سوال: کیا عوام کو صحت کی مفت و معیاری سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں؟
جواب: جی ہاں، بالکل فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مالی سال 2024ء میں حکومت پاکستان کی کل ٹیکس آمدن 9300 ارب روپیہ تھی جس کا ایک غالب ترین حصہ محنت کش عوام سے وصول کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں پر مشتمل تھا لیکن اس ٹیکس آمدن میں سے 8300 ارب روپے ان بیرونی و داخلی قرضوں کے اصل زر اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوئے جو نہ پاکستان کے محنت کش عوام نے لیے ہیں اور نہ ہی کبھی ان پر خرچ ہوئے ہیں۔
اسی طرح حکومت نے پچھلی ایک دہائی میں آئی پی پیز (جن میں زیادہ تر ملکی و غیر ملکی نجی پاور پلانٹ شامل ہیں) کو کپیسٹی پیمنٹس (یعنی اس بجلی کی مد میں ادائیگی جو ان آئی پی پیز نے کبھی بنائی ہی نہیں) 8344 ارب روپے کی ادائیگی کی، جو کرنٹ ڈالر ایکسچینج ریٹ پر تقریباً 30 ارب ڈالر کی خطیر رقم بنتی ہے۔
رواں مالی سال 2025ء میں بھی حکومت ان آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 2800 ارب روپے کی ادائیگی کرے گی جس کا ایک غالب حصہ نجی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں جائے گا۔
چند سال قبل 2021ء میں منظر عام پر آنے والی یو این ڈی پی کی این ایچ ڈی آر رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان سرمایہ داروں، بنکاروں، بڑے تاجروں، جاگیر داروں، جرنیلوں، ججوں، سول افسر شاہی وغیرہ کو کل ملا کر 2700 ارب روپے کی سالانہ معاشی مراعات نوازتی ہے۔ ابھی 2700 ارب روپے سے زائد کا مجموعی فوجی بجٹ (جس کا عوامی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں) اور مزید ہزاروں ارب روپیہ جو سول افسر شاہی، عدلیہ اور سیاسی حکومت کے نام نہاد رننگ اخراجات، عیاشیوں اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ ہے۔
جبکہ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو سرکاری زمین پر محض 10 ارب روپے کی لاگت سے ایک ہزار بستروں کا ایک بہترین جدید ٹرشری کئیر ٹیچنگ ہسپتال تعمیر کیا جا سکتا ہے اور ہمارے اندازے کے مطابق 500 ارب روپے سالانہ میں ملک کی تمام آبادی کو معیاری ادویات مفت فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یعنی کہ اگر اوپر بیان کی گئی لوٹ مار کا صرف 10 فیصد بھی عوام کی صحت پر خرچا جائے تو دو تین سال میں پاکستان کا نظام صحت جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا اور یہ 100 فیصد مفت ہو گا۔
اس کے علاوہ تمام نجی ہسپتالوں اور دوا ساز کمپنیوں کو عوامی ملکیت میں لینا بھی اس حوالے سے ایک لازمی اقدام ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ایسا کچھ بھی ہونا ممکن نہیں۔
اس مقصد کے لیے پاکستان کے محنت کش عوام کو ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام و ریاست کا خاتمہ کرنا ہو گا اور ایک مزدور ریاست اور ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور ان پر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول پر مبنی ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت تعمیر کرنا ہو گی جس میں پیداوار کا مقصد عوامی ضروریات کو پورا کرنا ہو گا نہ کہ منافع خوری۔
صرف ان سوشلسٹ بنیادوں پر ہی ملک کے 25 کروڑ عوام کو صحت کی مفت و معیاری سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں اور انہیں ایک صحت مند زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے۔