|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: اختر منیر|
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایک مرتبہ پھر حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران پر حملے کی آخری لمحے میں منسوخی کے ایک ماہ بعد اور ایران کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر رضامندی کے کچھ ہفتوں بعد ہی ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ٹویٹر کو دھونس اور دھمکیوں سے بھر دیا ہے۔ اس دوران تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے تیل اور کرنسی کی حساس مارکیٹ پر ابھی سے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
یہ حملے بقیق میں سعودی تیل کی 70 فیصد پیداوار کے ذمہ دار دنیا کے سب سے بڑے آئل پراسیسنگ پلانٹ اور خریص آئل فیلڈز پر کئے گئے۔ ان حملوں کے بعد سعودی تیل کی پیداوار میں 57 لاکھ بیرل یومیہ کمی آ گئی جو دنیا بھر کی خام تیل پیداوار کا 5 فیصد بنتا ہے۔
ان حملوں کی ذمہ داری یمنی حوثی تحریک نے قبول کی ہے جو پچھلے ساڑھے چار سال سے سعودی عرب کے ساتھ شدید جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران حوثیوں نے سعودی عرب میں حملہ کرنے کی صلاحیت میں کافی اضافہ کر لیا ہے۔ انہوں نے ائیرپورٹس، آئل پائپ لائنوں اور یہاں تک کہ ریاض کو بھی بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ بہرحال حالیہ حملہ اب تک کا سب سے سنگین حملہ ہے جس میں سعودی تیل کی پیداوار کا دل نشانہ بنا ہے۔
لیکن کل قطر سے تعلق رکھنے والی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی نے ایک عراقی خفیہ ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ایرانی حمایت یافتہ عراقی حشد الشعبی (Popular Mobilization Forces) کی جانب سے کیا گیا جس کی بنیادیں جنوبی عراق میں ہیں۔ یہ حملہ پورے عراق میں PMF کے اہم ٹھکانوں اور اسلحے کے ذخیروں کو سلسلہ وار نشانہ بنانے بعد ہوا ہے۔ یہ حملے غالباً اسرائیل نے کئے تھے لیکن ان میں امریکہ اور سعودی عرب کی امدد بھی شامل تھی۔
مڈل ایسٹ آئی نے بتایا کہ عراقی خفیہ ذرائع کے مطابق یہ حملہ PMF پر اگست میں ہونے والے حملوں کا رد عمل ہے۔ ”حالیہ حملوں کی دو وجوہات ہیں، پہلی ایران کی طرف سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک اور پیغام کہ جب تک وہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھیں گے تب تک اس خطے میں کوئی بھی امن سے نہیں رہ سکے گا۔ لیکن دوسری وجہ ایران کی حمایت یافتہ حشد کے ٹھکانوں پر SDF کے زیرِ انتظام علاقوں سے اسرائیلی ڈرون حملوں بدلہ ہے“۔
امریکی اور سعودی اہلکاروں نے ایران پر الزام عائد کیا ہے۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ٹویٹر پر لکھا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ہتھیار یمن سے چلائے گئے تھے اور اس نے الزام لگایا کہ ایران کی جانب سے یہ ”دنیا کی توانائی کی رسد پر بے نظیر حملہ ہے“۔ خلیجی شہزادے اور ان کے پالتو کتے پورا ہفتہ ایران کی مبینہ بدمعاشی کا رونا روتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے ضروری اقدامات کے لیے تیار ہیں۔
لیکن ذرا رکیے اور خود سے پوچھیے کہ کیا واقعی مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا بدمعاش ایران ہے؟ حالیہ دور کو ہی دیکھا جائے تو سعودی حکومت پورے خطے میں فرقہ واریت پھیلا رہی ہے۔ اس نے شام میں جاری فرقہ وارانہ جنگ میں بھی پیسہ جھونکا جس نے نہ صرف شام بلکہ اس کے ہمسایہ ملک عراق کو بھی تباہ کر دیا۔ یمن میں سعودیوں نے یکطرفہ جنگ کا آغاز کیا جس سے لاکھوں لوگ مارے گئے اور کروڑوں فاقوں سے مر رہے ہیں۔
اپنے عالی شان محلوں میں سونے کی مسندوں اور بکتر بند پُر تعیش کاروں کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھ کر ملک کا حقیقی حکمران محمد بن سلمان ایک کمپیوٹر گیمز کھیلنے والے بچے جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہ روزانہ جدید ترین جنگی جہازوں اور بمبار طیاروں کے جُھنڈوں کو حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے جن کی امداد کے لیے وہاں امریکی ریپر ڈرون، جہاز اور بحری بیڑے موجود ہوتے ہیں۔ وہ ہزاروں گائیڈڈ میزائلوں کو حوثیوں کے زیرِانتظام علاقوں کے ہر کونے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کے پاس ایک کرائے کی فوج بھی ہے جو نوعمر سوڈانی فوجیوں، یمنی سلفیوں اور اخوان المسلمین پر مشتمل ہے۔ اپنے ظلم و ستم کے ذریعے اس نے غریب ترین عرب ملک کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔
دوسری طرف ہمیں حوثی تحریک نظر آتی ہے جو دو سے پانچ لاغر افراد کے گروہوں میں منظم ہے جن کے پاس AK47، گرنیڈ، سوویت دور کی گاڑیاں اور چھوٹے راکٹ لانچر ہیں۔ ایران کی مدد سے انہوں نے گھریلو بیلسٹک میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے جو مغربی ممالک میں ایمازون پر عام ملنے والے ڈرونز جیسی ہے۔ اب بتائیے کہ جارح کون ہے اور محافظ کون ہے؟
مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسرائیلی فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں واحد ایٹمی قوت ہے۔ اس کے ڈرون اور ایف 35 طیارے مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں بلا روک ٹوک اڑتے پھرتے ہیں اور جسے چاہیں نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ کچھ ہفتوں پہلے انہوں نے بیروت میں حزب اللہ کے بہت سے دفاتر کو نشانہ بنایا۔ ان میں پہلے ذکر کردہ حملے بھی شامل ہیں جو وسطی اور مغربی عراق میں کیے گئے تھے۔ ان کے اہداف، حزب اللہ اور PMF، حوثیوں سے تو بہتر اسلحہ رکھتے ہیں مگر وہ اسرائیل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔
بلاشبہ یہ سب امریکی مسلح افواج کی مدد سے ہوا جو دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہے اور مشرق ِوسطی میں اس کے ایک درجن سے زائد فوجی اڈے ہیں جہاں 50 ہزار سے زائد فوجی موجود ہیں اور یہ سب امریکی ساحلوں سے 10 ہزار کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ امریکہ یمن جنگ میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جنگ میں بھی اس کا ہاتھ تھا اور پورے خطے میں اسرائیل کے حملوں میں بھی امریکہ کی امداد شامل ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی ایران جوہری معاہدہ پھاڑ پھینکا اور امریکی ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ ڈالنے کے منصوبے تحت ایران پر شدید ترین معاشی پابندیاں لگا دیں (اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی بمباری کے ساتھ) جن کا مقصد ایران کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
چنانچہ یہ کام چاہے عراقی شیعہ قوتوں نے کیا ہو یا یمنیوں نے بدلہ لینے اور اپنے دفاع کے لیے یہ حملے کیے ہوں، کیا انہیں قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اور اگر ایران نے اس حملے میں مدد کی بھی ہو، جو اس نے غالباً کی ہے، تو پھر کیا ہے؟ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ہمیں کم شدت کا ایک فوجی تنازعہ نظر آرہا ہے جس میں ایک طرف وہ بلاک ہے جس کی سربراہی دنیا کی سب سے طاقتور فوجی قوت کر رہی ہے جو چھیڑ چھاڑ اور دھونس کے ذریعے مسلسل حالات خراب کئے رکھتی ہے اور دوسری طرف ایک پسماندہ اور کمزور ملک ہے جسے کچھ مسلح گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہ کیوں ممکن ہے کہ وہ تباہ کاری اور قتل و غارت گری اپنی مرضی سے کرتے پھریں لیکن یہ بات ان کے لئے کسی صورت قابلِ قبول نہیں کہ کوئی اپنا دفاع کرے؟
سعودی عرب کی کمزوری
منافقانہ چیخ و پکار کے باوجود بہت عرصے سے سطح کے نیچے پکنے والا بحران اب سطح پر نمودار ہو رہا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور نئی صدی کے آغاز تک امریکی سامراج ناقابلِ تسخیر دکھائی دے رہا تھا۔ بے مثال فوجی قوت کے ساتھ اس کا جس ملک میں جی چاہتا گھس جاتا، حملے کرتا، جنگ شروع کرتا یا حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔
امریکیوں نے عراق اور افغانستان پر یکے بعد دیگرے یہ سوچتے ہوئے حملے کر دیے کہ یہ ایک آسان کام ہو گا لیکن ان دونوں ممالک میں انہیں شرمناک شکست سے دوچار ہو کر پسپا ہونا پڑا (اور ابھی تک وہ پوری طرح پیچھے بھی نہیں ہٹ پائے) اور بدلے میں کھربوں ڈالر کا نقصان اور اپنے ملک میں جنگوں کے خلاف عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ میں شدید سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے ایک لمبے عرصے کے لیے براہِ راست فوجی کاروائی کا راستہ بند ہو چکا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عراق جنگ نے عراقی فوج کو برباد کر دیا جو دو دہائیوں سے ایران کو قابو میں رکھے ہوئے تھی۔ طاقت کے خلا میں ایران اور پھر بعد میں روس کا بھی اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ اس کا سب سے واضح نتیجہ شام میں امریکی سامراج کی شکست کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایران کے حمایت یافتہ گروہ سب سے مضبوط طاقت بن کر ابھرے ہیں۔ آج ایران کے حمایت یافتہ گروہ لبنان، شام، عراق اور یمن میں بھی سب سے مضبوط ہیں۔ یہی ایران جوہری معاہدے کی بنیاد تھی جس کا مقصد مغربی سامراج کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرتے ہوئے ایران کے فوجی اثر و رسوخ کو تسلیم کرنا تھا۔
مگر سعودی اور اسرائیلی حکومتیں ایران کے ابھار کو اپنی لاشریک قوت کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ خاص طور پر سعودی حکومت ایران کی طاقت کو اپنے لیے ایک وجودی خطرہ تصور کرتی ہے۔ اس کی جڑیں سعودی حکومت کی تاریخی کمزوری میں تلاش کی جا سکتی ہیں کیونکہ سعودی عرب ایک مصنوعی ریاست ہے جو امریکی سامراج کی مدد اور تیل کے پیسوں پر کھڑی ہے۔ ظاہری شان و شوکت کی بنیادیں انتہائی کمزور اور کھوکھلی ہیں اور سعودی شاہی خاندان، بنیاد پرست وہابی مسلمان، قبائل، عام سعودی شہری، شیعہ اور محنت کش، یعنی سلطنت کے بنیادی اجزاء، تقریباً سب ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے آج تک کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی کیونکہ کوئی بھی طاقت صحیح معنوں میں شاہی خاندان اور سلطنت کی وفادار نہیں ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین فوجوں میں سے ایک ہونے کے باوجود ایران کی کم ترقی یافتہ فوج کے ساتھ براہِ راست لڑائی میں سعودی عرب کی جیت کے کوئی امکانات نہیں۔
سعودی ایک عرصے سے ٹرمپ کو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اکسارہے ہیں لیکن امریکہ ایران کو ایک کھلی جنگ میں شکست دینے کے قابل نہیں ہے حتیٰ کہ امریکہ کو فضائی حملوں کے بھی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جیسے کل ایک ایرانی کمانڈر نے امریکہ کو یاد کروایا کہ ان کے تمام فوجی اڈے ایران سے دو ہزار میل فاصلے کے اندر اندر ہیں جو ایرانی میزائلوں کی حدود میں ہیں۔ پچھلے دنوں سعودیوں نے جان بولٹن، جو اب ٹرمپ کا سابق مشیر ہے، کے ساتھ مل کر ٹرمپ کو ایران کے ساتھ جنگ پر اکسانے کی سازش کی تھی مگر ٹرمپ آخری وقت پیچھے ہٹ گیا اور اسے کافی بے عزتی بھی برداشت کرنا پڑی۔ ٹرمپ اور پینٹاگون کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ایران پر حملہ امریکی سامراج کے لیے کئی خطرات کو جنم دے سکتا ہے اور ویسے بھی ایران کے وقتی نقصان سے زیادہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرمپ ایران کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنا چاہتا ہے اور یہی بولٹن سے کنارہ کشی کی بنیادی وجہ ہے۔
بے شمار اشتعال انگیزیوں، پابندیوں اور شام، لبنان اور عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں پر حملوں کے بعد ایران ایک لکیر کھینچ رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے کیا کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ایک سرجیکل سٹرائیک کے ذریعے انہوں نے بتادیا ہے کہ اپنے گروہوں کے وسیع نظام سے وہ با آسانی ان اہم مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں جن کی حفاظت امریکہ کے مہیا کئے گئے جدید ترین میزائل سسٹم سے کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ایران امریکہ کی دھمکیوں کا جواب دے کر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹرمپ اور مائیک پینس کی طرف سے مچائے جانے والے تمام شور و غل اور سعودی عرب کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے باوجود امریکہ کا بنیادی موقف تبدیل نہیں ہوا۔ ٹرمپ حملوں کے متعلق ٹوئٹر پر کافی محتاط تھا۔ اس نے کہا کہ ”ہم تصدیق کی صورت میں ہر لحاظ سے تیار ہیں لیکن ہم انتظار کر رہے ہیں کہ سلطنت (سعودی عرب) کیا سمجھتی ہے کہ ان حملوں کی کیا وجہ ہے اور ہم کن شرائط پر آگے بڑھیں گے“۔ ”ہم کن شرائط پر آگے بڑھیں گے“سے اس کی مراد ہے کہ ”اگر ہم ایران پر حملہ کرتے ہیں تو آپ ہمارے ساتھ کونسی فوجیں بھیجیں گے“۔ ظاہر ہے سعودیوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ایران کے ساتھ ایک فوجی تنازعہ نہ صرف امریکی سامراج بلکہ سعودی عرب کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہو گا۔ امریکہ سعودی عرب کی مدد کو نہیں آئے گا۔ اگر ٹرمپ کوئی علامتی حملہ کر بھی دیتا ہے (جیسا کہ کچھ سال پہلے شام میں خالی ائر فیلڈز پر بمباری کی گئی تھی) تو بھی یہ سعودی حکومت کے لیے کافی نہیں ہو گا جو صرف اسی صورت میں مطمئن ہو سکتی ہے اگر ایران میں ایک نئی کمزور حکومت قائم ہو۔ لیکن کسی کا بھی یہ ارادہ نہیں ہے۔ موجودہ دھمکیوں اور تناؤ سے ایرانی حکومت کو طاقت مل رہی ہے کہ وہ بیرونی خطرات کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے پچھلے سال پورے ملک میں اٹھنے والی احتجاجی تحریک پر مکمل قابو پا سکے۔
ایران کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کے بجائے ٹرمپ ایرانی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بولٹن سے کنارہ کشی کرلی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس کے موقع پر وہ ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات کی کوششیں کر رہا ہے۔ سعودی حکومت پر ہونے والے ڈرون حملوں کی گرد بیٹھنے کے بعد وہ اس عمل کو دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس اور کوئی قابل ِعمل طریقہ نہیں ہے۔ اسی دوران سعودی حکومت کا بحران مزید گہرا ہوگا جو اسے مجبور کرے گا کہ وہ اپنی بقاء کی خاطر مزید خطرناک اقدامات کرے۔
عالمی معیشت پر اثرات
ستر اور اسی کی دہائی میں امریکی سامراج کے لیے سعودی عرب اتنا اہم تھا کہ سلطنت کے استحکام کی خاطر امریکی فوجی مداخلت کے لیے تیار تھے۔ مگر آج سعودی عرب کے بجائے امریکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اب یہ امریکہ کے بس میں نہیں کہ وہ فوجی مداخلت کے ذریعے کہیں بھی استحکام لا سکے۔
یہ کمزوری آشکار کرتے ہوئے یہ حملے پہلے ہی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن چکے ہیں۔ آج صبح منڈی کا آغاز تیل کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافے کی چھلانگ کے ساتھ ہوا جو 1990ء کے بعد سے اب تک ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ قیمتیں وقتی طور پر شاید کم ہوں مگر منڈیاں اس تبدیل شدہ عالمی صورتحال پر انحصار کر رہی ہیں جس کے باعث آنے والے وقت میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
فنانشل ٹائمز نے اس صورتحال کا احاطہ یوں کیا کہ
”چاہے ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو، تیل کے تاجر یہ تصور کر رہے ہیں کہ خطے میں موجود سعودی عرب کے دشمن سلطنت کے اندر مرکز تک حملے کرنے کے قابل ہیں، جو ان کی اہم تنصیبات اور تیل کے کنوؤں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے ان کا خام تیل کے ایک قابل بھروسہ پیداوار کنندہ اور تاجر ہونے کا تشخص داؤ پر لگ گیا ہے جسے قائم کرنے میں انہوں نے دہائیاں لگائی تھیں۔“
اینڈی ہال، جو ایک بدنام زمانہ تیل کا سٹے باز ہے، نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس نے اس صورتحال سے پیدا ہونے والے اثرات کے متعلق بتایا:
”اس حملے نے پوری دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں موجود تیل کی تنصیبات کو موجود خطرات واضح کیے ہیں۔ سعودی عرب نے ہتھیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کیے، مگر پھر بھی وہ درجن بھر پسماندہ ٹیکنالوجی کے حامل ڈرونز سے اپنی تیل کے کنوؤں کو نہیں بچا سکا۔ یہ یقیناً ایک غیر مستحکم جنگی حکمت عملی کا ثبوت ہے۔“
”یوں لگتا ہے کہ تیل کی منڈی کو صرف تیل کی موجودہ ترسیل میں کمی کے باعث ہی نہیں بلکہ مستقبل میں زیادہ خطرے کے باعث بھی قیمت بڑھانا ہو گی۔ دوسری جانب عالمی منڈی بھی نازک صورتحال کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافے سے شدید متاثر ہو گی۔“
منڈی میں عمومی سست روی کے باعث اس کے عالمی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ سوسائٹی جنرل (Société Général) نے اس کے متعلق کہا، ”عالمی ترقی میں کمی کی وجہ سے تیل کی قیمتیں کم ہوئیں، مگر خطرے کی وجہ سے قیمتیں اب دوسری سمت میں جا رہی ہیں۔ یہ عالمی معیشت کی ترقی میں مزید کمی کا باعث ہو گا۔“
اس صورتحال کا اظہار آج پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹس میں ہوا جو شدید دباؤ کا شکار رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ”ابھرتی ہوئی معیشتوں“ کی کرنسیوں کی قدر میں بھی جو تیل کی قیمتوں کے معاملے میں انتہائی حساس ہیں۔ اسی دوران سونے کی قیمتوں، ین اور دوسری ”محفوظ سرمایہ کاریوں“ میں بھی اضافہ ہوا، جس کی وجہ 1991ء میں صدام حسین کے کویت پر حملے کے بعد سے اب تک دنیا کی تیل کی پیداوار میں سب سے زیادہ کمی ہے۔ اس سے ہمیں مستقبل میں عالمی معیشت کا ہیجان واضح نظر آ رہا ہے۔
سعودیوں کو لگ رہا تھا کہ یہ خطرہ ایران کے خلاف عالمی حکمران طبقات کو ان کے پیچھے لا کھڑا کرے گا۔ مگر اب انہیں اس کے الٹ کا خوف ہے۔ سعودی عرب کی کمزوری اور عدم استحکام کو دیکھتے ہوئے زیادہ امکان یہ ہے کہ مغربی حکمران طبقات خطے میں استحکام لانے والی قوتوں کے طور پر دوسری طاقتوں کی حمایت کرنے لگیں گے، جیسا کہ ایران اور ترکی۔ لہٰذا جو بھی ہو تمام سماجی، عسکری اور سیاسی زلزلے کسی نہ کسی طرح ان تضادات کو سامنے لائیں گے جو سطح کے نیچے پک کر تیار ہو رہے ہیں، جن میں سے ایک سعودی عرب کا حتمی بحران بھی ہے۔
متعلقہ: