|رپورٹ: ورکرنامہ، بلوچستان|
5ستمبر بروز ہفتہ بلوچستان کے شہر تربت میں معروف خاتون سماجی کارکن، مصورہ اور صحافی شاہینہ بلوچ کو ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال زخمی حالت میں منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئیں۔ شاہینہ بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ان کے شوہر کو نامزد کیا گیا ہے جو گزشتہ روز اسے زخمی حالت میں ہسپتال لے کر آیا اور پھر روپوش ہو گیا۔ کیچ پولیس کے مطابق شاہینہ کو ہسپتال پہنچانے والے شخص کی شناخت محراب گچکی کے نام سے ہوئی ہے اور وہ اس وقت مفرور ہے۔ شاہینہ بلوچ کے قتل کا مقدمہ اس کے ماموں احمد علی کی مدعیت میں تربت پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے نوابزادہ محراب گچکی اور شاہینہ نے پانچ ماہ قبل کراچی میں کورٹ میرج کی تھی۔ محراب گچکی نے تربت شہر میں واقع پی ٹی سی ایل کالونی کے ایک کوارٹر میں اپنے 9 ایم ایم پسٹل سے فائرنگ کر کے شاہینہ کو زخمی کر دیا اور بعد میں اسی حالت میں ہسپتال پہنچانے کے بعد فرار ہوگیا۔
شاہینہ شاہین بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت شہر سے تھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم تربت میں حاصل کی اور اس کے بعد فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخلہ لیا۔ فائن آرٹس میں 2018ء میں نہ صرف بی ایس کی ڈگری حاصل کی بلکہ اپنی ذہانت کے باعث گولڈ میڈل بھی وصول کیا۔ 2019ء میں بلوچی زبان میں ایم اے کی ڈگری فرسٹ پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ وہ صحافت کے پیشے سے بھی وابستہ تھی اور ایک بلوچی میگزین دزگہار (سہیلی) کی مدیر بھی تھی۔
ابتدائی رپورٹو ں میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اس قتل میں ذاتی رنجش، چپقلش اور نام نہاد غیرت کا عنصر حاوی ہے اوریہ ہونہار خاتون سماج میں جاری ظلم اور بربریت کی بھینٹ چڑھی ہے۔ اس ظلم کے بعد ریاستی اداروں اور بالخصوص عدالتوں سے بھی کسی کو کوئی توقع نہیں جو پہلے ہی مجید اچکزئی کو قتل کے مقدمے میں عدم ثبوت کی بنا پر بری کر چکی ہیں جبکہ یہ قتل کیمرے میں محفوظ ہے اور ٹی وی سکرینوں پر لاکھوں لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ اس قتل سے ملک بھر کی خواتین میں خوف اور دہشت بھی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہیں سماجی زندگی میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکنے کا عمل مزید تیز ہو جائے گا۔ سماج کی رجعتیت اور پسماندگی کو مزید مسلط کیا جائے گا اور خواتین کے خلاف انسانیت سوز جرائم کے سلسلے میں بھی اضافہ ہوگا۔ درحقیقت یہ اسی طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کئی دہائیوں سے ارض پاک پر جاری ہے، جومظلوم خواتین کے خون کے دھبوں سے اب سرخ ہو چکی ہے۔
بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں خواتین کے قتل، گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں۔ لیکن ان تمام واقعات میں سے چند ایک کی ہی رپورٹنگ ہوتی ہے اور جن واقعات کی رپورٹنگ ہوتی بھی ہے تو انہیں عام طور پر نام نہاد غیرت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے حقائق کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے یا حقائق کو بزورِ طاقت دبا دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نادیہ نے اپنے سپر وائزر کی مسلسل ہراسانی سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔ اطلاعات کے مطابق اس کا فائنل تھیسس تقریبا ً7 بار مسترد ہو چکا تھا اور اس کے ساتھیوں کے مطابق وہ 15 سال سے شدید ذہنی و جسمانی تناؤ کا شکار تھی۔ خودکشی سے قبل سپر وائزر سے متعلق اس کے اپنے الفاظ تھے کہ”ڈاکٹر اقبال چوہدری مجھے پی ایچ ڈی نہیں کرنے دے گا۔ مجھے معلوم نہیں وہ آخر مجھ سے چاہتا کیا ہے؟“
پاکستان میں اگر ہم صرف بلوچستان کی بات کریں تو ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مقتولین پر بظاہر ناجائز جنسی تعلقات کا الزام لگایا جاتا ہے مگر اصل محرکات کچھ اور ہوتے ہیں۔ باہمی تنازعات، لین دین اور جائیداد کے جھگڑوں کی وجہ سے بھی لوگوں کو قتل کرکے انہیں ”سیاہ کار“ کہا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کو رسم و رواج اور قبائلی روایات کا نام دے دیا جاتا ہے جس وجہ سے پولیس اور انتظامیہ بھی ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتی ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ڈسٹرکٹ نصیر آباد میں خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کرنے کے لیے ان کی قرآن سے شادی کرانے کے واقعات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ جو خواتین ایسا نہیں کرتیں انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات میں صرف مئی 2020ء میں رپورٹ ہونے والی چھ خواتین کو اپنے ہی گھر کے افراد نے غیرت کے نام پر یا گھریلو ناچاقیوں کی بنا پر قتل کیا ہے۔ پاکستان میں خواتین آئے روز غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں اور ہر طرح کے ظلم سہتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کا سدباب تو دور کی بات ان سنگین جرائم کے درست اعدادوشمار تک موجود نہیں ہیں۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل جبکہ 21 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان میں سالانہ اوسطاً ایک ہزار سے زائد بچے اور بچیاں اغواء کر لیے جاتے ہیں۔ ریپ اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے معصوم لڑکے لڑکیوں کی اوسط تعداد بھی ایک ہزار سے زائد ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایسے جرائم کے ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیے گئے ہیں جبکہ ایسے بہت سے جرائم سماجی بے عزتی کے خوف یا مجرموں کی طرف سے دھمکیوں جیسی وجوہات کے باعث پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ پاکستان میں اس نوعیت کے جرائم کا قومی سطح پر ریکارڈ رکھنے کا کوئی خصوصی نظام موجود نہیں۔ تھوڑی بہت لفاظی کے علاوہ کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم کے پاس ان واقعات کی وجوہات اور سدِ باب کے حوالے سے کوئی سنجیدہ پروگرام یا منشور موجود نہیں۔ عدلیہ کا نظام اور کام بھی موجودہ سماجی ہیئت کو برقرار رکھنا ہے اور اس لئے نظامِ عدل اتنا پیچیدہ، سست رو اور عدم دلچسپی کا شکار ہے کہ شاذ و نادر ہی کسی متاثر کو انصاف مل پاتا ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے یا کام کی جگہ پر کوئی سنجیدہ طریقہ کار اور نظام موجود نہیں جس کے ذریعے خواتین شکایت اور کاروائی کر سکیں۔ نام نہاد درمیانے طبقے کی دانشور خواتین و حضرات ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چار مذمتی الفاظ ادا کرنے کے علاوہ کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کرتے۔ اور اگر کچھ کو”انقلابی“ اقدامات کا شوق ہو بھی تو کسی جگہ کسی این جی او کے زیرِ اہتمام احتجاج پر فوٹو سیشن کروا لیتے ہیں۔
یہاں این جی او ز کے غلیظ کردار کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ عوام کو پچھلی کئی دہائیوں سے سماجی تحفظ اور سہولتیں فراہم کرنے میں ریاستی ناکامی کے ساتھ پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص این جی اوز کا کاروبار بے تحاشہ بڑھا ہے۔ سابق مایوس نام نہاد انقلابیوں، متوسط طبقے کے بالائی گھرانوں کی فارغ خواتین، فیشنی دانشوروں، سماج سے کٹے میڈیا ستاروں اورسیاسی شعبدہ گروں کی آماجگاہ این جی اوز کا مقصد نظامِ زر میں اصلاحات کے سراب میں غرباء اور متاثرین کا خون بیچ کر کروڑوں روپیہ کمانا ہے۔ ان کاموں کے لئے چند ایک متاثرین کو آگے لا کر میڈیا پر واویلا مچایا جاتا ہے، ایک آدھ کورٹ کیس کرا لیا جاتا ہے اور پھر تقریبات اور فوٹو سیشن کرا کر بیرونی تنظیموں اور مخیر حضرات سے کارکردگی کے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں دہائیوں سے این جی اوز اس سارے کھلواڑ میں کروڑوں روپیہ ہڑپ کر چکی ہیں لیکن متاثرین کی کوئی داد رسی نہیں ہوئی جبکہ گھناؤنے سماجی مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے اب کم سے کم یہ فرق ضرور آیا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم منظر عام پر آ جاتے ہیں اور کچھ عرصہ زیرِ بحث بھی رہتے ہیں۔ اس حوالے سے خواتین کو تھوڑا بہت حوصلہ ملنے لگا ہے اور وہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کی ہمت کر رہی ہیں۔ لیکن جو خواتین اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتی ہیں ان کو آج بھی وہ حمایت اور رہنمائی نہیں مل رہی جو ان کو ملنی چاہیے۔ وقتی مداخلت سے خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور خصوصی طور پر غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ان مسائل کے لئے ٹھوس قوانین، اقدامات اور سب سے بڑھ کر انصاف پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔ ریاست نے اس حوالے سے کچھ قانون سازی کی ہوئی ہے اور کچھ ادارے بھی بنا رکھے ہیں لیکن ان کی فعالیت اور سنجیدگی کا اندازہ آئے دن بے باک ریپ اور قتل کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ ایک واقعہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے استحصال اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ہزاروں واقعات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے جو کہیں بھی رپورٹ نہیں ہو پاتے۔ صرف دیہی یا قبائلی علاقوں میں بھی اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ ویسے ہمارے معاشرے میں مذہبی اور اخلاقی منافقت کی آڑ میں خواتین سے جھوٹی ہمدردی اور عظمت کے استعارے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن درحقیقت طبقاتی محرومی، پسماندگی اور ریاستی آشیر آباد سے پروان چڑھائی جانے والی مذہبی رجعتیت کی یلغار اور جاہلانہ رسوم و روایات نے خواتین کے خلاف ایک انتہائی زہریلے تعصب کو پروان چڑھایا ہے جس کا اظہار ہمیں ہر وقت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان رجعتی متعصب نظریات میں خواتین کو معاشرے میں موجود برائیوں کی جڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ طبقاتی سماج اور پسماندگی سے پیدا ہونے والے تمام تر مسائل جیسے جائیداد کی خاطر ہونے والے خاندانی جھگڑے یا دیگر ثقافتی مسائل کا تمام تر الزام خواتین پر ڈالا جاتا ہے اور انہیں ایک بے دماغ مخلوق یا فتنہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کھلم کھلا ان کو جبر و تشدد کے ذریعے کنٹرول کرنے کی تبلیغ کی جاتی ہے، کیونکہ موجودہ نظام میں عورت کی حیثیت ایک سمجھ بوجھ اور انسانی جذبات رکھنے والی زندگی کی بجائے نجی ملکیت، جنس اور وراثت کے سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ اس تمام تر تبلیغ کا سلسلہ ہمیں گھر کے سربراہ سے لے کر مسجد کے امام اور سکولوں کالجوں کے رجعتی خواتین و حضرات اساتذہ تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اپنے خلاف کیے گئے اس پروپیگنڈے کو سچ تسلیم کرتی ہے اور اپنے آپ کو کم تر مخلوق تصور کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر رجعتی نظریات لوگوں کی غربت، طبقاتی محرومی، پسماندگی اورحکمران طبقے کی مسلط کردہ جہالت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ان تمام تر حالات اور رجعتی نظریات کی ذمہ دار عوام نہیں بلکہ وہ حکمران اور ان کا نظام ہے جس نے کئی نسلوں سے عوام کی اکثریت کو غربت، پسماندگی اور جہالت میں رکھا ہوا ہے۔ اس سب کا ذمہ دار طبقاتی تفریق اور محنت کے استحصال اور وسائل کی لوٹ مار کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو سماج کو ترقی دینے میں ناکام رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور عمومی طور پر سماجی زوال کے نتیجے میں عورتوں کے اوپر جبر تمام انتہائیں عبور کر چکا ہے اور پسماندہ ممالک میں پھر اس جبر کی انتہائی وحشت ناک شکلیں سامنے آتی ہیں۔ عمومی طور پر محنت کش طبقے اور مظلوم قومیتوں کی طرح عورتوں پر جبر کی جڑیں بھی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اور سرمایہ داری دراصل ذاتی ملکیت پر مبنی طبقاتی سماج کی موجودہ شکل ہے۔ خواتین کے سوال کو اس نظام کے اندر دیگر سوالات سے جوڑنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ناگزیر ہے کیونکہ جنسی ہراسانی اور تشدد سے لے کر غیرت کے نام پر قتل تک جو بھی مسائل ہوں ان کی جڑیں اس ظالم سماج اور ظالم نظام میں پیوست ہیں۔ لہٰذا ظلم، جبر، استحصال، لوٹ کھسوٹ اور خواتین کے اوپر مظالم کا مکمل خاتمہ اس نظام کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔ ایک غیر طبقاتی اور غیر استحصالی سوشلسٹ سماج ہی انسانیت کی اصل معراج ثابت ہوگی جس میں موجودہ نظام کے جرائم، مظالم اور استحصال کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔