سنگت ریحان! میں نے آج جب فیس بک کھولی تو میرے سامنے آپ کا پوسٹ آیا جس میں آپ کے چل بسنے کی خبر تھی۔ پوسٹ دیکھ کر شدید دکھ ہوا۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ خضدار سے تعلق رکھنے والے ایک ہونہار طالب علم ہیں اور خون کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ آپ کئی دنوں سے آغا خان ہسپتال میں زیر علاج رہے اور زندگی و موت کی کشمکش میں آپ نے بہت تلخ لمحات گزارے۔ آپ کے دوست احباب نے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور پوری کیمپین چلائی تاکہ پیسے جوڑ کر آپ کے ہسپتال کے اخراجات پورے کئے جا سکیں۔ کچھ غیر سرکاری ادارے اور کچھ سرکار بننے کے خواہش مند حضرات نے بھی آپ کے نام پر بڑے اعلانات کر کے بھرپور داد وصول کی مگر افسوس کہ سب مل کر بھی آپ کو بچانے میں ناکام رہے۔ اس میں آپ کے دوست احباب کی نیتوں میں کھوٹ نہیں تھی۔ وہ پورے دل سے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہے مگر آپ کو تو معلوم ہے نا کہ آپ ایک ایسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں جو خود بے شمار وباؤں کا شکار ہے۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ یہ دھرتی اب جنتی بھی بیمار بچے ہے۔ اب دیکھیں اس دھرتی پر اتنی غربت ہے کہ یہاں کی مائیں صحت مند بچے پیدا ہی نہیں کر پاتیں کیونکہ وہ خود بچپن سے غذائی قلت کا شکار رہی ہیں۔ آپ کی دھرتی اس پورے خطے کے تمام ہمسایہ زمینوں سے زیادہ غذائی قلت اور غربت کا شکار ہے۔ آپ کی دھرتی پر 81 فیصد غربت، 63 فیصد شرح ناخواندگی، 60 فیصد بیروزگاری، 25 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 15 فیصد آبادی ہیپاٹائٹس کی بیماری میں مبتلا ہے اور ملیریا اور دیگر معمولی بیماریوں سے روز اموات ہونے کی خبریں ہیں۔ یہ تو اس وقت کی رپورٹیں ہیں جب آپ کے ہاں تعلیم اور صحت کی ایمرجنسی نافذ ہے۔ بھلا ہو حکومتِ وقت کا، ورنہ پتا نہیں کیا حالت ہوتی ہمارے لوگوں کی!
آپ تو شکر کریں کہ آپ کی موت کسی بڑی بیماری سے واقع ہوئی ہے اور آپ کے کچھ چاہنے والے بھی تھے جو آپ کو بچانا چاہتے تھے، ورنہ آپ کو تو پتا ہی ہے نا کہ آپ کے ہاں لوگ معمولی بیماریوں سے بے نام موت مرجاتے ہیں اور کئی مائیں بچوں کو غربت کی وجہ سے خود زہر پلا کر مار دیتی ہیں۔ کچھ مائیں تو خود بھی زہر کا پیالا پی جاتی ہیں کیونکہ اگر وہ یہ نہیں کرتیں تو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے انہیں عصمت فروشی جیسے راستے کا بھی انتخاب کرنا پڑ جاتا ہے۔ آپ نے ایسے بزرگ بھی دیکھے ہوں گے جو اپنی ضروری دوا خریدنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر گئے ہوں گے اور آپ نے اپنی دھرتی کے ایسے باسی بھی ضرور دیکھے ہوں گے جو بھوک سے بلک بلک کر مرجاتے ہیں۔
حالانکہ آپ کو تو معلوم ہے کہ آپ کی دھرتی تو معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور ہر نئے پرانے میگاپراجیکٹ کے افتتاح پر آپ نے سنا ہوگا کہ یہ پراجیکٹ یہاں کی تقدیر بدلے گا اور لوگ اب جنت کا نظارہ یہیں دیکھیں گے۔ مگر ہم نے سوئی گیس پراجیکٹ سے لے کر ریکو ڈک، سیندک، کول مائنز، ماربل، کرومائیٹ اور دیگر سونے چاندی و معدنی وسائل کے بے شمار پراجیکٹ سمیت آج کل CPECاور گوادر پورٹ پراجیکٹ بھی دیکھ رہے ہیں مگر جنت کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اگر ان پراجیکٹس کے ساتھ کچھ دیکھا تو سینکروں گمشدہ افراد، مزید انتشار، جنگیں، تباہی اور گرتی پڑتی لاشیں!
ایسا نہیں ہے کہ آپ کی موت جس مرض سے ہوئی وہ کوئی لاعلاج مرض ہے یا جو لوگ زیادہ تر بیماریوں سے مرجاتے ہیں ان کے علاج کی سہولیات یا آلات موجود نہیں ہیں مگر بات یہ ہے کہ ہم جس نظام میں رہتے ہیں اسے نظامِ زر کہا جاتا ہے۔ یعنی سرمائے کا نظام جس میں سرمایہ دار پیسہ لگاتا ہے اور منافع کماتا ہے۔ اس میں ہر شے جو بنائی جاتی ہے اسے منافع کیلئے بیچا جاتا ہے اور جو لوگ محنت کرکے اسے بناتے ہیں یہ ان کا بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کے مالک کا ہوتا اور ان محنت کشوں کو بھی اس کے استعمال کا حق نہیں ہوتا۔ انہیں بس ایک قلیل سی اجرت دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے جس سے بمشکل ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔ اسی طرح اس نظام کے اندر جو بھی اشیا بنائی جاتی ہیں وہ لوگوں کی ضروریات زندگی پورا کرنے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ انہیں بیچ کر ان سے منافع کمانے کی غرض سے بنائے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اس نظام کے اندر جو اسکول اور ہسپتال بھی بنائے جاتے ہیں وہ بھی اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگوں کو اچھی تعلیم اور معیاری علاج کی سہولیات ملے بلکہ یہ بھی دولت میں اضافے کیلئے ہی بنائے جاتے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کیونکہ آپ تو پاکستان کے سب سے اچھے ہسپتال میں گئے تھے پھر بھی آپ کے دوستوں کو کٹورا لے کر ہاتھ پھیلانا پڑگیا تاکہ آپ کے علاج کیلئے پیسے اکھٹے کر سکیں مگر پھر بھی ان سرمایہ داروں کی دولت کی ہوس کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
سنگت ریحان! یہ نظام ایک ویمپائر کی طرح ہے۔ اسے جینے کیلئے انسانی خون کی ضرورت ہے۔ اور جتنا خون یہ پیتا ہے اس کی خون کی طلب اور بڑھ جاتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔ آپ جیسے پیارے نوجوان، ہردلعزیز بچے اور بزرگ روز اس وحشی نظام کی درندگی کی نظر ہوجاتے ہیں۔
آپ کے دوست احباب جو سوشل میڈیا پر آپ کی مغفرت کیلئے دعائیں کر رہے ہیں اور آپ کی ایک جان لیوا بیماری سے موت کو فطری موت کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں جوکہ آپ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ آپ ان کو بتا دیں کہ آپ اس مرض سے نہیں مرے، بلکہ آپ کا قتل ہوا۔ اور اگر اس طرح صرف افسوس کی حد تک بات ختم کی گئی تو اور بے شمار ریحان اس وحشی سرمایہ دارانہ نظام کی پیاس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ کروڑوں انسانوں کے قاتل اس نظام کے خلاف اب تو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جو دولت کی ہوس پر قائم ہے۔ اور برابری کی بنیاد پر قائم انسانی سوشلسٹ سماج کی تعمیر کرنا ہوگی تاکہ پیداوار کا مقصد منافع نہیں بلکہ ضروریات زندگی کو تکمیل ہو!
والسلام!
ظریف رند
6 ستمبر 2016ء