|تحریر: یاسر ارشاد|
کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ خطے کی بعد از تقسیم تاریخ کا سب سے بڑا اور دھماکہ خیز اقدام ہے۔ آنے والے عرصے میں اپنے اثرات کے حوالے سے یہ ممکنہ طور پر تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ کہلائے گا۔ مسئلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت کو اس نے یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور ایک حوالے سے اس تنازعہ کی اب تک کی کیفیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ 5اگست 2019ءسے پہلے گزشتہ 72 سالوں کے دوران کشمیر تنازعہ کی ایک خاص حیثیت تھی جس کو پاک بھارت ساڑھے تین جنگوں ،دوطرفہ مذاکرات اور عالمی سفارتکاری سمیت کشمیر میں جاری تحریک کے مجموعی اثرات بھی تبدیل نہیں کر سکے، اس حیثیت کو بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن تبدیلی ہے جو اس پورے خطے کی سیاست، معیشت اور سفارتکاری سمیت سماج کے ہر پہلو پر دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک بالکل نئے مرحلے کا آغاز ہے لیکن اس کی نوعیت اور سمت بالکل غیر متوقع ہے جس نے زیادہ تر سیاسی حلقوں کو کنفیوز کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ اقدام زیادہ تر لوگوں کے لئے حیران کن ہے کیوں کہ مسئلہ کشمیر میں کسی پیش رفت کی توقع رکھنے والے بھی اس قسم کی تبدیلی کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ سوشل میڈیا سمیت ابلاغ کے سبھی ذرائع اس اقدام پر تند و تیز مباحثوں کے ذریعے اس کی تفہیم کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن کہیں بھی کوئی تسلی بخش وضاحت نہیں کر پا رہا۔سب سے زیادہ بانجھ پن پر مبنی مو¿قف نام نہاد بائیں بازو کا ہے جو اس کو مودی کے ہندوتوا کے نظریات یا ہندو فاشزم کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ اقدامات عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام کے زوال اور شکست و ریخت کے عمل کی پیداوار ہیںجن کو اس عمومی تبدیلی کے عمل کے تسلسل میں ہی درست طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے نامیاتی زوال کے اس تبدیل شدہ عہد کا انقلابی تحریکوں کے ابھار ، رد انقلابی خانہ جنگیوں سمیت وحشیانہ ریاستی جبر کی نئی اور پہلے سے زیادہ درندگی پر مبنی شکلوں کے ذریعے اظہار ہو رہا ہے۔دنیا کے ہر خطے میں طویل عرصے سے قائم سیاسی و سماجی توازن دھماکا خیز انداز میں ہر قسم کے واقعات کے ذریعے ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔
چند ماہ پہلے ہونے والے ہندوستان کے عام انتخابات میں مودی کی بھاری اکثریت سے فتح بھی اسی قسم کا ایک واقعہ تھا جس میں ہندوستانی سماج میں جاری تبدیلی کے عمل نے سب سے پہلے ہندوستانی سماج کی عرصے سے ایک ہی ڈگر پر چلی آنے والی سیاست کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ قنوطیت پسندوں کے لئے مودی کی انتخابی فتح سماج پر فاشزم کے تسلط کا اعلان تھا جس طرح امریکہ میں ٹرمپ کی انتخابی فتح کو اس بدبودار مخلوق نے امریکی فاشزم کی مضبوطی قرار دیا تھا لیکن در حقیقت یہ دونوں فتوحات بائیں بازوکی اصلاح پسندی کی ناکامی کے باعث دائیں بازو کی سٹیٹس کو مخالف پارٹیوں کے ذریعے موجودہ صورتحال سے نجات پانے کی عوام کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔ گزشتہ چند ماہ سے جاری سوڈان کی انقلابی تحریک اور ہانگ کانگ میں ہونے والے طوفانی انقلابی واقعات اسی سٹیٹس کو کو ایک انقلابی بغاوت کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش ہیں۔ یہ دونوں قسم کے واقعات عالمی سطح پر جاری تبدیلی کے ایک ہی عمل کا دو یکسر مختلف بلکہ الٹ طریقوں سے اظہار ہیں۔ اسی طرح یمن پر سعودی جارحیت، فلسطین پر اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بربریت، چین میں مسلمان آبادی پر چینی ریاست کی وحشیانہ ریاستی جارحیت، پاکستان میں بنیادی جمہوری آزادیوں کو وحشیانہ ریاستی جبر کے ذریعے ختم کئے جانے کے اقدامات اور بھارتی ریاست کی جانب سے کشمیر کی نیم خودمختار ریاستی حیثیت کو فوجی جبرکے ذریعے ختم کرنے کے اقدامات بھی سماج کی بنیادوں میں جاری تبدیلی کے عمل میں معیاری جست کی عکاسی ہے۔ یہ دنیا ایک دیو ہیکل تبدیلی کے عمل سے گزر کر معیاری طور پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں پرانی دنیا کے ظاہری خدوخال اگر کہیں باقی بھی ہیں تو وہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں اسی طرح اچانک تبدیل ہو جائیں گے۔ سطح پر نمودار ہونے والے یہ واقعات کتنے ہی اچانک اور غیر متوقع کیوں نہ ہوںدر حقیقت ان واقعات کو جنم دینے والے عناصر و اسباب سماج کی ظاہری سطح کے نیچے اس مقدار و معیار کو حاصل کر چکے ہیں جہاں وہ ہر قسم کے واقعات کو ایک دھماکے کے ذریعے سماج کی سطح پر نمودار کرنے کے لئے مکمل طور پر پختہ ہو چکے ہیں۔یہی وہ بنیاد ہے جس کے تسلسل میں ہی موجودہ اقدامات کی درست وضاحت ممکن ہے ۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
5 اگست 2019ءکو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک صدارتی حکم نامہ بھارت کی راجیہ سبھا یا ایوان بالا میں پیش کیا جس میں ہندستانی آئین کی شق نمبر 370 کے خاتمے کا اعلان کیا گیاتھا۔ راجیہ سبھا میں اس پر مختصر بحث و مباحثے کے بعد 61 کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے جبکہ لوک سبھا میں 67 کے مقابلے میں 367 ووٹوں سے اس کو منظور کر لیا گیا ہے ۔ ہندوستانی آئین کی شق نمبر 370 مہاراجہ کشمیر کے الحاق ہندوستان کی دستاویز کا ہی تسلسل تھا جس کے ذریعے کشمیر کو ہندوستانی وفاق میں ایک مخصوص حیثیت کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس شق کے مطابق کشمیر کی ریاست کے امور خارجہ، مواصلات اور دفاع کا انتظام و اختیار مرکزی یا وفاقی حکومت کے پاس ہو گا جبکہ باقی تمام امور کا اختیار ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے پاس ہو گا۔ اس کے ساتھ کشمیر کی ریاست کو اپنا آئین بنانے اور اپنا الگ جھنڈا رکھنے کے اختیار کے ساتھ یہ استثنا بھی حاصل تھا کہ ہندوستان کے مکمل آئین کا اطلاق کشمیر میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کا بنایا ہوا ایک اور قانون جس کو باشندہ ریاست کا قانون بھی کہا جاتا ہے ،جس کے مطابق کوئی بھی غیر کشمیری کشمیر میں زمین کی ملکیت اور سرکاری ملازمت جیسی کوئی بھی مراعات حاصل نہیں کر سکتا،کو بھی شق نمبر 35A کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا گیا اور ان آئینی شقوں میں ریاست یا مرکز دونوں ایک دوسرے کی مکمل رضامندی کے بغیر کوئی تبدیلی نہ کر سکنے کے پابند قرار دیے گئے۔لیکن اب ان شقوں کے خاتمے کے ذریعے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ایک نیم خودمختار ریاست کی حیثیت کے ساتھ ہر قسم کی داخلی خود مختاری کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کو دو انتظامی اکائیوں میں تقسیم کر کے ”Union Territory“ کا درجہ دیتے ہوئے براہ راست مرکز کے کنٹرول میں لے لیا گیا ہے۔ لداخ کو الگ مرکز کے تابع انتظامی اکائی بنایا گیا ہے جس کی کوئی اسمبلی نہیں ہو گی جبکہ جموں اور کشمیر کے علاقوں کو الگ انتظامی اکائی بنایا گیا ہے جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی لیکن دونوں علاقوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ایک لیفٹیننٹ گورنر ہی سب سے با اختیار حاکم ہو گا۔ یوں اس پورے خطے اور عالمی سطح پر گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کے بھارتی قبضے میں موجود حصے کو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کا ایک پہلو کشمیر کے حکمران طبقات کی مراعات اور اختیارات کا ہے جبکہ دوسرا پہلو کشمیر کی عوام، محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہندوستان کے وحشیانہ جبر سے آزادی کے حصول سے منسلک ہے۔ کشمیر کے حکمران طبقات کی سبھی سیاسی پارٹیاں اور گروہ اس خصوصی حیثیت کے باعث کشمیر کے داخلی معاملات اور لوٹ مار کے حوالے سے دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کے مقابلے تقریباً مکمل آزاد اور با اختیار تھے۔ یہ حکمران بھارتی ریاست کی مکمل دلالی کرتے رہے اور انہوں نے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم کے خلاف کبھی کوئی سنجیدہ احتجاج تک نہیں کیا ۔ وہ بھارتی ریاست جس نے کشمیر کو گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں کے باسیوں کے لئے ایک عقوبت خانہ بنا رکھا ہے یہ حکمران اسی بھارتی ریاست کے تنخواہ دار ملازم ہیں اور اپنی حاکمیت میں وہاں بھارتی ریاست وحشت اور بربریت کا خونی کھلواڑ کر رہی ہے۔ ان حکمرانوں کے لئے موجودہ اقدامات کا مطلب محض یہ ہے کہ ان کی اپنی مراعات اور اختیارات میں کمی ہو رہی ہے ۔ لیکن دوسری جانب خصوصی حیثیت کا حامل کشمیر بھی کشمیری عوام ،محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے عملاً ایک خصوصی اذیت گاہ، جیل اور مقتل ہی تھا جہاں ہندوستانی فوج کو کشمیریوں کے خون کے دریا بہانے، خواتین کی عصمت دری کرنے، ماورائے عدالت قتل کرنے اور پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیاروںسے ان کو بینائی سے محروم کرنے کے خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ کشمیری عوام کی اکثریت تو اس خصوصی حیثیت کے حامل کشمیر میں بھی اپنے لہو کا خراج دے کر زندہ تھی ۔ کشمیر کی حیثیت میں موجودہ تبدیلی کا درحقیقت سب سے المناک پہلو یہی ہے جس کی وضاحت کے بغیر تمام تر شور شرابہ بے معنی اور بکواس پر مبنی ہے۔ بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تحفظ فراہم کرنے والی تمام شقوں کی موجودگی کے باوجود اگر کشمیری عوام کی زندگی ایک خونریز جہنم کے مانند تھی اور اس سے نجات کی جدوجہد ایک کے بعد دوسری بغاوت کی صورت میں اپنا اظہار کرتی آئی ہے تو اس نئے ریاستی حملے سے اس صورتحال کو تو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ان شقوں کی موجودگی بھی کشمیری عوام کے لئے کسی تحفظ کا باعث نہیں تھی لیکن ان کی موجودگی کوکشمیر پر بھارتی قبضے کی عارضی نوعیت اور کشمیریوں کی ہندوستان سے الگ اپنی شناخت و پہچان کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے ان شقوںکا خاتمہ کشمیر کی الگ شناخت کو مکمل مٹانے کا جبری فیصلہ ہے جو پہلے سے موجود سامراجی جبر کی درندگی میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کا ایک تیسرا پہلو یہ تھا کہ کشمیر پر قابض دونوں سامراجی ممالک اس کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرتے تھے اگرچہ دونوں سامراجی ممالک کے حکمران طبقات اپنے زیر مقبوضہ علاقے پر اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف قانونی و اخلاقی جوازات کو استعمال کرتے آ ئے ہیں۔ کشمیر کی یہ تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت ہند و پاک دشمنی کی بنیاد تھی جس پر اس خطے کی ان سامراجی ریاستوں کے مخصوص تعلقات استوار تھے جس کو بھارتی حکومت کے موجودہ فیصلے نے ایک دھماکے سے اڑا دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک زبردست بھونچال کی مانند ہے جس نے سات دہائیوں سے قائم ایک نازک توازن کے پر خچے اڑا دیے ہیں اور پورے خطے کو ایک بالکل نئی اور انجانی کیفیت میں دھکیل دیا ہے۔ پاک بھارت جنگ و امن کے ناٹک کا سارا کھیل کشمیر کی اسی متنازعہ حیثیت پر کھیلا جاتا تھا جس کا اب خاتمہ ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس سارے کھیل کو ماضی کی طرح جاری رکھنے کی بنیادیں مسمار ہو چکی ہیں۔ سات دہائیوں سے قائم اس توازن کے خاتمے سے پورے خطے میں ایک نئے اور دھماکہ خیز عہد کا آغاز ہو چکا ہے جس میں پرانے توازن کو دوبارہ بحال کرنا تو ممکن ہی نہیں رہا لیکن کسی نئے توازن کے قائم ہو جانے کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔
کیا یہ فیصلہ پاک بھارت اتفاق رائے سے ہوا ہے؟
بھارتی ریاست کی جانب سے اچانک اس فیصلے کو مسلط کرنے سے جو غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس نے مختلف قسم کی قیاس آرائیوں اور افواہوں کی گردش کے لئے ایک سازگارماحول فراہم کیا ہے۔ان افواہوں کے پھیلنے کے پیچھے جو چیز قوت محرکہ بن رہی ہے وہ کشمیر پر قابض دونوں سامراجی ریاستوں کے باہمی تعلقات کا ماضی ہے جس کے دوران یہ تاثر پختہ یقین میں تبدیل ہو چکا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ ان دونوں ممالک کے حکمران طبقات کے درمیان کسی اتفاق رائے کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ کشمیری عوام تو اپنی تمام تر جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود ان سامراجی حکمرانوں سے خود کو اس مسئلے کا سب سے بنیادی فریق ہونا ہی نہیں تسلیم کر اسکے تھے۔ اس بنیاد پر بھارتی حکمرانوں کے موجودہ فیصلے میں پس پردہ پاکستانی حکمرانوں کی رضامندی کے شامل ہونے کو خارج از امکان قرار دینے کو زیادہ تر سیاسی و سماجی حلقے تسلیم نہیں کرتے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے کچھ واقعات کی کڑیوں کو جوڑ کر پاکستانی حکمران طبقات کی رضامندی کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں کا ایک پورا سلسلہ گردش میں ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم اور عسکری قیادت کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد جب ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرنے کا اعلان کیا تو پاکستانی حکمران طبقات او رذرائع ابلاغ نے اس کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی بنا کر پیش کیا۔ جبکہ ہندوستان کے حکومتی ذرائع نے اس پیش کش کو اس قدر درشتی سے رد کیا کہ ٹرمپ کو بھی اپنی پیشکش کو ہندوستان کی رضامندی سے مشروط قرار دینا جیسی وضاحت کرنی پڑی۔ اگر پاکستانی حکمرانوں کی سفارتی کامیابی کے اعلان اور ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے موجودہ فیصلے کو دیکھا جائے تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہندوستان نے تمام عالمی سفارتکاری ، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ہر قسم کے ضابطوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں سمیت پاکستان کے حکمرانوں کو اس کی پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ اگرچہ گزشتہ چند روز کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج کی تعیناتی اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے وادی نیلم کے علاقوں میں کی جانے والی اندھا دھند فائرنگ جیسے واقعات کسی غیر معمولی واقعے کے رونما ہونے کی جانب اشارہ ضرور کر رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس سال کے انتخابات کی مہم کے دوران بھی یہ ایک اہم نعرہ تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کریں گے جبکہ اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ اگر مودی انتخابات جیت جاتا ہے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ دی پرنٹ نامی ویب سائیٹ پر 5 اگست کو شائع ہونے والے نایانیما باسو کے ایک مضمون کا عنوان ہی اس امر کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ ہندوستان نے اس فیصلے سے قبل تمام ضروری سفارتکاری کا عمل مکمل کر لیا تھا۔ ”مودی نے گزشتہ ہفتے کے دوران اور فروری میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے کے بارے میں امریکہ کو بتا دیا تھا“ کے عنوان سے شائع ہونے والے اس مضمون میں باسو لکھتا ہے” مختلف ذرائع نے پرنٹ کو بتایا کہ امور خارجہ کے وزیر جے شنکر نے اپنے امریکی ہم منصب سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیوکو مودی حکومت کے آرٹیکل 370 اور35Aکے خاتمے کے منصوبے کے بارے میںآگاہ کیا۔ تاہم ذرائع کے مطابق، یہ پہلا موقع نہیں تھا جب امریکہ کو اس کے بارے میں مطلع کیا گیا بلکہ فروری میں پلوامہ حملے کے دو روز بعد مشیر برائے قومی دفاع اجیت دوول نے اپنے امریکی ہم منصب جان بولٹن کو ٹیلی فون پر اسی منصوبے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔“ اسی مضمون میں باسو مزید لکھتا ہے ”ذرائع کے مطابق مودی حکومت امریکہ کو ناراض کرنے کی بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتی اور اسی لئے ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت برقرار رکھنے کے تمام ضروری و حفاظتی اقدامات کئے جا چکے تھے۔“ اس مضمون کے مطابق سوموار کو وزارت خارجہ نے امریکہ، روس، چین،فرانس اوربرطانیہ کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام 15 ارکان کے نمائندوں کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ یہ تفصیلات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ جتنا بظاہر یہ فیصلہ اچانک اور یکطرفہ نظر آتا ہے اصل صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے اور خاص کر ہندوستانی حکمران طبقات نے اہم عالمی سامراجی طاقتوںکو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔ دوسری جانب پاکستانی حکمرانوں کی سفارتی کامیابیوں کی بڑھک بازی اس فیصلے کی روشنی میں انتہائی مضحکہ خیز ہو کر رہ گئی ہے اور پاکستان کی عالمی سفارتکاری میں حیثیت اور مقام بھی واضح ہو ر ہا ہے۔ اگر اس فیصلے سے امریکی حکمرانوں کے پہلے سے باخبر ہونے کو درست مان لیا جائے تو پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کے امریکی دورے اور ٹرمپ کے ثالثی کی پیشکش کرنے والے بیان سے یہ شکوک جنم لیتے ہیں کہ یا تو امریکی حکمرانوں نے پاکستانی حکمرانوں کو دھوکہ دیا ہے یا پاکستانی حکمران پس پردہ کشمیر کا سودا کر آئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکمران طبقات کی پس پردہ اس منصونے میں شامل ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے زیادہ اہمیت کا حامل سوال یہ ہے کہ اس فیصلے سے جنم لینے والی نئی صورتحال اور تبدیلی کے عمل کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ کس قسم کی تبدیلی ہے؟
بھارتی حکمران طبقات کے اس فیصلے نے اس خطے کے اسٹیٹس کو کو دھماکے سے توڑ دیا ہے اور خود اس حکمران طبقے کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں کہ ان کے اس اقدام سے آنے والے دنوں میں مزید کیا کچھ تبدیل ہو کر رہ جائے گا ۔اپنی بنیاد میں یہ ایک وحشت ناک سامراجی اقدام ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ صورتحال ماضی کے روائتی مذمتی بیانات سے آگے نکل چکی ہے۔اس اعلان کے ساتھ ہی ہند و پاک کے ریاستی ایوانوں سمیت تمام تر سیاسی حلقوں میں بحث و مباحثے کے ایک نئے سلسلے کے آغاز کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات گزشتہ 48گھنٹوں سے اس فیصلے کے حوالے سے کسی واضح موقف کو سامنے نہیں لا سکے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پیش کی جانے والی قرارداد میں آرٹیکل 370 کا ذکر تک نہیں کیا گیا جس پر حزب مخالف کی جماعتوں نے علامتی احتجاج بھی کیا لیکن حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد درحقیقت ان حکمران طبقات کی کمزوری ،بے بسی اور قابل رحم حالت کی عکاسی کر رہی ہے۔ درحقیقت بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے پاکستانی حکمران طبقات کو انتہائی اور شائد سب سے زیادہ مشکل صورتحال سے دو چار کر دیا ہے چونکہ پاکستان کے کشمیر پر روائتی موقف کا خاتمہ ہو چکا ہے اور نئی صورتحال کے خدوخال کی تفہیم کرنے اور اس کے ساتھ مطابقت رکھنے والا موقف اپنانا کوئی آسان کام نہیں رہا۔محض مذمت کرنے سے اس فیصلے کے نتائج سے پیدا ہونے والی صورتحال کو دوبارہ پرانی کیفیت میں بحال نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف جنم لینے والے متوقع رد عمل کو منظر عام پر آنے سے روکنے کے لیے وہاں ننگی فوجی آمریت مسلط کر دی گئی ہے۔ دفعہ 144کے نفاذ کے ساتھ موبائل فون اور انٹر نٹ سروس کو بند کر دیا گیا ہے جس کے باعث کشمیر کی صورتحال کا اندازہ لگانا ابھی تک مشکل ہے۔ہندوستان میں بائیں بازو کے مختلف گروہوں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیے جا رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ بھارتی کمیونسٹ پارٹیوں کے تمام تر دھڑے بھی اس اقدام کے خلاف جدو جہد کا کوئی واضح پروگرام دینے میں یکسر ناکام نظر آرہے ہیں۔اس اقدام کی مخالفت اس بنیاد پر کی جارہی ہے کہ اس تبدیلی سے بھارت کے نام نہاد مقدس آئین اور سیکو لرزم کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اوراگر آج کشمیر میں اس قسم کے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو کل مودی حکومت ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں کو بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے حاصل آزادیوں پر قدغن لگا سکتی ہے۔اس موقف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر مارے جانے والے شب خون کی مذمت کم اور اپنے تحفظ کو لاحق خطرات کا خوف زیادہ جھلکتا ہے۔ ان نام نہاد کمیونسٹوں کی سرمایہ داری کی غلاظتوں سے وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جس آئین میں ترامیم کے ذریعے کشمیر پر پہلے سے زیادہ وحشیانہ درندگی اور جبر مسلط کیا جا رہا ہے یہ اسی آئین کے تحفظ کے لئے احتجاج کر رہے ہیں اور پاکستان کے کچھ لبرلز ان احتجاجوں کی تشہیر سے اس کو بھارتی حکومت کے خلاف کوئی حقیقی جدوجہد بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہی کمیونسٹ ہیں جنہوں نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کبھی بھی کشمیریوں پر ڈھائے والے مظالم کی مخالفت نہیںکی اور نہ ہی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کبھی حمایت کی ہے۔مودی حکومت کا موجودہ اقدام در حقیقت اسی ہندوستانی قوم پرستی کی زوال پذیری کا شاخسانہ ہے جس کے تحفظ کے لیے ان نام نہاد کمیونسٹوں نے سات دہائیوں تک ہندوستانی بورژوازی کے کسی ایک یا تو دوسرے دھڑے کی دلالی کی ہے۔
اسی طرح اس فیصلے کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی نیم سرکاری قسم کے احتجاج کیے جا رہے ہیں لیکن اسی فرسودہ موقف اور نعروں کے ساتھ محض ہندوستانی قبضے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سابقہ متنازعہ حیثیت کو ختم ہونے سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں اور اگر روکا جا سکتا ہے تو کیسے؟بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام پہلے بھی بھارتی قبضے کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں بھی اُن کی یہ جدوجہد جاری رہے گی لیکن فوری طور پر اُن کی جدوجہد اس فیصلے پر عمل درآمد کو شائد نہیں روک پائے گی۔ دوسری جانب پاکستان کے حکمران طبقات کے پاس اس فیصلے کو رکوانے کی کوشش کے دو ہی طریقے ہیں پہلا یہ کہ اس فیصلہ کو روکنے کے لیے ہندوستان سے ایک جنگ کا آغاز کیا جائے اور دوسرا یہ کہ عالمی سامراجی ممالک اور نام نہاد انسانی حقوق کے علمبر دار عالمی اداروں سے ہندوستان پر دباﺅ ڈالنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔کشمیر کو ہندوستان میں ضم ہونے سے روکنے کے لیے کسی سنجیدہ اور فیصلہ کن جنگ کے امکانا ت نہ ہونے کے برابر ہیں جس کا اظہار پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم کے خطاب کے دوران ان الفاظ میں کیا گیا کہ” اگر جنگ ہوتی ہے اور ہم خون کے آخری قطرے تک بھی لڑیں گے توآخر میں اس جنگ کو کون جیتے گا؟ایسی جنگ کوئی بھی نہیں جیت سکتا“ یعنی سادہ الفاظ میں ہم معذرت خواہ ہیںکہ ہم جنگ نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب عالمی سفارتکاری کے عمل میں پاکستان کا مقام کتنا اہم ہے اس کی وضاحت کے لیے کسی لمبی چوڑی بحث کی بھی ضرورت نہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم میں بھی اگر پاکستان کے مقابلے میںہندوستان کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے تو باقی کون سا ایسا ادارہ یا سامراجی ملک ہے جوپاکستان کی خاطر ہندوستان پر اس قسم کا دباﺅ ڈال سکتا ہے اور پھر اس دباﺅ کی ہندوستان کے لیے اتنی اہمیت ہے کہ وہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر لے گا۔ اس حوالے سے پاکستانی حکمرانو ں کی تمام بڑھک بازی کہ ہم کشمیریوں کی حمایت میں ہر حد تک جا سکتے ہیں،محض اپنی خفت و شرمندگی کے تاثر کو کم کرنے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اگرچہ چین نے ہندوستان کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جس میں لداخ کے کچھ علاقوں کاچین کا حصہ ہونے کے اپنے دعوے کو بنیادی جواز بنایا ہے جبکہ کشمیر کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کو ثانوی جواز کے طور پر پیش کیا ہے لیکن چین کے اس بیان سے اس فیصلے کی واپسی ممکن نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی ریاست گزشتہ کچھ عرصے میںچین سے اپنی بڑھتی ہوئی قربت کو کم کر کے دوبارہ امریکی سامراج کی جانب جھکاﺅ میں اضافہ کر چکی ہے اسی لئے چین اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے اس لئے چین کی مخالفت کے مقاصد بھی وہ نہیں ہیں جن کی پاکستانی ریاست کو ضرورت ہے اور نہ ہی چین اتنی بڑی سفارتی و مالیاتی طاقت و اختیار کا حامل ہے کہ وہ ہندوستان کو اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکے۔ اس تمام تر کیفیت کے باوجود پاکستان کے پاس سفارتی سطح پر مدد کی اپیل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس حوالے سے اگر کشمیر کی 4 اگست 2019ءکی پوزیشن کو بحال کرنا ممکن نہیں رہا تو نئی صورتحال کی حقیقت کے تقاضے ماضی کی کیفیت سے یکسر مختلف ہو چکے ہیں۔ تبدیل شدہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا حصہ بن جانے والے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے معاملات پر بیان بازی جیسے عمل کو بھی پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا جائے گا۔ کنٹرول لائن بین الاقوامی سرحد میں تبدیل ہو جائے گی اور جلد یا بدیر اس حقیقت کو چار و ناچار تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ یہ ایک با لکل نئی صورتحال ہے جس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا اور اپنے روائتی موقف کو ترک کرنے اور اس کو نئی صورتحال سے ہم آہنگ کرنے کا عمل نہ تو آسان ہو گا اور نہ ہی پر امن بلکہ یہ عمل خود پاکستان کے اندر بہت ساری نئی تبدیلیوں اور واقعات کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ پاکستانی ریاست کے جاری داخلی بحران میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہو گیا ہے اور پاکستانی ریاست کے تشخص اور نظریاتی بنیادوں میں شدید دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور واقعات بڑے پیمانے پر پورے خطے پر اثرات مرتب کریں گے جس کے باعث عدم استحکام کا یہ عمل اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس سارے عمل میں عالمی سرمایہ داری کا زوال، دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات اور اس خطے میں جاری مختلف سامراجی طاقتوں لڑائی کی شدت جیسے عوامل اس کو مزید دھماکہ خیز بنائیں گے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی قوم پرست سیاست کی رہی سہی بنیادیں بھی مسمار ہو چکی ہیں اور نئی صورتحال کو سمجھنے کی اہلیت سے بھی عاری اس سیاست پر ہی اب پاکستانی ریاست کو اپنی مستقبل کی کشمیر پالیسی استوار کرنے کی کوشش کرنا پڑے گی اور اس عمل کا حصہ بننے والی سیاست کے تابوت میں یہ آخری کیل ثابت ہو گا۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں موجود قوم پرستی کی سیاست کرنے والے زیادہ تر دھڑے کبھی بھی پاکستان کے کشمیر پر موقف سے مکمل آزاد کوئی واضح اپنا موقف اپنانے میں کامیاب ہی نہیں ہو سکے۔ موجودہ کیفیت میں ہندوستان کے اس اقدام کی روائتی قوم پرستانہ موقف کی بنیاد پر مخالفت درحقیقت پاکستان کے حکمران طبقے کی شدید ضرورت ہے جس کو بنیاد بناتے ہوئے عالمی سطح پریہ واویلا کر سکیں کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی اکثریت اس کی مخالفت کرتی ہے اس لئے عالمی طاقتیں ہندوستان کو اس فیصلے پر عملدرآمد سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے اور کشمیر کے کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ جن کو فیسوں میں اضافے جیسے بے شمار اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لئے احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے ان کو آج انتظامیہ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اس فیصلے کے خلاف احتجاج میں لازمی شرکت کریں اور ان احتجاجوں میں کچھ قوم پرست دھڑوں نے بھی شرکت کی۔ یہ سلسلہ کچھ روز تک چل سکتا ہے لیکن ان کھوکھلی بنیادوں پر کوئی موثر احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب زیادہ تر قوم پرست یا بائیں بازو کے دھڑے اس اقدام کے خلاف جو موقف اپنا رہے ہیں اس میں اور پاکستانی حکمران طبقے کے موقف میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ ہم ہندوستانی حکمران طبقات کے اس اقدام کی بھر پور مذمت کرتے ہیں لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ محض آئین کی ان دو شقوں کی بحالی کا مطالبہ کوئی درست مطالبہ ہے۔ کیا اس مطالبے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آئین کی ان شقوں کی موجودگی میں کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ جائز تھا جو ان شقوں کے خاتمے کے بعد ناجائز ہو گیا ہے اس لئے اس کو دوبارہ کسی طرح جائز بنایا جائے؟ یہ مطالبہ کرنے والے سبھی لوگ ایسے لبرلز ہیں جو سامراجی جبر کی مذمت اور مخالفت نہیں کرتے بلکہ جبر کی ہر شکل کو نام نہاد آئینی اور جمہوری لبادوں میں مخفی رکھے جانے کے حمائتی ہیں اور کہیں بھی جب یہ جبر اپنی اصل صورت میں ننگا ہو کر سامنے آتا ہے تو یہ واویلا مچا دیتے ہیں کہ اس کو قانون کے چیتھڑوں میں لپیٹا جائے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں سب سے چھوٹا اور کم ترین مطالبہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان فوری طور پر کشمیر سے اپنی فوجوں کو باہر نکالیں۔ لیکن ان حکمران طبقات اور ان کے نظام کی زوال پذیری اور غلاظت کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو ان درندوں سے کسی بھی قسم کا مطالبہ کرنا کوئی درست اقدام نہیں ہے بلکہ اس کی بجائے اس خطے کے عوام ، محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے اس حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے جب تک اس حکمران طبقے کو اس کے نظام سمیت اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا اس وقت تک ظلم اور محکومی و محرومی کو نہیں ختم کیا جا سکتا۔ کشمیر پر جبر کی ایک نئی وحشت مسلط کی گئی جس کا خاتمہ کسی مطالبے کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ اس کے خلاف پہلے سے جاری کشمیری عوام کی جدوجہد کوصرف ایک درست انقلابی پروگرام اور حکمت عملی کے ذریعے ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ کچھ قوم پرست دھڑے پاکستان کے معاہدہ کراچی کے ذریعے گلگت بلتستان کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لینے کے عمل اور 70ءکی دہائی میں گلگت بلتستان سے باشندہ ریاست کے قانون کی منسوخی جیسے اقدامات کو رو رہے ہیں کہ ان اقدامات نے ہی ہندوستان کو موجودہ تبدیلیوں کا جواز فراہم کیا ہے یعنی اگر پاکستان نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ہندوستان موجودہ قدم نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ درحقیقت یہ موقف اسی پاکستان نواز قوم پرستی پر مبنی شعور کی پیداوار ہے جس کے مطابق نام نہاد آزاد کشمیر کو حقیقی معنوں میں آزاد تصور کیا جاتا ہے یا کم از کم ایسا ضرور سمجھا جاتا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کو پاکستانی غلامی سے نجات کی کسی فوری جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کا اولین فریضہ ہے کہ وہ پہلے بھارتی مقبوضہ حصے کو آزاد کرائیں اسی لئے یہ قوم پرست پاکستان سے شکایت کر کے اپنے نیم مردہ سیاسی ضمیر کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔ ان قوم پرستوں سے یہ پوچھا جائے کہ جب پاکستان نے یہ اقدامات کئے تھے تب آپ نے ان کی مخالفت میں کون سی تحریک چلائی تھی یا اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ اس وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو پھر بھی یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب آپ سیاسی طور پر سر گرم ہوئے تھے تب سے اب تک ان اقدامات کے خاتمے کے لئے کون سی جدوجہد کی گئی ہے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ موجودہ تبدیلی آنے والے عرصے میں اس قوم پرستی کے وجود کے جواز جیسے سوالات بھی پیدا کرے گی۔ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان سے بالکل الگ ہے اور ہماری لڑائی کا ان ممالک کے محنت کشوں سے کوئی تعلق نہیں جیسے تنگ نظر قوم پرستانہ موقف کے حامل آج خالی خلاﺅں کو بھی اس امید گھور رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی حمایت مل جائے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی بھی سیاسی اور نظریاتی بنیادیں اس دیوہیکل تبدیلی کے دباﺅ کے ذریعے درست سمتوں کی جانب آگے بڑھنے کے قوی امکانات پیدا ہوں گے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی پر پاکستان کے حمایت یافتہ ہونے کے بچے کھچے الزامات کے داغ دھل جائیں گے اور یہ ایک سامراجی جبرسے نجات کی حقیقی جدوجہد کے طور پر ہندوستان کے محنت کشوں اور عوام کے سامنے نمودار ہو گی اور اس کی طبقاتی بنیادویں زیادہ واضح ہوتی جائیں گی اور اس کے ساتھ اس کی طبقاتی جڑت اور حمایت میں بھی اضافہ ہو گا۔پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد پاکستان کے محنت کش طبقے کی نجات سے منسلک ہونے کی حقیقت بھی دیانتدار سیاسی کارکنان کے سامنے مزید واضح ہوتی جائے گی اور یہی عمل ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی ہو گا۔خطے میں طاقتوں کے بدلتے ہوئے توازن کا نتیجہ بظاہر کشمیر پر ریاستی جبر میں اضافے جیسے حالیہ اقدام کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے لیکن مستقبل میں اس کے اثرات میں بے شمار انقلا بی پیش رفتوں کے امکانات پوشیدہ ہیں۔ان انقلابی پیش رفتوں کے امکانات کو جنم دینے والا اقدام ہونے کے باوجود بھارتی حکومت کا یہ اقدام انتہائی وحشیانہ سامراجی جبر کا حامل ہے جس کی ہر صورت میں مخالفت اور مذمت کی جانی چاہیے ۔ لیکن ایک درندگی پر مبنی اقدام کی مذمت کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے اثرات کے مختلف پہلووں کا جائزہ نہ لیا جائے۔ آغاز سے انجام تک جبر و وحشت میں لتھڑا ہوا ہونے کے باوجود یہ اس خطے کی تاریخ میں شعور کو جھنجوڑنے والا ایک واقعہ ہے جو اب تک پائیدار اور مسلمہ سمجھی جانے والی بے شمار سیاسی، سماجی اور نظریاتی حقیقتوں کے وجود کو مشکوک کرنا شروع کر چکا ہے۔ دوسری جانب اس فیصلے سے ہندوستانی حکمران طبقات کشمیر کی جس جدوجہد کو مکمل طور پر مٹا دینا چاہتے ہیںان کی تمناﺅں کے برعکس یہ تحریک کشمیر کی وادیوں اور پہاڑوں سے نکل کر پورے ہندوستان کی ایک تحریک بننے کی جانب جائے گی ۔ پاکستان کی حمایت یافتہ نہ رہنے کے بعد بھی جب یہ تحریک پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ ہندوستانی سامراجی قبضے کے خلاف ابھرے گی تو اس کی للکار کو بحر ہند کے ساحلوں تک پہنچنے سے روکا نہیں جا سکے گا۔ اس اقدام کے خلاف ہندوستان کے اندر بھی نئے سوالات اور سیاسی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو بتدریج نظریاتی اور سیاسی سرگرمی کے نئے معیارات کو لازمی طور پر حاصل کرے گا۔ سب سے بنیادی سوال جو پورے برصغیر کے دیانتدار انقلابی کارکنان کے سامنے سر اٹھا چکا ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے کہیں بھی کسی بہتری کا امکان تو درکنار موجودہ صورتحال کو اسی حالت میں بر قرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ ہندوستان کی موجودہ دائیں بازو کی انتہا پسندی کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوئی بلکہ اسی سیکولر اور جمہوری بھارت کی سرمایہ داری کے زوال کی پیداوار ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کئے بغیر ہم محض ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری ماضی کے کسی نسبتاً بہتر عہد جیسی صورتحال کو واپس لا سکتے ہیں تو اس سے بڑی سیاسی جہالت اور حماقت کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان کے سبھی بائیں بازو کے دھڑے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی حماقت پر مبنی جدوجہد میں اپنی توانائیاں برباد کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ مودی کی انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کی جائے۔ اسی طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی لڑائی کو ایک انقلابی پروگرام کی بنیاد پر استوار کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں تبدیل کیا جائے۔ کشمیر کے اکثریتی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی اہمیت ان کی لئے ایک علامتی نوعیت کی تھی عملاً کشمیر کے عوام بھارتی ریاست کے جس وحشیانہ جبر و تشدد کے سائے تلے زندگی گزار رہے تھے آئین کی یہ دفعات اس جبر کی شدت میں معمولی سی کمی کرنے میں بھی کوئی کردار نہیں ادا کر سکتیں۔
ہر سر مایہ دارانہ ریاست کا آئین بنیادی طور پر حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے مابین اس ریاست میں حکمرانی کرنے کے چند متفقہ قواعد و ضوابط کی شقوں کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جس پر معمول کے حالات میں عملدرآمد کیا جاتا ہے اور جب بھی حکمرانوں کے نظام اور مفادات کو ان چند شقوں کے ذریعے تحفظ دینا ممکن نہیں رہتا تو ان کو یا تو تبدیل کر دیا جاتا ہے یا ان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ریاستی طاقت کے ننگے جبر کو عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے نہ تو ہندوستان کا اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک کا آئین کوئی ایسی مقدس چیز ہے جس کی تمام وقتوں میں پوجا کرنا لازمی ہوتا ہے اگرچہ یہ درست ہے کہ ہر ریاست کے عوام نے اپنی جدوجہدوں کے ذریعے اسی آئین کے تحت اپنے لئے کچھ بنیادی جمہوری حقوق حاصل کئے ہوتے ہیں جن کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اس خطے میں سرمایہ داری نظام جس حد تک گل سڑ چکا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے محنت کش طبقے اور محکوم اقوام کو حاصل نیم جمہوری حقوق کا تحفظ بھی اب بتدریج نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے وہ تمام سیاسی کارکنان جو کشمیر پر ہونے والے اس ظلم کے خلاف حقیقی جدوجہد کرنے کی خواہش اور جذبہ رکھتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے اس وحشیانہ سرمایہ دارانہ نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کو اپنا اولین فریضہ بنائیں۔ اسی طرح پاکستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو جو حصے کشمیر کی غلامی کے خلاف ہیں وہ پاکستان کے حکمران طبقات اور سرمایہ داری نظام کے طبقاتی بنیادوں پر سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی کو تیز تر کرنے کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ ہر جگہ اس لڑائی کے لئے بنیادی پروگرام کو پاک وہند سمیت کشمیر کے مختلف حصوں کے غلیظ حکمران طبقات اور سرمایہ داری نظام کے تمام گلے سڑے ڈھانچوں کے خلاف قومی کی بجائے محنت کشوں کی بین الاقوامیت پر مبنی طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی غلامی اور تقسیم اپنی بنیاد میں برصغیر کی مفلوج سرمایہ داری کی پیدا کردہ ہے اور جب تک پاک و ہند میں یہ غلیظ سرمائے کی لوٹ مار کا نظام باقی ہے کشمیر کے عوام سمیت برصغیر کے ڈیڑھ ارب غریب عوام کی محکومی اور مسائل کا کوئی حقیقی حل ممکن نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت کے موجودہ اقدامات اس بات کی جانب واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ اس نظام کے زوال میں اضافے کے ساتھ اس کی وحشتوں میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان وحشتوں اور ہر قسم کی قومی محرومی اورسامراجی جبر سے نجات کے وسیع تر امکانات بھی جنم لیں گے جن کو حقیقت کا روپ دینا آج کی نوجوان نسل کا تاریخی فریضہ ہے۔