| تحریر: آصف لاشاری |
قوموں کی زندگیوں میں، ان کی سماجی، تہذیبی اور تاریخی ترقی میں تعلیم کی اہمیت کی بات ہمیں ہر جگہ سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ آج ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تعلیم کس طرح قوموں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور تعلیم کیا ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی جو یومیہ 2 ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے اپنے بچوں کو غیر معیاری تعلیم دلانے کے بھی قابل نہیں اور درمیانے طبقے کیلئے بھی اب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تعلیمی اخراجات میں اضافے جیسے دوسرے مسائل کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ 2015ء میں پاکستان میں شرح خواندگی (خواندگی کی نام نہاد تعریف کے باوجود) مزید 2 فیصد کم ہوگئی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں نجکاری کی پالیسی کو اپنایا جا رہا ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کو این جی اوز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ پنجاب حکومت پانچ ہزار پرائمری سکولو ں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بیچنے جارہی ہے جس کے بعد آبادی کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو پرائمری تک بھی نہیں پڑھا پائے گی جس سے شرح خواندگی مزید کم ہونے کی طرف جا ئے گی۔ ہائی سکولوں اور کالجوں کو بھی بتدریج پرائیویٹائز کر کے تعلیمی شعبے کی ’خدمت‘ جاری ہے۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران اپنے لوگوں کو تعلیمی روشنی سے روشناس کرانے کیلئے کتنے بے چین ہیں۔ صرف تعلیم کا شعبہ ہی نہیں پاکستان کا کوئی بھی شعبہ اٹھا کے دیکھ لیں وہ دن بدن زبوں حالی کا شکار ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ہر طرف کرپشن کا شور سنائی دیتا ہے۔ تعلیم کا کاروبار عروج پر ہے اور اس کاروبار میں اربوں کھربوں کمائے جارہے ہیں۔
دوسرے تمام ریاستی اداروں کی طرح تعلیمی اداروں کو بھی جان بوجھ کر ناکام کیا گیا اور اس طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو لوٹ مار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اور اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی بھی بنیادی عوامی مسائل کی بات نہیں کر رہی اور نہ ہی یہ امکان موجود ہے کہ مستقبل میں یہ ان مسائل کی بات کریں گے اور پھر ان مسائل کا کوئی حل ان حکمرانوں کے پاس موجود موجود بھی نہیں اورنہ ہی وہ عوامی بنیادی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
ان تمام مسائل کے علاوہ جو تعلیم سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے ہم اس تعلیم کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ تعلیم یا علم کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا اور جاننے کے عمل کو تعلیم کہا جاتاہے۔ اس سے ہمارے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا جاننا؟ کیا جو پہلے سے جانا جا چکا ہے اسی کو جاننا علم کہلاتا ہے یا معلوم (جانے گئے سے) سے غیر معلوم (نہ جانے گئے) کی طرف بڑھنا۔ علم کا مطلب جانے گئے کو یاد کرنا اور دہرانا نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے موجود علم اور حقائق کو سیکھتے ہوئے اور انہیں کل کی صورت میں جوڑتے ہوئے نئے علم کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ علم بذات خود ایک تخلیقی عمل کا نام ہے جس میں کیا سوچنا ہے نہیں بلکہ کیسے سوچنا ہے سیکھایا جاتا ہے۔ سوچنے کا عمل سوال کرنے، تجسس اور تنقید کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔
اگر ہم اس سوال پہ غور کریں کہ علم کا ماخذ کیا ہے؟ ہماری سوچ، شعور یا علم کہاں سے برآمد ہوتا ہے؟ کیا ہمارا دماغ ٹیلی فون ریسیور کی طرح کہیں اور سے پیغامات موصول کرتا ہے؟ یا ہماری سوچ ہمارے اردگرد کے مادی حالات سے جنم لیتی ہے؟ ہماری سوچ، شعور یا علم کا ماخذ ہمارے گرد پھیلی ہوئی یہ مادی کائنات ہے اور ہم اپنی حسیات کی مدد سے اپنی مادی دنیا کا ابتدائی ادراک حاصل کرتے ہیں۔ پانچ بنیادیں حسوں سے ہم اپنے گرد کی دنیا کا ادراک حاصل کرتے ہیں اور اپنے علم کے ذریعے اس ادراک کی درستگی کا پتہ چلاتے ہیں۔ انسانوں نے آج تک کی تمام ترقی اپنی عملی جدوجہد کے ذریعے اپنے ماحول کو بدلتے ہوئے اور اپنے شعور کو پروان چڑھاتے ہوئے حاصل کی ہے۔ مارکس کے بقول عمل کے بغیر علم محض ایک عالمانہ بحث ر ہ جاتی ہے۔ آج انسانوں نے اپنی حسوں کو اور زیادہ طاقتور بنانے کے لیے بہت سے آلات ایجاد کر لیے ہیں مثلا ٹیلی سکوپ یا مائکروسکوپ جو بصارت کی حس کو مزید تقویت فراہم کرتی ہے۔ اس طرح انسان نے آج جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات سے اپنے مشاہدات کو اور زیادہ طاقتور بنا لیا ہے مگر علم کا ماخذ ہماری مادی دنیا ہی ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ذہنوں سے یاد کرنے اور دہرانے کا کام لیا جاتا ہے اور سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کر کے سیکھنے یا سوچنے کا عمل ختم کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں، معلموں اور پروفیسروں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ انسانی دماغ کو ئی خالی برتن ہے اور ان کا کام اسے اپنے نام نہاد علم سے بھرنا ہے اور اس طرح سے وہ طلبہ کے ذہنوں میں اپنے سمجھ بوجھ سے عاری لیکچر ٹھونسے جاتے ہیں اور کسی بھی قسم کے سوال کو رد کرنے یا اس کو روکنے کیلئے دھونس، دھمکی یا اپنے دھونس کے اوزار (سی پی، سیشنل مارکس اور ڈنڈہ وغیرہ) استعمال کئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ طلبہ کو کم تر ہونے یا نااہل ہونے کا مسلسل احساس دلاکر ان کی توہین کی جاتی ہے۔ اور اس طرح سوال کی حوصلہ شکنی کر کے طلبہ کو سیکھنے کے عمل سے لاتعلق اور بیگانہ کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ اساتذہ خود اسی نظام کی پیداوار ہوتے ہیں اور اپنے سطحی اور غیرعملی علم کی وجہ سے طلبہ کے سوالوں کے تسلی بخش جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے اس لیے بھی وہ سوال کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی سوچنے کے عمل سے دور ہوتے ہیں اس لئے اپنے طلبہ کو بھی اس سے دور رکھتے ہیں اور اس طرح ’’جیسے پڑھے ہیں ویسے پڑھائیں گے‘‘ کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ اس تمام عمل سے تعلیم سے عدم دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور طلبہ کی اکثریت پاس ہونے کیلئے رٹے لگانے پر ہی اکتفاکرتی ہے۔ جس طرح کا تعلیمی نصاب پڑھایا جاتا ہے اس سے متعلقہ موضوع کے خلاف اکتاہٹ اور بیزاری ہی پیدا ہوتی ہے اور طلبہ کی اکثریت ان مضامین کو فضول سمجھتی ہے جن کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
اگرہم غور سے اس تمام عمل کو دیکھیں توتعلیم کے اس طرح کے غیر تخلیقی عمل سے طلبہ کو مقلد اور مطیع بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ جب طلبہ کو سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی اور اس طرح وہ سیکھنے کے عمل میں خود بطور فاعل شریک نہیں ہوتے تو وہ بے جان مفعولوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جن کا کام باصبر ہو کر فاعل استاد کو سننا ہوتا ہے جو ان کے دماغوں کو اپنے علم سے بھرنے کا کام کررہا ہوتاہے۔ اس طرح کے تعلیمی عمل سے وہ جو دوسروں کو پڑھانا چاہتے ہیں پڑھاتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع کا استعمال کر کے لوگوں کے دماغوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یوں تعلیمی اداروں میں لوگوں کو بے جان حکم ماننے والے روبوٹس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور غلام بننے اوربنانے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ جب وہ ان تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر فیکٹریوں، کارخانوں، کمپنیوں یا اداروں میں جائیں تو وہاں اپنے مالکوں کے احکام کو بجا لاسکیں۔ انسانوں کے سماجی حالات، معروض ان کے شعور پر اثرا نداز ہوتے ہیں اور اس میں تنقیدی شعور اجاگر کرتے ہوئے ان کے حالات کا درست ادراک فراہم کرتے ہیں۔ جب کوئی طالب علم روز بروز بڑھتی ہوئی فیسوں کو ادا کرنے میں مشکلات کا شکار ہوتا ہے یا بھاری بھر کم فیسیں ادا نہیں کر پاتا تو اس کے ذہن میں خود بخود اس نظام کے بارے میں، فیسوں کے اضافے کی وجوہات کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں اور اس میں تنقیدی شعور کو اجاگر کرتے ہوئے سوچنے کے عمل کو شروع کرتے ہیں۔ اس طر ح معروضی واقعات اس کے شعور پر اثر انداز ہو کر اسے حالات کا صحیح ادراک مہیا کرنے میں مدددیتے ہیں۔ آج طلبہ کی اکثریت کے ذہنوں میں اس نظام کے متعلق سوال موجود ہیں اور روز بروز طلبہ کا ان حکمرانوں سے اور ان کے نظام سے اعتبار اٹھتا چلا جا رہا ہے اور طلبہ اور استحصال زدہ عوام کی اکثریت اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب ڈھونڈ رہی ہے اور یہ انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں تک متبادل نظریات پہنچائیں، ان کے سوالات کے جوابات دیں اور انہیں اس نظام کے اند رموجود تضادات اور استحصال کوان کے سامنے بے نقاب کریں۔
تعلیم کا مقصد لوگوں کو مطیع اور مقلد بنانا نہیں بلکہ انہیں سوچنا سیکھانا ہونا چاہئے۔ چونکہ حکمران اور طاقتور طبقات کا فائدہ اکثریت کو جاہل اور بے شعور رکھنا ہوتا ہے اس لیے وہ تعلیم کو دوسرے ذرائع کی طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور لوگوں کو غلام رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ غلام داری میں زنجیریں غلاموں کے گردنوں اور پیروں میں ڈالی جاتی تھیں مگر سرمایہ داری میں وہ زنجیریں بدل کر ذہنی زنجیروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ ہم انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ ہم ان طلبہ کو، جو اپنے سوالات کے جواب تلاش کرتے پھر رہے ہیں، وہ سوچ اور نظریات فراہم کریں جس سے وہ اپنے حالات کا صحیح ادراک حاصل کر پائیں اور اپنی زنجیروں کو دیکھ سکیں۔ ایسا صرف مکالمہ بخش تعلیم کے ذریعے ممکن ہے جس میں مسائل کو سوالیہ انداز میں پیش کر کے لوگوں کو سوچنے کے عمل میں بطور فاعل شریک کیا جائے اور یہ ہی وہ طریقہ ہے جس سے لوگوں کو اس دنیا کو بدلنے کی جدوجہد میں حقیقی معنوں میں شریک کیا جاسکتا ہے۔ ایسی ہی جدوجہد کے ذریعے اس سماج میں نہ صرف کروڑوں نا خواندہ افراد کوتعلیم کا بنیادی حق دلایا جا سکتا ہے بلکہ تعلیم کا معیار بھی کہیں زیادہ بلند کیا جا سکتا ہے۔
بولنے پر پابندی سوچنے پہ تعزیریں
پاؤں میں غلامی کی آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرف آخر ہے بات چند لوگوں کی
دن ہے چند لوگوں کا رات چند لوگوں کی
اٹھ کے دردمندوں کے صبح وشام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی