|رپورٹ: پروگریسو یورتھ الائنس، ملتان|
8 مارچ بروز سوموار محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ مارچ بنیادی طور پر جامعہ زکریا میں جنسی ہراسانی، اسلحہ کلچر،غنڈہ گردی، مہنگی تعلیم اور طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف منعقد کیا گیا۔ اس سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے جامعہ کے اندر کلاس در کلاس کیمپین کی اور ہزاروں طلبہ تک اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا پیغام پہنچایا۔ اس تمام کیمپین کے نتیجے میں دن ساڑھے بارہ بجے طلباء و طالبات کی ایک کثیر تعداد نے مرکزی کیفے ٹیریا سے مارچ کا آغاز کیا جو انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنس سے ہوتا ہوا ایڈمن بلاک پر ختم ہوا۔ طلبہ نے جنسی ہراسانی،غنڈہ گردی اور دیگر مسائل کے خلاف نعرے بازی کی۔
ریلی کے اختتام پر پروگریسو یوتھ الائنس کے نمائندگان نے طلبہ سے خطاب کیا اور آگے کا لائحہ عمل بیان کیا۔ پی وائی اے کے رکن عارف کا کہنا تھا کہ انتظامیہ جامعہ میں طلبہ کو اپنے حقوق کے گرد منظم ہونے سے روکنے کے لیے خود غنڈے پالتی ہے اور ان غنڈہ گرد تنظیموں کی ایما پر اپنی لوٹ مار کا سسٹم جاری رکھے ہوئے ہے۔ کئی سالوں سے انتظامیہ فیسوں کی لوٹ مار میں اضافہ کر رہی ہے مگر تاحال ایک بھی سہولت طلبہ کو میسرنہیں کی گئی۔
عارف کی گفتگو کے بعد فرحان رشید نے بات کو آگے بڑھایا اور کہا کہ آج محنت کش خواتین کے دن کے موقع پر ہمارا مارچ کوئی آج کے دن کا شغل نہیں بلکہ آج ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہراسانی کے مسئلے کو لے کر اب باقاعدہ سلسلہ کو آگے بڑھایا جائے گا۔ طلبہ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ وہیں انتظامیہ کو دو ہفتے کا الٹی میٹم دیا گیا کہ اگر آنے والے دو ہفتوں میں یونیورسٹی بسوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیا گیا تو پی وائی اے ایک باقاعدہ کیمپین کے ذریعے یونیورسٹی میں ہڑتال کی طرف بڑھے گا۔ ریلی کا اختتام انقلابی نعروں پر ہوا۔
آخر میں پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں کو یونیورسٹی کی سیکیورٹی فورسز نے یونیورسٹی گیٹ پر روک کر دھمکیاں دی اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو باہر نکلنے سے روکا گیا۔ اس کے علاوہ طالبات کو بھی ہراساں کیا گیا جس پر پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے ساتھیوں نے شدید مزاحمت کی اور دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں غنڈہ گرد عناصر کو اسلحہ سمیت جانے دیا جاتا ہے اور انہی سیکورٹی فورسز کی سربراہی میں ان کو با حفاظت باہر بھی جانے دیا جاتا ہے مگر طلبہ حقوق کی بات کرنے والوں کو روکا بھی جاتا ہے اور ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔