|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: ولید خان|
حالیہ دنوں میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان معاہدے نے عالمی تعلقات میں ایک اور بحران کو جنم دے دیا ہے۔ نئے معاہدے پر فرانس نے عارضی طور پر واشنگٹن سے اپنا سفیر بلا لیا اور چین نے شدید احتجاج کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طاقت کے عالمی کھلواڑ میں سب اس معاہدے سے نالاں ہیں۔ لیکن یہ معاہدہ محض سامراجی قوتوں کی نئی وسیع صف بندی میں ایک اور اضافی قدم ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
15 ستمبر کو اعلان کردہ معاہدے کے مطابق آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آب دوزوں (جوہری ہتھیاروں کے بغیر) اور بیلسٹک میزائل کی فراہمی کے لئے مشترکہ کام کیا جائے گا۔ امریکہ اور برطانیہ پہلے ہی یہ ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کا آپس میں دہائیوں سے تعاون جاری ہے۔ اب اس تعاون میں آسٹریلیا بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق انٹیلی جنس اور سائبر ٹیکنالوجی میں بھی تعاون بڑھایا جائے گا۔
ظاہر ہے کہ چینی حکومت نے اس معاہدے کی مخالفت میں سخت ترین الفاظ استعمال کئے۔ یہ معاہدہ واضح طور پر بحر اوقیانوس اور بحر ہند میں چینی عسکری قوتوں کا مقابلہ کرنے کے کئے کیا گیا ہے۔ روسی حکومت نے احتجاج کیا کہ یہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے معاہدوں کے خلاف ہے کیونکہ اب آسٹریلیا کو ہتھیاروں کی سطح پر افزود زدہ یورینیم تک رسائی حاصل ہو گی۔ پھر اس اعلان نے یورپی یونین کی طاقتوں کو بھی رنجیدہ کیا ہے جن میں خاص طور پر فرانس شامل ہے کیونکہ اسے مذاکرات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں اب فرانس کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین کے شدید رد عمل پر امریکی حکومت حیران ہو گئی تھی۔ یہ واضح ہے کہ تمام تر غم و غصہ محض ایک آب دوز کنٹریکٹ کے کھو جانے کی وجہ سے ہی تھا بلکہ اس میں اور بھی بہت سی وجوہات شامل ہیں، اگرچہ کنٹریک کافی گراں قدر تھا۔ چپقلش کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ انہیں مذاکرات میں شامل کیا جائے۔
جو بائیڈن کے منتخب ہونے پر یورپی حکومتوں نے واضح طور پر سکھ کا سانس لیا۔ ان کا خیال تھا کہ اب ایک ایسا امریکی صدر اقتدار میں موجود ہے جو بین البحر تعاون اور NATO پر امریکی عزم کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ بائیڈن کے حالیہ اقدامات سے واضح ہو چکا ہے کہ صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کوئی عارضی حادثہ نہیں تھا بلکہ امریکی حکمران طبقے کی وسیع تر پالیسی میں ایک دیو ہیکل تبدیلی کا حصہ تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج کا اولین ہدف سوویت یونین کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس تزویراتی منصوبہ بندی میں میدان جنگ یورپ اور خاص طور پر جرمنی تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جنگی سرحد مشرق کی جانب سرک گئی لیکن تزویراتی اہداف تبدیل نہیں ہوئے۔ اس لئے یورپ میں سفارتی اور عسکری حکمت عملی برقرار رہی۔
دوسری طرف عمومی عالمی معیشت اور خاص طور پر امریکی معیشت کے لئے ایندھن کی مسلسل سپلائی کو یقینی بنانے کے لئے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا دیو ہیکل سایہ قائم رہا۔ دہائیوں امریکہ خطے میں مداخلت کرتے ہوئے بائیں بازو کے قائدین کا تختہ الٹ کر ایرانی شاہ اور دیگر گلف ریاستوں میں رجعتی ترین آمریتوں اور تحریکوں کی حمایت کرتا رہا۔
نیا محور ایشیاء
سال 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد امریکی حکمران طبقے کو سمجھ آنا شروع ہو گئی کہ اب ان کی تزویراتی حکمت عملی تبدیلی کی متقاضی ہے۔ ان کے مفادات بحر الکاہل، اس کے گرد ونواح اور خاص طور پر جنوبی چینی سمندر کے ساتھ پیچیدہ تانوں بانوں سے منسلک ہو چکے ہیں۔ انہیں چین کی طرح سمجھ آ گئی کہ 70 فیصد عالمی تجارت جنوبی چینی سمندر کے راستے سے ہوتی ہے اور اس میں سے اکثریت امریکی کمپنیوں کی سپلائی چینز کے لئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ چین کی طرف سے اس سمندر میں کچھ جزیروں کو (کامیابی سے) عسکری طور پر فعال کرنے کی کوششیں امریکی مفادات کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔
اس نئی صورتحال نے اوبامہ کو ”ایشیاء کی جانب“ متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا اگرچہ اس کے پیش رو صدر بش نے اس حوالے سے پہلے ہی کچھ اقدامات کئے تھے۔ امریکہ میں فریکنگ میں دیو ہیکل اضافہ بھی مشرق وسطیٰ کی ایندھن سپلائی سے امریکہ کو آزاد کرانے کی حکمت عملی تھی۔ ٹرمپ کی چین سے لڑائی اسی پالیسی کی توسیع تھی اگرچہ اس پر عمل ٹرمپ کی سرشت کی طرح تلخ اور اناڑی پن سے بھرپور تھا۔ درحقیقت ڈیموکریٹس نے کئی مرتبہ چین کے خلاف اور بھی شدید اقدامات کا مطالبہ کیا۔
اس سارے عمل میں یورپ پیچھے رہتا جا رہا ہے۔ یورپی حکومتوں میں یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ عالمی سیاست میں ان کی حیثیت ایک دور افتادہ گاؤں کی بنتی جا رہی ہے اور یہ درست بھی ہے۔ طاقت، سیاست اور معیشت وغیرہ کا محور فیصلہ کن طورر پر بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل منتقل ہو چکا ہے۔ ٹراٹسکی نے اس عمل کی پیش گوئی آج سے سو سال پہلے کر دی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سارے معاملے میں چین مرکز ہے لیکن سپلائی چینز میں جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا کا بھی کلیدی کردار ہے۔
امریکی سامراج کے لئے اس کے سب سے اہم اتحادی اب یورپی براعظم پر نہیں بلکہ بحر الکاہل اور گردونواح میں موجود ہیں۔ ان میں جاپان اور آسٹریلیا سرفہرست ہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا چاہے گا لیکن اب اس کی ترجیحات فیصلہ کن طور پر تبدیل ہو چکی ہیں۔
یورپی قوتیں، خاص طور پر فرانس اور جرمنی بھی اس خطے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ برآمدات کے حوالے سے چین، جرمنی کی تیسری بڑی منڈی اور درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ فرانس خطے میں اپنی کالونیوں کے حوالے سے پریشان ہے اور ابھی بھی ایک صف اول کی سامراجی قوت ہونے کا ناٹک کررہا ہے جبکہ حقیقت میں اب اس کی اوقات بڑے سامراجیوں کے دربان سے زیادہ نہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان AUKUS معاہدے نے انتہائی بے دردی سے فرانسیسیوں کو اس حقیقت سے آشنا کر دیا ہے۔ سب سے پہلے تو آسٹریلیا نے فرانس کو اتحادی نہیں سمجھا اور نہ ہی فرانسیسی عسکری ٹیکنالوجی کو کسی قابل سمجھا۔ پھر فرانس کے بظاہر اتحادی امریکہ نے گوارا ہی نہیں کیا کہ پہلے فون کال کر کے ہی فرانس کو بتا دیتے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ خبریں ہیں کہ آسٹریلوی اخباروں میں خبر چھپنے کے بعد ہی فرانس کو پتہ چلا کہ کیا ہو گیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں میکرون کی حریف لی پین کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے سے معلومات ہوں گی لیکن معلومات تھیں یا نہیں ایک ثانوی مسئلہ ہے۔ بے عزتی کا مقام یہ ہے کہ امریکہ نے سرکاری طور پر انہیں بتانا گوارا ہی نہیں کیا۔
یہ واضح ہے کہ اس سارے معاملے میں امریکہ آسٹریلیا کے ساتھ تعلقات کو فرانس کی نسبت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ جرمن خارجہ پالیسی کمیٹی کے چیئرمین نے نشاندہی کی ہے کہ امریکہ کے لئے آسٹریلیا کا اتحادی ہونا ایک منطقی انتخاب تھا۔ امریکہ جوہری توانائی پر چلنے والی آب دوزیں فراہم کر رہا تھا اور ان کی عسکری قوت، خاص طور پر بحر الکاہل میں فرانس سے بہت برتر ہے۔
اقوام اور مفادات
امریکہ نے جس طرح سے اعلان کیا اس سے فرانس اور پھر ساتھ ہی یورپی یونین کی شدید بے عزتی ہوئی۔ ساتھ ہی بائیڈن نے ایک ایسے وقت میں برطانیہ کے غبارے میں بھی ہوا بھر دی جب برطانیہ اور یورپی یونین کے آپس میں تنازعات چل رہے ہیں۔ پھر یہ خبر بھی آگئی کہ کورن وال میں حالیہ سربراہی میٹنگ میں میکرون کی پیٹھ پیچھے یہ معاملات زیر بحث رہے۔ ظاہر ہے ایک اور مسئلہ فرانس میں ہونے والے انتخابات بھی ہیں۔ لی پین نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر میکرون پر قومی بے عزتی کا الزام لگا دیا۔
اس لئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ فرانس اور یورپی یونین نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ فرانس نے اپنا سفیر مشاورت کے لئے واپس بلا لیا اور امریکہ پر دھوکہ دینے کا الزام لگا دیا۔ لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی یورپی حکومتوں نے اس شور شرابے میں حصہ نہیں لیا۔ شائد انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا۔ امریکہ کی طرف سے تھوڑی چاپلوسی کے بعد فرانسیسی حکومت نے مسئلے پر بات کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی طرف سے کچھ مراعات کے بعد تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔ فرانسیسی نمائندوں نے کہا ہے کہ امریکہ تعلقات کو ”مالیاتی“ طریقوں سے درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بہرحال اس موسم گرماء میں دوسری مرتبہ بائیڈن حکومت نے اپنے فیصلوں میں یورپی اتحادیوں کو نظر انداز کیا ہے۔ افغانستان میں امریکی اتحادیوں کو مصیبت پڑ گئی جب بائیڈن حکومت نے انخلاء کا اعلان کر دیا۔ اس وقت جرمن حکومت نے بڑا واویلا مچایا۔ جرمن خاص طور پر پریشان ہیں کہ مہاجرین کاایک نیا ریلا یورپی یونین کا رُخ کرے گا اور نتیجے میں یونین کا استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔
امریکہ اور یورپی یونین کے مفادات اور ترجیحات علیحدہ ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین کمشنر بریٹن کے مطابق امریکی۔یورپی تعلقات میں ”کچھ گڑ بڑ“ ہے۔ یہ واضح ہے کہ صرف ٹرمپ ہی ایک مصیبت نہیں تھا۔ وہ محض ایک وسیع عمل کا اظہار تھا۔ سیاسی مبصرین ان واقعات کی روشنی میں ایک یورپی عسکری قوت کی بحث کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں اور اس حوالے سے میکرون اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک حالیہ پریس کانفرنس میں میکرون نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپیوں کو دیکھنا ہو گا کہ ”دس سال سے زائد عرصے میں امریکیوں کی تمام تر توجہ اپنے اوپر مرکوز رہی ہے اور ان کے چین اور بحر الکاہل کے حوالے سے تزویراتی مفادات ہیں“، اور اب یورپیوں کو ”اپنی حفاظت کی ذمہ داری لینی ہو گی“۔ امریکی مسابقت میں ایک عسکری قوت کا قیام یورپی یونین کا خواب ہی رہے گا لیکن یورپی بورژوازی کو اب سمجھ آ رہی ہے کہ اب وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکی فوج پر اعتماد نہیں کر سکتا۔
بائیڈن نے جرمنی سے 12 ہزار امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حوالے سے ٹرمپ کے فیصلے کو روکتے ہوئے ایک نئے جائزے کا کہا لیکن زیادہ امکانات یہی ہیں کہ یہ جائزہ بھی اسی قسم کی سفارشات مرتب کرے گا۔ اگر امریکہ بحر الکاہل میں اپنے مفادات کے تحفظ میں مزید پیش رفت کرتا ہے تو پھر اسے اس کام کے لئے عسکری وسائل بھی مرکوز کرنے ہوں گے۔ اس وقت فوجیوں میں کمی کے حوالے سے یورپ بہترین انتخاب ہے۔
امریکی ”محور“ میں تبدیلی کے نہ صرف مغربی یورپ بلکہ مشرقی یورپ کے لئے بھی سنجیدہ اثرات ہوں گے۔ اگر امریکہ کی یورپ میں خاطر خواہ موجودگی نہیں رہتی تو پھر روسی اثرورسوخ کا راستہ روکنے کے لئے اس پر کیسے انحصار کیا جا سکتا ہے؟ اب تک پولینڈ جیسے ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ کی جانب دیکھتے رہے ہیں لیکن امریکہ کی بدلتی ترجیحات میں کیا مستقبل میں بھی ایسا ممکن ہو گا؟
جرمن بورژوازی نے کئی دہائیوں امریکی عسکری موجودگی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ عسکری اخراجات پر اپنا پیسہ اور وسائل ضائع کرنے کی بجائے انہوں نے اپنی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے پیداوار کو بڑھایا۔ اب امریکہ (صرف ٹرمپ ہی نہیں) جرمن حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ یورپ کے دفاع کا بوجھ اٹھائے (خاص طور پرروس کے خلاف)۔
یہ دعویٰ کرنا کہ امریکہ اور مغربی یورپ کے درمیان اتحاد ختم ہو چکا ہے مبالغہ آرائی ہو گی۔ لیکن لارڈ پالمرسٹن نے کہا تھا کہ اقوام کے مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتے۔۔ان کے مفادات ہوتے ہیں۔ ماضی کے برعکس فرانس، جرمنی اور امریکہ کے مفادات تیزی سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔
بحرالکاہل میں ہتھیاروں کی دوڑ
یورپی یونین کے ساتھ امریکی تعلقات کمزور ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ حتمی طور پر خطے میں اور کاص طور پر جنوبی چینی سمندر میں بڑھتی امریکی عسکری موجودگی کا چینی حکومت جلد یا بدیر جواب سے گی۔ جرمنی اور جاپان کی طرح چینی حکومت نے بھی اپنی افواج پر پیسہ کم خرچ کیا ہے لیکن GDP میں اضافے کے ساتھ یہ خرچہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت عسکری اخراجات کم و بیش GDP کے تناسب سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن چین میں بحران کی شدت کے ساتھ یہ عمل بھی تبدیل ہو گا۔
چینی افواج کا دھیان اب اپنی سرحدوں کی حفاظت سے ہٹ چکا ہے۔ سرحدوں کی حفاظت ایک نسبتاً سستا عمل ہے لیکن سرحد پار چینی سرمائے کے مفادات کی حفاظت کرنا ایک مہنگا کام ہے۔ چینی حکومت کے مطابق ”جدیدیت“ کا یہ عمل 2035ء تک مکمل ہو گا۔ اس میں نئے ہوائی جہاز بردار بحری جہاز، ہوائی جہاز اور بحری جہاز شامل ہیں۔۔یعنی وہ سب کچھ جو چین کو ان محدود ممالک کی فہرست میں شامل کر دے گا جو اپنی سرحدوں سے دور پارکوئی بھی اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چین کے لئے یہ مسئلہ سب سے پہلے مشرقی اور جنوبی چینی سمندروں پر اجارہ داری کا ہے اور اس کی دوسرا مسئلہ بحر الکاہل اور بحر ہند میں اپنی موجودگی کو وسعت دینا ہے۔ موجودہ ہوائی جہاز بردار بحری جہاز اول الذکر ضرورت توپوری کرتے ہیں لیکن بعدالذکر نہیں۔
بحران کے برھتے جانے کے ساتھ عسکری قوت میں اضافے کی چینی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔ تحفظاتی پالیسیوں اور موجودہ منڈیوں میں مسابقت میں اضافے کے ساتھ ان منڈیوں کے تحفظ کی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔ یہ وہ حالات ہیں جو بحرالکاہل میں ہتھیاروں کی دوڑ کو تقویت دے رہے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہتھیاروں کی یہ دوڑ بہت مہنگی ہے۔ آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان آب دوزکنٹریکٹ کی لاگت 90 ارب ڈالر تھی۔ AUKUS معاہدے پر مبنی کنٹریکٹ کی تفصیل سامنے تو نہیں آئی ہے لیکن اندازے ہیں کہ ایک جوہری توانائی والی آب دوز کی قیمت 5 ارب ڈالر ہو گی (اس میں افراط زر شامل نہیں)۔ یہ خواب ہی ہو گا کہ نیا کنٹریکٹ پرانے کے مقابلے میں سستا ہو گا۔ اگرچہ یہ خرچہ امریکی اور آسٹریلوی سامراج کی شدید خواہش ہے لیکن بحرالکاہل کے محنت کشوں اور استحصال زدہ عوام کے نکتہ نظر سے یہ وسائل کا بے دریغ ضیاع ہے۔ ان پیسوں سے کتنے گھر، سکول اور ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں؟ یہ واضح ہے کہ جب بھی پیسوں کی کمی کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب آب دوز کے لئے پیسے نہیں ہوتا۔
اب امریکہ بلا مقابلہ ”عالمی پولیس“ نہیں رہ گیا۔ سال 1960ء میں عالمی معیشت میں امریکہ کا 40 فیصد حصہ تھا اور آج یہ کم ہو کر 24 فیصد رہ گیا ہے جبکہ چین کا حصہ 17 فیصد ہے۔ امریکی معاشی قوت میں عمومی انحطاط نے ایک دن عسکری اور سفارتی انحطاط میں اپنا اظہار کرنا تھا اور آج یہ عمل ہمارے سامنے رونما ہو رہا ہے۔
عسکری حوالے سے چین کسی صورت امریکہ سے براہ راست جنگ نہیں کر سکتا۔ بہرحال اس وقت چین کے پاس اتنی قوت موجود ہے کہ اس کا اظہار جنوبی چینی سمندر اور کچھ دیگر مقامات پر کیا جا سکے۔ امریکی سامراج کا عمومی انحطاط دنیا کے مختلف حصوں میں دیگر قوتوں کو شہہ دے گا کہ وہ امریکی تسلط کو چیلنج کریں اور نتیجے میں لڑائیاں مزید بڑھیں گی۔ چین اس وقت ابھرتی معاشی قوت ہے جس کا اظہار اب اس کی بڑھتی عسکری قوت میں ہو رہا ہے۔
دنیا کی کوئی بھی طاقت براہ راست امریکہ کو چیلنج نہیں کر سکتی اور اس لئے ایک عالمی جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن کچھ اقوام امریکہ کے کمزور اتحادیوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عالمی تعلقات میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں پراکسی جنگیں، عسکری کُو، فضائی حملے، ڈرون حملے اور خانہ جنگیاں بڑھ رہی ہیں۔ آب دوزوں اور عسکری معاہدوں کی چکا چوند تصاویر کے پیچھے پوری دنیا کے کئی سو کروڑ افراد جنگوں کی تباہ کاریوں میں برباد ہو رہے ہیں۔
اس لئے AUKUS معاہدہ سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کا ایک اور اظہار ہے۔ یہ تباہ و برباد معاشی نظام پوری دنیا کو خون اور آنسوؤں کے علاوہ اب اور کچھ نہیں دے سکتا۔ عالمی سامراجی قوتوں کی جنگوں میں عالمی سطح پر عوام برباد ہو گی۔ دیگر ممالک کا مستقبل بھی افغانستان، صومالیہ، شام، عراق اور لیبیا جیسا ہے۔ اب ممکن ہی نہیں رہا کہ ان سامراجی قوتوں سے ”قانون کی بالادستی“ انسانی حقوق اور امن کی بھیک مانگی جائے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بھیڑیئے سے سبزی خوری کی امید لگائی جائے۔ ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگوں کا اسی وقت خاتمہ ہو گا جب سرمایہ داری ختم ہو گی اور یہی آج انسانیت کے سامنے حقیقی فریضہ ہے۔