|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں MTIاور DHA/RHAایکٹس کے نام پر عوام دشمن حکومت کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس(GHA) کی شاندار جدوجہد جاری ہے۔ دونوں صوبوں کے کم وبیش تمام سرکاری ہسپتالوں میں آؤٹ ڈور، ریڈیالوجی اور لیبارٹری سروسز کے شعبے میں ہڑتال چل رہی ہے جو کہ آج خیبر پختونخوا میں اکیسویں اور پنجاب میں آٹھویں روز میں داخل ہو چکی ہے۔
دونوں صوبوں میں تشکیل پانے والے اس نجکاری مخالف اتحاد یعنی گرینڈ ہیلتھ الائنس میں ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس، نرسز اور دیگر سپورٹ سٹاف سمیت ہسپتالوں کے تمام محنت کشوں کی نمائندہ تنظیمیں شامل ہیں۔ مزید برآں دونوں صوبوں کے جی ایچ اے کی قیادت باہمی مشاورت کے ساتھ اس نجکاری مخالف جدوجہد کو آگے بڑھا رہی ہے۔ شعبہ صحت کے تمام محنت کشوں کا یہ باہمی اتحاد اور اتفاق ہی اس تحریک کی مضبوطی کی اصل وجہ ہے اور تحریک کی کامیابی کے لئے اس اتحاد کا ہر صورت قائم رہنا نہایت اہم ہے۔
دوسری طرف دونوں صوبوں میں حکومت تحریک کی تندی اور جوش وخروش سے بری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور ابھی تک تحریک توڑنے کے لئے برطرفیوں اور ریاستی جبر سمیت اس نے جتنے بھی حربے استعمال کئے ہیں، وہ سب بری طرح ناکام ہوئے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے تحریک کی شدت میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کے پاس تحریک کو کچلنے کے لیے موجود آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریک اس وقت اس مخصوص نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں حکومت ریاستی جبر یا تادیبی کاروائیوں جیسا کوئی بھی آپشن استعمال کرے گی تو وہ صرف تحریک کو مزید بھڑکانے اور اس میں مزید تندی لانے کا ہی سبب بنے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ لڑائی اب ایک اعصاب کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے اور واضح نظر آ رہا ہے کہ حکومت کے اعصاب چٹخنا شروع ہو چکے ہیں۔ اس امر کا سب سے واضح اظہار پنجاب کی ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر یاسمین راشد کی تلملاہٹ اور بوکھلاہٹ میں ہو رہا ہے۔
تحریک کی ابھی تک کی صورتحال بلا شبہ نہایت ہی حوصلہ افزا ہے لیکن یاد رہے کہ حکومت گھٹنے ٹیکنے سے پہلے ایک آخری حملہ ضرور کرے گی۔ اگر یہ حملہ بڑے پیمانے پر بر طرفیوں یا ریاستی جبر کی صورت میں ہوتا ہے تو ہڑتال نہ صرف ان ڈور بلکہ ایمر جنسی سروسز تک پہنچ جائے گی۔ اگرچہ اس سے مریضوں کو نقصان ہو گا لیکن اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری اس آئی ایم ایف کی دلال حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح متبادل عملہ بھرتی کرنے یا آرمی میڈیکل کور کو طلب کرنے جیسے غیر حقیقی آپشنز صرف حکومت کی مزید جگ ہنسائی اور ذلت کا ہی سبب بنیں گے۔ ماضی کی حکومتیں کئی بار ان آپشنز کو استعمال کر چکی ہیں اور انہیں ہر بار ناکامی ہی ہوئی ہے اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ یہ ہسپتال ان میں کام کرنے والے ہزاروں محنت کشوں کی شب وروز کی محنت سے چلتے ہیں اور ان کے علاوہ اور کوئی بھی انہیں چلا نہیں سکتا۔ لیکن سب سے بڑا خطرہ جبر کے یہ سب ہتھکنڈے نہیں بلکہ حکومت کی عیاری اور مکاری ہے۔ دھوکے بازی سے ہڑتال ختم کرانا، لا یعنی مذاکرات میں الجھانا، کمیٹی کمیٹی کھیلنا، نجکاری ایکٹ پر شوگر کوٹنگ کرتے ہوئے چند ترامیم کرنے کا جھانسا دینا، ان تمام حکومتی ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور جی ایچ اے کی قیادت کو یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ والا معاملہ ہے، لہٰذا انہیں نجکاری ایکٹ میں کوئی ترامیم کرانے کے چکر میں پڑنے کی بجائے اس کے مکمل خاتمے تک ہر صورت میں ہڑتال جاری رکھنا ہو گی۔ ان ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ حکومت یہ بھر پور کوشش بھی کرے گی کہ وہ ایک طرف گرینڈ ہیلتھ الائنس کو اندر سے توڑے اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے مختلف محنت کشوں میں اختلافات پیدا کرے اور دوسری طرف دونوں صوبوں کے جی ایچ اے کے بیچ دوریاں پیدا کرے۔ جی ایچ اے میں شامل قیادتوں اور عام محنت کشوں کو اس حوالے سے خاص طور پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے اس سرکاری ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے مشکوک عناصر کی بروقت نشاندہی کرنا اور انہیں تحریک سے نکال باہر کرنا فتح کے لئے نہایت ضروری ہے۔
اسی طرح جی ایچ اے کو سیاسی پارٹیوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ تمام رائج الوقت سیاسی پارٹیاں نجکاری کی حامی ہیں اور اپنے اپنے دورِ اقتدار میں محنت کشوں پر نجکاری کے بد ترین وار کر چکی ہیں۔ ابھی جو چند ایک سیاسی لیڈروں نے اس تحریک کے ساتھ جھوٹی ہمدردی دکھائی ہے، اس کا مقصد صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور تحریک کی شدت کو اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس کے علاوہ کل کو یہی تمام مزدور دشمن سیاسی پارٹیاں حکومت، ریاستی اداروں اور سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ملی بھگت میں آتے ہوئے تحریک کو ڈی ٹریک کرنے اور دھوکہ دینے کا کام بھی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح ریاست تحریک کو کوئی جھانسا دیتے ہوئے ختم کرنے کے لئے عدلیہ کا استعمال بھی کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ایک طبقاتی سماج کا کوئی بھی ریاستی ادارہ غیر جانبدار نہیں ہوتا اور حتمی تجزئیے میں وہ سرمایہ دار طبقے اور حکمرانوں کا ہی طرفدار اور محافظ ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی عدلیہ کو کئی مرتبہ مزدور تحریکوں کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کیا جا چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے جی ایچ اے خیبر پختونخوا کے اسیر قائدین کو اس شرط پر ضمانت پر رہائی دینے کی پیشکش کی تھی کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں مگر ان غیور ساتھیوں نے صاف انکار کر دیا اور چند روز بعد ہی پنجاب میں بھی ہڑتال کا آغاز ہو گیا اور حکومت کو دباؤ میں آ کر انہیں غیر مشروط طور پر رہا کرنا پڑا۔ یہ ایک واقعہ ہی ہمیں عدلیہ کے حقیقی کردار کے متعلق چوکنا کرنے کے لئے کافی ہے لیکن دوسری طرف یہ ہمارے اتحاد کی طاقت کی غمازی کرتا ہے اور ہمیں اپنے زور بازو پر یقین محکم رکھنے کا درس بھی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کو نام نہاد سول سو سائٹی کی ’معتبر شخصیات‘، ٹی وی اینکرز، مذہبی شخصیات، این جی اوز اور اسی قسم کے دیگر عناصر سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اس تحریک کی مصنوعی حمایت محض اپنے اپنے مخصوص مفادات کے لئے کر رہے ہیں اور اگر یہ تحریک میں راستے بنانے میں کامیاب ہو گئے تو کل کو حکومت انہی عناصر کو تحریک کو کنفیوز کرنے اور اسے ڈی ٹریک کرنے کے لئے استعمال کرے گی۔
اس نجکاری مخالف جدوجہد میں شعبہئ صحت کے محنت کشوں کے حقیقی ساتھی اور اتحادی دیگر اداروں اور صنعتوں کے محنت کش اور غریب عوام ہیں۔ لہٰذا جی ایچ اے کو خاص طور پر نجکاری کے نشانے پر موجود پی آئی اے، اسٹیٹ لائف، واپڈا، شعبۂ تعلیم، نیشنل بینک، اسٹیل مل، یوٹیلیٹی سٹورز اور ایسے دیگر اداروں کے محنت کشوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ رابطے میں آتے ہوئے ایک بڑا نجکاری مخالف اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ جی ایچ اے خیبر پختونخوا نے کسی حد تک چند دیگر اداروں کی محنت کش تنظیموں کے ساتھ رابطہ کاری کا آغاز کیا بھی ہے جو کہ نہایت خوش آئند امر ہے لیکن اس کام کو دونوں صوبوں میں تیز ترین بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح حکومت کے مذموم ارادوں اور سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری سے عوام کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں ایک بڑی عوامی آگہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ہر روز ہسپتالوں کی ایمر جنسی میں آنے والے ہزاروں مریضوں اور ان کے لواحقین میں اس حوالے سے لیف لیٹس بانٹے سے لے کر دیگر بے شمار طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ شعبۂ صحت کے تمام ملازمین کے باہم اتحاد کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں، صنعتوں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی جڑت اور غریب عوام کی ہمدردی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ اسی طرح ایک ملک گیر عام ہڑتال کی راہ بھی ہموار ہوگی جو کہ نجکاری کی اس مزدور اور عوام دشمن پالیسی کے جڑ سے خاتمے کا سبب بنے گی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس نجکاری مخالف جدوجہد کے ہر مرحلے پر شعبہئ صحت کے محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کرتا ہے۔
فتح کی سمت متحد،
بڑھے چلو،بڑھے چلو!!!
فتح تمہاری منتظر،
بڑھے چلو،بڑھے چلو!!!