|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: زین العابدین|
25 ستمبر 2018ء کو ہونے والی عام ہڑتال نے ارجنٹائن کی معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔محنت کش طبقے کی بہت بڑی طاقت کے مظاہرے میں ،پبلک ٹرانسپورٹ ،اسکول ،یونیورسٹیاں بند ہو کر رہ گئے، جبکہ اس دوران دوسرے ادارے، بینک بھی بند تھے اور صنعت بھی مفلوج تھی۔ یہ سب(عام ہڑتال) ایک ایسے وقت میں ہوا جب ارجنٹائن کا صدر ماکری آئی ایم ایف سے ایک بڑے بیل آؤٹ پیکیج اور رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش میں امریکہ کے دورے پر تھا۔
دسمبر 2015ء سے ماکری کے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک کی یہ چوتھی عام ہڑتال ہے جس نے حکومت کی معاشی پالیسی اور معاشی بحران کے محنت کش طبقے پر پڑنے والے اثرات کے خلاف پنپتے غم و غصہ کو مکمل طور پر عیاں کر کے رکھ دیا ہے۔ ارجنٹائن میں افراط زر 42 فی صد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے، بے روز گاری تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ شرح سود کو 60 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے، ملک کا قرضہ کل GDP کے ستر فی صد تک پہنچ چکا ہے ، ارجنٹائنی کرنسی 18 پیسو سے 40 پیسو فی ڈالر تک گر چکی ہے، اور تمام اعشارے کرنسی کی قدر میں مزید گراوٹ کی ہی نوید سنا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی طرف سے جون میں ملنے والے 50بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کا نتیجہ بڑے پیمانے پر صحت، تعلیم اور دیگر فلاح عامہ کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں اور بجلی کی قیمت میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ سب اس سے قبل ماکری حکومت کی جانب سے لاگو کی گئی مزدور دشمن معاشی اور سماجی پالیسیوں سے ہٹ کر ہے جن میں پنشن اور مزدور قوانین میں رد اصلاحات کی گئیں۔
ہزاروں محنت کش اور غریب گھرانے یکسر برباد ہو چکے ہیں، لوگ کچرے میں سے کھانے کی اشیا تلاش کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کئی خاندان بجلی کی سہولت سے محروم ہوچکے ہیں کیونکہ وہ بل ادا کرنے سے قاصر ہیں اور ایک ایسے ملک میں 20فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جس کی غذائی پیداوار تمام باسیوں کے لیے کافی ہے۔
بڑھتا دباؤ
تین سال قبل ماکری کی Cambiemos حکومت کے انتخابات جیت کر اقتدار میں آنے کے وقت سے ہی عوامی دباؤ مجتمع ہو رہا تھا جب انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی مزدور وں کے حقوق اور حالات پر کھلے حملے کا آغاز کیا۔ اب آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج اس پریشر ککر کو پھاڑنے کا سبب بن سکتا ہے جو کہ محنت کش عوام کے دکھوں اور اذیتوں میں مزید اضافہ کر رہا ہے تاکہ سرمایہ دار گِدھوں کے قرضے واپس کیے جا سکیں۔
CGT یونین کنفیڈریشن نے 25 ستمبر کو ایک روزہ ہڑتال کی کال دی جس کا واضح مقصد عوامی دباؤ کو کم کرنا اور دیگر لڑاکا یونینوں کو آگے بڑھنے سے روکنا تھا۔ ہڑتال کو کمزور سے کمزور تر بنانے کے لیے یونین قیادت نے کسی مظاہرے یا احتجاج کی کال نہ دی۔ ناقدین نے تمسخر اڑاتے ہوئے اس کو ’’تعطیل نما‘‘ ہڑتال قرار دیا۔
اسی اثنا میں 2یونین کنفیڈریشنز نے(جن میں اس وقت CTAمنقسم ہے) 36گھنٹوں پر محیط ہڑتال کی کال دی جس کا آغاز 24ستمبر کی دوپہر سے ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دارالحکومت بیونس آئرس میں بھرپور عوامی احتجاج کی کال بھی دی۔ احتجاج میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور قریباً 5لاکھ لوگ شہر کے مرکزPlaza de Mayo میں اکٹھے ہوئے۔
ہر طرح کا رجحان رکھنے والے ٹریڈ یونین لیڈران ہڑتال کو آئی ایم ایف کے ایما پر مسلط کیے جانے والے ماکری بجٹ اور پوری حکومت کے خلاف جدوجہد کے واضح منصوبے کا حصے سمجھنے کی بجائے اس کو عمومی صورتحال سے کٹا ہوا اقدا م گردان رہے تھے۔
CGT کے لیڈران بڑی بیتابی سے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ وہ بس یہی چاہتے ہیں کے حکومت مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ حکومت نے نا صرف ان کو ٹھکرا دیا حتیٰ کہ ٹریڈ یونین لیڈران سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔
CTA کے لیڈران CGT کے لیڈران کے مقابلے میں کسی حد تک زیادہ لڑاکا ہیں۔ CTA کے ایک لیڈر میچلیس نے کہا ’’یا تو معاشی ماڈل بدلا جائے یا یہ لوگ حکومت چھوڑ دیں‘‘۔لیکن درحقیقت ، یہ لوگ پوری احتجاجی تحریک کے سیاسی منظر نامے کومحدود کرتے ہوئے دسمبر 2019ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ماکری کی جگہ کرسٹینا کرچنر کو لا بٹھایا جائے۔
CTA کے لیڈران CGT کے لیڈران کے مقابلے میں کسی حد تک زیادہ لڑاکا ہیں۔ CTA کے ایک لیڈر میچلیس نے کہا ’’یا تو معاشی ماڈل بدلا جائے یا یہ لوگ حکومت چھوڑ دیں‘‘۔لیکن درحقیقت ، یہ لوگ پوری احتجاجی تحریک کے سیاسی منظر نامے کومحدود کرتے ہوئے دسمبر 2019ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ماکری کی جگہ کرسٹینا کرچنر کو لا بٹھایا جائے۔
ٹرک ڈرائیور یونین کا لیڈر پابلو مایوناجو کہ CGT کنفیڈریشن کے ’’ٹریڈ یونین فرنٹ‘‘ کا لیڈر ہے جس نے CTA کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کال کی حمایت کی تھی، یہاں تک کہہ گیا کہ ’’یہ ہڑتال ماکری کے نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے خلاف ہے۔‘‘
اس دوران ماکری امریکہ میں بیٹھا آئی ایم ایف سے اس سے بھی بڑے بیل آؤٹ کے لیے تگ ودو کر رہاتھا۔ وہ سب کچھ تو نہ حاصل کرسکا جس کا وہ خواہشمند تھا اور مجبوراً بدلے میں کئی بڑی رعایتیں دینی پڑیں۔ بیل آؤٹ پیکیج کا حجم 50 بلین امریکی ڈالر سے 57.1 بلین امریکی ڈالر تک بڑھایا جائے گاجو کہ ارجنٹائن حکومت کی توقعات سے 20 بلین ڈالر کم ہے۔ اس میں سے کچھ رقم طے شدہ وقت سے پہلے حوالے کی جائے گی کیونکہ حکومت پہلے ہی پیسو کو بچانے کی خاطر 20 بلین ڈالر غیر ملکی زرمبادلہ میں کھپا چکی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی رضامندی ظاہرکی ہے کہ اس رقم کو پہلے مکمل طور پر قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کے برعکس کچھ حصہ بجٹ میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
کرنسی کو مزید گرنے سے بچانے اور سرمائے کی اڑان کو روکنے کی کوششوں میں آئی ایم ایف ماکری کی واضح اور کھلے عام حمایت کررہا ہے لیکن یہ مدد انتہائی سخت شرائط پر میسر آئی ہے۔ ماکری نے 2019ء کے لیے ایک متوازن بجٹ اور2020ء کے لیے جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر پرائمری بجٹ سرپلس کا وعدہ کیا ہے۔ یہ سب صرف اور صرف عوامی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور جس کا سارا بوجھ ایک بار پھر محنت کش طبقے اور غریب عوام پر ڈالا جائے گا۔
آئی ایم ایف نے مرکزی بینک کے گورنر کیپوتو کو ہٹانے کے لیے مجبور کیا ہے جس کی جگہ گیدو ساندلیریس لے گا جو کہ وزیر خرانہ دوخوون کے زیادہ دقریب اور آئی ایم ایف کے مفادات کو بہتر سمجھتا ہے۔ درحقیقت، بیل آؤٹ پیکیج میں اضافے کی ایک شرط یہ تھی کہ حکومت کسی بھی شرط پر پیسو کی قدر کو بچانے کی پالیسی کو ترک کرے گی۔ اب مرکزی بینک فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کی بنیاد پر کام کرے گا اور صرف اسی وقت مداخلت کرے گا جب پیسو ڈالر کے مقابلے میں 44کی حد سے نیچے گرجائے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا یہ حالیہ معاہدہ بحران کو کم کرنا تو درکنار بلکہ اس کو مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔ماکری انتہائی غیر مقبول اور کمزور ہے۔ 2001ء جیسے ایک دیوہیکل سماجی دھماکے کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے جب عوام ’’سب کو نکال باہر کرو‘‘ کے نعرے کے ساتھ منظر نامے پر نمودار ہوئے۔ اب تک اس کے نہ ہونے کی وجہ ٹریڈ یونین لیڈران کا غلیظ کردار ہے جو کہ عوامی دباؤ کو مجتمع رکھنے اور اکا دکا مظاہروں سے اس کو زائل کرتے چلے آئے ہیں۔ دوسری طرف، پیرونسٹ ’’اپوزیشن‘‘(جو کہ حقیقت میں حکومت کو پارلیمنٹ میں سہارا دیے ہوئے ہے) اپنی تمام تر توانائیاں دسمبر 2019ء میں کرسٹینا فرنینڈس ڈی کرچنر کی فتح کے لیے صرف کیے ہوئے ہے اور حقیقت میں ایسے بورژوا اداروں کا دفاع کر رہے ہیں جو کہ اپنی ساکھ کھوتے چلے جارہے ہیں۔ ماکری نے امریکہ میں کہا ہے کہ ’’ Zero-Deficitبجٹ اپوزیشن کے ووٹوں کی حمایت کے ساتھ پاس ہوگا۔‘‘
آئی ایم ایف اور ماکری کیخلاف متحدہ جدوجہد
ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی نیچے سے دباؤ بڑھتا ہے اوپر بیٹھی اسٹیبلشمنٹ اپنے دروازے بند کرلیتی ہے۔ باوجود اس کے کہ ٹریڈ یونین لیڈران کا جدوجہد کا کوئی ارادہ نہیں لیکن عوامی دباؤ بڑھتا جائے گا۔ پہلے ہی ریل مزدور اپنی اجرتوں کے دفاع کے لیے ملک گیر ہڑتال کی کال دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر شعبوں میں بھی نمایاں جدوجہد جاری ہے جن میں آسٹیلیرو ریو سانتیاگو شپ یارڈز، یونیورسٹیاں، صحت کا شعبہ، اسقاط حمل کے حق کے لیے جدوجہد وغیرہ شامل ہیں۔
روز بروز بڑھتی اور لڑاکااپوزیشن کے مقابلے میں ریاست کا جبر بڑھتا جارہا ہے۔ اشتعال انگیزی کے کئی بڑے واقعات( جیسے کہ پولیس اسٹیشن پر پٹرول بم پھینکا گیا)، بائیں بازو اور ٹریڈ یونین لیڈروں کی گرفتاریاں، 24ستمبر کے مارچ کے روز ایک جلوس کو بیونس آئرس میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش وغیرہ شامل ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ریاست خود کو ایک تند وتیز تصادم کے لیے تیار کررہی ہے۔
POاور PTSکے کامریڈ جو کہ ارجنٹائن میں بڑی بائیں بازو کی تنظیمیں ہیں، ’’آئین سازاسمبلی‘‘ کا نعرہ بلند کررہی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے 2001ء میں بھی وضاحت کی تھی کہ یہ نعرہ ارجنٹائن کی حالیہ صورتحال کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ آئین ساز اسمبلی حقیقت میں ایک بورژوا جمہوری ادارہ ہے۔ ارجنٹائن کا اصل مسئلہ بورژوا جمہوری اداروں کا فقدان نہیں بلکہ سرمایہ داری کا بحران اصل مسئلہ ہے۔
جیسا کہ ریوولوشن (عالمی مارکسی رجحان کا ارجنٹائنی سیکشن) کے کامریڈز نے کہا ہے کہ آگے بڑھنے کا رستہ محنت کش اسمبلیوں کا قیام ہے۔ عام کارکنان پر مشتمل یہ باڈیاں جو کہ محلے، شہر اور ملکی سطح پر منظم ہوں گی، ٹریڈ یونین لیڈران کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے، خود جدوجہد کے لیے تنظیم کا کردار ادا کریں گی۔
اس کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کو مزدورتحریک اور وسیع عوامی تحریک میں موجود ایسے عناصر، جو کہ ابھی تک کرچنرازم سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، کے ساتھ جدوجہد میں متحدہ محاذ بنانے کے لیے رستہ تلاش کرنا ہوگا۔ ماکری اور آئی ایم ایف کے ملی بھگت سے مسلط کئے جانے والے بجٹ کے خلاف ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کرتے ہوئے بایاں بازو ان کو اس تناظر پر جیت سکتا ہے کہ ماکری کی جگہ کرچنر کو بٹھانے کی بجائے محنت کشوں کو اپنا مستقبل اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔