|تحریر:آفتاب اشرف|
دھڑ۔۔ دھڑ۔۔ دھڑ دھڑ دھڑ۔ کوئی پورے زور سے گھر کا دروازہ پیٹ رہا تھا۔’’آتی ہوں۔۔صبر نہیں ہوتا دو منٹ‘‘پروین نے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے اس کا شوہر رفیق پسینے میں شرابور کھڑا تھا۔
’’کہاں مری ہوئی تھی؟آدھے گھنٹے سے کھڑا دروازہ پیٹ رہا ہوں۔‘‘وہ غصے سے بولا۔
’’کام کر رہی تھی۔۔سلائی مشین کے شور میں سنا ہی نہیں۔‘‘
’’اور بچے؟‘‘رفیق نے پوچھا۔
’’وہ بھی صبح سے میرے ساتھ ہی لگے ہوئے ہیں۔۔‘‘پروین نے اکتا ہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
’’چل ٹھیک ہے‘‘۔رفیق کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔’’تجھے پتا ہے نہ،صرف دو دن رہ گئے ہیں ہمارے پاس۔اگر کام مکمل نہ ہوا تو بڑا نقصان ہو گا ہمارا۔‘‘ اس کے لہجے سے تشویش ٹپک رہی تھی۔
’’تو پریشان نہ ہو فیکے۔ سب کچھ ہو جائے گا۔ بس اب تو جلدی سے کھانا کھا اور آکر لگ جا ہمارے ساتھ۔‘‘پروین نرمی سے بولی اور گھر کے اکلوتے کمرے کے دروازے کے ساتھ رکھے چولہے کی جانب بڑھی۔
رفیق عرف فیکا سیالکوٹ کے ایک صنعتی علاقے کے ساتھ واقع مزدور بستی میں رہتا تھا۔ پاس ہی کی فٹ بال بنانے والی ایک بڑی فیکٹری میں سلائی کا کام کرتا تھا۔ عمر درمیانی،رنگ سانولا،جسم اکہرا اور چہرہ جس پر زمانے کی گرم سرد جھیلنے کے باوجود نوجوانی کی دلکشی کے کچھ آثار ابھی باقی تھے۔ اس کے تین بچے تھے۔دو بیٹیاں جن کی عمریں بالترتیب اٹھارہ اور پندرہ سال تھیں اور ایک بارہ سال کا لڑکا۔محنتی آدمی تھا اور اپنے کام میں بڑا کاریگر مانا جاتا تھا۔رفیق کو اپنی غربت سے شدید نفرت تھی اور اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب یہ تھاکہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر اس سے بہتر زندگی گزاریں۔اس مقصد کی خاطر وہ کیا کیا نہیں کرتا تھا۔فیکٹری میں اوور ٹائم لگانا،پارٹ ٹائم کرائے کا رکشہ چلانا،چھوٹی عید پر چوڑیوں اور شب برات پر پٹاخوں کا سٹال لگانا،غرض یہ کہ کوئی بھی ایسا کام جس سے وہ اپنی آمدن میں چار پیسے کا اضافہ کر سکے۔جفا کشی میں اس کی بیوی پروین بھی کچھ کم نہ تھی۔شادی کے محض چند ماہ کے اندر ہی اس نے اپنے شوہر سے سلائی کا کام سیکھ لیا تھا۔اور وہ دن اور آج کا دن ،رفیق کے گھر سے کبھی سلائی مشین چلنے کی آواز آنا بند نہیں ہوئی تھی۔
لیکن پچھلے چند ہفتوں سے رفیق خاصا پریشان تھا۔بہت سے خرچے اکٹھے ہو گئے تھے۔بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہو چکا تھا۔لڑکا دبئی میں کسی سٹور پر سیلز مین تھا۔اس کے گھر والوں کو شادی کی بہت جلدی تھی اور وہ رفیق پر تاریخ پکی کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔چھوٹی بیٹی میٹرک میں ہو چکی تھی۔بڑی ہونہار طالبہ تھی اور بورڈ کے امتحان میں وظیفہ جیتنا چاہتی تھی۔اسی لئے رفیق نے اس کو ایک اچھے ٹیوشن سنٹر پر بھیجنا شروع کیا تھا ۔اس کا خرچ الگ تھا۔بیٹا ایک اردو میڈیم سرکاری سکول میں پڑھتا تھا۔رفیق چاہتا تھا کہ اس کا لڑکا انگریزی تعلیم حاصل کرے۔اس نے چند ایک سستے انگریزی میڈیم پرائیویٹ سکولوں کا پتہ بھی کیا تھا۔ماہانہ فیس تو وہ کسی طرح پیٹ کاٹ کر ادا کر ہی دیتا لیکن اصل مسئلہ داخلے کے وقت یکمشت ادا کی جانے والی داخلہ فیس کا تھا۔اس کی جیب میں روپیہ نہیں تھا اور داخلے کی تاریخ نکلی جا رہی تھی۔بڑی بیٹی کا جہیز جوڑنے کے چکروں میں اس نے دو ماہ سے گھر کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا۔مالک مکان نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس ماہ بھی اپنا حساب چکتا نہیں کرتاتو پھر گھر خالی کر دے۔
رہی سہی کسر اس کی ماں کی بیماری نے پوری کر دی تھی۔وہ پیچھے گاؤں میں اس کے چھوٹے بھائی کے پاس رہتی تھی۔اسے حال ہی میں فالج کا اٹیک ہوا تھا۔چھوٹا بھائی بضد تھا کہ فیکا ماں کو شہر لے جائے اور اس کا علاج کرائے۔فیکے نے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن ایک دن اس کے چھوٹے بھائی نے فون پرا سے صاف صاف سنا دیاکہ اماں کا خیال رکھنا صرف اس اکیلے کی ذمہ داری نہیں اور چند روز میں وہ ماں کو اس کے پاس چھوڑنے شہر آ رہا ہے۔ایسا نہیں تھا کہ فیکے کو اپنی ماں سے پیار نہیں تھا لیکن وہ کیا ہے ناں کہ جب جیب میں پیسے نہ ہوں تو بوڑھے ماں باپ ایسا بوجھ بن جاتے ہیں جسے بندہ نہ اٹھا سکتا ہے اورنہ پھینک سکتا ہے۔ان پریشانیوں نے فیکے کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ادھار وہ پہلے ہی بہت پکڑ چکا تھا۔مزید نہیں لے سکتا تھا۔فیکٹری کو آجکل آرڈر کم مل رہے تھے ،اس لئے اوور ٹائم بھی کم ہی لگتا تھا۔حالت یہ ہو چکی تھی کہ ایک دن جب اس نے ٹی وی پر گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کرنے والے ڈاکٹروں کے گروہ کے متعلق سنا تو من میں آیا کہ کاش اسے ان لوگوں کا پتہ ہوتا تو وہ اپنا ایک گردہ ہی بیچ ڈالتا۔ خبر پڑھنے والی بتا رہی تھی کہ ایک گردہ ڈیڑھ لاکھ میں بکتا تھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس نے اپنی سوچ پر لعنت بھیجی اور رب سے اپنی ناشکری پر معافی مانگنے لگا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے فوراً انگلیوں پر حساب لگایا اور زیر لب بڑ بڑایا’’ابھی تو پورے پانچ دن پڑے ہیں۔ زور لگائیں گے تو کام ہو ہی جائے گا۔‘‘اس نے جب اپنا منصوبہ پروین کو بتا یاتو پہلے تو وہ بہت خوش ہوئی لیکن پھر پریشان ہو کر بولی۔
’’جتنا زیادہ مال تیار کریں گے،اتنی زیادہ بچت ہو گی۔لیکن اس کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘‘
’’او تو پریشان نہ ہو۔میں اپنی موٹر سائیکل بیچ دیتا ہوں۔جب حالات اچھے ہوئے تو دوبارہ لے لیں گے۔اتنا عرصہ میں سائیکل پر گزارہ کر لوں گا۔‘‘فیکے نے اپنی کھٹارا موٹر سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’چل ٹھیک ہے پھر۔۔‘‘ پروین نے دو لمحے کے لئے سوچا اور پھر مضبوط لہجے میں جواب دیا۔
فیکا تیز تو تھا ہی۔راتوں رات ہی اس نے اپنی موٹرسائیکل پندرہ ہزار روپے میں بیچ ڈالی اور اگلے ہی دن بازار سے مال تیار کرنے کے لئے بہت سارا سامان خرید لایا۔
’’لو بھئی ، سامان آ گیا ہے ۔اب لگ جاؤ سارے کام پر۔میں بھی منہ ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔یاد رکھنا،ہمارے پاس صرف چار دن ہیں۔سستی نہیں کرنی ۔‘‘فیکے نے بلند آواز میں کہا اور غسلخانے میں گھس گیا۔پروین پہلے ہی بچوں کو سب کچھ بتا چکی تھی۔وہ اس اچانک پڑنے والی آفت سے خوش تو نہیں تھے لیکن یہ سب ان کے لئے نیا بھی نہیں تھا۔وہ پہلے بھی اسی طرح ماں باپ کے ساتھ ہاتھ بٹاتے رہتے تھے۔
اگلے چار دنوں کے لئے رفیق کا گھر ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں تبدیل ہو گیا۔چھوٹی بیٹی اور لڑکے کو بھی سکول سے چھٹی کرا کے کام پر لگا دیا گیا۔ خود رفیق بھی انچارج کی منت سماجت کر کے فیکٹری سے کچھ جلدی گھر آنے کی کوشش کرتا۔ کمرے سے ہر وقت سلائی مشین کی چھکڑ چھکڑ۔۔چھکڑ چھکڑ چھکڑ سنائی دیتی ۔رات کو پورا کنبہ تھک ہار کر فرش پر بکھرے ان سلے کپڑے،کاغذ،دھاگے کی ریلوں ،گوند اور رنگ کے ڈبوں کے بیچ ہی آڑا ترچھا ہو کر سو جاتا۔رفیق اور پروین تو کسی مشین کی طرح کام میں لگے رہتے۔انہیں مقررہ وقت میں کام مکمل نہ ہونے کی صورت میں ہونے والے نقصان کا بخوبی اندازہ تھا۔لیکن بچوں کی ایک آدھے دن میں ہی بس ہونے لگی۔ مگر کیا کرتے ،کام تو انہیں کرنا ہی تھا۔ لیکن بچے تو آخر بچے ہی ہوتے ہیں ناں۔ صورتحال کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو،انہوں نے اپنا بچپنا دکھانا ہوتا ہے۔ لہٰذارفیق کے لڑکے امجد کو اچانک یاد آنے لگا کہ مولوی صاحب نے بتایا تھا کہ اب وہ دس سال سے اوپر کا ہو گیا ہے اور اس پر با جماعت نماز فرض ہو چکی ہے۔ایک دن اپنے باپ کو بولا
’’ابا،میں ذرا مسجد میں نماز پڑھ آؤ۔۔۔‘‘
’’مسجد میں نماز۔۔او پہلے تو کبھی تو نے گھر میں نہیں پڑھی۔یہ اچانک ہی کیا ہو گیا ؟‘‘رفیق نے حیرت سے پوچھا۔
’’شرم کر فیکے۔نماز پڑھنے کا ہی تو کہہ رہا ہے بیچارہ۔تو اتنے سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔‘‘پروین بولی۔
’’چل ٹھیک ہے جا۔پر جلدی آنا۔صرف فرض پڑھنا۔بہت کام پڑا ہے ابھی۔‘‘فیکے نے بیٹے کو گھورتے ہوئے کہا۔
اس کے بعد یہ امجد کی روٹین ہی بن گئی۔ایک دن گھر سے ظہر کی نماز پڑھنے گیا تو پورے دو گھنٹے واپس نہیں آیا۔
’’او یہ تیرا لاڈلا ظہر کی نماز پڑھنے گیا تھا یا تراویاں؟‘‘اس نے غصے سے پروین سے پوچھا۔
’’خود ہی جا کر دیکھ لے۔‘‘پروین نے سلائی مشین سے منہ اٹھائے بغیر کہا۔فیکا غصے میں بڑبڑاتا ہوا گھر سے نکلا۔مسجد سے پتا کیا تو مولوی صاحب نے بتایا کہ امجد تو وہاں کبھی آیا ہی نہیں۔غصے میں جھنجھناتے ہوئے گھر واپسی پر فیکے کی نظر اچانک ایک گلی کے نکڑ پر واقع پر چون کی دکان پر پڑی۔امجد صاحب ایک ہاتھ میں گولی والی بوتل پکڑے کما ل شان بے نیازی سے یار بیلیوں کیساتھ گپیں مار رہے تھے۔ اس کے بعد پھر جو بیچارے امجد کے ساتھ ہوا ،وہ محلے میں ضرب المثل بن گیا۔
رفیق کی بیٹیاں بھی اپنے بھائی سے کچھ کم نہ تھیں۔ایک دن جب وہ فیکٹری سے گھر واپس آیا تو کمرے سے سلائی مشین کی چھکڑ چھکڑ کے ساتھ ساتھ فلمی گانوں کی آواز بھی آ رہی تھی۔رفیق کو لڑکیوں کا فلم گانا دیکھنا پسند نہیں تھا۔یہ اور بات تھی کہ وہ باپ کی غیر موجودگی میں جی بھر کر اپنا شوق پورا کرتی تھیں۔ لیکن آج تو باپ کو گھر میں آتا دیکھ کر بھی انہوں نے ٹی وی بند نہیں کیا۔
’’او یہ کیا کنجر خانہ لگا رکھا ہے۔باہر گلی تک آواز آ رہی ہے۔لوگ کیا کہیں گے۔بند کرو اسے۔‘‘رفیق غصے سے بولا۔
لیکن لڑکیاں ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔اس پر رفیق خود ہی ٹی وی بند کرنے کیلئے آگے بڑھا۔
’’نہ ابا۔۔ٹی وی بند نہ کرنا۔اصل میں جب ہم گانے لگا کر کام کرتے ہیں نا تو کام میں دل بھی لگا رہتا ہے اور سپیڈ بھی بڑھ جاتی ہے۔‘‘رفیق کے بڑھتے قدم رک گئے۔اس نے پلٹ کر کچھ دیر لڑکیوں کو گھورا اور پھر اونچی سی ’’ہوں۔۔‘‘ کر کے باہر چلا گیا۔ سلائی مشین پر سر جھکائے کام کرتی پروین اپنی بیٹیوں کی حاضر دماغی پر مسکرا دی۔وہ پہلا دن تھا جب رفیق کی گھر پر موجودگی میں بھی پورا دن ٹی وی پر اونچی آواز میں فلمی گانے لگے رہے۔
رفیق بھی اس عرصے میں قرض خواہوں،مالک مکان اور اپنے چھوٹے بھائی کیساتھ مختلف قسم کی فلمیں ہی چلاتا رہا جن میں سے ہر ایک کا دی اینڈ اس بات پر ہوتا تھا کہ ’’صرف چند دن اور دے دو بھائی۔۔پیسوں کا بندوبست ہو جائے گا۔‘‘سب حیران تھے کہ آخر چند دنوں میں رفیق کے ہاتھ کون سا خزانہ لگنے والا ہے جس سے اس کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔اسی مارا ماری میں آخری دن آ گیا۔شام تک وہ تقریباً سارا مال تیار چکے تھے۔ بچے بیگار سے جان چھٹنے پر خوش تھے اور رفیق اپنے منصوبے کو کامیاب ہوتا دیکھ کر۔ پروین ان سب کو خوش دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔ کام ختم کرنے کے بعدبچے گھر میں بکھرا سامان سمیٹنے لگے ۔ رفیق چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھا غور سے کوئی پروگرام دیکھ رہا تھا۔درحقیقت وہ پروگرام میں بولے جانے والے جملے یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ جملے کل مال بیچنے میں اس کے بہت کام آ سکتے تھے۔رات تک سب بہت تھک چکے تھے۔صبح انہیں ویسے بھی جلدی اٹھنا تھا۔بچے باہر صحن میں چٹائی بچھا کر لیٹ گئے اور رفیق اور اس کی بیوی اندر کمر ے میں۔لیکن رفیق کو خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی تھی۔وہ بار بار کروٹیں بدل رہا تھا۔
’’بڑا خوش ہے تو فیکے۔۔‘‘اندھیرے میں پروین کی آواز ابھری۔
’’خدا کا شکر ہے۔کام مکمل ہو گیا۔اب دعا کر کہ کل اچھی سیل ہو جائے۔سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔‘‘رفیق جوش سے بولا۔
’’سارے مسئلے تو حل نہیں ہوں گے فیکے۔قرض اتر جائیں گے۔تیری اماں کا علاج ہو جائے گا ۔قسمت نے بڑا ساتھ دیا تو اگلے دو تین مہینوں کا گزارہ بھی اچھا ہو جائے گا۔لیکن آخیر میں پھر ہم وہیں کے وہیں ہوں گے۔‘‘پروین کے لہجے میں عجیب سی یاسیت تھی۔
’’تو تیرا کیا خیال تھاکہ ہم یہ مال بیچ کر دو منزل کا مکان ڈال لیں گے؟‘‘رفیق نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ایسی ہماری قسمت کہاں۔میں تو بس یہ سوچتی ہوں کہ کیا ساری حیاتی ایسے ہی کولہو کے بیل کی طرح کٹے گی۔ایک ہی دائرے میں گھوم گھوم کر۔یہ تو بڑا ظلم ہے فیکے۔‘‘
’’تو فکر نہ کر۔ہم محنت مزدوری کر کے سب ٹھیک کر لیں گے۔بس خدا پر بھروسہ رکھ۔‘‘کوئی جواب نہ پا کر رفیق نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
’’کیا خاک ٹھیک کر لیں گے۔اندر سے تو بھی جانتا ہے کہ ہمارے بچے بھی ہماری طرح ہی رہیں گے۔بس ایسے ہی دل کی تسلی کو ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے۔‘‘
’’تو اور کیا کروں۔میں نے تو اپنا فرض پورا کرنا ہے ناں۔ اور توکیوں اپنا دل جلاتی رہتی ہے۔ یہ سب تو رب کی ونڈ ہے،جو اس کی مرضی۔ چل اب سو جا اور مجھے بھی سونے دے‘‘رفیق نے خلاف عادت کھوکھلے سے لہجے میں کہا اور کروٹ بدل کر اونگھنے لگا۔
رفیق تو سو گیا لیکن پروین بڑی دیر تک سوچتی رہی کہ یہ جو زمانے میں پیسے والوں اور غریبوں کا فرق ہے،یہ واقعی رب کی ونڈ ہے یا سب انسانوں کا کیا دھرا ہے۔اگر یہ سب رب نے ہی کیا ہے تو پھر اس نے صرف زمینوں،جائیدادوں اور پیسوں کو ہی کیوں تقسیم کیا۔ہوا،روشنی اورآسمان کو کیوں نہیں کیا۔آخر رب کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اتنے سارے لوگوں کو ایسے ہی ترساتا رہے۔یہ بھی کوئی امتحان لینے کا طریقہ ہے بھلا۔
’’نہیں ۔۔نہیں ۔میرا دل نہیں مانتا۔اوپر والا اپنے بندوں کیساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔یہ سب انسانوں کی اپنی شیطانی ہے۔پیسے والوں کی حرامزدگی ہے سب۔وقت کے یزید ہیں یہ سارے۔کاش ہم میں بھی حسین سوہنے کا جگراآ جائے۔۔۔‘‘خود کلامی کرتے کرتے نہ جانے کب اسے نیند نے آن دبوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن پورا کنبہ سویرے سویرے ہی اٹھ گیا۔رفیق اور اس کے لڑکے نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کیا۔اتنی دیر میں پروین اور لڑکیوں نے سارا مال کپڑے کے بڑے بڑے تھیلوں میں پیک کر دیا۔
’’اٹھ پتر چلیں۔جا کر سٹال بھی تیار کرنا ہے۔‘‘رفیق نے امجد سے کہا اور تھیلے اٹھا کر ایک محلے دار سے آج کے دن کی خاطر ادھار لئے چنگ چی میں رکھنے لگا۔
باپ بیٹا بھاگم بھاگ شہر کے مرکزی بازار پہنچے۔سٹال لگانے کے لئے کرائے پر دو بڑی میزوں،ان پر ڈالنے کے لئے کپڑا اور دو کرسیوں کا انتظام رفیق نے تین دن پہلے ہی کر لیا تھا۔ صبح نو بجے تک ان کا سٹال بالکل تیار تھا۔ایک دو گھنٹے میں لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی۔ بڑی بڑی گاڑیاں جن میں اونچی آواز میں ترانے بج رہے تھے۔ سپورٹس موٹر سائیکلوں کے بھونپو بجاتے کھاتے پیتے گھرانوں کے سرخ وسفید نوجوان جنہوں نے اپنے چہروں پر ہرے رنگ کا پینٹ کر رکھا تھا۔امجد کرسی پر بیٹھا یہ سب بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھاجبکہ رفیق سٹال کے پاس کھڑا زیر لب کچھ جملے دہرا رہا تھاکہ اچانک ایک سیا ہ رنگ کی لمبی سی چمچماتی کار سٹال کے پاس آ کر رکی۔رفیق بھاگ کر آگے بڑھا۔کار کی بیک سیٹ کا شیشہ نیچے ہوااور مہکتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔اندر کالے چشمے لگائے ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔
’’سلام بیگم صاحبہ۔آپ کو اکہترواں یوم آزادی مبارک ہو۔ خدا کرے ہمارے دیس کے لوگ ایسے ہی ہنستے بستے رہیں۔۔۔‘‘رفیق رٹے ہوئے جملے بولنے لگا۔
’’ہمارے پاس ہر قسم کا مال دستیاب ہے۔ریٹ بھی انتہائی مناسب ہے۔ تین سو روپے میں قائد اعظم کی تصویر والا کرتا،دو سو روپے کی پانچ سو جھنڈیاں،سو روپے کا ایک بڑا جھنڈا اور تین جھنڈوں کے ساتھ ایک فری۔۔۔‘‘
دور کہیں ڈیک پر ملی نغمہ چل رہا تھا’’اس پرچم کے سائے تلے۔۔ہم ایک ہیں ،ہم ایک ہیں۔۔‘‘