سوال: کیا عوام کو بجلی مفت فراہم کی جا سکتی ہے؟
جواب: جی ہاں، ایسا ہونا بالکل ممکن ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے پاکستان میں بجلی کے شعبے میں موجود نجی پاور کمپنیوں یعنی آئی پی پیز کا کیا کردار ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی انسٹالڈ کپیسٹی 46000 میگاواٹ ہے (جبکہ ملکی مانگ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ 31000 میگاواٹ ہوتی ہے) جس کا ایک بڑا حصہ آئی پی پیز کے پاس ہے۔ ان آئی پی پیز میں سے ایک بڑی تعداد ملکی سرمایہ دار طبقے کی ملکیت ہیں جبکہ چین بھی اس شعبے میں ایک بڑا کھلاڑی ہے۔
ان آئی پی پیز کے ساتھ حکومتِ پاکستان کے معاہدوں کے مطابق یہ نجی پاور کمپنیاں بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، یا حکومت کو ان کی بجلی کی ضرورت ہو یا نہ ہو وہ انہیں پاور پلانٹ کی کپیسٹی کی مناسبت سے ادائیگی کرنے کی پابند ہے تاکہ ان کمپنیوں کے سرمایہ دار مالکان کے منافعوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ مزید برآں یہ ادائیگیاں ڈالر کی قیمت کی ساتھ منسلک ہوتی ہیں یعنی ڈالر کی قدر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کا حجم (روپوں میں) بھی بڑھتا جاتا ہے۔ عرفِ عام میں ان ادائیگیوں کو کپیسٹی پیمنٹس کہا جاتا ہے اور یہی وہ ناسور ہے جو پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا بنیادی کارن ہے۔
یاد رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے محنت کش عوام مالی سال 2025ء میں بجلی کی جو قیمت ادا کریں گے اس کا 70 فیصد حصہ ان کپیسٹی پیمنٹس پر مشتمل ہو گا جو کہ آئی پی پیز کو ادا کیا جائے گا۔ یہ رقم 2800 ارب روپے بنتی ہے۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان پچھلی ایک دہائی میں ان آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں سکہ رائج الوقت میں تقریباً 30 ارب ڈالر کی ادائیگی کر چکی ہے جو کہ عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑ کر حاصل کیے گئے ہیں۔
مزید برآں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی ایک اور اہم وجہ ان بلوں میں شامل بھانت بھانت کے بالواسطہ ٹیکس، سرچارج اور ڈیوٹیاں ہیں جو کہ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات پر عوام کی پیٹھ پر لادے جاتے ہیں تاکہ ان قرضوں کو سود سمیت واپس کیا جا سکے جو نہ پاکستان کے محنت کش عوام نے لیے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے۔
ہم کمیونسٹ سمجھتے ہیں کہ تمام آئی پی پیز کو فوری طور پر بلا معاوضہ بحقِ عوام ضبط کر کے محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیا جانا مسئلے کے حل کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کے سامراجی قرضے ضبط کرتے ہوئے اور تمام نجی بینکوں کو ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے بجلی کے بلوں پر لگے تمام ظالمانہ ٹیکسوں کا بھی فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح ایک منصوبہ بند انداز میں بجلی کی پیداوار تیل، گیس اور کوئلے سے ہٹا کر مکمل طور پر شمسی توانائی، ونڈ پاور اور ہائیڈل پاور پر شفٹ کی جانی چاہیے اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو بھی اپ ٹو ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔ مگر یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا کرنے سے ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت اور منافع خوری کو چوٹ لگے گی۔
صرف ایک سوشلسٹ مزدور انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی کمیونسٹ حکومت اور مزدور ریاست ہی یہ تمام اقدامات کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے پہلا قدم ’آزاد‘ کشمیر کے محنت کش عوام نے اٹھا لیا ہے اور اب پورے پاکستان کے محنت کش عوام کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔