|تحریر: خالد ملاچی، ترجمہ: جویریہ ملک|
یوکرین میں تاحال جنگ جاری ہے، جہاں امریکی اور برطانوی سامراج اپنے مفادات کے لیے تنازعہ کو طول دے رہے ہیں۔ جبکہ ہتھیار بنانے والی کمپنیاں خوب منافعے کمانے میں مصروف ہیں۔ جنگ کی ہولناکیوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے لڑنا ہوگا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یوکرین میں جنگ نے عسکریت پسندی کی لہر کو جنم دیا ہے۔ مغربی سامراجیوں نے یوکرین کو فوجی سازوسامان بھیجنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اور ’دفاعی‘ اخراجات نیٹو کے تمام ممالک میں بڑھ گئے ہیں، خاص طور پر جرمنی میں۔
نتیجتاً، تباہی کے اس ماحول میں، اسلحہ ساز کمپنیوں نے ڈالروں میں اندھادھند منافع کمانے کی لاٹری جیت لی ہے۔
تنازعہ شروع ہونے پر برطانیہ کے بی اے ای سسٹمز کے حصص 4.8 فیصد کے اضافے کے ساتھ ایک سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ امریکی دفاعی کمپنیاں لاک ہیڈ مارٹن اور ریتھیون، بالترتیب زمین سے فضا میں جانے والے سٹنگر میزائل اور F-35 لڑاکا جیٹ بنانے والے، کے حصص کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
جنگ سے پہلے ہی موت اور تباہی کے یہ کارخانہ دار اپنے منافوں میں اضافے کر رہے تھے۔ جب عالمی معیشت کرونا کے وبائی مرض کے دوران سکڑ گئی، تو اس وقت یعنی 2020ء میں ہتھیاروں کی صنعت کا منافع 531 ارب ڈالر کی بلند سطح پر پہنچ گیا۔
یورپی ممالک کے آنے والے سالوں کے لیے فوجی اخراجات میں 170 ارب پاؤنڈ کے اضافے کے وعدے کیے ہیں، جس کے نتیجے میں یقیناً اسلحہ ساز کمنیوں کے منافعوں میں مزید ہوشربا اضافہ ہوگا۔
امریکہ یوکرین کو 6500 جیولین اینٹی ٹینک میزائل بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ ریتھیون اور لوک ہیڈ مارٹن کی طرف سے تیار کردہ اس ایک میزائل کی قیمت 66 ہزار پاؤنڈہے، علاوہ ازیں لانچر کی اضافی قیمت 85 ہزار پاؤنڈ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے 5 ہزار سے زیادہ نیکسٹ جنریشن لائٹ اینٹی ٹینک ہتھیار عطیہ کیے ہیں، جو بیلفاسٹ میں فرانسیسی دفاعی کمپنی تھیلس تیار کرتی ہے۔ ایک ہتھیار کی قیمت تقریباً 30 ہزار پاؤنڈ ہے۔
دوسرے الفاظ میں، جہاں مغربی سامراج روس کے ساتھ اپنی پراکسی جنگ یوکرین کے خون کے آخری قطرے تک لڑے گا، وہیں منافع خوری کرنے والی اسلحہ ساز کمپنیاں عیاشی کریں گی۔
بم سے محبت
جہاں دنیا بھر کے کروڑوں لوگ یوکرین کے بحران کو تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، وہیں اسلحہ ساز کمپنیاں اسے اپنی منافع خوری کے ایک زبردست موقع کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔
یہ شاید ہی حیرت کا باعث ہو۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ریتھیون کے سی ای او گریگ ہیس نے ”مشرقی یورپ میں تناؤ“ کا حوالہ دیا جس سے کمپنی کو فائدہ ہوگا۔
اسی طرح لاک ہیڈ مارٹن کے سی ای او جم ٹیکلیٹ نے تبصرہ کیا کہ ”ایک نیا عظیم طاقت کا مقابلہ“ (پڑھیں: سامراجی ممالک کے درمیان تناؤ) کاروبار کے لیے اچھا ثابت ہوگا۔
جب سے یوکرین جنگ شروع ہوئی ہے ان بدمعاشوں سے خوشی نہیں چھپائی جا رہی۔ سچے اورویلیائی انداز میں، مغربی سیاست دانوں نے ہمیں منظم طریقے سے یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ جنگی مشین کو ایندھن دینے سے امن آئے گا۔
بائیڈن کے لاک ہیڈ مارٹن فیکٹری میں موجود لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ آزادی کی جنگ میں مدد کر رہے ہیں، پی آر ٹرپ سے لے کر، بیلفاسٹ میں تھیلس ہتھیاروں کے کارخانے میں بورس کی جارحانہ تصویر کشی تک: ہمیں ہمارے حکمران طبقے کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ جنگ کی فکر کرنا چھوڑ دیں، اور بم سے محبت کرنا سیکھیں۔
تاہم صرف یوکرین کی جنگ ہی ہتھیاروں کی مانگ کو نہیں بڑھا رہی۔ دنیا بھر میں مختلف حکومتوں کی جانب سے فوجی اخراجات میں اضافے سے ہتھیاروں کے شیئر ہولڈرز کے منافعوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔
مثال کے طور پر مودی حکومت کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے بورس جانسن نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا۔ روس کے ہتھیاروں میں کمزوریوں سمیت روسی پیش قدمیوں کی ’ناکامیوں‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے، برطانوی وزیر اعظم نے برطانیہ کے اسلحہ سازوں جیسے کہ بی اے ای سسٹمز اور رولز رائس کے فوجی سازوسامان کی تعریف کی۔
ؒلہٰذا بورس سمجھتا ہے کہ اگر کوئی کاروبار چل رہا ہے تو پھر وہ برطانوی کاروبار ہی ہونا چاہئیے۔ سامراجیوں کے گھٹیا پن کی کوئی حد نہیں۔
ٹوری پارٹی کے عزائم
پہلے پہل، جنگ کا خلفشار پریشان وزیراعظم کے لیے حیرت انگیز کام کرتا دکھائی دیا۔ لیکن اب بنیادی طور پر ان کے اندرونی مخالفین اس جہت پسندی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ٹوری ایم پیز کے درمیان حالیہ اعتماد کے ووٹ میں جانسن کی پیرک کی جیت کے بعد۔ قیادت کے ممکنہ چیلنجرز اپنے کیریئر کے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے تنازعہ کو استعمال کر رہے ہیں۔
جنگ نہ صرف مالکان کے لیے منافع پیدا کر رہی ہے بلکہ ٹوری لیڈر کے مخالفین کی بنیادیں بھی مظبوط کر رہی ہے۔ وہ لوگ جو پیوٹن کے روس کے خلاف ’سب سے مشکل‘ لائن اختیار کرنے کے خواہاں ہیں اور ’برطانیہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘ کا وعدہ کرتے ہیں، عوامی نظروں میں اچھی جگہ کھڑے ہیں۔
ٹوری کے ڈیفنس سیکرٹری بین والیس بڑھتی ہوئی ”خطرناک“ عالمی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں اضافے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اسی طرح، خارجہ سیکرٹری لِز ٹرس، ایک اور قیادت کے امیدوار، نے دلیل دی ہے کہ نیٹو کا 2 فیصد دفاعی اخراجات کا ہدف ”بنیادی، نہ کہ منزل“ ہونا چاہیے۔
دوسری طرف، ٹام ٹوگینڈہاٹ اور ٹوبیاس ایل ووڈ، فوجی پس منظر رکھنے والے ٹوری پارٹی کے ایم پیز کے امیدوار، دونوں نے رائے دی ہے کہ اس پراکسی جنگ میں مزید سرمایہ شامل ہونا ضروری ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان جنگجوؤں کا محرک انسانیت نہیں ہے۔ بلکہ وہ بین الاقوامی سٹیج پر ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر برطانوی سامراج کو دوبارہ قائم کرنے کے پُرفریب تصورات سے؛ اور واشنگٹن کے لیے وفادار پالتو کتے کا کردار ادا کرنے کی خواہش پر اپنے کیرئیراسٹ مفادات سے کارفرما ہیں۔
دیوہیکل ضیاع
جنگ نے مہنگائی کو بڑھاوا دیا ہے اور لاکھوں خاندانوں کو غربت کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ٹوری پارٹی اپنے مفادات کے لیے جنگ کو طول دینے میں فعال طور پر مدد کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے گھرانوں کو درپیش زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
برطانیہ نے اب تک یوکرین کی فوجی مدد کے لیے1.3 ارب پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ اس تماشے کو جوش و خروش کے بجائے مایوسی کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ یہ پیسے اور وسائل کا زبردست ضیاع ہے۔
لوگ بجا طور پر ناراض ہیں کہ عوام کا پیسہ اسلحے کے کاروبار میں جھونکا جا رہا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ معاشرے میں مہذب رہائش، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر بہت کچھ کے لیے رقم موجود ہے۔ یہ محض غلط ہاتھوں میں ہے۔
لیکن برطانوی سامراج کے نقطہ نظر سے یہ پیسہ اچھی طرح سے خرچ کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت برطانوی حکمرانوں کے نزدیک ضیاع یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے، امریکی سامراج کو اپنی جونیئر پارٹنرشپ کی اسناد ثابت کرنے اور برطانوی اسلحہ ساز کمپنیوں کے لیے منافع کمانے کا اتنا شاندار موقع ضائع کر دیا جائے۔
سرمایہ داری اور جنگ
ہمیں ان بدمعاشوں سے اس کے علاوہ کوئی امید رکھنی بھی نہیں چاہئیے۔ ٹوری پارٹی پر کسی قسم کا اخلاقی دباؤ بھی انہیں منافع خوری کو روکنے یا جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے سے باز نہیں رکھ سکے گا۔
بہرحال ان کے وجود کا مقصد ہی برطانوی سرمایہ داروں کے منافعے اور مفادات کا تحفظ اوراس نظام کا دفاع اور نمائندگی کرنا ہے جو جنگ اور اس کی تمام ہولناکیوں کا ذمہ دار ہے۔
یوکرین میں تنازعہ بنیادی طور پرمختلف سامراجی طاقتوں کے درمیان ایک پراکسی جنگ ہے، یعنی کہ سرمایہ دارانہ ممالک کے اقتدار، وقار اور منافع کے حصول کی لڑائی۔
جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی: ہاں، جنگ خوفناک ہے؛ خوفناک طور پر منافع بخش۔ جنگی تباہی اور اس کے ساتھ ہونے والی بے شرم منافع خوری کو ختم کرنے کے لیے ہمیں منظم ہو کر اس نظام کے خاتمے کے لیے لڑنا ہوگا جو اس سب کو جنم دیتا ہے، یعنی سرمایہ داری۔