|لال سلام|
اس وقت پاکستان ایک خوفناک سیلاب کی زد میں ہے اور اب تک سینکڑوں اموات واقع ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ بے تحاشہ مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ بن چکا ہے مگر تا حال ریاست کی جانب سے اس تباہی کو کنٹرول کرنے یا امداد فراہم کرنے کا کوئی کارآمد منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ اس انسانی المیے کے دوران حکمران اپنے ذاتی مفادات کیلئے گروہی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں سوشل میڈیا پر شدید غم و غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی چند جھلکیاں ہم اپنے قارئین کیلئے اس رپورٹ میں پیش کر رہے ہیں۔
فیس بک پر ایک پوسٹ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے پارس جان نے لکھا:
بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ اب سندھ میں بھی سیلابی ریلے سے بڑے پیمانے کی تباہی کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ بڑے جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حکمران طبقہ اپنی نورا کشتی میں مگن ہے۔
ایک اور فیس بک پوسٹ میں پارس جان نے ساحر لدھیانوی کے بنگال کے قحط کی بابت لکھے گئے یہ اشعار شیئر کیے:
جہانِ کُہنہ کے مفلوُج فلسفہ دانو!
نظامِ نَو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اِسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سِسک سِسک کے مَرے
زمیں نے کیا اِسی کارَن اناج اُ گلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوّا، بِلک بِلک کے مَرے
مِلیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دُخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خُوں سے سینچا تھا
کہ اُس کی اپنی نِگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوّتِ تخلیق کے خُداوندو!
مِلوں کے مُنتظمو! سلطنت کے فرزندو!
پچاس لاکھ فسُردہ، گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خِلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے، دَم توڑتی نگاہوں سے!
بشر، بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
پارس کا کہنا تھا کہ یہ اشعار موجودہ صورتحال پر بھی صادر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائر ہونے والی ایک وڈیو میں پی ٹی آئی کا وزیر محسن لغاری گاڑی کے اندر بیٹھ کر عوام سے رعونت کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ اس وڈیو کو شیئر کرتے ہوئے پارس جان نے لکھا:
شرم ان کو مگر نہیں آتی۔ یہ سردار وڈیرے ان برباد لوگوں سے بھی تعظیم کی توقع رکھتے ہیں۔ لغاری صاحب یہ ’ہولے ہولے‘ بولنے والے بہت جلد آپ اور دیگر تمام سرداروں اور حکمرانوں کو گریبانوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
اسی وڈیو کو شیئر کر کے سجاد عارض نے اس پر لکھا کہ:
لوگ انہی بے غیرتوں کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہے، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہے، ایک دوسرے سے ناراض ہوتے رہے۔ اب یہی بے غیرت اتنی بڑی مصیبت میں اپنی گاڑی سے اترنا بھی گوارا نہیں کر رہے۔
ایک اور فیس بک پوسٹ میں سجاد عارض نے لکھا:
پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات، وبائیں غریب اور محنت کش طبقے کے لیے تو عذاب ہوتی ہی ہیں مگر سرمایہ دار اور حکمران طبقے کے لیے اربوں کھربوں کا منافع بھی لے کے آتی ہیں۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے احمد بلوچ کا سوشل میڈیا پر کہنا تھا کہ:
اس وقت صرف سندھ میں 5 کروڑ سے زیادہ لوگ حالیہ بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس ریاست کے پاس کیا اتنی بھی سکت نہیں کے ایک پیناڈول کی گولی دے سکے، تمام متاثرین کو بنیادی سہولتیں دینا تو دور کی بات ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سندھ کے ضلع کشمور میں لوگ مختلف قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کا جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ اس وڈیو پر احمد بلوچ نے لکھا:
”ہم ملک بھر کے سیلاب متاثرین کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اپنے علاقوں میں تمام ریاستی اداروں اور وہاں کے نومنتخب ممبران کا نماز جانزہ ادا کریں۔“ احمد نے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو محنت کشوں کا قاتل قرار دیا اور اس کا بھی جنازہ پڑھنے کی بات کی۔
احمد بلوچ نے فیس بک پر ایک وڈیو شیئر کی جس میں ایک شخص کو آہ و بکا کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر احمد نے لکھا کہ یہ وڈیو لاڑکانہ شہر کی ہے جو بلاول کا حلقہ ہونے کے ساتھ ساتھ بھٹو خاندان کا گاؤں بھی ہے۔ اس شہر میں ایک محنت کش سب کچھ لُٹ جانے کے بعد آہ و بکا کر رہا اور ڈی سی او سمیت دیگر افسران اس کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔ اگر لاڑکانہ میں یہ صورتحال ہے تو پھر آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ باقی سندھ میں کیا صورتحال ہوگی۔
ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے آصف لاشاری نے ایک فیس بک پوسٹ پر لکھا کہ:
سندھ کا وزیرِ اعلی کہہ رہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور 90 فیصد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اصل بے گھر ہونے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دوسرا یہ کہ متاثرین کی تعداد ایک کروڑ بھی مان لیں تو سوال بنتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد کو دو وقت کی نہ سہی ایک وقت کی روٹی کیسے سے فراہم کی جا سکتی ہے؟ اس کے لیے درکار وسائل کہاں سے پیدا کیے جا سکتے ہیں؟ سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ان لوگوں کو ملیریا، ڈینگی، اسہال اور دیگر بیماریوں کا علاج کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے؟ ہزاروں لوگ جو اس سیلاب میں جان کی بازی ہار گئے، ان کے خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری کو پورا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ فصلوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا کم از کم تخمینہ کیا ہے؟ اور اس نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟ ان ایک کروڑ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے کتنے روپوں کی ضرورت ہے؟ اور یہ گھر دوبارہ کیسے تعمیر کیے جا سکتے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ تنظیمی یا انفرادی سطح پر کی گئی کاوشوں اور این جی اوز کے فنڈز سے کیا جا سکتا ہے؟ اس سب تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سرمایہ دارانہ ریاست اور اس پر حاکم سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ اس سب تباہی کا ذمہ دار ہے کیونکہ ان کی ہی لوٹ مار پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے، ان کی سماج کو ترقی نہ دے سکنے کی اہلیت کی وجہ سے یہ ساری تباہی و بربادی ہوئی ہے۔ یہ حکمران طبقہ اگر عوام کی محنت سے پیدا ہونے والی دولت کو عوام پر لگاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ عوام کی بربادی کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ سب سے بنیادی ذمہ داری ریاست اور اس پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں کی ہے جو ٹیکسوں کی صورت میں عوام کا خون تک چوس رہے ہیں۔ لیکن واضح ہے حکمران طبقہ معاشی بحران کا بہانہ بنا کر اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے انکار کرے گا اور کبھی بھی ہزاروں ارب روپے غریب عوام پر خرچ نہیں کرے گا۔ معاشرتی سطح پر ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مشکل میں پھنسے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں اور جدوجہد کریں۔
حل کیا ہے؟
واضح ہے حکمران طبقہ اپنے گرتے ہوئے نظام کو عوام کی زندگیوں پر اہمیت دے گا اور وسائل عوام پر لگانے سے انکار کرے گا۔ اس کا واحد حل برباد حال محنت کش عوام کی طاقت کے ذریعے انقلاب برپا کرتے ہوئے ان حکمرانوں، بڑے بڑے سرمایہ داروں، ارب پتیوں، جاگیرداروں سے تمام تر دولت چھین کر عوام پر خرچ کی جائے۔ صرف اسی ایک صورت میں سیلاب سے ہونے والی تباہی اور اس نظام کی پیدا کردہ دیگر غربت، بے روزگاری، لاعلاجی کے مسائل کا حل ممکن ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کریم پرھار کی جانب سے فیس بک پر شیئر کی گئی ایک وڈیو میں دیکھا حکمرانوں کی رعونت اور بے حسی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس پر کریم نے لکھا کہ:
یہ سالے بلوچستان کے غلیظ اور نااہل حکمران ہیں۔ ان کی بکواس ملاحظہ فرمائیں۔ کیا ان کو سولی پر لٹکانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہے؟ انکا غرور بھرا لہجہ اور متکبرانہ چال دیکھیں۔ عوام کے مسائل سے بے خبر یہ دلال اور فوجی اشرافیہ کے چاپلوس کی اوقات پر اگر کسی کو غصہ نہیں آتا تو شاید وہ انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔
عوام: خدا گواہ ہے ہم دربدر ہوگئے، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں کھانے کو۔
صوبائی وزیرتعلیم: تو میں کیا کروں؟
عوام: ابھی کے لئے ہمیں کھانے کو اگر کچھ مل جائے تو مہربانی ہوگی۔
صوبائی وزیرتعلیم: میرے پاس کچھ نہیں ہے!
گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے صبغت وائیں نے فیس بک پر لکھا کہ:
سیلاب سے بچانا اور سیلاب سے برباد ہونے والوں کی بحالی کا کام ریاست کا تھا جو وہ نہیں کر رہی۔ یہ بات عوام تک پہنچانا بہرحال ایک سیاسی مقاصد رکھنے والا سیاسی فریضہ ہے۔ ضیاء الحق نے پاکستان کو اسی طرح کا بنا دیا ہے کہ اس میں سیاست کو گالی مانا جاتا ہے۔ حالاں کہ سیلاب سے بچاؤ اور بحالی کے مطالبات خالصتاً سیاسی ہیں۔ اور ریسکیو و بحالی کا یہ کام نہ تو انفرادی طور پہ کرنے والا ہے، نہ ہی نجی و غیر سرکاری تنظیموں کا۔ یہ کام بھی اگر ریاست کا نہیں، تو پھر ریاست صرف جگا ٹیکس لینے کا نام ہے کیا؟
ایک اور فیس بک پوسٹ میں صبغت کا کہنا تھا کہ:
ابھی بھی سمجھ جانا چاہیے کہ اتنی بڑی آفات سے نپٹنا پرائیوٹ انڈیویجوئلز کا یا پرائیویٹ تنظیموں کے بس کی بات بھی نہیں، اور ان کا کام بھی نہیں۔ یہ کام ریاست کا ہے، اور خاص طور پر ریاست بھی اگر سوشلسٹ ہو تو زیادہ مؤثر ہے۔ ورنہ وہی کچھ ہوتا ہے جو اس سیلاب میں ہماری ریاست اور اس کے ادارے کر رہے ہیں۔ اس پر جتنا مرضی لکھ لیں، جتنے مرضی بحث مباحثے کر لیں، نتیجہ یہی ہے، جو انسان نے دس لاکھ سال میں نکالا ہے۔ اب وقت ہے کہ کریں سوشلسٹ اقدامات۔ لوگوں کو مکان بنا کر دیں۔ خوراک دیں۔ اور پھر بحالی کریں۔ لیکن لعنت ایسے نظام پر جس میں بجائے لوگوں سے لینے کے، انہیں دینے کی بات ہونے لگے۔ کیوں کہ نظام سب کچھ چھین چکا ہے۔ سرمایہ داری پر لعنت۔ جو انسانوں کو زائد از ضرورت سمجھ کر مار رہی ہے۔
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے علی عیسیٰ نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ:
سیلاب کی موجودہ سورتحال میں ”تمام نجی ہسپتالوں کو فی الفور قومی تحویل میں لے کر عوامی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جائے۔“
کراچی سے تعلق رکھنے والے پارس جان کی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ:
اُف اتنا دکھ، اتنا کرب، اتنی بے بسی، اتنا زیاں، اتنی رائیگانی۔ ویڈیوز دیکھی نہیں جا رہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کا سب سے بڑا سیلاب ہے، سب سے بڑی بربادی، ابھی ٹی وی دیکھ رہا تھا، کسی چینل پر کچھ بھی نہیں۔ جیسے یہ ہماری مائیں، ہمارے بزرگ، ہمارے بچے، ہمارے جانور، ہمارے گھر۔۔۔خس و خاشاک سے بھی حقیر ہوں۔ وہی حکمرانوں کی نورا کشتی، وہی جھوٹے دعوے، وہی مگر مچھ کے آنسو۔ ایک کانفرنس میں پنجاب کی برسرِاقتدار پارٹی کے مسیحا کہلانے والے لیڈر کی وہی گھسی پٹی تقریر۔ ایک لفظ بھی ان بے آسرا لوگوں کے لیے نہیں سننے کو ملا۔ یہ ایسے درندہ صفت حکمران ہیں، الٹا احتجاج کرنے والوں، جینے کا حق مانگنے والوں پر بھی انہوں نے مقدمات بنوائے، باقی ساری پارٹیوں اور ریاستی اداروں کی بھی یہی حالت ہے۔ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت اس المیے سے لڑنے اور بزرگوں، بچوں کو ریسکیو کرنے والوں اور مدد کرنے والے رضاکار نوجوانوں کو خراجِ تحسین۔ مزید پارس کا کہنا تھا کہ ”تباہی اتنے بڑے پیمانے کی ہے کہ ریاستی سطح پر ہی اس کا ریلیف ممکن ہے، مگر ریاست کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ ہم اسے قتلِ عام نہ لکھیں تو کیا لکھیں۔ صرف مٹھی بھر اشرافیہ کے پاس کل ملکی دولت، وسائل اور ذرائع کی ملکیت ہے، لیکن نجی ملکیت کے تقدس کی حفاظت کی تاریخی ذمہ داری میں ریاست اس حکمران طبقے کی نگہبانی ہر حال اور ہر قیمت میں کرے گی۔ بے ملکیتی اکثریت بھاڑ میں جائے، زلزلوں میں زمیں برد ہو جائے یا سیلاب میں بہہ جائے، یا بھوک سے مر جائے، ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا کہ یہ نظام غیر فطری، غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے۔ اس نظام کے خاتمے تک ہمیں یونہی بے موت مرنا پڑے گا۔ اس کے خلاف بغاوت فرض ہو چکی ہے۔