|منجانب: لال سلام، پاکستان سیکشن‘ عالمی مارکسی رجحان|
پاکستان کی سامراجی ریاست گلگت بلتستان کی عوامی تحریک سے خوفزدہ ہو کر انتقامی کاروائیوں میں شدت لے آئی ہے۔ تحریک کو مذہبی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے اس نے اپنے کارندے متحرک کر دیے ہیں اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی مذہبی منافرت کا زہر ایک دفعہ پھر پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ اس ملک میں رہنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ مذہبی دہشت گردی کیخلاف کاروائی کا ناٹک کرنے والی یہ ریاست درحقیقت خود مذہبی دہشت گردی کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں دہشت گردوں کی ریاستی پشت پناہی اور ریاستی جبر کے خلاف پشتون عوام کی احتجاجی تحریک ابھری ہے۔ بہت سی عدالتی کاروائیوں میں بھی اب ثابت ہو چکا ہے کہ ملک میں ہونے والے بم دھماکے اسی ریاست کے اہم حصے کرواتے ہیں۔ اب یہ عمل گلگت بلتستان میں شروع کر دیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان کے بائیں بازو کے معروف عوامی رہنما کامریڈ احسان علی ایڈووکیٹ کو اتوار کی شب گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے فوری بعد انہیں 14دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ گرفتاری کی وجہ سوشل میڈیا پر ان کا ایک پوسٹ کو شئیر کرنا بتایا جا رہا ہے، جو ایران میں جابر ملا حکومت کے خلاف ابھرنے والی حالیہ تحریک کے دوران منظر عام پر آئی تھی۔ اس پوسٹ کو بنیاد بناتے ہوئے احسان ایڈووکیٹ کیخلاف سوشل میڈیا پر مذہب مخالف پروپیگنڈا کا الزام لگایاگیا، جس پر بعد ازاں احسان ایڈووکیٹ نے وہ پوسٹ سوشل میڈیا سے ہٹا دی اور اس کے بعد ناصرف اس پوسٹ کو شیئر کرنے کی وضاحت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر اس پوسٹ سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ اس کے لئے معذرت خواہ ہیں۔ جس کے بعد سوشل میڈیا سے پروپیگنڈے کا سلسلہ تو ختم ہو گیا لیکن گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعور اور سیاسی عمل سے خوفزدہ عناصر نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینے کی بجائے اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ٹھان لی اور اس کے بعد ناصرف احسان ایڈووکیٹ کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں بلکہ ان کیخلاف گلگت میں وال چاکنگ کی جانے لگی اور اسی اثنا میں ان کی گرفتاری کے لئے پولیس کو درخواست بھی دی گئی۔ احسان ایڈووکیٹ کی گرفتاری کی وجہ بھی اسی درخواست کو بتایا جا رہا ہے۔
احسان علی ایڈوکیٹ کون ہیں؟
کامریڈ احسان ایڈووکیٹ سپریم اپیلٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور گلگت بلتستان کی مشہور سماجی و سیاسی شخصیت ہیں۔ اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی بائیں بازو کی تحریک کے ساتھ منسلک ہیں اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب نام نہاد بائیں بازو نے اپنا قبلہ و کعبہ تبدیل کیا اور ایک بڑی اکثریت لبرلزم یا این جی اوز کی غلاظت میں غرق ہوئی، احسان ایڈووکیٹ نے مارکسزم کے نظریات سے اپنا تعلق ناصرف استوار رکھا بلکہ جدوجہد بھی جاری رکھی۔ آج بھی وہ بطور ٹراٹسکائیٹ، بائیں بازو میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ یوں تو ریاست کے خلاف ان کی جدوجہد کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن 2014ء میں گندم پر سبسڈی کے خاتمے کیخلاف گلگت بلتستان میں شدید غم و غصے کی لہر ابھری اور اس کیفیت میں گلگت بلتستان کے عوام کو حکمرانوں کے ان ہتھکنڈوں کیخلاف سیاسی جدوجہد میں منظم کرنے میں احسان ایڈووکیٹ کا کلیدی کردار تھا۔
آج احسان ایڈووکیٹ پر مذہبی منافرت پھیلانے کا غلیظ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے لیکن ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ 2014ء سے قبل ایک طویل وقت سے گلگت بلتستان کے عوام پر ریاست کی طرف سے مسلط کی گئی مذہبی منافرت کی وجہ سے ایک ہی شہر کے مختلف علاقوں کے افراد کے لئے دوسرے مخصوص علاقوں میں داخلہ ممنوع تھا۔ نوگو ایریاز بنا دیئے گئے تھے۔ اسی بنیاد پر سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا۔ افراد کی پہچان ان کی مذہبی وابستگیوں کی بنیاد پر کی جا رہی تھی اور اسی بنیاد پر عوام کو تقسیم کر کے ان کے حقوق غصب کئے جا رہے تھے۔ ایسے حالات میں مذہبی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے حقوق کے لئے سیاسی جدوجہد کا علم بلند کرنے والا انسان یہی احسان علی ایڈووکیٹ تھا۔ انہی کی کاوش کے نتیجے میں عوام کا مشترکہ پلیٹ فارم ’’عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ کے نام سے تشکیل دیا گیا اور جب تمام تر تقسیموں سے بالاتر ہو کر گلگت بلتستان کے عوام اپنے حقوق کے دفاع میں نکلے تو کامیابی نے ان کے قدم چومے تھے۔ گلگت بلتستان، جہاں پر دہائیوں سے عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، احسان ایڈووکیٹ کو ہمیشہ محروم و محکوم انسانوں نے اپنی انفرادی یا اجتماعی جدوجہد میں اپنے ساتھ پایا ہے۔
پس پردہ حقائق
2014ء میں ابھرنے والی عوامی تحریک نے گلگت بلتستان میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ اس تحریک کی کامیابی نے عوام کو باور کروایا کہ اپنے حقوق کے لئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر سیاسی لڑائی لڑتے ہوئے اپنی مانگیں منوائی جا سکتی ہیں۔ اس تحریک کے بعد ہمیں گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تضادات اور واقعات کا خاتمہ ہوتے ہوئے نظر آتا ہے اور اس کے بعد مختلف عوامی ایشوز پر سیاسی سرگرمیاں ابھرتے نظر آئیں۔ حال ہی میں ٹیکسوں کے خلاف ابھرنے والی تحریک بھی عوام کے بلند ہوتے سیاسی شعور کی اہم مثال ہے۔ اس سارے عمل میں ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی گئی تقسیم کو عوام نے رد کر دیا ہے اور عوام نے اب مزید اس گھٹن میں زندگی گزارنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن جہاں اس فرقہ واریت کا براہ راست فائدہ اس ریاست اور اس کے اداروں کو ہو رہا تھا وہیں پراس مذہبی فرقہ واریت کے عمل کے گرد مخصوص گروہ پروان چڑھے جن کے اس کے ساتھ مالی مفادات وابستہ ہیں۔ جیسے ہی عوام نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو ریاست، اس کے اداروں اور ان مخصوص گروہوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچنا شروع ہو گئی، جس کی وجہ سے عوامی مسائل پر آواز اٹھانے والے تمام تر سیاسی افراد ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتے چلے گئے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ریاست گلگت بلتستان میں عوامی حقوق کے گرد ابھرنے والی آوازوں کو بہرصورت خاموش کروانے کی سعی میں مصروف رہی ہے، چاہے وہ آواز کتنی ہی نحیف کیوں نہ ہو۔ اس ضمن میں بابا جان، حسنین رمل اور دیگر بہت سے افراد کی مثالیں دی جا سکتی ہیں، اول الذکر عطا آباد جھیل کے متاثرین کی بحالی کے لئے جدوجہد کر رہا تھا اور آخرالذکر ایک ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ تھا۔ یہی نہیں بلکہ عوامی ایکشن کمیٹی نے جب احتجاجوں کا سلسلہ شروع کیا اس کی قیادت کیخلاف غداری اور بیرونی ایجنٹ ہونے کے مقدمات بنائے گئے۔ حال ہی میں ابھرنے والی ٹیکس مخالف تحریک کی قیادت کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات بنائے گئے ہیں، گو کہ اس قیادت میں زیادہ تر افراد مختلف پارٹیوں کی ٹکٹوں پر الیکشن لڑنے والے سیاسی افراد یا مختلف مذہبی رہنما تھے جو اس ریاست کے قابل قبول یا آزمائے ہوئے افراد ہیں۔
احسان ایڈووکیٹ کی شہرت اور مقبولیت کی وجہ سے یہ ریاست اور اس کے پروردہ مذہبی گروہ ان کے خلاف اس سے قبل کوئی اقدام کرنے سے باز رہے لیکن ایران کی عوامی تحریک کی شدت سے بوکھلا کرانہوں نے اپنا وار اس عوامی لیڈر پرکیا ہے جو کہ ہمیشہ سے ریاست کا ایک گھناؤنا طریقہ کار رہا ہے۔
کامریڈ احسان کی گرفتاری ۔۔۔ نامنظور!
گرفتاریاں، اغوا، ماورائے عدالت قتل، مسخ شدہ لاشیں اور اسی جیسے دیگر اقدامات اس ریاست کے وہ کالے کرتوت ہیں جو اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ جوں جوں ریاست کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، یہ ریاست مزید وحشی ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ، چین اور دیگر سامراجی آقاؤں کی گماشتہ یہ ریاست بنیادی حقوق کو غصب کرنے میں وسیع تجربہ رکھتی ہے لیکن ان حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ بھی اس کا خاصہ ہے۔ پاکستان کے باقی صوبوں میں اس کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف کس طرح لڑا جا سکتا ہے۔ لینن کے بقول ’’ریاست نجی ملکیت کے تحفظ کے لئے مسلح افراد کا جتھا ہے‘‘ اور اپنے مسلح اداروں کے ذریعے عوام کو کچلنا ریاست کا اولین فریضہ بھی ہے۔ لیکن ان ہتھکنڈوں کے خلاف ایک منظم سیاسی لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ احسان ایڈووکیٹ اور ان جیسے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کیخلاف ایک مشترکہ لڑائی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ناصرف گلگت بلتستان میں بلند سیاسی شعور رکھنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس اقدام کے خلاف متحد کرنا ہو گا بلکہ پورے پاکستان میں ریاست کے اس گھناؤنے کھیل کیخلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔ پاکستانی ریاست مختلف علاقوں میں ابھرنے والی تحریکوں کو باقی علاقوں سے کاٹنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ ایسے میں ہمارا فریضہ ہے کہ ان تحریکوں کو پاکستان کے پسے ہوئے محروم طبقات تک پہنچاتے ہوئے اپنی لڑائی کو منظم کریں۔ ہمارے طبقے کا تحفظ اس ریاست کے ادارے؛ فوج، پولیس اور عدلیہ وغیرہ، نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کا تحفظ ہماری طبقاتی جڑت میں ہی پنہاں ہے۔
لال سلام؛عالمی مارکسی رجحان کا پاکستان سیکشن؛ احسان ایڈووکیٹ کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملک کے تمام محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ظلم و جبر کیخلاف آواز بلند کریں۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے دفاع کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں کے محنت کشوں کو بھی ایسے ہی مسائل در پیش ہیں۔ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور حکمرانوں کے دیگر حملوں سے ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی کا سیلاب آ چکا ہے۔ اس لیے ہمیں ان تمام لڑائیوں کو یکجا کرنا ہے اور اس حکمران طبقے کی تمام انتقامی کاروائیوں کو شکست دینی ہے جس کے ذریعے وہ عوامی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو ہر جگہ نشانہ بناتے ہیں۔ گوادر سے لے کر گلگت تک ملک کے طول و عرض میں بکھری ہوئی ان لڑائیوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کر کے ہی ہم ان خونی حکمرانوں اور ان کے پالتو مذہبی جنونی دہشت گردوں اور ان کے سامراجی آقاؤں کو شکست فاش دے سکتے ہیں۔
کامریڈ احسان کی گرفتاری۔۔۔ نامنظور!
کامریڈ احسان کو فوری رہا اور تمام تر مقدمات ختم کرو!
ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں بند کرو!
محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کی تشکیل کے لئے آگے بڑھو!
متعلقہ: گلگت بلتستان میں تحریک: چٹانوں کی کوکھ سے ابھرتا طوفان!