رپورٹ: |ریڈ ورکرز فرنٹ|
2ستمبر 2016ء کو دنیا کے سب سے بڑے محنت کش طبقوں میں شمار ہندوستانی محنت کش طبقے نے اپنے حقوق کی جنگ کیلئے ہندوستان میں ایک روزہ عام ہڑتال کی۔ یہ ہڑتال ہندوستان اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی جس میں 18کروڑ سے زیادہ محنت کشوں نے حصہ لیا۔ 2015ء میں بھی اسی دن عام ہڑتال میں15کروڑ سے زیادہ محنت کشوں نے حصہ لیا تھا۔ ہڑتال کی کال 11 میں سے 10 مرکزی ٹریڈیونینوں کی مودی سرکار سے ایک سال سے جاری مذاکرات کی ناکامی کے نتیجے میں منظم کی گئی۔
مودی سرکار حکمران طبقے کی حمایت اور مزدور دشمن پالیسیوں کے نفاذ کیلئے حکومت میں آئی گو کہ اپنی تمام تر انتخابی کیمپین مودی نے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے کا ڈھونگ رچاتے ہوئے کی۔ مزدور دشمن پالیسیوں کے حملے میں کٹوتیاں، ریاستی شعبوں کی نجکاری ، مزدور قوانین میں حد درجہ نرمی، مزدوروں کے حقوق غصب کرنے کیلئے قانونی ترامیم اور دیگر نام نہاد اصلاحات شامل ہیں۔ اسی وجہ سے صرف ایک یونین بھارتیہ مزدور سنگھ، جو کہ BJP کے ساتھ وابستہ ہے ،نے اس ہڑتال میں حصہ نہیں لیا۔
ان حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مرکزی یونینوں نے 12 نکاتی ایجنڈا مودی سرکار کو پیش کیا اور اس پر مذاکرا ت بھی ہوئے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ یہ نکات، جن سے متعلق یونین عہدیداران کا کہنا ہے کہ کسی صورت انحراف نہیں ہو گا، مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ قیمتوں میں اضافے کا عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے فوری سدِ باب اور منڈی میں اشیا کی سٹہ بازی کی فوری ممانعت۔
2۔ بے روزگاری کی روک تھام کیلئے روزگار پیدا کرنے کے فوری اقدامات۔
3۔ تمام بنیادی لیبر قوانین کی کسی قسم کے استثنیٰ کے بغیر اطلاق اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت فوری اقدامات۔
4 ۔ تمام ہندوستان کے مزدوروں کیلئے سوشل سیکورٹی۔
5 ۔ کم از کم اجرت ماہانہ 18000 ہندوستانی روپے ۔
6۔ تمام کام کرنے والی عوام کیلئے کم از کم پنشن میں 3000روپے کا اضافہ۔
7۔ مرکزی اور ریاستی اداروں میں ریاستی سرمایہ کاری ختم کرنے کے خلاف فوری اقدامات۔
8۔ مستقل ملازمت کے اداروں میں ٹھیکیداری نظام کے خلاف فوری اقدامات اور مستقل ملازمت کی تمام تنخواہوں اور مراعتوں کا ٹھیکیداری نظام کے تحت عارضی کام کرنے والوں پر بھی مکمل اطلاق۔
9۔ بونس اور پراویڈنٹ فنڈ پر لگائی گئی تمام حدود کا خاتمہ؛ گریجوٹی میں خاطر خواہ خواہ اضافہ۔
10۔ تمام ٹریڈ یونینوں کی رجسٹریشن کی درخواست دینے کے بعد 45دنوں کے اندرلازمی رجسٹریشن اورILO کنونشن کی شق C87 اور C98کا فوری اطلاق۔
11۔ لیبر قوانی میں تمام ترامیم کی شدید مخالفت۔
12۔ ریلوے، انشورنس اور دفاع کے شعبوں میں بیرون سرمایہ کاری کی شدید مخالفت۔
CITU(Centre of Indian Trade Unions) کے مطابق ہڑتال میں پورے ہندوستان سے منظم اور غیر منظم، سرکاری اور نجی سیکٹر، مرکزی اور صوبائی حکومتی اداروں اور مختلف ریاستی سکیموں کے مزدوروں نے حصہ لیا۔ معیشت کے کلیدی شعبوں مثلاً کوئلہ اور معدنیات کی کانوں، ریلوے، توانائی، انجینئرنگ، پٹرولیم، گاڑیوں کی صنعتیں، دفاعی پیداوار، ٹیلی کام اور فنانس کے شعبوں جیسے بینکاری اور انشورنس وغیرہ کے محنت کشوں نے وزارتوں اور اداروں کے بے پناہ دباؤ کے باوجود حصہ لیا۔ کئی صوبائی یونینوں نے جن میں تلنگانہ، تامل ناڈو، اڑیسہ وغیرہ کی یونینیں شامل ہیں، حصہ لیا۔ کسان، زرعی مزدور، نوجوان، طلبا اور خواتین بھی اپنے مزدور بھائیوں کی حمایت میں بھرپور شریک رہے۔ کئی ریاستوں میں دفعہ 144کا نفاذ کیا گیا۔ کچھ ریاستوں جیسے مغربی بنگال میں پانی کی ترسیل کے ملازموں کو ہڑتال کرنے پر بر طرف کرنے کے احکامات بھی سنائے گئے۔ کئی ریاستوں جیسے ہریانہ، پنجاب، تلنگانہ، کرناٹکا، آسام، اڑیسہ، کیرالہ، تری پورہ وغیرہ میں ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند رہی۔ آندھرا پردیش، اڑیسہ، کرناٹکا وغیرہ میں رکشہ ڈرائیوروں نے مکمل ہڑتال کی۔
بہت ساری ایسی ریاستیں تھیں جن میں مرکزی یونینوں نے مکمل بندش کی کال نہیں دی تھی جیسے آسام، بہار، ہریانہ، اڑیسہ، کیرالہ، تری پورہ، تلنگانہ، کرناٹکا، مدھیا پردیش وغیرہ لیکن وہاں بھی مکمل بندش کی صورتحال رہی۔ تمام بڑے صنعتی علاقوں میں بندش اور ہڑتال کی کیفیت رہی۔
2009ء سے لے کر اب تک یہ ہندوستان کی چوتھی عام ہڑتال ہے جس میں محنت کشوں نے آگے بڑھ کر لڑنے اور اپنے حقوق کی جنگ کو آگے بڑھانے کی توانائی اور آمادگی ظاہر کی ہے۔ طویل مدتوں کے بعد عام ہڑتال کی کال دینے کے بجائے اب مرکزی یونینوں کو زیادہ منظم، ہڑتالوں کے درمیان کے دورانیے کو گھٹاتے ہوئے زیادہ موثر طریقے سے جہاں ہڑتال کے دائرہ کار کو باقی اداروں تک پھیلانے اور نوجوانوں اور طلبہ کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے وہیں پر ایجنڈے میں زیادہ ٹھوس سیاسی مطالبات ا ور پروگرام رکھنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ محنت کش طبقے کی توانائیوں کو مجتمع کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی آزادی اور حقوق کی جنگ کو آگے بڑھایا جاسکے۔