|تحریر: جان پیٹرسن، ترجمہ: ولید خان|
اور پھر یہ ہوا کہ ’’ڈیموکریٹس کا باب‘‘ بند ہو گیا۔ ایک وقت میں جو بات انہونی لگتی تھی۔۔جیسے ٹوائی لائٹ (ایک ڈراؤنا امریکی ٹی وی شو)کی کوئی قسط۔۔اب بدنما حقیقت بن چکی ہے۔ جیسے جیسے ہیلری کلنٹن کی ’’مضبوط‘‘ ریاستوں کی ’’نیلی دیوار‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں گرتی گئی ویسے ویسے میڈیا کے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کے اعصاب خطا ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش تو بہت کی لیکن کروڑوں لوگوں کی طرح وہ واضح طور پر شدید شاک میں تھے۔
To read this article in English, click here
اوبامہ نے نیم گرمجوشی سے کہا کہ ’’کل کا دن پھر طلوع ہو گا۔‘‘ جیسے دن کے بعد رات آتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ صبح سورج ضرور نکلے گا۔ لیکن یہ صبح ایک نئی دنیا کو روشن کرے گی: ایسی دنیا جس میں ایک رات کے اندر گلے سڑے کلنٹن شاہی خاندان کا خاتمہ ہو گیا اور چھوٹی بدی کی انتخابی حکمت عملی کا شیرازہ بکھر گیا۔
’’یہ نہیں ہو سکتا!‘‘
’’رو نہیں؛ نہ ہی برہم ہو۔ سمجھو‘‘ (اسپینوزا)
’’وہ سب جو ٹھوس ہے ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے؛ وہ جو مقدس ہے، ناپاک ہو جاتا ہے‘‘ (کارل مارکس)
اگر تمام محرکات برابر ہوتے تو یہ انتخابات کبھی اتنے سنسنی خیز ہونے ہی نہیں چاہئے تھے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے کئی بار لکھ چکے ہیں، تمام محرکات برابر نہیں ہیں۔ منطق اور اسباب کے تمام تر اشارئیے کلنٹن کی فتح کا عندیہ دے رہے تھے لیکن معاشی بحران کی ضربوں تلے منطق اور اسباب کے پرخچے اڑ گئے۔ 2016ء کا سال بائیں اور دائیں بازو، دونوں کی سیاست کے پاپولزم کا سال رہا ہے اور جب سینڈرز کو زبردستی صدارتی امیدوار کی دوڑ سے باہر نکال دیا گیا تو نتیجے میں سب سے زیادہ فائدہ ٹرمپ کو ہوا۔ جب وہ دیو ہیکل سیاسی جلسے کر رہا تھا تو اسی اثنا میں ’’فریبی ہیلری‘‘ انتخابات کیلئے تحرک پیدا کرنے کی ناکام جدوجہد کر رہی تھی جس کی وجہ سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اس وجہ سے ہمیں حیران و پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ جیسا کہ ہم نے انتخابات سے پہلے تجزیئے میں لکھا تھا کہ:’’اگر بریگزٹ ہوسکتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔‘‘ سرمایہ داری کے بے انتہا گلنے سڑنے کے عہد میں جو سوچا بھی نہیں جا سکتا آج اس کا ممکن ہونا معمول بن چکا ہے۔ جب مارکس وادی یہ کہتے ہیں کہ ’’تیز اور اچانک تبدیلیاں‘‘ آج کے عہد کا خاصہ ہیں تو یہ کوئی کھوکھلا دعویٰ نہیں ہے۔ جب ہم نے یہ تفصیلاً لکھا کہ چاہے کوئی بھی انتخابات جیتے، سیاسی حالات میں واضح تبدیلی آئے گی اور یہ سب کوئی بلند و بانگ دعوے نہیں تھے۔ سینڈرز کی کمپین اور ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد، کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ امریکہ میں کبھی کچھ تبدیل نہیں ہوتا؟ کوئی شک نہیں کہ یہ وہ تبدیلی نہیں ہے جس کا لاکھوں کروڑوں لوگ تصور کر رہے تھے لیکن بہر حال یہ دیو ہیکل اور تباہ کن تبدیلی ہے۔
عالمی معیشت اور طبقاتی جدوجہد پر کیا اثرات پڑیں گے، اس کی پیش گوئی کرنا ناممکن ہے لیکن اثرات پڑیں گے ضرور اور وہ بھی دور رس۔ حتمی نتائج کے اعلان سے پہلے ہی امریکی اسٹاک مارکیٹ 700 پوائنٹ گر گئی، میکسیکن پیسو ڈالر کے مقابلے میں اپنی 10 فیصد قدر کھو بیٹھا ، سونے کی قیمت چڑھ گئی اور ایشیائی اسٹاک مارکٹیں کریش کر گئیں۔
امریکہ کوئی کنارے پر کھڑی کوئی تیسرے درجے کی سابقہ عالمی طاقت نہیں ہے بلکہ سرمایہ دار اور سرمایہ داری کا گڑھ ہے۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز جریدے نے لکھا:’’مسٹر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے اثرات کا کچھ وقت بعد ہی پتہ لگے گا۔ ایک ایسے آدمی کا انتخاب کر کے جس کا امریکی آئینی رکھ رکھاؤ کے خلاف بے ادب اور جارحانہ رویہ ہے، امریکہ نے واشنگٹن میں ایک خود کش بمبار بھیج دیا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کو نظام تباہ کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے۔ اس کی ’’بریگزٹ سے دس گنا زیادہ‘‘ کی پیشن گوئی چھوٹی بات تھی۔ برطانیہ نے اپنے آپ کو بے کس اور آوارہ کر دیا ہے لیکن اس کے فیصلے کے نتائج زیادہ تر تنگ نظری کا نتیجہ ہیں۔‘‘
ہیلری کلنٹن کی جیت یقینی تھی۔ ہر رائے شماری کی تنظیم نے اس کو واضح اکثریت کے ساتھ فاتح قرار دیا تھا۔ لیکن امریکی وقت کے مطابق 10:30بجے تک پانسہ پلٹ چکا تھا اور ’’زلزلہ خیز‘‘، ’’بے یقینی‘‘، ’’عوامی بغاوت‘‘، ’’امریکی تجربے کا خاتمہ‘‘، ’’ناکام ریاست‘‘ اور ’’قیامت خیز‘‘ قسم کے الفاظ ذرائع ابلاغ میں سنائے دیئے جانے لگے۔ تجزیہ نگاروں کے تجزیئے اور دانشورو ں کی دانشوری مکمل طور پر کیسے غلط ہو گئی؟
سادہ الفاظ میں، رائے شماری کے نتائج بالکل غلط اس لئے تھے کیونکہ ذرائع ابلاغ اپنی ہی بنائی ہوئی داستان پر یقین کر بیٹھے تھے: کہ عوامی غصہ وقتی تھا اور بہترین کیمپین والا امیدوار ہمیشہ جیتتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے برنی سینڈرز کو کلنٹن کی امیدوں پر پانی پھیرنے میں انتہائی کمزور و ناتواں قرار دیا تھا، اسی طرح وہ غرور میں یہ سمجھتے تھے کہ ٹرمپ کی گھٹیا قوم پرستی، جنسی تعصب اور جہالت اسے ڈبونے کیلئے کافی ہوں گے۔ سینڈرز دباؤ برداشت نہ کر سکا۔ لیکن ٹرمپ پر میڈیا کے دباؤ اور اپنی پارٹی کے دباؤ کہ یا تو پارٹی کا ڈسپلن مانو یا انتخابی مہم سے خارج ہو جاؤ، کا کوئی اثر نہیں پڑا اور اس کے حامی اس کی ثابت قدمی کو نوازتے ہوئے بے پناہ تعداد میں ووٹ دینے کیلئے باہر نکلے۔
یہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ نفرت کئے جانے اور غیر مطلوب امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا۔ آخر میں، جیسا کہ ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ ’’امریکی صدارتی امیدواروں کی تاریخ میں سب سے زیادہ غیر موزوں امیدوار ہلیری کلنٹن نکلی۔‘‘ ایک کمزور الیکشن کمپین مشینری کے باوجود، ٹرمپ غم و غصے کی لہر پر سوار وایٹ ہائس پہنچ گیا۔
انتخابات کے مخالف
جیسا کہ ہم نے الیکشن کے دن سے پہلے لکھا تھا،’’یہ ہمیشہ سے کلنٹن کیلئے ہارنے کا الیکشن تھا، یعنی، جب کلنٹن اور DNC نے غیر جمہوری چالیں چل کر برنی سینڈر کو امیدوار بننے سے روک دیا۔ کیونکہ اوبامہ کی کچھ نہ کچھ مقبولیت ہے، معیشت ابھی تک واپس بحران کا شکار نہیں ہوئی، آکوپائی وال سٹریٹ اور بلیک لائیوز میٹر کے بعد نوجوانوں کا عمومی رجحان بائیں طرف بڑھ رہا ہے اور ٹرمپ ایک رجعتی بھانڈ مسخرہ ہے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے: کروڑوں لوگ ہلیری کلنٹن سے شدید ترین نفرت کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں کلنٹن ایک جھوٹی، مکار فریبی ہے جس کی وال سٹریٹ نے قیمت لگا کر خریداری کر رکھی ہے۔ وہ سیاست میں چور رستے سے گھسنے کی اعلی ترین مثال اور روٹین کی سیاست کا مجسم اظہار ہے۔ سینڈرز کے تجربے کے بعد، ’کم از کم میں ٹرمپ تو نہیں ہوں نا!‘ کروڑوں لوگوں کیلئے یہ بات انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔‘‘
امریکہ کی آبادی کی بے پنا ہ اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ملک غلط راہ پر ہے اور یہ سوچ بر سر اقتدار پارٹی کے خلاف گئی۔ ریاست فلوریڈا میں اس سال نوجوانوں میں کلنٹن کی مقبولیت اوبامہ کے مقابلے میں 11 فیصد کم رہی۔ متعدد لوگوں نے یہ جانتے ہوئے تیسری پارٹیوں کو ووٹ ڈالے کہ اس کے الٹے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ کمپین کی فنانسنگ میں بڑی اجارہ داریوں کے حاوی ہونے اور الیکٹورل کالج کی وجہ سے عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اور ان کو کون مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے؟ نوجوانوں کے نزدیک دونوں امیدوار ’’ڈراؤنے‘‘، ’’مذاق‘‘، ’’بھونڈا طنز‘‘ اور ایک ’’بے عزتی‘‘ تھے۔
بیس سالہ ابرنیا جانسن جو کہ شمالی فلاڈیلفیا میں موجود ڈراٹ ہاؤس میں بطور ویٹر کام کرتی ہے کے مطابق ’’ان انتخابات میں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجھے یہ تو پتا ہے کہ مجھے کون نہیں چاہئے، اس سے زیادہ کہ مجھے کون چاہئے۔‘‘ اس کا ارادہ کلنٹن کو ووٹ دینے کا ہے کیونکہ اس کے مطابق ’’وہ ٹرمپ نہیں ہے۔‘‘
ٹرمپ کے کچھ حامیوں کے ایسے ہی جذبات تھے۔ کال سمرز، بکس کاؤنٹی کمیونٹی کالج کے 19سالہ طالب علم کا ارادہ مسٹر ٹرمپ کو ووٹ دینے کا ہے کیونکہ وہ ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے اور کیونکہ ’’ہیلری کلنٹن ایک مجرم ہے۔‘‘ لیکن انتخابات اس کیلئے ’’خوف‘‘ کا باعث ہیں کیونکہ دونوں امیدوار خامیوں سے بھرپور ہیں۔ یہ سوال پوچھنے پر کہ صدارتی امیدوار کے ابتدائی انتخاب پر (پرائمیریز) وہ کسی اور امیدوار کی حمایت کرے گا تو اس نے کہا کہ ’’سچ تو یہ ہے کوئی بھی اور کم از کم ان دونوں سے بہتر ہی ہوتا۔‘‘
یہاں تک کہ دی اونیون، ایک طنزیہ آن لائن جریدے، کو بھی انتخابات پر طنز کرنے میں دشواری رہی۔ جریدے کے مینیجنگ ایڈیٹر بن برکلے کے مطابق:’’آواز کو اونچا کرنا مشکل ہے جب سپیکر پہلے سے ہی پھٹا ہوا ہو اور ہر ایک کے کانوں سے خون جاری ہو۔‘‘
خواتین اور کلنٹن
کچھ لوگ خواتین کے خلاف جنسی تعصب اور نفرت کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں: یہ زہر امریکہ میں حقیقی ہے اور یہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک طبقات اور مصنوعی قلت کو سماج میں پنپنے دیا جاتا رہے گا۔ لیکن ہیلری کی جنس کو رد کرنے سے زیادہ عوامل یہاں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ ایکٹریس اور سرگرم کارکن سوزن سرینڈن نے واشگاف الفاظ میں کہا:’’میں اپنی اندام نہانی سے ووٹ نہیں ڈالتی۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ ٹرمپ الفاظ میں اور اعمال میں ایک بدبودار جنسی تعصب کا حامل انسان ہے لیکن یہ اعمال کلنٹن کے امریکہ اور تمام عالم میں کروڑوں محنت کش خواتین کے خلاف اعمال کے سامنے پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ہم صرف ایک ہی مثال لے لیں تو بدنام زمانہ کلنٹن فاؤنڈیشن خواتین ملازمین کو اپنے مرد ملازمین کی تنخواہ کا صرف 72 فیصد دیتے ہیں۔۔ بغیر منافع کام کرنے والی تنظیموں میں اوسطاً 75فیصد سے بھی کم۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ کلنٹن خواتین کو ایک ہی کام کے مردوں کے 10ڈالر گھنٹہ کے بجائے 7.20ڈالر فی گھنٹہ تنخواہ دیتی ہے۔اس کے علاوہ شام، عراق، افغانستان، لیبیا اور ہر جگہ پر کروڑوں خواتین کے آلام و مصائب اس کے علاوہ ہیں جن پر بطور سیکرٹری آف سٹیٹ کلنٹن نے بمباری اور تباہی پھیلائی۔
بہت سارے امریکیوں کیلئے ایک خاتون صدر کو منتخب کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور ان کے نزدیک یہ ایک بڑا ترقی پسند قدم ہوتا۔ لیکن جب عمل کی گھڑی سر آن کھڑی ہوئی تو کروڑوں خواتین و مرد اپنے آپ میں ایک خاتون کو صدر بنانے کیلئے تحرک پیدا نہ کر سکے۔ انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا، اس لئے نہیں کیونکہ وہ بیوقوف یا جاہل ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے طبقاتی شعور نے انہیں باور کرایا کہ ہیلری کلنٹن ان کی طبقاتی دشمن ہے۔
’’بیوقوف، مسئلہ معیشت کا ہے‘‘
اوبامہ کے آٹھ سالہ دور اقتدار کا خیالی نہیں بلکہ اصل ورثہ ان نتائج کی بنیادی وجہ ہے۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز کے مارٹن وولف نے ووٹ ہونے سے پہلے لکھا کہ:
’’پھر، بحران کی وجہ سے لگے زخم؛ جن میں معیشت دانوں، دانشوروں اور پالیسی سازوں کی راست بازی اور قابلیت پر عدم اعتماد ہے،پرانے زخموں کے اوپر لگے ہیں۔
’’اصلی گھریلو کمائی 2014ء اور 2015ء کے درمیان 5.2فیصد بڑھی۔ لیکن یہ بحران سے پہلے کے اعداد و شمار سے کم ہے۔ یہاں تک کہ یہ 2000ء میں حاصل کی گئی سطح سے بھی کم ہے اور 1970ء کی دہائی سے اب تک کے حقیقی GDPفی کس کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں مایوسی، یہاں تک کہ نا امیدی کی لہر کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے جو ان وحشت ناک انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔‘‘
’’ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ عدم مساوات بہت زیادہ بڑھی ہے۔ 1980ء سے لے کر اب تک، اوپر کے 1فیصد کی ٹیکسوں سے پہلے کمائی 10فیصد سے 18فیصد ہو گئی ہے۔ ٹیکسوں کے بعد بھی یہ ایک تہائی بڑھی ہے، 8فیصد سے 12فیصد۔ اداروں اور کمپنیوں کے سربراہوں کی کمائی میں عام ورکروں کے مقابلے میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے زیادہ اجرتوں والے ممالک میں سے امریکہ میں سب سے زیادہ عدم مساوات ہے اور کئی زیادہ اجرتوں والی معیشتوں کے حامل ممالک کے مقابلے میں یہاں عدم مساوات تیز ترین بڑھی ہے۔ ان ممالک کے درمیان تفریق کا مطلب یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات معاشی ضرورت سے زیادہ ایک سماجی انتخاب ہے۔‘‘
’’عدم مساوات کے ساتھ ساتھ GDPمیں محنت کا حصہ بھی 2001ء میں 64.6فیصد سے گر کر 2014ء میں 60.4فیصد ہو گیا ہے۔ محنت کشوں کی مشکلات میں صرفِ معاش سرگرمیوں سے باہر ہو جانے کے ہی اثرات نہیں پڑے۔ ساتھ ہی 25سے 54 سال کی عمر کے ان مردوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے جو نہ کام کر رہے ہیں اور نہ ہی کام تلاش کر رہے ہیں جو کہ 1950ء کی دہائی میں 3فیصد سے بڑھ کر اب 12فیصد ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ فرانس میں بھی فعال عمر میں مرد امریکہ سے زیادہ نوکریوں پر لگے ہوئے ہیں اور یہ رجحان 2001ء سے لے کر اب تک ایسا ہی ہے۔1990ء سے لے کر اب تک (OECD-Organization for Economic Co-operation and Development) کے تمام ممبران میں امریکہ محنت کی منڈی میں مردوں کی عدم موجودگی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 2000ء کے بعدسے نوجوان خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں کمی کے رجحان کی روک تھام ہو چکی ہے۔ امریکہ میں اس عمر کی خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت اس وقت OECDکے تمام ممبران میں سب سے کم ہے۔‘‘
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ٹرمپ کے اعلانات کا ’رسٹ بیلٹ‘ (امریکی اوپری شمالی مشرق، بڑی جھیلوں کا علاقہ اور مغربی وسطی علاقوں کی ریاستیں جو کبھی امریکی صنعت کا گڑھ ہوا کرتی تھیں اور اب گرتی ہوئی معیشت، کم ہوتی آبادی اور شہروں کے انحطاط کی وجہ سے رسٹ بیلٹ کا علاقہ کہلاتی ہیں۔ یہ اصطلاح 1980ء کی دہائی میں زبان زد عام ہوئی)اور اس کے علاوہ دیگر جگہوں پر خاطر خواہ اثر پڑا۔ وسطی مغربی ریاستیں خاص طور پر معاشی بحران کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہوئیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سابقہ مضبوط قلعوں جیسے مشی گن اور وسکونسن اور رسٹ بیلٹ کے پنسلوینیا اور اوہائیو میں ٹرمپ جیتا ہے۔ لیبر قیادت کی طرف سے کوئی واضح لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے، سرمایہ دارانہ عالمگیریت کو رد عمل میں شدید رد کیا جا رہا ہے اور قوم پرستی میں بہہ کر مہاجرین اور چین کے خلاف رد عمل وغیرہ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
کروڑوں امریکی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں اور ان کی عزت نفس تک اس نہ ختم ہونے والے معاشی بحران نے مجروح کر دی ہے۔ ہیروئن کی وبا صرف اس کا ایک اظہار ہے۔ وہ واشنگٹن میں ’’دلدل کو خالی‘‘ اور ’’اپنے ملک کو واپس لینا چاہتے ہیں‘‘۔۔ایک ایسی سوچ جس کا پہلے کبھی وجود نہیں تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی وال سٹریٹ کی تاریخ کے سب سے خوشحال ترین عہد اور محنت کشوں کیلئے تقریباً ایک دہائی کے شدید جمود اور انحطاط میں بر سر اقتدار رہی ہے۔ وہ ماضی کے کارناموں اور وعدوں پر ہمیشہ فعال نہیں رہ سکتے۔ یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ ارب پتی ہونے کے باوجود ٹرمپ ایک باہر کا آدمی ہونے کا ڈھونگ رچانے میں کیسے کامیاب رہا اور کلنٹن سے موازنے میں وہ واقعی باہر کا بندہ ہے۔ وہ پہلا صدر ہے جس نے کبھی کسی قومی عہدے پر کام نہیں کیا اور نہ ہی فوج میں خدمات سر انجام دی ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ ہر سانس کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے، اس کے اسٹیبلشمنٹ پر حملوں میں بہرحال سچائی کا ایک پہلو بھی ہے۔
’’دایاں بازو‘‘ اور ’’بایاں بازو‘‘
بہرحال سطح پر تو یہ بات غیر منطقی لگے، کروڑوں لوگ جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا دراصل اپنی طبقاتی حس کا اظہار کر رہے تھے چاہے وہ کتنی ہی بکھری ہوئی اور غلط کیوں نہ ہو۔ یہاں پر پھر سے ہمیں اپنی بات دہرانی پڑے گی جو ہم نے انتخابات کے شروع ہونے پر لکھی تھی:
’’ٹرمپ کی حمایت کو کیسے سمجھا جائے؟ اگر وہ واقعی جیتنے کی پوزیشن میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کروڑوں امریکی محنت کش اسے ووٹ دیں گے۔ اس کی بنیادی حمایت واضح طور پر ’’شدید غصیلی پیٹی بورژوازی‘‘ ہے ۔۔ چاہے وہ تعداد میں کم ہیں اور سماجی طور پر بانجھ۔۔لیکن ٹرمپ نے عام محنت کشوں میں شدید گہرے غم و غصے کو اپنی طرف مائل کیا ہے۔ یہ سمجھنے کیلئے کہ ہو کیا رہا ہے، ہمیں عام فہم روایتی۔علمی۔ بورژوا۔ لبرل سوچ کو ترک کرنا پڑے گا جس کے مطابق تشریح کی جاتی ہے کہ ’’دائیں‘‘ اور ’’بائیں‘‘ بازو کیا ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمیں اس مظہر کی طبقاتی بنیادوں پر تشریح کرنی پڑے گی۔‘‘
’’مارکس وادیوں کیلئے ’’بائیں بازو‘‘ سے مراد محنت کشوں کے زندہ اور تاریخی طور پر ترقی پسند مفادات ہیں جو ان کی سماج کی انقلابی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کے عکاس ہیں۔ ’’دائیں بازو‘‘ سے مراد اس مرتے، تباہ ہوتے، رجعتی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ اور اس سے فیض یاب ہونے والے ہیں جو استحصال اور ظلم وجبر پر مبنی ہے اور لیبر قیادت کی غداری کی وجہ سے اپنی تاریخی ’’موت‘‘ سے بھی آگے زندہ رہ گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ یا وہ پالیسی تجریدی بنیادوں پر نقصان دہ نہیں بلکہ طبقہ ہے:کیا آپ ایک محنت کش ہیں یا آپ محنت کشوں کی زندہ اور مردہ محنت پر زندہ رہتے ہیں؟‘‘
’’ ’اکثریتی رائے‘ کی جمہوریت کا ڈھونگ چلائے رکھنے کیلئے محنت کشوں کو جو کہ سرمایہ داروں کے مقابلے میں وسیع ترین تعداد میں موجود ہیں، ہر حال میں ووٹ ڈالنے کا حق دینا پڑتا ہے (ان کے علاوہ جن کو مختلف حیلے بہانوں سے یہ حق سرے سے دیا ہی نہیں جاتا)۔ عام حالات میں سطحی طور پر سماجی، معاشی یا خارجہ پالیسی میں معمولی سا فرق ووٹروں کو ’’اپنی رائے دینے‘‘ کیلئے کافی ہوتا ہے کہ وہ کس کو ووٹ ڈالیں۔ لیکن ان حالات میں جب نظام کے تضادات مروجہ سیاسی پارٹیوں کو چیرنے کا باعث بنتے ہیں اور کوئی محنت کشوں کی سیاسی جماعت ان جگہ لینے کیلئے نہیں ابھرتی تو پھر محفوظ حدود میں بند رکھنے کیلئے دوسرے طریقوں کا استعمال لازمی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر، دائیں اور بائیں بازو کے پاپولزم کا مقصد محنت کشوں کو انتخابات میں پارٹی کو ووٹ ڈالنے کیلئے راغب کرنا ہوتا ہے، ان پارٹیوں کیلئے جن کے طبقاتی مفادات محنت کشوں سے یکسر مختلف ہیں۔ دنیا اور سیاست کو مختلف نظریاتی اور علاقائی پیرائے میں ’’ہمارے مقابل وہ‘‘ میں ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ بنیادی مسئلہ سے توجہ ہٹائی جا سکے:’’نظام کا تعطل اور نامیاتی بحران۔ اسی اثنا میں انہی قوتوں کو بیدار کرنے کا مطلب رائج نظام کو ممکنہ خطرہ ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ محنت کش طبقے کو اکسانے والے اس بے پناہ قوت کو کنٹرول بھی کر سکیں۔ مکر و فریب یہ ہے کہ لوگوں کو اتنا اکسایا جائے کہ وہ انتخابات میں حصہ تو ضرور لیں پر اتنا نہیں کہ وہ واقعی سماج کو چلانے میں اپنی رائے دے سکیں۔ انتخابات کے بعد تمام عوام گھر چلی جائے اور سیاست کو پیشہ ور لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دے۔ خدانخواستہ اگر وہ سڑکوں پر آ جائیں، دارالحکومت پر چڑھائی کر دیں، فیکٹریوں پر قبضے کر لیں اور عام ہڑتالیں منظم کرنا شروع کر دیں۔‘‘
’’اسی وجہ سے ہمیں بالکل واضح ہونا چاہئے: ڈیموکریٹس ’’بایاں بازو‘‘ نہیں ہیں اور ریپبلکن’’دایاں بازو‘‘ نہیں ہیں۔ یہ دونوں دائیں بازو کی پارٹیاں ہیں۔ دونوں ہمیشہ سے حکمران طبقے کی پارٹیاں تھیں، ہیں اور رہیں گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ سرمایہ دار طبقے کی ’’لبرل دائیں بازو‘‘ اور ’’رجعتی دائیں بازو‘‘ کی پارٹیاں ہیں۔ اگرچہ دونوں ایک دوسرے کی نظریاتی مخالفت میں پروان چڑھی ہیں، لبرل اور رجعت دونوں سرمایہ دارانہ حکمرانی کے رجحانات ہیں اور وہ ہمیشہ محنت کشوں کے مفادات کے خلاف اکٹھے ہیں۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں محنت کشوں پر انحصار کرتے ہیں اور انتخابات میں چاند تاروں کے وعدے کرتے ہیں لیکن جب ایک مرتبہ نتائج آ جاتے ہیں تو پھر یہ حکمران طبقے کے مفادات کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘
’’محنت کشوں کی ایک عوامی پارٹی کی غیر موجودگی میں جب بھی انتخابات کرائے جاتے ہیں تو ان میں محنت کشوں کی اکثریت کو ’’کم تر بدی(Lesser Evil)‘‘ کو ’’منتخب‘‘ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں تک ڈیموکریٹس نے صدر فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ اور ’’نئے عمرانی معاہدے‘‘ کے تحت ہونے والے عامیانہ اصلاحات، صدر جان کینیڈی کی پرشباب گرمجوشی اور لینڈن جانسن کی ’’عظیم سماج‘‘ کے نتیجے میں تھوڑا زیادہ ’’ بایاں بازو ‘‘ ہونے کا ڈھونگ رچائے رکھا۔ لیکن نظام کے بحران کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو دینے کیلئے اب اور کوئی ٹکڑے نہیں بچے۔ سرمایہ دار چاہتے ہیں کہ سارے کی ساری روٹی وہ کھا جائیں، جبکہ محنت کش ہی وہ اصل طبقہ ہے جو تندور پر دہائیوں سے کام پر لگا ہوا ہے۔‘‘
’’تقریباً ایک دہائی سے ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر حکومت جمود، نظر اندازی، بے روزگاری اور کم روزگار کے بعد محنت کشوں کو اب واضح نہیں رہا کہ دونوں پارٹیوں میں سے’’کم تر بدی‘‘ کون ہے۔ ٹرمپ کے زیادہ تر حامی ادھیڑ عمر، سفید فام مرد محنت کش ہیں جن میں سے اکثر یونین ممبران ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ داری کے عروج سے زیادہ تر یہی لوگ مستفید ہوئے تھے اور اب ان کو نظر آ رہا ہے ان کی دنیا تنگ پڑتی جا رہی ہے۔ اس بات سے بے خبر کہ ان کے معیار زندگی میں گراوٹ کی اصل وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اپنی قیادت کے جھوٹ سے بھرے ہوئے کہ محنت کش اپنے ’’مالکان کے ساتھ اشتراکیت میں ہیں‘‘، وہ ہیجانی حالت میں جو تھوڑا بہت ان کے پاس ہے اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب ان کی آخری امید یہ ہے کہ ایک ’’مضبوط کاروباری‘‘ یہ کام کر سکتا ہے۔‘‘
سرمایہ داری میں کوئی حل موجود نہیں
لیکن ان کی بے محل امیدیں جلد ہی سرمایہ دارانہ حقیقت کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی۔ اب جبکہ ٹرمپ ایک ایسے نظام کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے رہا ہے جسے اس نے خود دھاندلی زدہ اور کرپٹ کہا ہے، اس کا مغالطہ واضح ہے۔ اس نے انتخابات جیتنے کے بعد تقریر میں مندرجہ ذیل وعدے کئے:
’’ہم اپنے اندرونی شہروں کو ٹھیک کریں گے اور اپنی سڑکوں، پلوں، سرنگوں، ائرپورٹس، سکولوں اور ہسپتالوں کو دوبارہ سے تعمیر کریں گے۔ ہم اپنے انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کریں گے،جو ویسے، نایاب اور منفرد ہو گا اور ہم اپنے کروڑوں لوگوں کو اس دوبارہ تعمیری کام کے ذریعے برسر روزگار کریں گے۔‘‘
’’۔۔۔ہم قومی بڑھوتری اور تعمیر کے پراجیکٹ کو شروع کریں گے۔ میں، ہمارے لوگوں کی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاؤں گا اور میں اپنے بہترین اور اعلیٰ لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو سب لوگوں کی بھلائی کیلئے استعمال کریں۔ یہ ہو کر رہے گا۔ ہمارے پاس بہترین معاشی حکمت عملی ہے۔ ہم اپنی بڑھوتری کو دگنا کریں گے اور دنیا کی سب سے طاقت ور ترین معیشت بنیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم باقی تمام قومیتوں کے ساتھ مل کر چلیں گے، وہ جو ہمارے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ہوں گے۔ ہمارے بہترین تعلقات ہوں گے۔ ہماری توقع ہے کہ ہمارے بہترین، بہترین تعلقات ہوں گے۔ کوئی خواب بڑا نہیں، کوئی چیلنج بڑا نہیں۔ ایسی کوئی بھی چیز، جس کی ہم اپنے مستقبل کیلئے تمنا کریں، ہماری پہنچ سے دور نہیں۔‘‘
’’امریکہ اب بہترین سے کم پر رضامند نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنے ملک کی قسمت اپنے ہاتھوں میں لینی ہو گی اور بڑے اور بہادر اور نڈر خواب دیکھنے ہوں گے۔ ہمیں یہ کرنا پڑے گا۔ ہم اپنے ملک کیلئے خواب دیکھیں گے اور خوبصورت چیزوں اور کامیاب چیزوں کے دوبارہ سے خواب دیکھیں گے۔ میں عالمی کمیونٹی کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ ہم امریکہ کے مفادات کو ہمیشہ سب سے پہلے رکھیں گے، ہم ہر ایک کے ساتھ، ہر ایک کے ساتھ بہترین طریقے سے ساتھ چلیں گے۔ تمام لوگوں کے ساتھ اور باقی تمام ملکوں کے ساتھ۔ ہم مشترکہ مفادات کے متلاشی ہیں، دشمنی کے نہیں؛ شراکت میں، اختلاف میں نہیں۔‘‘
اپنی تمام تر دھوکے اور جھوٹ پر مبنی بلندوبانگ لفاظی اور غلاظت کے باوجود، ٹرمپ نے سب کیلئے روزگار، اوبامہ کئیر جیسے ملغوبے کو ختم کرنے اور اس سے بھی زیادہ ’’تمہارے خواب۔۔۔پورے ہوں گے!‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔ اگرچہ اس کو کافی سارے نسل پرستوں اور سفید فاموں کی بالادستی کے خواہان کی حمایت حاصل ہے، بہت سارے محنت کشوں کے دلوں میں اس کے بڑھے ہوئی قوم پرستی اور خواتین کے خلاف جنسی تفریق کے باوجود ا س کا پیغام گونج رہا ہے۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ ملک ان پرانے دیومالائی اچھے دنوں کی طرف واپس لوٹے گا جب امریکہ ’’عظیم‘‘ تھا۔ بہت سارے امریکیوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ دن دوبارہ کبھی نہ دہرائے جانے والے حالات کی وجہ سے ممکن تھے جو صرف چند دہائیوں ہی رہے ، عوام کے صرف ایک حصے کو فوائد پہنچاتے رہے اور اب وہ واپس کبھی نہیں آئیں گے چاہے ٹرمپ جتنے مرضی بے لگام وعدے کر لے۔
مستقبل کے صدر نے امریکی محنت کشوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ’’یہ بہت آسان ہے!‘‘ انتخابات کے ذریعے اچھے اور سادے طریقے سے مسائل کے حل کی تلاش ہی تھی جس کیلئے امریکی محنت کشوں نے 2008ء میں اوبامہ کو ووٹ دیا تھا۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت مایوس کن تھی لیکن پچھلے 150سال میں امریکی سیاست میں دو پارٹیوں کا آنا جانا چل رہا ہے اور محنت کش اپنی کوئی سیاسی پارٹی بھی نہیں بنا پائے جس کی وجہ سے عوامی غم و غصے کا شکار ہونے کا بعد ’’دوسری پارٹی‘‘ کا فائدہ ہونا ایک فطری امر تھا۔
لیکن ٹرمپ کیلئے ہمارے پاس بری خبر ہے: نظام کی حدود میں رہتے ہوئے سرمایہ دارانہ مسائل کا حل ناممکن ہے۔ انتخابات جیتنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ نے اتحاد کی اپیل کی اور تمام امریکیوں کیلئے صدر بننے کے عزم کا اظہار کیا۔ لیکن یہ ناممکن ہے۔ وہ صرف آبادی کے ایک ہی حصے کا صدر بن سکتا ہے: ارب پتیوں کا، جن کے مفادات محنت کشوں کے مفادات سے یکسر مختلف ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ساتھ ساتھ کانگریس کا کنٹرول بھی اب ریپبلکن پارٹی کے پاس ہے۔ محنت کشوں پر حملے کیلئے ذرا بھی تامل نہیں کیا جائے گا اور ان کے پاس ٹرمپ کے خام خیال وعدوں کو پورا نہ کرنے کیلئے کوئی بہانہ نہیں ہو گا۔ جب آخر کار مایوسی گھیرا کر لے گی، اپنے مخصوص پیچیدہ طریقے سے اس بات کا واضح اظہار ہوگا کہ ٹرمپ کی کمپین نے ایسی سماجی قوتوں کو آزاد کر دیا ہے جن کو وہ اور اس کی پارٹی کنٹرول نہیں کر پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقے کی اولین ترجیح ہلیری تھی۔ لیکن اس کی اتنی کھلی حمایت کی وجہ سے غم و غصے میں مزید اضافہ ہوا اور اس کے صدارتی امیدوار ہونے کے خلاف شدید ردعمل آیا۔
برنی سینڈرز نے تاریخی موقعہ گنوا دیا
ٹرمپ کی حیران کن جیت کے بعد، ہمیں 2016ء کے انتخابات میں سے نکلنے والی دوسری بڑی خبر کو نہیں بھولنا چاہئے: بڑی سینڈرز کے ارد گرد بننے والی دیو ہیکل تحریک۔ سوویت یونین کے انہدام کے محض پچیس سال بعد، کمیونزم سے ہیبت زدہ جوزف میکارتھی کی سرزمین میں، سینڈرز کی ’’ارب پتی طبقے کے خلاف سیاسی انقلاب‘‘ کی پکار نے اسے ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمیریز میں 1.3 کروڑ ووٹ دلوائے۔ اس کی کھلی سوشلسٹ کمپین میں لوگوں کے بے پناہ ہجوم متحرک ہوئے اور یہاں وہ گرمجوشی دیکھنے میں آئی جس کی سفاک اور خودغرض کلنٹن کمپین صرف خواب ہی دیکھ سکتی تھی۔ سینڈرز کے بائیں بازو کے ہلکے پھلکے اصلاح پسند پروگرام کے باوجود اس کیلئے جو بے پناہ حمایت آئی اس نے پورے کرۂ ارض پر سیاسی بھونچال پیدا کر دیا۔
یہاں تک کہ جب وکی لیکس نے کلنٹن کمپین اور DNC کی افسر شاہی کی مکاری اور فریب کو افشا کر دیا بھر بھی سینڈرز نے دباؤ میں آ کر ہیلری کی حمایت کی اور بطور آزاد امیدوار (جس کی ہم نے اسے پراصرار تلقین کی) انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ عذر یہ پیش کیا گیا کہ ایک نئی عوامی سوشلسٹ پارٹی کے قیام کا مطلب ٹرمپ کی واضح جیت ہے۔ اب جبکہ کم تر بدی(Lesser Evil) کی تھیوری ریزہ ریزہ ہوئی پڑی ہے، کون انکار کر سکتا ہے کہ سینڈرز، ٹرمپ کو دویا تین یا اس سے بھی زیادہ امیدواروں کی دوڑ میں ہرا سکتا تھا؟
لوگ مانیں یا نہ مانیں سچائی یہی ہے: محنت کش اس وقت تک شکست خوردہ رہیں گے جب تک ان کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں بن جاتی۔ ایک تاریخی موقعہ گنوا دیا گیا۔ لیکن ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہئے۔ اور نئے مواقع آئیں گے۔ کچھ بھی حل نہیں ہوا اور فطرت خلا سے نفرت کرتی ہے۔ محنت کش طبقے کیلئے ایک عوامی سیاسی پارٹی کی معروضی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سینڈرز کے مظہر میں مستقبل کیلئے نہایت زرخیز بیج ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو اعصاب شکن شکست ہوئی ہے لیکن جب تک ان کا کوئی متبادل نہیں آ جاتا وہ ایسے ہی لڑکھڑاتے ہوئے چلتے رہیں گے۔۔جیسا کہ وہ نظام جس کی ڈیموکریٹک پارٹی نمائندہ ہے، اسے صرف محنت کشوں کی منظم جدوجہد سے ہی بدلا جا سکتا ہے۔
محنت کش طبقے کا انتقام
ہم امریکی عملیت پسندی کا عملی مظاہرہ دیکھ رہے ہیں جس میں محنت کش طبقے کا ایک بڑا حصہ اس وقت موجود واحد طریقہ کار سے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ بہرحال جب ٹی وی کام نہیں کر رہا ہوتا تو امریکی طریقہ کار اسے مکا مارنا ہے اور اگر یہ طریقہ کارگر نہیں ہوتا تو پھر اس کو کوڑے دان میں پھینک کر نیا لے لیا جاتا ہے۔ کروڑوں محنت کشوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ایک زور دار مکا ہی مارا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا ادراک ہو گا کہ موجودہ نظام ناقابل علاج ہے اور اس کو تبدیل کرنا ہی واحد راستہ رہ گیا ہے۔
جیسا کہ واشنگٹن پوسٹ اخبار نے سنجیدگی سے لکھا:’’اس بیگانگی کی وضاحت صرف اس جذبے سے ہی کی جا سکتی ہے کہ پورے نظام کو دھماکے سے اڑا دیا جائے۔ اور اس سے میری مراد صرف سیاسی نظام نہیں ہے۔ میری مراد ہر بالا اور اسٹیبلشمنٹ کے ادارے سے ہے جنہیں ہمیشہ سے یہ زعم تھا کہ انہیں سب سے بہتر پتہ ہے۔۔ اس میں میڈیا بھی شامل ہے۔ ٹرمپ ان تمام لوگوں کی طرف سے گالی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقہ ایک طویل عرصے سے ان کا تمسخر اڑا رہا تھا اور ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ یہ عام آدمی کا بدلہ ہے۔۔اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس غم و غصے کا ذریعہ ایک ایسا ارب پتی ہے جو ہر سوال کے جواب میں یہی بتاتا پھرتا ہے کہ وہ کتنا عقل مند اور امیر ہے۔‘‘
اسی لئے جہاں بہت سارے امریکیوں کی ٹرمپ کے ساتھ خوشیاں وابستہ ہیں وہیں پر کروڑوں اور لوگ کبھی بھی اس کے ساتھ نہیں تھے اور وہ لڑائی لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ سینڈرز کے دباؤ میں آ جانے کی مایوسی اور کلنٹن کی کم تر بدی کی بھونڈی حکمت عملی جو ٹرمپ کا راستہ روکنے میں ناکام رہی، اس کے بعد لوگ پاگلوں کی طرح ڈیموکریٹس کے پاس واپس نہیں آئیں گے، لیکن جیسا کہ ہم نے لکھا ہے، جب تک ان کا کوئی متبادل پیدا نہیں ہو جاتا، کچھ بھی ممکن ہے۔ دہائیوں کے دھوکوں کے بعد، سفید فام محنت کشوں نے اب ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن ان کی ریپبلکن پارٹی کے ساتھ پینگیں زیادہ عرصہ تک نہیں چلیں گی کیونکہ ان کے پاس محنت کشوں کیلئے کچھ نہیں ہے۔ باقی لوگ جن کی ابھی بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ خوش فہمیاں برقرار ہیں ان نتائج سے شدید ہیجانی کیفیت میں ہوں گے اور متبادل کی تلاش میں ہوں گے۔
یہ نام نہاد کم تر بدی(Lesser Evil) کا کڑوا پھل ہے۔ بیس سال لگے، لیکن آخر کار رسٹ بیلٹ نے NAFTA، فلاحی ریاست کے پرزے پرزے کرنے اور 1990ء کی دہائی میں بل کلنٹن کے منظور شدہ مزدور دشمن قوانین کا بدلہ بالآخر لے ہی لیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بار بار تنبیہہ کی تھی، اگر آپ کم تر بدی کی حکمت عملی اپنائیں گے تو نتیجے میں ایک وقت آنے پر برتر بدی جیت جائے گی۔ اور ان انتخابات میں بہت ساروں کیلئے یہ جاننا ہی مشکل تھا کہ کون سی بدی کم تر ہے۔
آنے والا دور پولرائزیشن، کٹوتیوں اور طبقاتی جدوجہد کا ہے
جو ان نتائج سے شکستہ ہو گئے ہیں اور انہیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ان کی دنیا کا شیرازہ بکھر رہا ہے، ان سے ہم یہ کہتے ہیں: جدوجہد تو ابھی شروع ہوئی ہے! ایک طرح سے یہ بہتر ہے کہ ٹرمپ اور اس کے حواری جلد ہی ننگے ہو جائیں گے، بجائے اس کے کہ دباؤ آہستہ آہستہ چار سالوں میں بڑھتا اور وہ حزب اختلاف بن کر یہی ممیاتا رہتاکہ ’’میں نے تو پہلے ہی کہا تھا!‘‘ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ دائیں بازو کی سیاست میں اس سے بھی زیادہ سخت اور رجعتی کوئی شخصیت ابھر سکتی تھی۔۔ اور آنے والے وقت میں ایسا ہو بھی سکتا ہے۔
لیکن فی الحال ذمے داری ٹرمپ اور ریپبلیکن پارٹی پر ہے اور جب وہ امیدوں پر پورا نہیں اتریں گے تو جو خانہ جنگی پہلے ہی ان کی صفوں میں بھڑک رہی ہے وہ پارٹی کو ایک کے بعد دوسرے بحران کی طرف گھسیٹتی چلی جائے گی۔ ٹرمپ نے نا ممکن امیدیں باندھ دی ہیں۔ آج تو اس کے حامی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں لیکن بالآ خر وہ ٹرمپ کے خلاف ہو جائیں گے۔ وہ غم و غصہ جو ابھی بھی اپنے منظم طبقاتی راستے کی تلاش میں ہے وہ بالآخر اپنا طبقاتی اظہار پائے گا: عوامی محنت کش پارٹی، چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو۔
لبرلز اور بائیں بازو کے کئی لوگ محنت کشوں کی جہالت کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ وہ چکن لٹل (ایک امریکی کارٹون) کی طرح اِدھر ادھر بھاگتے رہیں گے اور یہ کہتے پھریں گے کہ آسمان گر رہا ہے اور معاملات انتہائی دائیں بازو کی جانب بڑھ رہے ہیں، یہاں تک کہ فاشزم بھی ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملات سرمایہ دارانہ انتشار کے طوفانی بھنور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ٹرمپ وجہ نہیں ہے بلکہ نظام کے عدم استحکام کا نتیجہ اور اظہار ہے۔ ایک چیز بہرحال واضح ہے: امریکہ میں انقلاب کے مالیکیولر عمل میں ایڈرینالین کا بھاری انجکشن لگ چکا ہے۔
مزدور قیادت کی ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کی حکمت عملی برباد ہو چکی ہے اور ان کی اپنی ساکھ شدید مجروح ہو چکی ہے۔ چیزوں کو تبدیل کرنے کیلئے اور آنے والے حملوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کیلئے مزدور تحریک کو تحریک کو نئی پالیسیاں چاہئیں۔ پہلے سے موجود یونینز کو نوجوانوں کی ضرورت ہے جبکہ ان کروڑوں محنت کشوں کو نئی یونینز بنانے کی ضرورت ہے جن کے پاس آقاؤں کے خلاف کوئی اجتماعی منظم مدافعانہ قوت موجود نہیں ہے۔ اگر موجودہ قیادت ان لڑاکا بنیادوں پریونینز کو استوار نہ کر سکے جن پر یہ یونینز بنائیں گئی تھیں تو انہیں باہر نکال دیا جائے گا اور جدوجہد کے دوران نئی قیادت پیدا ہو گی۔
جو کچھ سرمایہ داری دے سکتی ہے، محنت کشوں کی خواہشات اس سے بہت زیادہ ہیں۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کے پاس لڑائی کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں۔ 2016ء انتخابات سے اب ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ ینے سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ہمیں جدوجہد کیلئے اپنے سیاسی اوزار چاہئیں۔ علاوہ ازیں، ہمیں اپنے کام کو منظم کرنے کیلئے مارکسی نظریات، تھیوری اور تناظر چاہئیں۔
سوشلزم کیلئے جدوجہد کرو!
’’امریکہ کو دوبارہ سے عظیم بناؤ‘‘ ایک شدید خواہش ہے جس کے مطابق ایک ایسے خیالی وقت کی طرف واپس مڑا جائے جب امریکی خواب کی کوئی حقیقت ہوا کرتی تھی۔ لیکن مارکس وادی یہ جانتے ہیں کہ کوئی ملک بھی سرمایہ داری میں عظیم نہیں بن سکتا۔ آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے: ساری دنیا کو سوشلزم کے ذریعے عظیم بنایا جائے۔ بہت سارے لوگ ظاہری بات ہے ناامید ہیں، تنگ ہیں اور بیزار ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں۔ ہمیں اپنے غصے کو عمل میں تبدیل کرنا ہے۔ لیکن اپنے اعمال کو موثر بنانے کیلئے ہمیں منظم ہونا پڑے گا اور ایک پروگرام اور ایک لائحہ عمل سے لیس ہونا پڑے گا۔ شروع میں کچھ مشکلات درپیش ہوں گی لیکن احتجاج جلد ہی شروع ہوں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے ہوئے لاکھوں کروڑوں لوگ پورے ملک میں ان احتجاجوں میں شامل ہوں گے۔ حکمران طبقے کی سب سے زیادہ بھدی اور سماجی فہم سے عاری ریپبلکن پارٹی کو جلد ہی انتہائی خوفناک اور ہوشربا احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی سے سوشل میڈیا پر مظاہرے منظم ہو رہے ہیں اور IMT ان میں بھرپور طریقے سے شرکت کرے گی۔
جیسا کہ ہم نے انتخابات سے چند دن پہلے لکھا تھا: ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتے گا۔ وائٹ ہاؤس کے اگلے باسی کو انتہائی خوفناک بحران اور عدم استحکام کا سامنا ہو گا۔ کٹوتیاں، سخت کفایت شعاری اور محنت کشوں پر خوفناک حملے ہی ایجنڈے پر ہوں گے چاہے امیدوار کوئی بھی وعدے کرتے پھریں۔ محنت کشوں کے پاس کام کرنے کی جگہوں اور سڑکوں پر لڑنے کے علاوہ اور کوئی حل موجود نہیں ہو گا۔ اگر ٹرمپ جیتتا ہے تو نہ صرف خود رو عوامی احتجاج ہوں گے بلکہ نیا معاشی بحران بھی اس نتیجے میں پھٹ سکتا ہے۔ اس کے حامیوں کو جلد ہی پتہ لگ جائے گا کہ ان کے ساتھ کھلواڑ ہوا ہے۔ اگر کلنٹن جیتتی ہے تو اس کا ہنی مون چھوٹا ہی ہو گا، خاص طور پر جب افق پر ایک انتہائی خوفناک معاشی بحران کے بادل منڈلا رہے ہوں گے۔ آخری بحران نے نہ صرف خزانہ خالی کر دیا بلکہ 1فیصد کو دوبارہ بچانے کی عوامی حمایت بھی ختم کر دی۔ جھٹکوں اور فالج کی جگہ غصہ اور تحرک لے لیں گے۔
’’۔۔۔دباؤ کو کم کرنے کے بجائے انتخابات نے حالات کو اور بھی زیادہ گھمبیر کر دیا ہے۔ چاہے ہم تیار ہیں یا نہیں، اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھے جانے والی عوامی تحریکیں افق پر ہیں۔ زندگی سکھاتی ہے اور آنے والے سالوں کے واقعات کی سرمایہ داری کے ہر سطح پر موجود بحران کی موجودگی میں تیزی اور تندہی اور زیادہ بڑھے گی۔ انتخابات کے پیچ و خم کا تعاقب کرتے ہوئے ہمیں بورژوا سیاست کے سرکس میں نہیں کھونا ہے۔ ناامیدی یا روٹین کا شکار ہونے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہمارے اند ر انقلابی امید کی آگ بھڑکنی چاہئے اور ہماری نظر منزل پر ہونی چاہئے: ایک کیڈرز پر مشتمل تنظیم کی تعمیر جو کہ مستقبل کی انقلابی دستوں کی تعلیم و تربیت کرے۔‘‘
پورے نظام کی صداقت اور جواز کو گہری ٹھیس پہنچی ہے۔ بل کلنٹن کے دور حکومت میں سابقہ سیکرٹری دفاع ولیم کوہن کے مطابق پورا ملک ’’آہستہ آہستہ ہمارے سیاسی نظام کی تباہی کی جانب گامزن ہے۔‘‘
جب انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو رہا تھا اس وقت میرے ایک محنت کش دوست نے اوہائیو سے لکھا:’’میرے پرانے دوست، ایسا لگتا ہے کہ میلہ تو اب لگے گا۔ میں نے تیسری آپشن کو چنا اور مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ میں نے اپنا ووٹ گنوا دیا ہے۔ میں اس کو ایسے دیکھتا ہوں کہ اگر میرے پاس راٹ وائلر، ڈوبرمین (کتے) کے گوبر یا پیزا کی آپشن ہو تو چاہے جتنا بھی مبہم ہو، میں پیزا کی آپشن ہی لوں گا۔ میں ایک بہت بڑی مصیبت دیکھ رہا ہوں جب امریکیوں کو یہ پتا لگے گا کہ یہ ارب پتی نہ تو ان کی نمائندگی کرتا ہے اور نہ ان کے مفادات کی۔‘‘
سرمایہ داری اور سیاسی پارٹیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ بورژوا معاشی نظام کے بحران کی عکاسی ناگزیر طور پر بورژوا قیادت میں ہو رہی ہے۔ ایک رات میں امریکہ کے بدلتے شعور میں نمایاں معیاری جست آئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اس بے ہنگم لیکن سوشلسٹ انقلاب کی طرف گامزن عمل میں ایک اور قدم ہے۔
ہم انتہائی دلچسپ حالات میں رہ رہے ہیں۔ یہ وقت لیت و لعل کا نہیں۔ یہ وقت منظم ہونے کا ہے! ٹرمپ سے لڑنے کیلئے سوشلزم کیلئے لڑو! IMT کو فنڈ دو یا اس میں شمولیت اختیار کرو! ایک عوامی پارٹی کیلئے جس کی بنیاد یونینز اور محنت کش طبقے پر ہو!