|تحریر: بین کری، ترجمہ: جلال جان|
ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے نے امریکی معاشرے میں تقسیم کو مزید تیز کر دیا ہے کیونکہ ریپبلکن صدارتی امیدوار بمشکل موت سے بچا ہے۔ لیکن یہ صرف ٹرمپ ہی نہیں تھا جو مرتے مرتے بچا۔ اس حملے کے بعد پورا ملک تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا تھا لیکن پھر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون کا عنوان تھا کہ ”امریکہ ایک گہری کھائی میں گرنے لگا ہے“۔ سرمایہ کے عقلمند معذرت خواہ اس بات کو سمجھتے ہیں اور خوف میں مبتلا ہیں۔ ہفتے کے روز قاتلانہ حملے کی کوشش نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ سیاسی صورتحال کتنی آسانی سے بے قابو ہو سکتی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
خانہ جنگی کے دہانے پر
ہم حملہ آور کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ حیرت انگیز طور پر اس حوالے سے بہت کم معلومات ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نام تھامس کروکس ہے، ایک 20 سالہ شخص جو درمیانی طبقے کے مضافاتی علاقے میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے پڑوسیوں میں سے کوئی بھی اسے جانتا نہیں تھا۔ بظاہر وہ ایک مہذب آدمی تھا جو بس میں اکیلا بیٹھتا تھا۔ ریپبلکن ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ اس شخص نے 2021ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کی مہم کے لیے مبینہ طور پر 15 ڈالر عطیہ کیے تھے۔ یہ وہ معلومات ہیں جو ہمیں مل رہی ہیں۔ اس کے سابق کلاس فیلوز نے اسے ایک ایسا لڑکا بتایا ہے جو توجہ سے بچتا تھا۔ اس کے مالک نے اسے ایک محنتی مزدور قرار دیا۔ اور بس یہی ہے۔
ممکن ہے کہ اس کی آن لائن موجودگی کی تحقیقات سے کوئی سیاسی محرک سامنے آئے لیکن ابھی تک ایسا کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ یہ تجویز کیا گیا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے، کہ وہ ان 4 کروڑ سے زائد امریکی شہریوں میں سے ایک تھا جن کی ذہنی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا۔
تمام اشارے یہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک تنہا آدمی تھا، جو اپنی ذاتی سوچ پر عمل کر رہا تھا۔ وہ بظاہر بہت معمولی شخص تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود چند لمحوں کے لیے 33 کروڑ کی آبادی والی دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کی قسمت تھامس کروکس کی ٹریگر پر رکھی انگلی کی استقامت پر منحصر تھی۔
خبر سننے کے بعد سب کے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ اگر وہ انگلی تھوڑی دیر مزید مستحکم رہتی؟ ٹرمپ اگر اس وقت اپنا سر نہ گھماتا؟
پنسلوانیا ریلی میں غصے کا منظر ایک بی بی سی صحافی نے کیمرے میں قید کیا ہے اور یہ خود ہی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ ایک شخص چیخا کہ ”انہوں نے پہلے گولی چلائی۔ یہ جنگ ہے!“۔ ”خانہ جنگی“، دوسرا بھی ساتھ چیخا۔ بہت سے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا۔ ”خانہ جنگی“ جلد ہی ٹوئٹر پر ٹرینڈ ہونے لگا اور گوگل کے انالیٹکس میں ”امریکی خانہ جنگی“ کو سرچ کرنا ایک سالہ بلندی تک پہنچ گیا۔ کئی عنوانات میں ایک ہی عنوان کے مختلف زاویے دکھائی دیے کہ ”خانہ جنگی کے دہانے پر“۔
محض قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں کہ اگر وہ گولی اپنا مقصد حاصل کر لیتی تو کیا ہوتا۔ اس بات کو تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر غم و غصہ آگ کی طرح پھیل جاتا۔ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوتے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کروکس کی طرح 4.4 کروڑ AR-15 رائفلز موجود ہیں، بے شک ایسی صورتحال میں بہت سے لوگ ہتھیار اٹھاتے اور انتقام لینے کے لیے سڑکوں پر آ جاتے۔ اگر گولی چلنے لگتی تو قومی گارڈ اور شاید امریکی فوج کو بھی بلانا پڑ جاتا۔
ایسی صورتحال میں کئی ریپبلکن سمیت کئی سیاستدان تشدد کو کم کرنے کی کوشش کرتے جبکہ دوسرے حالات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہوتے۔ بہت سے سینئر ریپبلکنز نے پہلے ہی اشارہ کیا ہے کہ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے منظم کردہ گولی ہے۔ کیا عوام کو اشتعال دلانے والے نامور ریپبلکنز کی گرفتاری ہوتی؟ ایسے ماحول میں ریپبلکن نیشنل کنونشن ٹرمپ کا وارث منتخب کرنے میں مصروف ہوتا۔
یقینا یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ ایک دن یہ واقعہ ”متبادل تاریخ“ فلم کی صنف کے لیے دلچسپ موضوع بن سکتا ہے۔ لیکن اب یہ سب اچانک بہت ممکن لگتا ہے۔
بائیڈن کی صدارت کا آغاز 6 جنوری 2021ء میں کیپیٹل بلڈنگ پر حملے کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ اگر مکمل خانہ جنگی تک حالات نہیں بھی پہنچتے تو بھی یہ واقعہ ایک اور 6 جنوری ضرب 10 گنا ثابت ہو سکتا تھا۔ دراصل یہ چار سال کے دوران امریکی معاشرے میں کئی گنا بڑی تقسیم کا اظہار ہے۔ ایک نئی ٹرمپ حکومت کے آغاز سے قبل، جو اب ناگزیر ہوتا نظر آ رہا ہے، یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں بورژوا جمہوریت کئی نسلوں میں اب بے مثال تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
جبر سے بھری تاریخ
امریکی حکمرانوں کے جسم میں ہفتے کے دن کے بعد ایک سرد لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ صرف ٹرمپ کی خوش قسمتی نہیں تھی بلکہ یہ ان سب کے لیے خوش قسمتی تھی۔
بائیڈن نے امریکیوں سے اپیل کی کہ وہ ”درجہ حرارت کم کریں“۔ یہاں تک کہ ٹرمپ، جو خود فائرنگ کے واقعے پر بہت زیادہ پریشان نہیں ہوا تھا، اب اسے بھی بخوبی احساس ہو گیا ہے کہ کیا ہونے والا تھا۔ اس نے فوری طور پر ”قومی اتحاد“ کی اپیل کی اور اپنی ٹیم کو سوشل میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت دی تاکہ حالات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔
اور پھر بائیڈن نے ایک عام بیان دیا جو کہ حقیقت کے اتنا برخلاف تھا کہ کسی بھی دوسرے سیاق و سباق میں اسے ایک تند و تیز طنز ہی سمجھا جاتا کہ:
”یہ خیال ناقابل تصور ہے کہ امریکہ میں سیاسی تشدد یا اس قسم کا تشدد ہو رہا ہے“۔
یہ واقعی ایک نایاب جملہ ہے خاص طور پر جب غزہ میں جاری امریکی حمایت یافتہ عوامی نسل کشی ہو رہی ہے جس کے بارے میں ہمیں مغربی رہنماؤں کی طرف سے کوئی مذمت سننے کو نہیں ملتی۔ قوم سے اپنے خطاب میں بائیڈن نے بے حیائی سے نسل کشی، غلامی، سامراجی جنگ اس کے ساتھ سیاسی تشدد کی طویل امریکی تاریخ کو نظر انداز کر دیا جس پر امریکی سرمایہ داری قائم ہے۔ اس سب کو چھوڑ کر بھی دیکھا جائے تو قتل اور سیاسی تشدد، یہاں تک کہ خانہ جنگی کی بھی امریکہ میں نہ صرف ایک طویل تاریخ ہے بلکہ ایک طویل روایت ہے۔
لیکن موجودہ صورتحال امریکی معیار کے مطابق بھی بالکل مختلف ہے۔ فنانشل ٹائمز نے اپنے ایک اہم اداریے میں لکھا کہ:
”یہ کہنا بہت پُرکشش ہے کہ امریکہ میں بندوقیں اور سیاسی قتل معمول کی بات ہیں۔ دوسرے جمہوری ممالک کے مقابلے میں یہ سچ ہے۔ لیکن 2024ء میں حالات منفرد ہیں۔ ایک گولی نے اس آدمی کو تقریباً قتل کر دیا تھا جو وائٹ ہاؤس میں واپسی کی صورت میں بدلہ لینے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ امریکہ میں انتقام کی روح بھٹک رہی ہے“۔
متوسط طبقے اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں امریکیوں میں واقعی ”انتقام کی ایک روح“ موجود ہے بلکہ در حقیقت خالص نفرت کی روح موجود ہے۔ بدعنوان سیاستدانوں، ”اسٹیبلشمنٹ“ اور ان تاریک قوتوں سے نفرت جنہیں لاکھوں لوگ لازمی طور پر سمجھتے تو نہیں ہیں لیکن جنہیں وہ واضح طور پر اپنے خلاف صف آراء محسوس کرتے ہیں۔
ٹرمپ کی کچھ لوگوں میں مقبول ہونے کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کی تنخواہوں کی قوت خریدار کم ہو رہی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اچھی نوکریاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے گھر خریدنے کا خواب چھوڑ دیا ہے۔ انہیں بیماری سے خوف آتا ہے، جو امریکہ میں دو تہائی دیوالیہ پن کی وجہ بن چکی ہے۔ ان کے لیے مستقبل مایوس کُن اور خوفناک حد تک غیر یقینی بن چکا ہے۔ اسی دوران وہ دیکھ رہے ہیں کہ بائیڈن حکومت یوکرین اور غزہ جنگوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کرتے ہیں جسے وہ موجودہ حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد ٹرمپ کو ایک آگ لگانے والے کے طور پر دیکھتے ہیں، جسے وہ وائٹ ہاؤس میں بھیج کر سارے نظام کو اندر سے راکھ کر سکتے ہیں۔
امریکی ”جمہوریت“ کی زوال پزیری
یقیناً شعلہ بیان ٹرمپ کے پاس امریکیوں کے حقیقی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ وہ ہر قسم کے وعدے کرتا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لینے، ریاست کو صاف کرنے اور ”عام آدمی“ کی نمائندگی کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔
وہ ”خفیہ ریاست“، ”بیدار ہجوم“، چین اور تارکین وطن، سب کو قصور وار ٹھہراتا ہے، ہر کسی کو، سوائے اس بدعنوان سرمایہ دارانہ نظام کے جس کا وہ خود بھی حصہ ہے اور امریکی معاشرے کی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار ہے۔ ٹرمپ جو باتیں کرتا ہے وہ کوئی جوابات نہیں ہیں لیکن اس کے علاوہ اور کون جوابات دے رہا ہے؟
آج سرمایہ دارانہ نظام میں لاکھوں افراد کی زندگیوں کی تلخ حقیقتوں سے قطع نظر بائیڈن اور ڈیموکریٹس کم ہوتی مہنگائی اور بڑھتے ہوئے جی ڈی پی کے اعداد و شمار کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے جیسے وہ امریکی مزدوروں سے کہہ رہا ہو کہ ”کیا تم بیوقوف ہو؟ کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں؟“۔
لبرلز ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو ٹرمپ کی شعلہ بیانی پر یقین کرتے ہیں، انہیں بے وقوف سمجھتے ہیں جو ”جعلی خبریں“ نہیں پہچان سکتے۔ ان کو اپنے اجتماعی مفادات کی حفاظت کے لیے، خاص طور پر آج کے غیر مستحکم حالات میں ایک قابل اعتماد اور ”سمجھدار“ شخص کی ضرورت ہے۔ اس لیے انہوں نے ٹرمپ کے خلاف ہر ممکن کوشش کی ہے جو انتہائی خود سر ہے اور اپنے خود غرض مفادات کا امین ہے جو کہ اس کے اپنے طبقے کے مفادات سے متصادم ہیں۔
تاہم، چند دور اندیش سرمایہ دار حکمت کاروں کے علاوہ باقی تمام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیوں ان کی ہر کوشش ٹرمپ کے سیاسی فائدے میں تبدیل ہو جاتی ہے جبکہ پوری سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لیے عدم اعتماد اور بدگمانی پیدا کر رہی ہے۔
ہفتہ کے دن سے پہلے ہر تین میں سے ایک امریکی کو یقین تھا کہ 2020ء انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ 2020ء کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے لاکھوں لوگوں کے لیے تصدیق کر دی ہے کہ ٹرمپ کے خلاف اور بالواسطہ ان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ ایک سازش کررہی ہے۔ ٹرمپ کے حامیوں نے دیکھا ہے کہ اس کے ایک کے بعد ایک اتحادی کو مختلف الزامات میں جیل بھیجا جا رہا ہے جن میں حالیہ مثال اسٹیو بینن ہے۔ پھر خود ٹرمپ ہے، جسے چار مختلف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ریاستی سرپرستی میں قتل کی کوشش پاگل پن تھا کیونکہ یہ امریکی حکمران طبقے کے مفادات میں نہیں ہے۔ لیکن ٹرمپ کے حامی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جب ہم اس تقریباً ناقابل فہم حقیقت کو بھی شامل کرتے ہیں کہ قاتل نے بٹلر، پنسلوانیا میں مرکزی اسٹیج سے صرف 150 میٹر دور کھلی جگہ پر چھت پر چڑھنے میں کامیابی حاصل کی تو سازشی تھیوریوں کا انبار لگ جاتا ہے۔
ایک انقلابی کمیونسٹ متبادل
یہ ریاست، ”جمہوریت“ اور حکمران طبقے کی لاکھوں امریکیوں کے درمیان ساکھ کی حالت ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو صرف چند دہائیاں پہلے ناقابل تصور تھی۔ تمام بورژوا اداروں کی ساکھ کا یہ بحران سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے ہے جو امریکی سامراجی طاقت کی نسبتی کمزوری سے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
بائیڈن کا یہ بیان کہ امریکہ میں سیاسی تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے، اس کے برعکس آج ہر پانچ میں سے ایک شہری سمجھتا ہے کہ ملک کو دوبارہ درست راستے پر لانے کے لیے تشدد ضروری ہے۔ 41 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں خانہ جنگی ناگزیر ہے۔
ٹرمپ نے اس غصے کے ایک حصے کو اپنے نام کر لیا ہے جو دراصل طبقاتی غصے کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے اور بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظت سے جنم لیتا ہے۔ وہ نسلی شعلہ بیانی فروخت کرتا ہے جس میں ماضی کو خوبصورت دکھایا جاتا ہے جب محنت کشوں کی زندگی بہتر تھی۔ بہرحال یہ ایک ایسا ماضی ہے جو سرمایہ دارانہ بحران کے عہد میں کبھی واپس نہیں آئے گا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے عام قسم کے ”سیاستدان“ کی طرح نظر بھی نہیں آتا۔
اس نے اس غصے کو اس لیے اپنے نام کر لیا ہے کیونکہ وہ واحد اہم شخصیت ہے جو اس کا مجسم اظہار بن گیا ہے جبکہ ”بایاں بازو“ اس میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
آئیے آج امریکہ میں جو ”لیفٹ“ سمجھا جاتا ہے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 2016ء میں برنی سینڈرز اور نام نہاد ”اسکواڈ“ شاید کوئی کردار ادا کر سکتے تھے اگر وہ ڈیموکریٹس سے علیحدگی اختیار کر لیتے۔ لیکن انہوں نے خود کو اتنی مضبوطی سے ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باندھ لیا ہے کہ وہ بائیڈن کی نامزدگی کا دفاع کر رہے ہیں حالانکہ لبرل میڈیا بھی اس کے خلاف ہو رہا ہے!
الہان عمر چند ماہ پہلے لبرلز کی طرف سے اسرائیل کی جنگ کے خلاف چند باتیں کرنے پر ”یہودی مخالف“ بنا بدنام کی جا رہی تھی۔ اس نے چند دن پہلے بائیڈن کو اپنی زندگی کا ”بہترین صدر“ قرار دیا ہے!۔ ”کم بُرائی“ کی حمایت میں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھکنے کا اس سے زیادہ شرمناک منظر تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
ایک حقیقی انقلابی بایاں بازو جو پورے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی محافظ دو پارٹیوں کے جعلی ”جمہوریت“ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر یقینا غم و غصے سے بھری ان پرتوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے جو اس وقت ٹرمپ کی رجعت پسند شعلہ بیانی سے متاثر ہیں۔ الیکسزانڈریا اوکازیو کورٹیز جیسے لوگ کام ہی یہ کرتے ہیں کہ ان پرتوں کو یہ یقین دلائیں کہ صرف ٹرمپ ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے اور اس طرح انہیں مزید اس کی حمایت میں دھکیل دیتے ہیں۔
لیکن لاکھوں لوگ، خاص طور پر نوجوانوں نے درست طور پر سرمایہ دارانہ نظام کو امریکی عوام کو در پیش بحران کی اصل وجہ کے طور پر پہچان لیا ہے۔ آج امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک نوجوان کمیونزم کو بہترین اقتصادی نظام سمجھتا ہے۔ بہت سے لوگ 2020ء میں ووٹ دینے کے لیے بہت کم عمر تھے لیکن اگر ان میں سے کچھ نے اس وقت ”کم برائی“ کے طور پر بائیڈن کو ووٹ دیا تو اب وہ اس خیال سے باہر آ چکے ہیں۔
ہم ان ہی لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ قتل کی کوشش نے ٹرمپ کی حمایت کو بہت زیادہ مضبوط کر دیا ہے، یہاں تک کہ ایک اور ٹرمپ حکومت کا قیام تقریباً یقینی نظر آتا ہے۔ اس طرح کی انفرادی دہشت گردی کے اقدامات سے یہی رجعتی رد عمل اور ناگزیر نتیجہ نکلتا ہے۔
لیکن ٹرمپ کی دوسری صدارت کا یہی تجربہ لاکھوں حامیوں کی غلط فہمیوں کو دور کر دے گا۔ تاہم ٹرمپ ازم کی مثال یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب یہ غلط فہمیاں ٹوٹتی ہیں تو وہ خود بخود سرمایہ داری کے بحران سے نکلنے کے لیے اربوں ڈالر کی کمپنیوں کو مزدوروں کے کنٹرول میں لینے کے راستے پر نہیں چل نکلتے۔ یہی کمیونزم ہے۔
پورے امریکہ میں ایک طاقتور انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی انتہائی دائیں بازو کی حمایت کو شکست فاش دے سکتی ہے، جو سرمایہ دار طبقے کی دونوں پارٹیوں کا متبادل بن کر سامنے آئے۔
ہمارے سامنے دیو ہیکل امکانات کھلیں گے لیکن اس کے لیے آج ہی تیاری کرتے ہوئے منظم ہونا ہو گا۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ امریکی انقلابی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوں اور انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا حصہ بنیں۔