|رپورٹ: منصور ارحم|
پاکستان میں ایسے وقت میں کھاد کا بحران اپنے عروج پر تھا جب گندم کی کاشت ہو رہی تھی۔ گندم کی کاشت سے تین ماہ قبل وفاقی حکومت کھاد بحران کے بارے میں جانتی تھی لیکن اس ضمن میں کسانوں کی بات نہیں سنی گئی۔ اس وقت سرکاری ڈپو سے فی شناختی کارڈ دو بوریاں کھاد کی دی جا رہی ہیں جو گندم کی کاشت کیلئے ناکافی ہیں۔ کسانوں کی لمبی لمبی قطاریں تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں دیکھی جا رہی ہیں جس کا مین سٹریم میڈیا میں بلیک آوٹ چل رہا ہے۔ گندم کی کاشت سے قبل ڈی اے پی (یہ اس وقت نائیٹروجن کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کھاد ہے) مارکیٹ سے اچانک غائب کر دی گئی اور چند ماہ کے اندر ڈی اے پی کھاد کی قیمت 4500 روپے سے بڑھ کر 9000 روپے تک پہنچ گئی اور اس سارے عرصے میں ڈی اے پی بلیک میں 4500 کی خرید کر 9800 تک فروخت کی جاتی رہی۔ ڈی اے پی کے بعد اب یوریا کھاد کے بحران نے شدت اختیار کر لی ہے۔ حکومت کی طرف سے یوریا کھاد کی فی بوری مقرر کردہ ریٹ1770 روپے ہے جبکہ یوریا مارکیٹ میں ڈھائی سے 3 ہزار روپے فی بوری فروخت کی جا رہی ہے۔
کسان ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ضلعی حکومتیں کسانوں کے پاس ذخیرہ گندم تو فوراً اٹھوا لیتی ہیں جبکہ کھاد اور گندم کے ذخیرہ اندوزوں سے آنکھ پھیر لیتی ہیں۔ مافیا کی اس لوٹ مار اور کھاد کی قیمتوں میں انتہائی اضافے کی وجہ سے غریب کسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس سال کھاد دیے بغیر یا فصل کی ضرورت سے کم کھاد استعمال کر کے فصلیں کاشت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کم کھاد یاپھر بغیر کھاد کے کاشت ہونے کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں بری طرح کمی آئے گی جو ملک بھر میں گندم کے بحران، گندم کی بلیک میں فروخت اور قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ سمجھتا ہے کہ موجودہ حکومت نے جس طرح پچھلی بار آٹے اور چینی کے بحران میں اپنے وزراء، اتحادیوں اور اپوزیشن کو نوازا تھا، اسی طرح آنے والے وقت میں کھاد کے بحران کی وجہ سے اناج کی پیدوار میں کمی اور بحران پیدا ہونے کی طرف جائے گا، اور پھر وزراء اور دیگر ریاستی حصہ داروں کو لوٹ مار کا کھلم کھلا موقع دیا جائے گا۔ پچھلی بار کے آٹے کے بحران میں پی ٹی آئی حکومت کی اے ٹی ایم جہانگیر ترین کو روس سے گندم منگوانے کا ٹھیکا دے کر اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا۔ موجودہ حکومت کی افغانستان میں موجود طالبان حکومت سے مراسم ڈھکے چھپے نہیں، ہر سال کی طرح اس بار بھی اربوں کی گندم افغانستان سمگل کی جائے گی اور ٹنوں کے حساب سے طالبان حکومت کو بطور تحفہ دی جائے گی۔ پنجاب حکومت کے وزیر صحت حنیف پتافی نے ڈی اے پی کی 75 لاکھ بوریاں اپنے گوداموں میں سٹاک کیں اور کھاد کو انتہائی مہنگے داموں کسانوں کو فروخت کر کے اربوں کمائے۔ اسی طرح وفاقی وزیر پیداوار و صنعت خسرو بختیار نے بھی، جوخود شوگر ملز کے مالک ہیں، چینی بحران میں اربوں کمائے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کا موقف ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اشرافیہ نواز ہے۔ پاکستانی کسانوں کو ہندوستانی کسانوں کی تحریک، جو کسان اتحادکی سب سے بڑی مثال ہے، سے سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے کسانوں کو بھی ملک گیر سطح پر منظم ہو کر، نجی و سرکاروں کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ کسان اتحاد کے بغیر نہ تو کسان اپنی فصلوں کے مناسب دام وصول کر سکتے ہیں نہ ہی فصل کی کاشت پہ ان ذخیرہ اندوز لٹیروں سے لڑائی جیت سکتے ہیں۔