|تحریر: آفتاب اشرف|
سرمایہ داری کے عالمی معاشی بحران کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور خاص کر کورونا وبا کی دوسری لہر کی وجہ سے مغربی ممالک میں ہونے والے لاک ڈاؤنز نے اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں پوری دنیا کے سرمایہ دار حکمران طبقات اور ریاستیں اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پہ منتقل کرنے کے لئے ان پر تابڑ توڑ معاشی،سماجی و سیاسی حملے کر رہے ہیں اور جواب میں کر ہ ارض کے ہر خطے میں محنت کش طبقہ بھی اپنے حقوق کے دفاع کے لئے بھرپور مزاحمت کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھی اس ساری صورتحال سے کوئی استثناء حاصل نہیں ہے بلکہ ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک ہونے کی وجہ سے یہاں بحران کی شدت اور بھی زیادہ گھمبیر ہے اور یہاں کا سامراجی گماشتہ سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ریاست اس وقت محنت کشوں کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے درپے ہیں۔
اس حوالے سے اگر ہم پچھلے چند ماہ کے حکومتی اقدامات کا ہی جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ملکی سرمایہ داروں کی نمائندہ اور سامراج کی گماشتہ حکومت و ریاست کس قدر برہنہ مزدور دشمنی پر اتری ہوئی ہیں۔ ہر روز حکومت کا محنت کش طبقے پر ایک نیا وار سامنے آتا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان ریلوے، اسٹیل مل، سوئی گیس، پی آئی اے اور دیگر کئی عوامی اداروں کو مختلف کمپنیوں میں تقسیم کرکے ان کی”ان بنڈلنگ“ کی جائے گی جس کا واحد مقصدان اداروں کے منافع بخش حصوں اور قیمتی اثاثوں کی تیز ترین نجکاری ہے۔ اسی طرح واپڈا جیسے ادارے جو پہلے ہی سے کمپنیوں میں تقسیم ہیں، ان میں بھی نجکاری کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا اور اس مقصد کے لئے کئی ایک منافع بخش پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں اور جنریشن پلانٹس کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ نجکاری کے اس وار سے صحت اور تعلیم جیسے بنیادی ضرورت کے شعبے بھی محفوظ نہیں ہیں جس کی ایک مثال سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری سے متعلق ایم ٹی آئی ایکٹ نامی کالا قانون ہے جسے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے بعد اب وفاق کے زیر انتظام ہسپتالوں پر بھی زبردستی لاگو کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیمی بجٹ اور ایچ ای سی کی گرانٹس میں کمی کر کے نجی و خود مختار سرکاری تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر کے میڈیکل ایجوکیشن کی مکمل ڈی ریگولیشن و لبرلائزیشن کا بنیادی مقصد بھی نجی میڈیکل کالج مافیا کو لوٹ کھسوٹ کی مکمل آزادی دینا تھا۔ اس کے علاوہ پورے ادارے کی نجکاری کئے بغیر اس کی مختلف سروسز کی نجی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کی پالیسی بھی ہر عوامی ادارے میں شدومد کے ساتھ جاری ہے۔
نجکاری کے اس وار کے نتیجے میں جہاں ایک طرف عوام کو میسر تھوڑی بہت سستی سرکاری سہولیات بھی انتہائی مہنگی ہو کر ان کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں وہیں دوسری طرف اس کے ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں پر بھی انتہائی تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ جبر ی برطرفیوں کے ایک نہ رکنے والے سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے جس کی سب سے واضح مثال نومبر کے اواخر میں پاکستان اسٹیل ملز کے 4500 ورکرز کی جبری برطرفی ہے جبکہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بقیہ رہ جانے والے کم و بیش اتنے ہی ملازمین کی برطرفی کے لیٹرز بھی تیار کئے جا چکے ہیں۔ مگر یہ سلسلہ صرف اسٹیل مل تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر عوامی ادارے کے محنت کشوں کے ساتھ یہی ظلم ہو رہا ہے۔ پی ٹی وی، پاکستان ریڈیو، پی ٹی ڈی سی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بھی دہائیوں سے کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کو بیک جنبش قلم جبری برطرف کر دیا گیا ہے۔ پی آئی اے میں پہلے تو مختلف حیلے بہانوں اور جھوٹے الزامات لگا کر سینکڑوں محنت کشوں کو ملازمت سے نکالا گیا ہے اور اب نام نہاد وی ایس ایس کے تحت دباؤ ڈال کر تقریباً 2000 مزید محنت کشوں کو ایک لولالنگڑا برائے نام گولڈن ہینڈ شیک دے کر برطرف کیا جا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں مزید چار ہزار ورکرز کو جبری برطرف کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ہے جس کے نتیجے میں پی آئی اے کی ورک فورس ماضی کے مقابلے میں آدھی رہ جائے گی۔ ایسی ہی صورتحال ریلوے کی بھی ہے جہاں ایک طرف آئی ایم ایف کی نام نہاد سٹرکچرل اصلاحات اور دوسری طرف چینی سامراج کے ساتھ مل کر شروع کئے جانے والے ایم ایل ون منصوبے کے تحت دسیوں ہزار مستقل ملازمین کو جبری برطرف کر کے ان کی جگہ انتہائی کم اجرتوں پر کنٹریکٹ لیبر رکھنے کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے عرصے میں بڑے پیمانے پر تقریباً تمام عوامی اداروں سے کنٹریکٹ، ایڈہاک اور ڈیلی ویجز محنت کشوں کو جبری برطرف کر کے متعلقہ سروسز کو آؤٹ سورس کر دیا گیا ہے بلکہ اب تو کئی ایک اداروں میں ان سروسز کا سرے سے ہی خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سرکاری ہسپتالوں سے لے کر واپڈا تک تما م عوامی اداروں میں نجکاری اور جبری برطرفیوں کا عمل لازم و ملزوم ہے اور یہ ناممکن ہے کہ کسی ادارے کی نجکاری تو ہو جائے مگر اس کے ورکرز سے روزگار نہ چھینا جائے۔ مزید برآں جبری برطرفیوں سے بچ جانے والے محنت کشوں کی مستقل ملازمت کا خاتمہ، اجرتوں میں کٹوتی اور اوقات کار میں اضافہ بھی آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی تجویز کردہ نام نہاد سٹرکچرل اصلاحات کا لازمی حصہ ہے۔
نجی شعبے میں تو صورتحال پبلک سیکٹر سے بھی کہیں بدتر ہے۔ موجودہ معاشی بحران سے قبل بھی نجی صنعتوں میں کسی لیبر قانون کی پاسداری نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت بھی گنی چنی نجی صنعتوں میں ہی ادا کی جاتی تھی۔ لیکن معاشی بحران کے آغاز اور خصوصاً کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر ملک کے طول وعرض سے نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کو مالکان نے بھرپور ریاستی آشیر باد کے ساتھ جبری برطرف کیا ہے۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ لاکھوں گھروں کا چولہا ٹھنڈا کرنے والے ان درندہ صفت سرمایہ داروں کو اسی عرصے میں حکومت کی جانب سے ”محنت کشوں کا روزگار قائم رکھنے“ کے نام پر دسیوں کھرب روپے کے معاشی ریلیف پیکج، سبسڈیاں، ٹیکس چھوٹ، سستے قرضوں اور دیگر مراعات سے نوازا گیا ہے۔ مگر لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد بھی نجی شعبے میں مزدوروں کے معاشی قتل عام کا یہ سلسلہ رکا نہیں اور اب بھی بھرپور ریاستی پشت پناہی کے ساتھ تیزی سے جاری ہے۔ اس کی ایک واضح مثال نومبر میں ہونے والی قانون سازی کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ”انسپکٹر لیس فیکٹری رجیم“ کے تحت نجی صنعتوں کی لیبر انسپکشن کا مکمل خاتمہ ہے۔ اگرچہ پورا محکمہ لیبر پہلے بھی فیکٹری مالکان کا زر خرید غلام ہی تھا اور یہ انسپکشنز برائے نام ہی ہوتی تھیں مگر اب تو اس”تکلف“ کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف، دیگر سامراجی مالیاتی اداروں و قوتوں اور نجی ملکی بینکوں کو قرضوں کی واپسی (وفاقی وزیر خزانہ کے حالیہ بیان کے مطابق موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد صرف بیرونی قرضوں کے سود کی مد میں 6000 ارب روپے کی ادائیگیاں کی ہیں)، ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کو معاشی مراعات اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ کو عیاشی کے لئے سالانہ ہزاروں ارب روپے سے نوازنے والے حکمران ہر روز محنت کش عوام پر مہنگائی کے نئے وار کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی جزوی ڈی ریگولیشن کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں ہر پندرہ روز بعد ان کی قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آئی پی پیز کی منافع خوری کی ہوس پوری کرنے اور 2300 ارب روپے سے زائد گردشی قرضوں کا بوجھ عوام پر لادنے کے لئے بجلی کے ٹیرف میں ہوشربا اضافے کی منظوری بھی ہو چکی ہے اور اس سلسلہ وار اضافے کا پہلا وار کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح کورونا وبا کی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے معطل ہونے والے آئی ایم ایف قرض پروگرام کی دوبارہ بحالی کی شرط کے طور پراگلے بجٹ سے بالواسطہ ٹیکسوں اور زیادہ تر تنخواہ دار ملازمین پر لگنے والے انکم ٹیکس میں بھی بڑے اضافے پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے۔ مزید برآں آئی ایم ایف کے تقاضے پر اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے اور مالیاتی شعبے کی مکمل ڈی ریگولیشن کے متعلق قانون سازی بھی جلد کر دی جائے گی۔ مزید برآں رہی سہی کسر پوری کرنے کے لئے ہر قسم کے ذخیرہ اندوز مافیا کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے جو چاہیں کریں جس کی وجہ سے آئے روز مختلف اشیاء کی مصنوعی قلت اور پھر ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ایک معمول بن چکا ہے جبکہ دوسری طرف سول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ اضافے کو منجمد کر دیا گیا ہے اور پنشن ریفارمز کے تحت سویلین ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنوں کے ”بوجھ“ سے جان چھڑانے کے لئے مختلف منصوبے زیر غور ہیں۔ سیدھے الفاظ میں نام نہاد ”نیا پاکستان“ محنت کش عوام کے لئے ایک ایسی دہکتی ہوئی جہنم بن چکا ہے جہاں زندگی کا ہر دن ایک نہ ختم ہونے والی اذیت جیسا ہے۔
مگر کیا پاکستان کے محنت کش طبقے نے اس سب ظلم و استحصال کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں لازمی سروسز ایکٹ کے بے دریغ نفاذ، یونین سرگرمیوں پر قدغنوں، جھوٹے مقدمات، گرفتاریوں اور دیگر ریاستی جبر کے باوجود حالات کے دباؤ کے تحت ملک کی مزدور تحریک ایک معیاری جست لیتے ہوئے مزاحمت و جدوجہد ایک بلند تر مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جس کا واضح اظہار ملک کے طول وعرض میں ریلوے سے لے کر اسٹیل ملز اور واپڈا سے لے کر محکمہ صحت و تعلیم اور ایپکا تک نجکاری، آؤٹ سورسنگ اورجبری برطرفیوں کے خاتمے، اجرتوں میں اضافے، مستقل روزگار اور دیگر مطالبات کے لئے ہونے والی شاندار مزدور جدوجہد میں نظر آتا ہے۔ مگر ماضی کے برعکس اب مختلف عوامی اداروں و محکموں کی مزدور یونینز اورایسوسی ایشنز اپنی الگ الگ لڑائی لڑنے کی بجائے مشترکہ مطالبات کے گرد ایک اکٹھ یا اتحاد بناتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کر رہی ہیں۔ فی الحال یہ الائنسز یا اتحاد زیادہ ترعوامی اداروں یا سرکاری محکموں کی مزدور تنظیموں و ایسوسی ایشنز کے مابین تشکیل پا ئے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اس مظہر کا دائرہ کار ناگزیر طور پر نجی شعبے تک بھی پھیل جائے گا۔ مزدور اتحاد کی بڑھوتری کا یہ عمل دو طرفہ ہے۔ ایک طرف تو عوامی اداروں اور محکموں میں موجود مختلف کیٹی گری و ذیلی شعبہ جات کے محنت کشوں اور ملازمین کی نمائندہ تنظیموں نے ادارہ جاتی مشترکہ مطالبات کے گرد ادارے یا محکمے کی سطح پر مزدور اتحاد تشکیل دیے ہیں۔ اس کی چند شاندار مثالیں پاکستان ریلوے میں ریل مزدور اتحاد، محکمہ صحت میں چاروں صوبوں اور وفاق کی سطح پر بننے والے گرینڈ ہیلتھ الائنس، حال ہی میں ایپکا کے بڑے گروپس کا ایپکاپاکستان (متحدہ) کے نام سے بننے والا متحدہ محاذ، اسٹیل مل میں تشکیل پانے والی آل ایمپلائز ایکشن کمیٹی آف پاکستان اسٹیل ملز کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ 2020ء میں مختلف عوامی اداروں اور سرکاری محکموں کے محنت کشوں و ملازمین کی نمائندہ تنظیموں کے بیچ مشترکہ مطالبات کے گرد 2 بین الادارہ و محکمہ جاتی اتحاد بھی تشکیل پائے ہیں جن میں سے ایک آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) ہے جس کے زیر قیادت ملازمین و محنت کشوں نے گزشتہ سال 6 اکتوبر کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے پچھلی دو دہائیوں کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، جبکہ دوسرا آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز ولیبر تحریک ہے جس کے زیر قیادت ڈی چوک اسلام آباد میں 14 اکتوبر کو احتجاجی دھرنا ہوا تھا۔
اگر ہم ان دونوں اتحادوں پر کچھ تفصیل سے بات کریں توان میں سے اگیگا عددی اعتبار سے ایک بہت بڑا اتحاد ہے جو سنجیدگی اور تندہی کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے لیکن فی الحال یہ زیادہ تر مخصوص سرکاری محکموں و شعبہ جات کے ملازمین کی ایسوسی ایشنز (خصوصاًایپکا، ٹیچرز یونین، آفس سٹاف ایسوسی ایشنز وغیرہ) پر مشتمل ہے اور اس میں عوامی اداروں جیسے کہ ریلوے، واپڈا، پوسٹ، پی ٹی سی ایل، اسٹیل ملز، کے پی ٹی، سی اے اے، پی آئی اے، ماسوائے پمز جی ایچ اے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے باقی محکمہ صحت وغیرہ کی مزدور تنظیموں کی شمولیت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کے مطالبات بھی زیادہ تر تنخواہوں میں اضافے، تنخواہوں میں تفریق کے خاتمے، سروس سٹرکچراور اپگریڈیشن وغیرہ کے حصول تک محدود ہیں اور نجکاری، جبری برطرفیاں، ٹھیکیداری، آؤٹ سورسنگ جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کا خاتمہ ان میں شامل نہیں۔ اگیگا کی اس محدودیت کی بنیادی وجہ اس کی وائیٹ کالر قیادت کا عوامی اداروں کے محنت کشوں اور ان کی یونینز کی جانب پیشہ وارانہ وشعبہ جاتی احساس برتری پر مبنی رویہ ہے جو انہیں محنت کش کی بجائے”گورنمنٹ سرونٹ“ کی شناخت پر فخر کرنا سکھاتا ہے۔ مزید برآں اگیگا میں کچھ دائیں بازو کے رجعتی عناصر کی موجودگی بھی تشویش کا باعث ہے۔ اگرچہ یہ موجودگی محدود ہے اور فی الحال الائنس کی مجموعی پالیسیوں پر کچھ خاص اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن کسی بھی فیصلہ کن وقت میں مزدور دشمنی کی ایک لمبی تاریخ رکھنے والے یہ عناصرتحریک اور جدوجہد کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز ولیبر تحریک کی بات کریں تو یہ اگیگا کی نسبت عددی اعتبار سے کہیں چھوٹا پلیٹ فارم ہے۔ اگرچہ اس میں ایپکا، ٹیچرز یونین وغیرہ کے مختلف چھوٹے دھڑوں کے ساتھ ساتھ مختلف عوامی اداروں کی درجنوں یونینز بھی شامل ہیں مگر یہ شمولیت زیادہ تر علامتی ہے اور فی الحال میدان عمل میں اپنے آپ کو ثابت نہیں کر پائی۔ لیکن مثبت امر یہ ہے کہ اس اتحاد کا فوری مطالبات کا پروگرام اگیگا کی نسبت زیادہ وسیع اور جامع ہے۔ مگراس اتحاد میں بھی ایسی قیادتیں موجود ہیں جن کی مزدور دشمنی اور غداریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ایک عوامی ادارے کی مخصوص سیاسی پارٹی سے منسلک سی بی اے یونین قیادت ہے جو”ترقی پسندی“ کا لیبل لگا کر اتحاد کی میٹنگز اور احتجاجوں میں تو بہت بلند وبانگ دعوے کرتی نظر آتی ہے مگر حالیہ عرصے میں اپنے ادارے کی فوجی انتظامیہ کی بی ٹیم بن کرگولڈن ہینڈ شیک اسکیم (نام نہادوی ایس ایس) کو جبراً لاگو کرانے میں پیش پیش رہی ہے۔ مزید برآں ایمپلائز، پنشنرز ولیبر تحریک کی قیادت کا اگیگا کے عددی اعتبار سے کہیں بڑے پلیٹ فارم کی طرف رویہ بھی فرقہ پروری پر مبنی ہے اور یہ اگیگا کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کرنے کی بجائے، جو اگیگا پر بھی مثبت اثرات ڈالے گی، اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے پر بضد ہے جس کا تمام تر فائدہ حکومت کو ہو رہا ہے۔ جہاں تک نجی شعبے اور خصوصاً صنعتی محنت کشوں کی بات ہے تو وہ ابھی ان دونوں میں سے کسی اتحاد کا بھی حصہ نہیں ہیں۔ فی الحال اگیگا اورایمپلائز، پنشنرز ولیبر تحریک دونوں نے حکومت سے مذاکرات کی ناکامی کے بعداپنے مطالبات کے حصول کے لئے بالترتیب 10 اور 15 فروری کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنے کی کال دے رکھی ہے لیکن ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں اتحاد الگ الگ احتجاج کرنے کی بجائے مشترکہ جدوجہد کا راستہ اپنائیں تو حکومت جلد ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی۔
ہم بطور مارکس وادی بحیثیت مجموعی مزدوراتحاد کی اس تمام تر بڑھوتری کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اسے مزید تقویت پہنچانے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کرتے رہیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مزدور اتحاد کی بڑھوتری کا یہ عمل ایک سیدھی لکیر میں میکانکی انداز سے آگے نہیں بڑھے گا بلکہ اس کے راستے میں بہت سے پیچ وخم اور مشکلات بھی آئیں گی جن میں سے چند ایک کا ہم نے پہلے ذکر بھی کیا ہے۔ فی الحال تشکیل پانے والے یہ تمام الائنسز اور اکٹھ نظریاتی حوالے سے بالکل خام ہیں اور سائنسی سوشلزم کے مزدور نظریات کی جانکاری سے محروم ہیں۔ ان اتحادوں میں محنت کشوں سے کھلی غداریوں کی طویل تاریخ رکھنے والے عناصر کی موجودگی اسی نظریاتی کمزوری کا ایک اظہار ہے۔ فوری مطالبات کے پروگرام میں مزید وسعت اور جامعیت لانا تا کہ وہ محنت کشوں کی زیادہ سے زیادہ پرتوں کو ان اتحادوں کا حصہ بننے پر مائل کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ عبوری مطالبات کو پروگرام میں شامل کرنے کے حوالے سے قیادتوں کی ہچکچاہٹ اور تنگ نظری بھی مزدور نظریات سے دوری کی ہی دین ہے۔ اسی طرح بار بار محدودیت ثابت ہونے کے باوجود دھرنے دینے کے احتجاجی طریقہ کار سے قیادتوں کے مریضانہ شغف کی جڑیں بھی بنیادی طور کسی معروضی رکاوٹ کی بجائے اسی نظریاتی کمزوری سے جنم لینے والی کم ہمتی، محنت کش طبقے کی قوت پر اعتماد کے فقدان اور تنگ نظری میں پیوست ہیں۔ ایسے ہی مزدور وملازمین قیادتوں کا سرمایہ دار طبقے کی محافظ عدلیہ سے انصاف کی امید اور اسی طبقے کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں سے مدد و حمایت کی توقع رکھنا بھی مزدور تحریک کی اس نظریاتی کمزوری کا عکاس ہے حالانکہ اس معاملے میں عام محنت کش وملازمین اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے اپنی قیادتوں سے کہیں آگے کھڑے ہیں اوران سیاسی قیادتوں اور مزدور دشمن ریاستی اداروں کے کردار پر کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں۔
بلاشبہ مختلف عوامی اداروں، محکموں و صنعتوں کے محنت کشوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے رابطہ کاری کے فرائض سر انجام دینا اور مزدور اتحاد کو فوری تقویت پہنچانا ہمارا ایک اہم فریضہ ہے لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم مارکس وادی ہیں نہ کہ محض ریڈیکل ٹریڈ یونین کارکنان۔ مزدور اتحاد کی حالیہ بڑھوتری بہت خوش آئند امر ہے لیکن شدید بحران کے اس عہد میں لانگ ٹرم تو دور کی بات شارٹ ٹرم میں بھی اس کی مضبوطی اور وسعت کے لئے لازمی ہے کہ ہم مزدور تحریک کو تیزی کے ساتھ اس کی کھوئی ہوئی میراث یعنی سائنسی سوشلزم کے نظریات سے متعارف کروائیں۔ اس مقصد کے لئے محنت کشوں کے زیادہ سے زیادہ سٹڈی سرکلز اور تربیتی نشستوں کے انعقاد سے لے کر شاعری، تھیٹر اور فلم تک ہر طریقہ کار کو استعمال میں لانا ہو گا۔ اسی طرح مزدور تحریک اور خصوصاً نو تشکیل شدہ اتحادوں کوشعوری کوشش کے ذریعے فوری مطالبات کے ساتھ ساتھ عبوری مطالبات کو بھی اپنے پروگرام کا حصہ بنانے پر قائل کرنا ہو گا۔ واضح رہے کہ عبوری مطالبات اور مزدور تحریک میں سوشلسٹ نظریات کی ترویج کے درمیان قریبی تعلق ہے اور عبوری مطالبات محنت کشوں میں سوشلسٹ نظریات کے فروغ کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے ہی مزدور تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کا نعرہ ہمیں پوری قوت کے ساتھ محنت کشوں میں اتارنا ہو گا۔ معروضی حالات کے جبر کے تحت یہ اب کوئی لانگ ٹرم اسٹریٹیجک نعرہ نہیں بلکہ مزدور تحریک کی بڑھوتری کا ایک فوری تقاضا بن چکا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مفاہمتوں اور سمجھوتے بازی کے سائے میں پروان چڑھی مزدور قیادتوں کی ایک بھاری اکثریت محض میٹنگز میں ہونے والی بحثوں سے اس پر ”قائل“ نہیں ہو گی بلکہ ہمیں اس نعرے کو محنت کش طبقے میں زبان زد عام کرنا ہو گا کیونکہ نیچے سے پڑنے والا دباؤ ہی قیادتوں کو اس سمت میں آگے دھکیل سکتا ہے۔
اگر ہم مندرجہ بالا فرائض پورے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تب ہی ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم حقیقی معنوں میں بطور مارکس وادی مزدور تحریک میں کام کر رہے ہیں اورتب ہی مزدور تحریک آنے ٹکے کی لڑائی سے آگے بڑھ کراپنی اصل منزل یعنی اس دھرتی پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی جانب گامزن ہو سکے گی۔