|تحریر: فرانچیسکو مرلی؛ ترجمہ: ولید خان|
حماس کے مرکزی قائد اور مذاکرات کار اسماعیل ہانیہ کا تہران، ایران میں قتل اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر جنگ بھڑکانے کی سفاک کوشش ہے تاکہ اس کا اقتدار برقرار رہے۔ اس شاطرانہ چال میں وہ مغربی سامراج کی معاونت پر اندھا اعتماد کرتا ہے جس نے اسے خطے میں اپنا مرکزی اتحادی بنا کر اقتدار میں قائم رکھا ہوا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اگرچہ نتن یاہو کا امریکی دورہ اور کانگریس میں تقریر شاندار کامیابی رہی لیکن ”اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے“ کی غلیظ حقیقت تمام باشعور افراد کو واضح ہے۔ نتن یاہو نے کانگریس کے ایک حصے کی پرجوش تالیوں میں وہی پرانا جنگی پروپیگنڈے کا راگ الاپا لیکن اس دوران اس کے دورے پر بائیکاٹس اور احتجاجوں کا سایہ بھی موجود تھا۔
غزہ میں اسرائیل کی نسل کش جنگ کے جرائم کتنے ہی ہولناک ہوں، بائیڈن نے اپنی اور امریکی سامراج کی ساکھ ”غیر مشروط“ طور پر اس نسل کشی کی حمایت سے جوڑ دی ہے۔ بائیڈن نے بڑی فرض شناسی سے یہ کام کیا ہے جبکہ نائب صدر کمالہ ہیرس کچھ تذبذب کے باوجود برابر شریک جرم ہے۔ نتن یاہو کو یہ سب معلوم ہے اور وہ سرکاری طور پر امریکی سامراج کی حمایت اور معاونت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اگلی چالیں چل رہا ہے۔
ایک طے شدہ معاہدہ سبوتاژ
ہم نے کئی مرتبہ نشاندہی کی ہے کہ ایک طے شدہ معاہدہ نتن یاہو کے مفاد میں نہیں ہے۔ وہ مسلسل سبوتاژ پالیسی پر گامزن ہے، اتنی بے باکی سے کہ اس کی اپنی ٹیم نے اس پر مذاکرات برباد کرنے کا الزام لگا دیا۔ اب اسرائیل نے حماس کے مرکزی سیاسی قائد اور مذاکرات کار اسماعیل ہانیہ کو قتل کر دیا ہے۔ نتن یاہو 7 اکتوبر کے بعد سے ملک میں لاگو کردہ ایمرجنسی کو مسلسل جلتی پر تیل ڈال کر بڑھا رہا ہے جس کی قیمت پورے خطے کا امن بن رہا ہے۔ اس ایک راستے کے ذریعے ہی وہ اقتدار پر قابض رہ سکتا ہے۔ اب وہ دانت نکال کر وائٹ ہاؤس کا بلینک چیک کیش کروا رہا ہے۔
یہاں عملی طور پر ہمیں امریکی قوت کی محدودیت نظر آ رہی ہے۔ نتن یاہو کو کنٹرول کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے غزہ میں انسانی المیے کے لیے مسلسل بڑھتے ”خدشات“ ایک منافقانہ پردہ داری ہیں۔ انہیں غزہ میں قتل ہوئے ہزاروں معصوموں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اس سے زیادہ سنگین جرائم کے مرتکب رہے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے دیوہیکل نقصانات پر شدید خدشہ ہے۔ ایک طرف جاری جنگ خطے میں موجود دیگر امریکی اتحادی ریاستوں کے لیے مسلسل بڑھتا خطرہ بن چکی ہے۔ دوسری طرف پورے خطے میں ایک وسیع جنگ امریکی سامراج کو تقریباً تنہا کر دے گی اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کر دے گی۔
امریکی اور اسرائیلی حکمران طبقے کے ایک دھڑے نے نتن یاہو کا تختہ الٹنے کے لیے اس کے سب سے شعلہ بیان مخالف بینی گانتز کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن شرمناک ناکامی مقدر بنی۔ اب واشنگٹن مجبور ہے کہ نتائج سے بالاتر ہو کر آخری حد تک نتن یاہو کا ساتھ دے۔ بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکی افواج کو ممکنہ ایرانی جوابی کاروائی سے بچانے کے لیے تعینات کیا جا رہا ہے۔ جب فیصلہ کن گھڑی ہو تو اسرائیل کے لیے امریکی حمایت اٹل ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد فوری طور پر اسرائیل کا دورہ کرتے وقت بائیڈن نے ساری دنیا کو یہی واضح پیغام دیا تھا۔
ایک مرتبہ پھر قتل کے بعد وہی ”تمام فریقین“ امن قائم رکھیں اور اشتعال بازی ختم کریں، کا راگ الاپا گیا۔ امریکی سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن اور یورپی قائدین نے ایک مرتبہ پھر ”تمام فریقین“ کو اپیل کی کہ رد عمل معتدل رہے۔
بلنکن نے تو یہاں تک ڈھونگ رچایا کہ ہانیہ کے قتل کا ”ہمیں پتہ تھا اور نہ ہی ہم اس میں شامل ہیں“۔ اس کے نتیجے میں وہ مضحکہ خیز یا بانجھ یا پھر دونوں ہی نظر آ رہا ہے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ اسرائیل نے ایسا حملہ کیا کہ جس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ میں جنگ ہو سکتا ہے، خطے میں تعینات امریکی افواج کے لیے تباہ کن صورتحال بن سکتی ہے اور واشنگٹن کو اطلاع نہیں تھی۔ چلیں ہم مان بھی لیں کہ اسرائیل نے پیشگی اطلاع نہیں کی، تب بھی یہ مضحکہ خیز ہے کہ امریکی انٹیلی جنس جو خطے میں گہری جڑیں رکھتی ہے اور وسیع تعلقات کی حامل ہے، بالکل اندھیرے میں تھی۔ انہیں پتا تھا اور انہوں نے خاموش اجازت دی یا پھر انہیں پتا تھا اور انہوں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ معاملہ جو بھی ہو، واشنگٹن پوری طرح سے ملوث ہے۔
بہرحال یہ اپیلیں انتہائی منافقانہ ہیں اور ان کا اسرائیل کے علاوہ ”تمام فریقین“ پر اطلاق ہوتا ہے۔ عالمی سفارت کاری میں عام طور پر یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ اقوام کسی اور مخالفت قوم کی جارحیت یا اشتعال انگیزی کا متناسب اور متوازی جواب دینے کا حق رکھتی ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ امریکی حکومت کے لیے ایک ”موزوں“ متوازی جواب کیا ہوتا اگر فرض کریں کہ ایک دشمن بیرونی قوت امریکی سر زمین پر امریکی میزبانی اور حفاظت میں موجود ایک تیسرے فریق کو نشانہ بناتی اور ساتھ میں امریکی شہری قتل اور اپاہج ہوتے؟ اس سوال کا جو بھی جواب ہو، ہمیں یقین ہے کہ اس معیار کا امریکہ پر قطعی طور پر اطلاق نہیں ہوتا۔
فرض کریں کہ اگر کیوبا میامی میں ایک میزائل حملے کے ذریعے CIA نواز کیوبن امریکی دہشت گرد پوساداس کاریلیز کو نشانہ بنائے؟ اس سوال میں ہی اس کا جواب موجود ہے۔
ناقابل واپسی مرحلہ؟
اسرائیل نے اعلانیہ تہران حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے، حملہ اور انکار پرانی روایت ہے۔ اسرائیلی نمائندوں کا عوامی جشن حقیقت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس حملے کا نتیجہ اسرائیل کے خلاف ایرانی جوابی کاروائی کے وسیع پھیلاؤ میں نکل سکتا ہے۔ ایرانی ریاست نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی نظر میں اس حملے کا اصل مجرم امریکہ ہے چاہے بلنکن کتنا ہی حیران پریشان کیوں نہ ہو۔ ان حالات میں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جہاں انتشار ایک ناقابل واپسی مرحلے پر پہنچ رہا ہے۔
غزہ پر کسی توقف کے بغیر اسرائیل کی مجرمانہ جنگی جارحیت جاری ہے۔ بموں، قحط، صاف پانی اور کسی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی میں بیماریوں کا پھیلاؤ غزہ کی عوام سے بہت بھاری قیمت وصول کر رہا ہے، جس میں بچے اور زخمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ کوئی بھی اس تباہی و بربادی کو روکنے کے لیے ایک انگلی اٹھانے کو تیار نہیں۔ بائیڈن کا ”انسانی امداد“ کے لیے بنایا گیا عارضی گھاٹ دھیان ہٹانے کا گھٹیا ہتھکنڈہ تھا (شرمناک ناکامی کے بعد اسے ختم کر دیا گیا ہے) جبکہ IDF (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے، 40 ہزار معصوم افراد قتل کر دیے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، 1 لاکھ سے زیادہ اپاہج ہو چکے ہیں، غزہ کے عوام کئی مرتبہ نقل مکانی کر چکے ہیں اور ان کے لیے اب کوئی محفوظ جگہ نہیں بچی۔
مغربی کنارے میں چند انتہائی دائیں بازو یہودی آبادکاروں کے خلاف بائیڈن کی حالیہ پابندیوں کا مقصد اس حقیقت سے دھیان ہٹانا تھا کہ ان کی بھرپور معاونت سموتریچ اور بن گویر جیسے یہودی بالادستی پسند وزراء کر رہے ہیں، جن کے خلاف ظاہر ہے کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے۔ یورپ کا حکمران طبقہ مسلسل باؤلے کتوں کی طرح انسانی حقوق کی چیخ و پکار کر رہا ہے، جبکہ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور ہر احتجاج کو یہودی مخالف بنا کر اور سزا دے کر دبایا جا رہا ہے۔
سعودی عرب، مصر اور اردن جیسی علاقائی قوتیں پریشان ہیں کہ اسرائیل کی حمایت کے نتیجے میں ان کی عوام میں نفرت مسلسل بڑھ رہی ہے اور محنت کشوں اور نوجوانوں کا غم و غصہ بے قابو ہو رہا ہے۔ لیکن ان رجعتی ریاستوں کا حکمران طبقہ امریکی سامراج اور اسرائیل سے جڑے ہزاروں تانوں بانوں میں سے کسی ایک کو کاٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اپریل کی طرح اس مرتبہ بھی یہ ایرانی جارحیت سے اسرائیل کا تحفظ کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گے۔
دوسری طرف ایرانی ریاست فلسطینی تباہی و بربادی کو اپنے علاقائی عزائم بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس لیے ہانیہ کا قتل ایک ایسی اشتعال انگیزی ہے جسے وہ قطعی طور پر نظر انداز نہیں کر سکتے۔
حماس کے عسکری قائدین کے برعکس، اسماعیل ہانیہ قطر میں موجود ایک عوامی شخصیت تھا جو باقاعدگی سے ترکی اور ایران آتا جاتا رہتا تھا۔ اس کے قتل کی جگہ اور وقت ایک سوچی سمجھی اشتعال انگیزی تھی، جس کا مقصد ایرانی ریاست کو جواب دینے پر مجبور کرنا ہے۔ ہانیہ تہران میں نئے ایرانی صدر کی حلف برداری تقریب کے لیے سرکاری دورے پر تھا۔ اس کے میزبان پاسدارانِ انقلاب تھے جو اس کی سیکیورٹی کے ذمہ دار بھی تھے۔
جس باریکی سے فضائی حملہ کر کے ہانیہ کو قتل کیا گیا ہے اس سے واضح ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کو اس کی موجودگی اور نقل و حرکت کا ٹھوس اور مکمل علم تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی معلومات پاسداران میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کے ذریعے ہی فراہم ہو سکتی ہے۔ ایرانی ریاست کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے، لیکن یہ مسئلہ صرف زخم خوردہ غرور کا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایران اپنے اتحادیوں کی گارنٹی نہیں دے سکتا، چاہے وہ ایرانی سر زمین پر ہی موجود کیوں نہ ہوں۔ یہ ایک اعلان ہے کہ ریاست کے بالا ترین ایوانوں میں براجمان افراد سمیت کوئی بھی شخص اسرائیل کا نشانہ بن سکتا ہے۔ ایرانی ریاست یہ برداشت ہی نہیں کر سکتی کہ اس کے دوست اور دشمن دونوں اسے کمزور جانیں اور پاسدارانِ انقلاب کے لیے تو یہ صورتحال زہر قاتل ہے۔
پھر جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں حماس کی جانب سے ہانیہ مرکزی حیثیت رکھتا تھا، جن کی میزبانی قطر کر رہا تھا۔ اس کا قتل ان مذاکرات کی دھجیاں اڑا چکا ہے اور ظاہر ہے کہ ایک طے شدہ معاہدہ (جس کے امکانات پہلے ہی بہت کم تھے) اب اس جارحیت کے زیر سایہ آ چکا ہے۔ نتن یاہو کو بھی یہی چاہیے، جس کا سیاسی مستقبل ہی اس بات پر منحصر ہے کہ کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔
نتن یاہو کی دانستہ اشتعال انگیزی کے نتائج
مشرق وسطیٰ کو درپیش بحران میں اس معیاری جست کا آغاز بظاہر الگ نظر آنے والے واقعات تھے، جنہیں نتن یاہو نے سفاکی سے استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ اور ایران پر حملے کا جواز بنایا۔
27جولائی کو دروز اقلیت کے مجد الشام قصبے میں ایک راکٹ کھیل کے ایک میدان میں گرا، جس کے نتیجے میں 12 بچے جان بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔ یہ قصبہ اسرائیلی قبضہ شدہ گولان ہائیٹس میں ہے۔ اسرائیلی صدر ہرزوگ اور انتہائی دائیں بازو وزیر خزانہ بیزالیل سموتریچ نے IDF اور امریکی ذرائع کی حمایت کے ساتھ فوراً حزب اللہ پر الزام لگا دیا اور ان کے خلاف بدلہ لینے کا اعلان بھی کر دیا۔ سموتریچ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پورا لبنان اس حملے کی قیمت ادا کرے گا۔ نتن یاہو نے امریکی دورہ فوری طور پر ختم کیا اور روایتی موقع پرستی کے ساتھ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
مجد الشام پر ہونے والا حملہ مشکوک ہے۔ یہ واضح ہے کہ حزب اللہ کو دروز شہری آبادی پر حملہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، خاص طور پر جب لبنان میں حزب اللہ دروز قائدین کے ساتھ ایک معاہدے پر کام کر رہا ہے۔ پھر یہ واقعہ 7 اکتوبر سے اب تک حزب اللہ کے تمام اقدامات کے خلاف ہے۔ حزب اللہ کے تمام حملوں کا اب تک صرف اسرائیلی عسکری قوتیں اہداف رہی ہیں۔
ان بچوں کی موت ایک خراب راکٹ کا نتیجہ ہو سکتی ہے، اسرائیلی آئرن ڈوم دفاعی نظام کا نتیجہ ہو سکتی ہے یا پھر ایک غلطی ہو سکتی ہے کیونکہ راکٹ کی سمت سے لگتا ہے کہ ایک قریبی اسرائیلی فوجی اڈہ اس کا نشانہ تھا۔ ان سب باتوں پر تو ایک لمحہ بھی دھیان نہیں دیا گیا۔ نتن یاہو جس بہانے کی تلاش میں تھا وہ اسے مل گیا۔ اسرائیل نے لبنانی حکام کے ایک عالمی تحقیقات کے مطالبے کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔
پھر یہ بات تو خاطر میں ہی نہیں لائی گئی کہ گولان دروز، ایک زیر عتاب اقلیت، جو اسی طرح سے اسرائیلی تسلط میں ہے جیسے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے فلسطینی، اور جو با آواز بلند اور اعلانیہ اس سانحے کو لبنان پر نئے حملوں اور جنگ مسلط کرنے کے لیے نتن یاہو کے عزائم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جنازوں کے دوران نتن یاہو اور سموتریچ کی مکروہ موجودگی کے خلاف انتہائی غصیلے احتجاج پھٹ پڑے اور انہیں ذلیل و رسوا ہو کر نکلنا پڑا۔
مشرق وسطیٰ بحران میں یہ نیا موڑ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ نتن یاہو اور اسرائیلی حکومت میں موجود اس کے انتہائی دائیں بازو یہودی بالا دستی اتحادی مسلسل اشتعال انگیزی کر رہے ہیں۔ اس سارے کام میں انہیں امریکی سامراج کی معاونت اور رضامندی حاصل رہی ہے۔
لیکن اس تمام کھلواڑ کی ایک بھاری قیمت ہے۔ خطے میں امریکی اثر و رسوخ شدید مجروح ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خطے اور دیگر دنیا کی عوام میں سامراج مخالف جذبات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ جنگی شدت میں اضافے سے نتن یاہو کو فائدہ ہے، لیکن اس کے ساتھ انتشار اور یہ خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے غیر متوقع نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کا سدباب نام نہاد عالمی کمیونٹی کی منافقانہ امن اپیلوں یا اقوام متحدہ کے اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے کھوکھلی سرزنشوں سے نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں نئی منتخب لیبر حکومت کو اسرائیلی نسل کش جنگ کی برطانوی سامراجی حمایت ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ICC (عالمی عدالت انصاف) کے نتن یاہو اور وزیر دفاع یواف گالانت کے لیے جاری کردہ گرفتاری کے وارنٹ کی مخالفت ختم کرنے کے کھوکھلے ڈراموں کے باوجود سر کیئر سٹارمر نے چند دن پہلے پھر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ”حق دفاع“ کی حمایت کرتا ہے اور بددلی سے یہ بھی کہہ دیا کہ ”جنگ بندی کی ضرورت ہے“۔ لیبر پارٹی کے قائدین امریکی سامراج کی جانب سے پیش کی گئی ہر پوزیشن کا دم چھلہ بنے ہوئے ہیں۔
نئے برطانوی وزیر خارجہ امور ڈیوڈ لیمی نے پہلے دو سرکاری دورے واشنگٹن اور اسرائیل کے کیے اور اس وقت وہ دوحہ میں موجود ہے۔ اس کی خاموشی معنی خیز ہے جبکہ قبرص میں برطانوی ہوائی اڈے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی امریکی برطانوی نیٹ ورک کے طور پر مسلسل معاونت کر رہے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ برطانوی عسکری تعلقات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
جنگ نواز مردہ باد! سامراج مردہ باد!
نتن یاہو موجودہ عالمی سرمایہ داری کے بحران اور سامراجی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی لڑائی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کی پالیسی محض بیمار سرمایہ داری اور اس کے زہریلے نتائج کا شاخسانہ ہے۔ لیکن نتن یاہو کے اقدامات بحران کو مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں جس کے عالمی نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ عالمی سرمایہ داری کے بحران کا مرکز بن چکا ہے۔ اشتعال انگیزی کے نتیجے میں مزید اشتعال انگیزی ہو گی اور بحران میں مسلسل بڑھوتری ناگزیر ہوتی جائے گی۔
مشرق وسطیٰ کی ساری تاریخ گواہ ہے کہ کوئی ایک فرد موجودہ بربادی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ سامراجیت ہے، جو بحران اور جنگ کو جنم دیتی ہے۔ اس بحران کا ایک ہی حل ہے کہ ایک انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری اور سامراجیت کا خاتمہ کیا جائے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی مشرق وسطیٰ کے عوام کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ بنا کر پُر امن اور بھائی چارے سے بھرپور زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ نکتہ آغاز کے طور پر پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو سامراجیت کے خلاف ایک متحد جدوجہد کرنی ہو گی۔
ہم سامراجیت اور جبر کے خلاف پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو متحرک ہونے کی کال دیتے ہیں۔ اس تحریک کا سب سے پہلا ہدف ہمارے اپنے حکمران طبقات ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد کریں، غزہ نسل کش قتل عام میں ان کی معاونت کو ننگا کریں، فلسطینی عوام کی تباہی و بربادی اور ان پر صیہونی ریاست کا جبر پوری دنیا میں واضح کریں۔
سرمایہ دار جنگی منافع خوروں کی دولت پر قبضہ کرو!
غزہ پر اسرائیلی نسل کش جنگ بند کرو!
قبضہ ختم کرو!
اسرائیلی جنگی مشین کا محنت کش بائیکاٹ کریں!
اقوام کے درمیان امن، حکمران طبقات کے خلاف جنگ!
سرمایہ داری اور سامراجیت کا خاتمہ کرو!
مشرق وسطیٰ میں ایک سوشلسٹ فیڈریشن زندہ باد!