|تحریر: کیلن کیلیگر، ترجمہ: عرفان منصور|
25 جون کی صبح، یہ اعلان ہوا ہے کہ بالآخر وکی لیکس کا بانی جولین اسانج آزاد ہو جائے گا۔ یقیناً، اس کی رہائی کے لیے تگ و دو کرنے والوں کے لیے یہ خبر باعثِ مسرت ہو گی۔ مگر ناانصافی کے اس آخری پڑاؤ میں، اسے ایک طیارے میں امریکی کنٹرول میں موجود ماریانا جزائر کے علاقے ساپان کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے جہاں وہ جاسوسی کے الزام میں اپنا جرم قبول کرے گا۔ چنانچہ امریکی سامراج، جس نے اپنے جرائم کو ننگا کر دینے پر اسانج کو کبھی معاف نہیں کیا، انتقام کا آخری وار کر رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ایک مکروہ قصہ
لمبے عرصے سے چلے آ رہے شرمناک ترین اسانج کیس کا آغاز جون 2010ء میں ہوا جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ”آزادیئ رائے“ کے تعمیر کیے گئے تمام بتوں کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسانج کی ویب سائٹ وکی لیکس نے افغانستان اور عراق میں امریکی سامراج کی مجرمانہ جنگوں کے حوالے سے چار لاکھ ستر ہزار دستاویزات شائع کیں۔ ان دستاویزات میں وہ خوفناک ویڈیو بھی شامل تھی جس میں 2007ء میں، ایک اپاچی ہیلی کاپٹر کو ریوٹرز (Reuters) کے دو صحافیوں سمیت متعدد شہریوں کو قتل کرتا ہوا دیکھا جا سکتا تھا۔
ان لیکس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قیدیوں کو ریڈ کراس کے ڈاکٹرز سے علاج کروانے سے روک کر امریکہ گوانتانامو بے جیل میں جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ ان لیکس نے امریکہ کے انسانی حقوق اور جمہوریت کے محافظ ہونے کے پرفریب جال کو تار تار کر دیا۔ بلکہ اس سے امریکی سامراج اپنے تمام تر ننگے جبر کے ساتھ بے نقاب ہوا تھا۔
اپنا غلیظ چہرہ بے نقاب ہونے پر امریکی حکمران طبقے کے لیے اسانج کو ایک عبرتناک مثال بنا دینا ضروری ہو گیا۔ انہوں نے اس جھوٹ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی کہ اسانج نے امریکی ایجنٹوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سابق امریکی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس، جیمز کلیپر نے یہ اعتراف کیا کہ وکی لیکس سے ”نقصانات کے جائزے میں کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے افغانستان اور عراق میں امریکہ کی مدد کرنے والے اثاثوں کا انکشاف ہوا ہو۔“
تاہم، واشنگٹن نے جاسوسی کے الزامات میں اسانج کو عمر قید کی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جنسی حملے کے الزامات کی بنیاد پر اسانج کے خلاف یورپی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے لیے امریکہ نے اسٹاک ہوم (Stockholm) میں بیٹھے اپنے قابل اعتماد شراکت داروں پر دباؤ ڈالا، جو بعد میں واپس لے لیے گئے۔
2012ء میں لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں اسانج کے پناہ لینے کے سبب یہ چال ناکام ہو گئی۔ لیکن 2019ء میں امریکی دباؤ میں آ کر، ایکواڈور کے صدر لینن مورینو نے اسانج کو برطانوی پولیس کے حوالے کرنے کی حامی بھر لی۔ ایکواڈور اور بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسے سفارت خانے سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔
یہ قصہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی جانب سے مسلسل ہراسانی کی مہم کو سامنے لاتا ہے جو اس ایک شخص کو سچائی کو بے نقاب کرنے کے جرم میں نشانہ بنا رہی ہے۔
ایک مثال بنائی گئی!
ہم اسانج کے مصائب کے خاتمے پر خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ کچھ حد تک ایک معمول کی زندگی گزار سکے گا۔ اس کی رہائی کو بجا طور پر ہزاروں مہم چلانے والوں کی فتح کے طور پر دیکھا جائے گا، جنہوں نے اسانج کے کیس کی سالوں تک پیروی کی، اس کی قید کے خلاف احتجاج کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
تاہم، سچ تو یہ ہے کہ بہت نقصان ہو چکا ہے۔ 12 سال کی قید کے بعد، جب وہ آخری بار پبلک کورٹ میں سامنے آیا تو وہ ایک پنجر تھا۔ اگرچہ امریکی ریاست اسے ساری عمر جیل میں سڑتے رہنے کے لیے چھوڑ دینا پسند کرتی لیکن انہوں نے اسے کامیابی کے ساتھ عبرت کی ایک مثال بنا دیا ہے۔
اسی مقصد کے تحت اور امریکہ میں جاری الیکشن کے سال کے پیشِ نظر، بائیڈن اور ٹرمپ دونوں اس خفت سے بھرپور تماشے کے ختم ہونے پر خوش ہیں۔ اسی طرح برطانوی عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی فتح تقریباً یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ نئی آنے والی انتظامیہ بھی اس کیس کے خاموشی سے ختم ہونے پر خوش ہو گی۔ ہمیں یاد ہے کہ لیبر قائد کیئر سٹارمر شاہی استغاثہ سروس کا سربراہ تھا اور اس وقت اس ادارے نے سویڈن پر دباؤ ڈالا تھا کہ اسانج کی حوالگی کا مطالبہ ترک نہ کیا جائے۔
اپنی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسانج کو ”غیر قانونی طور پر قومی دفاع کی خفیہ معلومات حاصل کرنے اور ان کو پھیلانے“ کے جرم کا اقرار کرنا ہو گا۔ یہ متفقہ رائے قائم کی گئی کہ اس نے جیل میں پہلے ہی جرم کی پاداش میں قرار واقعی سزا گزار لی ہے۔
جبکہ امریکی سامراج اور اس کے حمایتی، جو کہ اصل مجرم ہیں، اپنے خون میں رنگے ہوئے ہاتھوں یا مستقبل کے مخبروں کو روکنے کے لیے ایک شخص کی زندگی برباد کرنے کے لیے کسی قسم کا جرم قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
جنگ جاری ہے!
آخر میں پھر سے تذلیل کے لیے، اسانج کو آسٹریلیا میں گھر واپس جانے کے لیے معمول کی کمرشل فلائیٹ سے جانے سے روک دیا گیا اور اس کو پانچ لاکھ امریکی ڈالر کے عوض برطانیہ سے بحرالکاہل کے پار اپنے لیے ایک پرائیویٹ جیٹ کا انتظام کرنا پڑا۔ یعنی، قید سے آزادی ایک بہت بڑے قرض کا پروانہ بھی ساتھ لائی ہے۔
اسانج نے جن جرائم سے پردہ اٹھایا وہ کسی شخصیت کے کارنامے نہیں تھے۔ یہ سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے جرائم تھے جو ابھی تک قائم ہے اور اپنے انتقام میں آخری حدوں تک گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جب تک اس نظام کو ختم نہیں کیا جاتا، مزید کئی جنگی جرائم ہوں گے جو طفیلی حکمرانوں کے مقاصد کو پورا کریں گے۔ غزہ میں جاری ہولناک نسل کشی اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اسانج کی آزادی کی جنگ شاید ختم ہو رہی ہے مگر جن جرائم اور ناانصافیوں کو اس نے بے نقاب کیا ہے، ان کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے۔