(یہ انٹرویو انقلابی کمیونسٹ پارٹی حیدرآباد کی جانب سے”آرٹ آن دی اسٹریٹس“ کے انعقاد کے موقع پر نوجوان آرٹسٹ ثاقب راجپر سے کیا گیا ہے۔)
آپکا نام کیا ہے؟
میرا نام ثاقب ہے۔ میں آرٹ اینڈ ڈایزئن میں سندھ یونیورسٹی کا طالب علم ہوں۔ اور میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کو ”آرٹ آن دی اسٹریٹ“ جیسے فن دوست پروگرام منعقد کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس عزم کے ساتھ کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہر ایسے پروگرام میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
آپکے نزدیک آرٹ کیا ہے؟
آرٹ بنیادی طور پر انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ پر یہ ایک تھکے ہارے اور انسان کی خوشی یا یوں کہیے کہ جمالیاتی حِس کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے۔
آپکے خیال میں آرٹ کیوں ضروری ہے؟
جیسے میں نے کہا تھا آرٹ جذبات و احساسات سمیت جمالیاتی حس کی تسکین کا ذریعہ ہے، لہٰذا میرے خیال میں اسی لیے ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ سمجھنا بھی چاہیے کہ آج کے دور میں انسان روبوٹ، مشین یا حیوان والی زندگی گزار رہا ہے جسے کسی لطیف احساس کیلئے فرصت نہیں۔ اس لیے بھی آرٹ ضروری ہے کہ وہ انسان کو انسان بناتا ہے نہ کہ مشین یا روبوٹ۔ پر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا اور آرٹ لوگوں کی پہنچ سے دور ہے اسی لیے سماج میں عجیب سا عالم ہے۔
آرٹ لوگوں کی رسائی سے کیوں دور ہے؟
کمرشلائزنشن کے سبب۔۔ مگر ظاہر ہے اس سسٹم میں آرٹسٹوں کیلئے بھی کوئی روزگار وغیرہ نہیں لہٰذا ان کا ذریعہ معاش یہی ہے۔ پر ساتھ ہی میں سمجھتا ہو ں کہ یہ آرٹ کی روح کا قتل ہے۔ اس سے آرٹ محض چند لوگوں کی غلامی یا ان کو راضی کرنے کیلئے تو ہو سکتا ہے، مگر انسانی جذبات و احساسات کی نمائندگی کا طریقہ نہیں۔ لہٰذا آرٹ عوام کیلئے ہونا چاہیے۔
بحیثیت آرٹسٹ آپکا کوئی پیغام؟
جی بحیثیت انسان اور بحیثیت آرٹسٹ میں انسانی جانوں پر ظلم کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔ اور تمام فنکاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کیلئے اپنی آواز بلند کریں۔