سوال: کیا بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ممکن ہے؟
جواب: جی ہاں، بالکل۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت نہیں بلکہ ایسا ہونا صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری کے حوالے سے درست اعداد و شمار کا شدید فقدان ہے لیکن بیروزگاری کی شدت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا رہا ہے کہ ہر سال 8 لاکھ کے قریب نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں اور ابھی اس میں وہ شامل نہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر ’ڈنکی مارنے‘ کا غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔
بعض غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 18 سے 34 سال تک کے ایک تہائی افراد بیروزگار یا نیم بیروزگار ہیں جبکہ جو بر سر روزگار ہیں وہ بھی انتہائی کم اجرتوں پر اپنی قابلیت سے کہیں کمتر درجے کی نوکریاں کر رہے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کے تحت بیروزگاری کے ناسور کا خاتمہ اس لیے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نظام کا مقصد ہی کم سے کم محنت کشوں سے کم سے کم اجرتوں پر زیادہ سے زیادہ کام لینا ہے تا کہ سرمایہ داروں کا منافع بڑھایا جا سکے۔
مزید برآں سرمایہ دار طبقے کے لیے بیروزگاروں کی فوج کے ذریعے برسر روزگار افراد پر دباؤ کو بڑھا ان کی اجرتوں کو گھٹانا اور اوقات کار کو طویل کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے اگرچہ کہ انفرادی سرمایہ داروں کی یہ تمام چالاکیاں بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کو زائد پیداوار کے بحران سے بھی دوچار کر دیتی ہیں۔ لیکن سوشلزم یا کمیونزم کے پاس بیروزگاری کا کیا حل ہے؟
مالی سال 2024ء میں حکومت پاکستان کی کل ٹیکس آمدن 9300 ارب روپیہ تھی جس کا ایک غالب ترین حصہ محنت کش عوام سے وصول کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں پر مشتمل تھا لیکن اس ٹیکس آمدن میں سے 8300 ارب روپیہ ان بیرونی و داخلی قرضوں کے اصل زر اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہوا جو نہ ہی پاکستان کے محنت کش عوام نے لیے ہیں اور نہ ہی کبھی ان پر خرچ ہوئے ہیں۔ اسی طرح حکومت نے پچھلی ایک دہائی میں آئی پی پیز (جن میں زیادہ تر ملکی و غیر ملکی نجی پاور پلانٹس شامل ہیں) کو کپیسٹی پیمنٹس (یعنی اس بجلی کی مد میں ادائیگی جو ان آئی پی پیز نے کبھی بنائی ہی نہیں) کی مد میں 8344 ارب روپے کی ادائیگی کی ہے جو کرنٹ ڈالر ایکسچینج ریٹ پر 30 ارب ڈالر کی خطیر رقم بنتی ہے۔
رواں مالی سال 2025ء میں بھی حکومت ان آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 2800 ارب روپے کی ادائیگی کرے گی جس کا ایک غالب حصہ نجی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں جائے گا۔ اسی طرح معاشی بدحالی اور بحران کا شکار عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑتے ہوئی کراچی اسٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ ملک کی 86 بڑی کارپوریٹ کمپنیوں (جس میں نجی بنک سر فہرست ہیں) نے مالی سال 2024ء میں 1700 ارب روپے کا ریکارڈ منافع کمایا اور یہ ابھی ان کے خود کے دیے گئے اعدادوشمار ہیں یعنی اصل منافع خوری تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہو گی۔
اسی طرح 2021ء میں منظر عام پر آنے والی یو این ڈی پی کی این ایچ ڈی آر رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان سرمایہ داروں، بنکاروں، بڑے تاجروں، جاگیرداروں، جرنیلوں، ججوں اور سول افسر شاہی وغیرہ کو کل ملا کر 2700 ارب روپے کی سالانہ معاشی مراعات سے نوازتی ہے۔ ابھی 2700 ارب روپے سالانہ کا مجموعی فوجی بجٹ (جس کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں) اور مزید ہزاروں ارب روپیہ جو حکومت اور ریاستی مشینری کے نام نہاد رننگ اخراجات، عیاشیوں اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ ہے۔
ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جب محنت کش طبقہ برسر اقتدار آئے گا تو وہ نجی ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے تمام ذرائع پیداوار (فیکٹریاں، بنک، پاور پلانٹ، پیداواری آلات، جاگیریں اور معدنی وسائل وغیرہ) کو اپنی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیکر سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت تعمیر کرے گا جس میں پیداوار کا مقصد سماج کی ضروریات پوری کرنا ہو گا نہ کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنا۔
اسی طرح تمام بیرونی وداخلی قرضوں کو بھی بحق عوام ضبط کر لیا جائے گا اور ان کی واپسی سے یکسر انکار کر دیا جائے گا۔ غیر ضروری فوجی اخراجات کا بھی خاتمہ کیا جائے گا اور مزدور ریاست کے دفاع کا فریضہ ایک نو تشکیل شدہ مزدور فوج (جس میں افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں اور مراعات برابر ہوں گی) اور فوجی تربیت یافتہ محنت کش عوام ادا کریں گے۔
جب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ان تمام وسائل کا رخ پانچ سالہ منصوبوں کے تحت فزیکل و سوشل انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نئی صنعتوں کے قیام کی جانب موڑا جائے گا جبکہ دوسری جانب کام کے اوقات کار کو 6 گھنٹے یومیہ تک محدود کیا جائے گاتو چند ہی سالوں میں ملک سے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کی جائے جو محنت کش طبقے، طلبہ، نوجوانوں، غریب کسانوں کو کمیونزم کے نظریات سے مسلح کرتے ہوئے انہیں منظم کرے۔