|تحریر: خالد جمالی|
گزشتہ کچھ ہفتوں سے سندھ میں ایک طویل عرصے کے سیاسی سکتے کے بعد بڑی ہلچل دیکھنے میں آرہی ہے۔ خاص طور پر وائس آف مسنگ پر سنز کی طرف سے کراچی پریس کلب پر لگائے گئے تین روزہ احتجاجی کیمپ پر پولیس، رینجرز اور سول کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد کے دھاوا بولنے اور وہاں سے مزید چار لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنے کے بعد سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ اس روز مزاحمت کرنے والی لڑکیوں، جن میں گمشدہ افراد کی بیٹیاں بھی شامل تھیں، پر تشدد کیا گیا، ان کو سڑک پر گھسیٹا گیا، جس کے باعث ان کے کپڑے پھٹ گئے۔ اس واقعے کی موقع پر موجود سوشل ایکٹوسٹ خواتین و حضرات نے ویڈیوز بنا لیں جو بعد ازاں سوشل میڈیا پر نشر کر دی گئیں۔ اس جھنجوڑ دینے والے واقعے کی پانچ سے زائد ویڈیوز ایسی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں، وکلا، اساتذہ اور دیگر تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے اس واقعے کی پرزور مذمت کی۔ اور اسی غم و غصے کو سیاسی اظہار دینے کے لیے موضوعی عنصر کا کردار قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبا کی بروقت پر عزم اور ولولہ انگیز احتجاجی ریلی، بھوک ہڑتالی کیمپ اور اس موقع پر کی جانے والی غیر معمولی تقاریر نے ادا کیا۔ ثناء اللہ امان نامی نوجوان ابھی تک اس تحریک کا قائد بن کر سامنے آیا ہے جس نے سندھ بھر کے دورے کا اعلان کیا اور سندھی عوام اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے مقامات پر احتجاجی ریلیاں نکالنے اور کیمپس کا انعقاد کرنے کی کال دی۔ جس پر بہت اچھا رسپانس دیکھنے میں آیا اور ملیر کراچی سے لے کر نواب شاہ اور حیدرآباد سے لے کر لاڑکانہ تک اس سلسلے میں پروگرام ترتیب دیئے جا رہے ہیں جن میں یہ نوجوان اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ شرکت کرتا ہے، وہاں خون گرمانے والی تقاریر کرتا ہے اور پھر اپنے اگلے پڑاؤ کی طرف نکل پڑتا ہے۔ ابھی تک ان احتجاجی کیمپوں اور ریلیوں کے شرکا کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں نہیں پہنچی ہے بلکہ درجنوں تک محدود ہے لیکن بہرحال سندھ میں ایک طویل عرصے کے بعد اس طرح کا سیاسی تحرک دکھائی دے رہا ہے جسے ایک قابلِ ذکر نئی شروعات قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس سیاسی ردعمل کو ایک اہم جست اس وقت لگی جب قائداعظم یونیورسٹی کے طلبا کی طرف سے کراچی پریس کلب پر لگائے گئے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ پر ہونے والے سنگین واقعات کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے باہر لگائے گئے احتجاجی کیمپ پر پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوان قائد منظور پشتین نے حاضری دی اور احتجاجی مظاہرین سے مکمل یکجہتی کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس موقع پر منظور پشتین نے ثناء اللہ امان اور اس کے ساتھیوں کو سندھ بھر کے عام لوگوں سے رجوع کرنے اور ایک عوامی تحریک تعمیر کرنے کی تلقین کی۔ کیمپ پر موجود سندھی نوجوانوں کا اپنے مہمان محبوب پشتون ساتھیوں سے یہ استفسار تھا کہ سندھیوں، پشتونوں اور دیگر مظلوموں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ جواب میں منظور پشتین نے زور دیا کہ مختلف قومی تحریکوں کا اتحاد اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں طرف عوام کی بھرپور شمولیت ہو۔ اس بات نے وہاں پر موجود نوجوانوں کو نئی شکتی، عزم اور ادراک دیا اور ثناء اللہ امان نے برملا طور پر اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ہمیں پشتون تحفظ موومنٹ اور بالخصوص منظور پشتون نے ہی اس تحریک پر ابھارا ہے۔ یہ ان تنگ نظر قوم پرستوں اور قنوطیت پسند نسل پرستوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہر قوم اور خطے کے اپنے مخصوص حالات اور تاریخی پسِ منظر ہوتا ہے جس کے باعث ہر قوم کی اپنی مخصوص تحریک ہوتی ہے جس کا دیگر قومی تحریکوں سے کوئی نامیاتی تعلق اور اتحاد ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس آج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے عالمگیر بحران کے باعث ہر جگہ پر ایک عمومی غم و غصہ پروان چڑھ رہا ہے اور کسی بھی خطے میں ہونے والا کوئی واقعہ یا احتجاج اس خطے میں یا دیگر خطوں تک بھی انتہائی اہم اثرات مرتب کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی درست ہے کہ کوئی بھی تحریک کسی دوسری متوازی یا ماضی کی تحریک کی محض بیہودہ نقالی کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتی بلکہ ان تحریکوں سے اہم اسباق سیکھتے ہوئے اس خطے، ملک یا قوم کے مخصوص معروضی حالات سے ہم آہنگ نعرے اور پروگرام تشکیل دے کر واضح سیاسی اور نظریاتی سمت کا تعین کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پشتون تحفظ موومنٹ سے سائنسی تقابل کرتے ہوئے سندھ کی حالیہ بیداری کی لہر کا تجزیہ اور تناظر تخلیق کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے سندھ کی حالیہ بیداری بلاشبہ پشتون تحفظ تحریک سے متاثر ہے اور اس کا مرکزی مطالبہ یعنی مسنگ پرسنز کی بازیابی بھی پشتون تحریک سے ہی لیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اہمیت کا حامل سوال یہ ہے کہ کیا سندھ میں بھی محض اس مطالبے یا اس سے ملتے جلتے نعروں کے ذریعے پشتون تحفظ تحریک کی طرز پر ایک عوامی مزاحمتی تحریک تعمیر کی جا سکتی ہے؟ ہمارے خیال میں شاید ایسا ممکن نہیں ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بہت سے عوامی مسائل نوعیت کے اعتبار سے سندھ میں وزیرستان سے قدرے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر یہ درست ہے کہ سندھ میں بھی ریاستی اداروں کی طرف سے اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں ماورائے عدالت قتل کے بھی بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں مگر یہاں پر صورتحال وزیرستان سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ سندھ میں زیادہ تر قوم پرست سیاسی کارکن، مسلح جدوجہد کے دعویدار یا پھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کے سرگرم کارکنان ان ریاستی مظالم کا نشانہ بنتے رہے ہیں جبکہ وزیرستان یا دیگر پشتون علاقوں میں صورتحال کہیں زیادہ تباہ کن اس لیے تھی کیونکہ وہاں پر جہاں ایک طرف ریاستی سرپرستی میں مذہبی جنونی ملاؤں نے طالبان کی شکل میں سارے سماج کو یرغمال بنایا ہوا تھا اور لوگوں کی گردنیں کاٹنے اور تشدد کے واقعات سماجی معمول کا حصہ بن چکے تھے وہیں دوسری طرف امریکی سامراج کے دباؤ میں ان ملاؤں کے خلاف کیے جانے والے نام نہاد آپریشنوں میں بھی ریاستی پالیسی کا دوغلا پن کھل کر اپنا اظہار کر رہا تھا اور ان ملاؤں کی ریاستی سرپرستی جاری رکھتے ہوئے عام لوگوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کے عوض ڈالر وصول کیے جا رہے تھے۔ ساتھ ہی امریکی ڈرون حملوں میں بھی عام لوگ ہی برباد ہو رہے تھے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں عام لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا وہیں ہزاروں افراد کو بشمول خواتین جبری طور پر لاپتہ اور ماورائے عدالت قتل بھی کیا جاتا رہا۔ مختصر یہ کہ ریاستی پالیسیوں سے آبادی کی اکثریت براہ راست متاثر ہو رہی تھی۔ جبکہ سندھ میں آبادی کی ایک مخصوص اور چھوٹی سی پرت ہی ان ریاستی جرائم کا نشانہ بنتی رہی ہے اس لیے یہاں آبادی کی اکثریت کو ان مسائل کی شدت اور ریاستی اداروں کی پالیسیوں کے بہیمانہ سماجی اثرات کا اندازہ نہیں ہے۔ اور جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ انسانی شعور معروضی حالات کے مرہون منت ہوتا ہے جسے مصنوعی طور پر من مانے راستوں پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ سندھ میں آبادی کی اکثریت کوئی انتہائی مطمئن اور بہتر زندگی گزار رہی ہے بلکہ سندھ کے بہت سے اضلاع اس وقت معیارزندگی اور سماجی اعشاریوں کے حوالے سے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ کراچی جو سندھ کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر بھی ہے، اقوام متحدہ کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا کے ناقابلِ رہائش اور بنیادی سہولیات سے محروم شہروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ سندھ کی اپنی سیاسی تاریخ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 2007ء میں بینظیر کی آمد پر ملک بھر میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص ایک بہت بڑی سیاسی ہلچل ہوئی تھی۔ یہ سیاسی ہلچل ایک مختلف سیاسی تحریک تھی بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ سیاسی تحریک سے زیادہ ایک دیو ہیکل انقلابی تحریک کے عوامی پوٹینشل کا اظہار تھا جو بعد ازاں پیپلزپارٹی کے زرداریائے جانے کے باعث حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس سیاسی ابال میں جو نعرہ مرکزی کردار کا حامل تھا وہ یہ تھا ’’بے نظیر آئی ہے، روزگار لائی ہے‘‘۔ اس سے قبل بھی اس ملک کی متاثر کن مزاحمتی تحریک سندھ کی فوجی آمر کے خلاف شاندار لڑائی تھی جسے ’1983ء کی مزاحمت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وزیرستان یا پشتونخوا میں آبادی کی بہت چھوٹی سی پرت کو ہی جدید محنت کش طبقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ صنعتی پرولتاریہ کی تعداد تواس سے بھی کم ہے۔ لیکن سندھ کی صورتحال مختلف ہے۔ اس لیے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف مزاحمت سے سندھ کی سیاسی تحریک کا محض آغاز ہی ممکن ہے لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کی طرز کی عوامی مزاحمت کے لیے عوامی معاشی اور سماجی مسائل پر مبنی واضح سیاسی پروگرام تشکیل دینا پڑے گا اور اس نوجوان قیادت میں اس تاریخی فریضے کی تکمیل کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے ذریعے پشتون عوام کی ریاستی اداروں کے خلاف مجتمع شدہ نفرت پھٹ کر سطح پر آ گئی ہے، اس لیے اس تحریک کا کردار جمہوری ہے جس کی مخصوص معروضی صورتحال کا ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں۔ مگر سندھ کے زخم کچھ مختلف ہیں۔ سندھ کو فوج اور دیگر ریاستی اداروں سے زیادہ نام نہاد جمہوریت نے ڈسا ہے۔ ملکی وسائل کی بندر بانٹ میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کی غرض سے سندھی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نے سندھ کارڈ کو پیپلزپارٹی کے ذریعے بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو سندھ سمیت ملک بھر کے محنت کش عوام کی دو تین نسلیں اپنی پارٹی سمجھتے رہے۔ اور عوام کی اسی نا سمجھی سے چند بکاؤ مفاد پرست دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی ایما پر سندھی اشرافیہ بھرپور طریقے سے مستفید ہوتی رہی۔ یہی سندھ کارڈ کھیلنے والے پنجابی خونخوار حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے دم چھلے اور گماشتہ ہیں۔ جیسے پشتون عوام نے اپنے تجربات کی بنا پر ریاستی اداروں کے کردار کو سمجھا ہے ایسے ہی سندھ کے عوام کئی نسلوں کے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی ان کی امنگوں کی ترجمان نہیں بلکہ ان کے دشمن طبقات کی سیاسی دکان ہے۔ عوام کے شعور کی تبدیلی کا یہ عمل اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف اور دیگر دائیں بازو کو عوام مسترد کر چکے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کے زنداں سے نکل کر تازہ دم سیاسی جھونکے کے منتظر بھی ہیں۔ ایسے میں اس نوجوان قیادت کے لیے بھرپور سیاسی امکانات موجود ہیں۔
سیاسی طور پر اگر دیکھا جائے تو سندھ کی حالیہ نوجوان قیادت کا معیار پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ جہاں پشتون قیادت اپنے تاریخی تجربات، جرأت اور ثابت قدمی کی بابت سیاسی نتائج پر پہنچی تھی سندھ کی نوجوان قیادت وہاں سے اپنے سفر کا آغاز کر رہی ہے۔ اس لئے ان تحریکوں کو دو الگ الگ تحریکیں نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں آگے بھی کئی تحریکیں شامل ہو کر اس کے کردار اور معیار دونوں پر اثر انداز ہوتی رہیں گی۔ اگر ہم اس نوجوان قیادت کے سیاسی شعور کی طرف واپس آئیں تو اس نے پہلے ہی مرحلے میں اپنی تقاریر اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے تنگ نظر قوم پرستی اور نسل پرستی کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اور گلگت بلتستان، کشمیر، بلوچستان، پشتونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب کے بھی مظلوم عوام کے ساتھ جڑت اور یکجہتی بنانے کی بات کی ہے جو بے حد خوش آئند ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ صرف مجرد لفاظی کے ذریعے نسل پرستی کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ قوم پرستی متروک ہی سہی لیکن ایک نظریاتی رجحان ہے جس کی جڑیں سرمایہ داروں کے ہاتھ میں آلہ کار کے طور پر استعمال ہونے والے درمیانے طبقے کی سماجی بنتر پر منحصر ہیں۔ اس لیے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح طور پر ایسی نظریاتی پیش رفت درکار ہے جو اس طبقے کو متحرک اور راغب کر سکے جس میں نہ صرف درمیانے طبقے بلکہ اس کی پشت پر براجمان سرمایہ دار طبقے کو شکست دینے کا تاریخی پوٹینشل موجود ہے اور وہ طبقہ سوائے محنت کش طبقے کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مختصر یہ کہ مزدوروں اور کسانوں کے سیاسی اشتراک پر مبنی اشتراکیت سے ہی رہنمائی حاصل کرنی پڑے گی بصورت دیگر جلد یا بدیر درمیانے طبقے کا سیاسی دباؤ قوم پرستی کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کرے گا جو سیاسی خود کشی کے مترادف ہو گا۔
کراچی کے مسئلے کو ہی لے لیں۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچوں، پٹھانوں، کشمیریوں، اردو بولنے والوں اور دیگر قومیتوں کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔ ان تمام مظلوم قوموں کی اکثریت اس نظام اور اس پر براجمان حکمران طبقے سے نفرت کرتی ہے مگر ساتھ ہی ان کے درمیانے طبقات میں حکمرانوں نے میڈیا اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف شدید نفرت اور اشتعال پیدا کر دیا ہے۔ جہاں پٹھانوں اور مہاجروں کے علاقے ایک دوسرے کے لیے نو گو ایریاز بنا دیئے گئے ہیں وہیں سندھیوں اور مہاجروں میں بھی حکمران کسی بھی وقت حالتِ جنگ کاماحول پیدا کر دیتے ہیں اور قوم پرست اپنی خدمات بیچنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ایسے میں سندھ کی نئی قیادت کو ان اہم مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنی ہو گی جو تمام قومیتوں میں مشترک ہیں۔ وہیں سندھی نوجوانوں کو جہاں پشتون تحریک سے انتہائی اہم اسباق سیکھنے کو مل سکتے ہیں وہیں انہیں اس کا تنقیدی جائزہ بھی لینا پڑے گا۔ ابھی تک پشتون قیادت کی خامی یہی رہی ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ پشتونوں میں مختلف اور متصادم طبقات موجود ہیں جن کے ساتھ بیک وقت اتحاد ممکن نہیں۔ کراچی میں اسے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی میں پشتونوں کی اکثریت دیہاڑی دار، ٹرانسپورٹ، ہوٹلوں، فیکٹریوں وغیرہ کے مزدوروں پر مشتمل ہے جبکہ اسمگلنگ، منشیات، واٹر اور آئیل ٹینکر مافیا وغیرہ میں ملوث پشتون درمیانے اور بالا طبقے کے مفادات ان مزدوروں سے یکسر مختلف ہیں۔ پشتون تحفظ تحریک ابھی تک دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آگ اور پانی کو ایک ہی مشکیزے میں ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بات سندھ اور دیگر قوموں کے لیے بھی درست ہے۔ سندھ کے حکمران طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہ صرف سندھ بلکہ تمام مظلوم قوموں کے محنت کشوں سے کاٹنے کا باعث بنے گی۔ اور پیپلز پارٹی کی غداری اور مزدور دشمن پالیسی پر تنقید سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والے غیر معمولی واقعات کی روشنی میں نوجوان نسل کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں حکومتی جرگے کے حوالے سے منظور پشتین کے بلاول بھٹو سے رابطے کی اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں اگر ان میں سچائی ہے تو یہ انتہائی تشویشناک صورتحال نہیں تو اور کیا ہے۔ اس سے سندھ کے نوجوانوں کو یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ نظریاتی ابہام کا انجام پسپائی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ پشتون تحریک کا آغاز کراچی میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل سے ہوا تھا۔ اور اس کے قاتل کو ’بہادر بچہ‘ کہنے والے آصف علی زرداری اور اس قاتل کو پروٹوکول دینے والی سندھ حکومتی پارٹی کے چیئرمین کو کال کرنا پسپائی اور احساس شکست کی غمازی کرتا ہے۔ اس لیے نظریاتی ابہام سے جتنی جلدی چھٹکارا حاصل کیا جائے اتنا بہتر ہو گا۔ اس حوالے سے اگر یہ تحریک سندھ میں حالیہ نعروں اور مطالبات سے آگے نہیں بڑھے گی تو یہ سندھ کے عوام کی وسیع تر پرتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہر دو صورتوں میں طوفانی سیاسی واقعات نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر کی نوجوان نسل کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اس نوجوان نسل کے کاندھوں پر وقت نے تاریخی فرائض عائد کر دیئے ہیں اور ان تاریخی فرائض کا ادراک اور ان کو بروئے کار لانے کے سائنسی شعور میں ہی کامیابی کی ضمانت مضمر ہے۔