹیز کی تشکیل کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ اسی پراسیس میں تحریک کے پروگرام کو بھی نکھارا جا سکتا ہے اور لڑائی کے اگلے مرحلے کی سنجیدگی سے تیاری بھی ممکن ہے۔
لیکن زیادہ تر اضلاع میں ”قائدین“ اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی ممکنہ وجہ شاید جوائنٹ کمیٹی کے زیادہ تر ارکان کا عوامی کمیٹیوں کی اہمیت اور تصور کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہونا ہے۔
تحریک کے اس مرحلے پر معاشی مطالبات کے ساتھ ساتھ تحریک کے سیاسی پروگرام کے سوال کا ابھرنا خوش آئند ہے۔ لیکن اگر اس سوال کو عوامی تحریک کے کردار کو سمجھتے ہوئے درست طریقے سے بر وقت زیر بحث نہیں لایا جاتا تو گروہی مفادات اور شخصی لڑائیاں تحریک کی بربادی کا موجب بنیں گی۔
کمیٹی قیادت میں موجود کچھ اہم رہنماؤں کی طرف سے جہاں تحریک کے کردار کوغیر سیاسی قرار دینا یا 24 اکتوبر 1947ء جیسے متنازع ”اعلان آزادی“ کو سیاسی پروگرام کا حصہ بنانا غیر سنجیدگی اور سیاسی جہالت ہے وہیں دوسری طرف سستے آٹے اوربجلی کے لیے چلنے والی تحریک کی بنیادی ڈیمانڈز کو غیر اہم قرار دے کر تحریک کے اس مرحلے پر مخصوص گروہی نقطہ نظر تحریک پر تھوپنے کا عمل بھی نہ صرف زمینی حقائق کے منافی ہے بلکہ وسیع تر عوام کو تحریک سے کاٹنے کا باعث بنے گا۔
میکانکی فارمولوں کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر معروضی حالات کا سائنسی تجزیہ کیے بغیر آگے بڑھنا تو دور جو جزوی کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کا دفاع بھی ممکن نہیں ہو گا۔ عوامی تحریک کادباؤ جونہی کمزور ہو گا ریاست پھر سے جابرانہ طریقے سے معاشی حملے اور جبر کے نئے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔
ریاستی پشت پناہی سے مذہبی بنیاد پرستی کے حملوں میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈینینس 2024ء جیسے کالے قوانین کے ذریعے تحریک کو کمزور کرنے کی ناکام کوششوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بلاشبہ ”آزاد“ کشمیر کے عوام نے حالیہ عرصے میں مزاحمتی جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پسماندگی، بیروزگاری اور غربت کے ستائے ہوئے عوام نے اپنے تلخ حالات زندگی سے تنگ آ کر پہلی بار ریاست بھر میں حکمران طبقے کو للکارتے ہوئے جزوی کامیابی حاصل کی ہے۔
اگرچہ مختلف اضلاع اور علاقوں میں بنیادی مسائل کے حل کے لیے احتجاجی تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن پہلی بار تینوں ڈویژنز کے عوام مہنگے آٹے اور بجلی پر ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ایک ہی وقت میں ایکشن کمیٹی کے بینر تلے منظم ہوئے اور تاریخ ساز مارچ کے ذریعے اپنا حق حکمرانوں سے چھیننے میں کامیاب ہو سکے۔
حکمران طبقے کی پارٹیوں میں منقسم عوام اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے پارٹی وابستگیوں سمیت تمام تر تعصبات کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ایکشن کمیٹی میں منظم ہوئے۔ بنیادی مسائل کے حل کے لیے پہلی بار خواتین، طلبہ، بزرگ اور بچے اجتماعی طاقت کے جذبے سے سرشار بہتر مستقبل کے لیے سڑکوں، گلی محلوں میں نکلے ہیں۔
ایک سال سے زائد عرصہ پر محیط احتجاجی تحریک میں منظم عوام نے یہ سبق بھی سیکھا ہے کہ متحد و منظم عوام کو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی ریاست شکست نہیں دے سکتی۔ مزاحمتی جدوجہد سے منسلک سیاسی کارکنان کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ اس عظیم الشان عوامی اتحاد کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نام نہاد ”آزاد“ خطے میں قومی احساس محرومی میں اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مزاحمتی کارکنان پر ریاستی جبر نے کالونیل قبضے کے خاتمے کی خواہش کو بڑھاوا دیا ہے۔ آزادی اور انقلاب کے جتنے نعرے اس ایک سال میں بلند ہوئے اتنا شاید پچھلے 75 سالوں میں نہیں لگے ہوں گے۔ لیکن آج بھی سب سے اہم سوال یہی ہے کہ سامراجی غلامی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔
اس سوال کا جواب گزشتہ چند سالوں سے رونما ہو رہے سیاسی واقعات میں اور اسباق میں موجود ہے۔ دہائیوں سے معاشی استحصال، بیروزگاری کا شکار عوام سلگتے ہوئے مسائل اور روزمرہ کی مشکلات کے خاتمے کے لیے بے چین ہیں۔ محنت کش عوام ہر اس آواز پر لبیک کہتے ہیں جو براہ راست ان کی زندگی سے جڑے مصائب و مشکلات کے حل کی بات کرتی ہے۔
یہی محنت کش، جنہیں یہاں کی مہان ”قیادتیں“ بے حس یا بے غیرت کہہ کر دھتکارتی رہی ہیں، آج جب تاریخ کے میدان میں اترے ہیں تو حکمرانوں کے جبڑے سے اپنا حق چھین کر اپنی اجتماعی طاقت اور وقت کا دھارا تبدیل کرنے کی تاریخی صلاحیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن عوام جب بھی متحرک ہوتے ہیں مجرد پروگرام کی بجائے ایسے ٹھوس مطالبات کے پیچھے چلتے ہیں۔
مثلاً اگر عوام ’ڈیم ہمارے، قبضہ تمہارا‘ کی بجائے ٹیکس فری بجلی یا مفت بجلی کے مطالبے پر متحرک ہو سکتے ہیں تو دیانت داری کا یہی تقاضہ ہے کہ اپنے طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ تاریخ آزادی اور انقلاب کا خواب آنکھوں میں سجائے نوجوانوں کی ان گنت قربانیوں سے بھری پڑی ہے لیکن آزادی پسند پارٹیاں وسیع تر عوامی حمایت سے محروم رہی ہیں۔
اگرماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر جدوجہد کی درست سمتوں کا تعین نہ کیا جائے تو نتائج بھی مختلف نہیں ہوتے۔ محض جذباتی نعروں سے غاصبانہ قبضے کا خاتمہ ممکن نہیں۔ محکوم عوام کی حقیقی آزادی کے نظریات اور پروگرام کو سمجھے اور اپنائے بغیر آزادی اور کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
حالیہ تحریک نے حکمران طبقے اور استحصال زدہ عوام کے درمیان میں ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے۔ دو متحارب طبقات کے مفادات یکسر مختلف ہیں۔ مظفر آباد میں بیٹھے گماشتہ حکمران کشمیری عوام کی آزادی اور معاشی جبر کے خاتمے کی راہ میں پہلی رکاوٹ ہیں۔ یہ سامراجی آقاؤں کی دلالی کر کے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ ان کی چوتھی نسل حکمران بننے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ خون چوسنے والی ان جونکوں، گماشتہ حکمرانوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کی بجائے ان کو با اختیار بنانے کا نعرہ قطعی طور پر درست نہیں۔
بلکہ آج کے عہد میں احمقانہ، دقیانوسی اور رجعتی کردار کا حامل ہے۔ بنیادی مسائل کے حل کی حالیہ تحریک سے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ایوان پہلی بار عوامی مارچ سے لرز اٹھے تھے۔ پہلی بار اس نظام اور استحصالی ریاست کو ایک طاقتور ضرب لگی ہے۔ جب سیاسی طاقت یا اقتدار پر قبضے کا سوال فیصلہ کن حیثیت اختیار کرے گا تو یقینا محنت کش عوام طاقت اپنے ہاتھوں میں لیں گے۔ محض موجودہ حکمران ٹولے کے اقتدار کے خاتمے سے مسائل ختم نہیں ہو سکتے۔
محنت کش عوام اپنی محنت سے عملاً سماج چلا سکتے ہیں تو کرپٹ بیورو کریسی اور طفیلی حکمرانوں کو اقتدار و اختیار سے بے دخل کر کے ریاستی امور بھی بطریق احسن چلا سکتے ہیں۔ موجودہ معروضی حالات میں عوامی کمیٹیز ہی وہ بنیاد بن سکتی ہیں جن پر آگے چل کر منتخب عوامی پنچائتوں کی ایک شاندار عمارت تعمیر ہو سکتی ہے۔
عوامی مسائل کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ تبھی ممکن ہے جب طاقت عوام کے ہاتھوں میں ہو گی، اقتدار کا حق اکثریتی طبقے یعنی محنت کشوں، کسانوں اور عوام کے پاس ہو گا۔ قومی جبر، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سے آزادی کا خواب ایک مادی حقیقت کا روپ دھارے گا۔