|تحریر: فضیل اصغر|
پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو چکی ہے۔ عمران خان اب وزیر اعظم نہیں رہا۔ شہباز شریف نیا وزیر اعظم منتخب ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم بنتے ہی قومی اسمبلی میں شہباز شریف نے تقریر کی اور اس تقریر میں بلند و بانگ اعلانات کیے۔ تقریر کے دوران یوں محسوس ہوتا تھا جیسے دربار لگا ہو اور بادشاہ سلامت تحفے تحائف بانٹتے جا رہے ہوں۔ کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اور اعلانات جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں 10 فیصد اضافے، قومی جبر کے شکار نوجوانوں کے ہاتھوں سے بندوقیں لے کر قلم تھمانے اور تمام صوبوں کو برابری کی بنیادوں پر ساتھ لے کر چلنے، رمضان پیکج، سی پیک کو ”سپیڈ“ سے آگے بڑھانے سمیت خارجی سطح پر ازسرنو تعلقات کے احیاء کے بلند بانگ اعلانات کیے گئے۔ ساتھ ہی نوجوانوں سے بھی وعدہ کیا ہے کہ انہیں لیپ ٹاپ دیے جائیں گے اور روزگار پیدا کیا جائے گا۔ ان تمام اقدامات کو بروئے کار لانے کیلئے درکار معاشی حکمت عملی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کر محنت کریں گے اور ایک عظیم قوم بنیں گے۔ اور پھر بند مٹھی ڈائس پر زور سے مار کر نوجوانوں کو پڑھنے لکھنے کی نصیحت کی اور کہا کہ پڑھے لکھے نوجوان ہی ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ ایک گھنٹے تک چلنے والے اس شو میں شو باز شریف کے تمام اعلانات کو زر خرید میڈیا کے اُس حصے کی جانب سے خوب پذیرائی ملی جسے پیسہ ان کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ شوباز کو ایک مدبر سیاستدان بنا کر پیش کیا گیا،کہ دیکھو ایسا ہوتا ہے سیاستدان، عمران کی طرح منہ پھٹ نہیں۔ مگر کہیں بھی یہ سوال نہیں پوچھا گیا کہ بھائی ان تمام اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ پی ٹی آئی کی معاشی پالیسی کے مقابلے میں نئی حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہوگی۔ آیا اس میں سے کچھ حقیقت کا روپ بھی دھارے گا یا محض سیاسی بیان بازی تک ہی سب محدود رہے گا۔میڈیا پوچھے یا نہ پوچھے پاکستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے ذہنوں میں بے تحاشہ سوالات موجود ہیں۔ آج وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ ان کے لیے روزگار کیوں نہیں ہے؟ ان کی فیسوں میں پے درپے اضافے کیوں کیے جا رہے ہیں؟ 74 سالوں سے ملک ایسی ترقی کی راہ پر کیوں گامزن نہیں ہو پایا جس سے انہیں روزگار، تعلیم، علاج، رہائش اور جمہوری آزادیاں مل پاتیں؟ کیوں پورے خاندان سمیت لوگ نہروں میں چھلانگیں لگا کر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں؟ کیوں امیروں کے کتوں کو ان کے چھوٹے بہن بھائیوں اور ماں باپ سے زیادہ اچھی خوراک ملتی ہے؟ کیوں آئے روز تھانوں اور کورٹ کچہریوں میں ان کے بے گناہ ماں باپ ذلیل و رسوا ہوتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال، کہ کیا کبھی ان کے حالات بھی بدلیں گے؟ یہ سوالات تعلیمی اداروں میں لیکچر لینے یا میڈیا پر دانشوروں کے تجزیے سننے سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں، حرکتوں، بیان بازیوں، اور نوجوانوں کی زندگیوں میں آئے روز پیش آنے والی مشکلات کے نتیجے میں جنم لے رہے ہیں۔ 74 سالوں میں ہر نئے آنے والے حکمرانوں،چاہے آمریت ہو یا جمہوریت، کے پاس ان سوالوں کے دو ہی جواب تھے کہ ”ملک بحران اور خطرے میں ہے۔ ملک کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے۔ ملکی سا لمیت کو بچانے کیلئے عوام کو قربانی دینا ہوگی“،اور ”پچھلے حکمران لوٹ کر کھا گئے تھے اس لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے“۔
مگر اب نوجوان ان بناوٹی اور پُر فریب جوابات سے تنگ آ چکے ہیں اور حکمران طبقے کی سیاست سے بیزار ہوچکے ہیں۔ اس کا اظہار رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں میں ان کی عدم شمولیت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ سیاست سے بیزاری میں طلبہ یونین کی عدم موجودگی کا بھی کردار ہے مگر اس کے باوجود فیصلہ کن وجہ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں کی عوام دشمن سیاست ہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک وقت میں درمیانے طبقے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد سنجیدہ تبدیلی کی خواہش میں پی ٹی آئی میں شامل ہو کر سیاسی عمل کا حصہ بھی بنی تھی۔ مگر پی ٹی آئی کے دور میں مہنگائی اور بے روزگاری میں تاریخی اضافے کے باعث ان نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس سے مایوس ہو گئی۔ بہر حال ابھی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کے حق میں کئی شہروں میں احتجاج ہوئے جن میں درمیانے طبقے کے نوجوان بھی نظر آئے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملک بھر کے نوجوانوں میں پی ٹی آئی دوبارہ مقبول ہو چکی ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت پی ٹی آئی کے مقابلے میں موجود دیگر تمام پارٹیاں حکمران طبقے کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ ان سب کی لوٹ مار کی ایک لمبی تاریخ ہے اور اس وجہ سے بدنام بھی کافی ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی اس کھیل میں قدرے نئی ہے، اگرچہ اس میں بھی اکثریت انہی لوٹوں کی ہے جو پہلے دوسری پارٹیوں کا حصہ تھے۔ لہٰذا اول تو تمام تر کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی کم وقت ملنے کی وجہ سے اتنی کرپشن نہیں کر پائی جتنی باقیوں نے کی ہے۔ دوم اپنے دور اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کیساتھ عمران خان نے انتہائی سخت سنسرشپ رکھی تا کہ اس کی پارٹی کی کرپشن کی باتیں باہر نہ آ سکیں، جو اب ”صفحہ پھٹ جانے“ کے بعد فرح خان جیسے سکینڈلز کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ بہر حال چونکہ پی ٹی آئی بظاہر صرف عمران خان کی شخصیت کے گرد کھڑی ہے (اگرچہ اس کی حقیقی بنیادیں آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کی سپورٹ اور اوپری درمیانے طبقے میں ہی ہیں)، اور عمران خان بھی پہلی بار اقتدار تک پہنچا ہے لہٰذا اسے نوجوان ’آوٹ سائیڈر‘ کے طور پر ہی دیکھتے ہیں جو پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم پہلو ان احتجاجوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی سماجی حیثیت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اکثریتی بڑے احتجاج بڑے شہروں میں ہوئے جن میں زیادہ تر تعداد پوش علاقوں کے نوجوانوں کی تھی جنہیں عموماً ’برگر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے گھر میں ’دانے پورے ہیں‘، اور اکثریتی تو وہ ہیں جن کے پاس بیرون ممالک کی نیشنیلٹی ہے۔ یہی وہ پرت ہے جس کا ”انقلابی جذبہ“ حکمرانوں کی ”وطن پرستی“ اور ”خودداری“ وغیرہ جیسی لفاظی سن کر جاگتا ہے۔ یہ انتہائی وقتی اور سطحی جذبہ ہوتا ہے جو پولیس کی ایک لاٹھی، بلکہ پولیس کا ڈالا دیکھ کر ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ بہر حال یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ ان احتجاجوں میں صرف ’برگر‘ ہی تھے۔ ان میں وہ نوجوان بھی شامل تھے جو پہلے قدرے کھاتے پیتے درمیانے طبقے کے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور معاشی بحران کے نتیجے میں محنت کش طبقے میں جا گرے ہیں، البتہ سوچ ان کی ابھی بھی اپنے پرانے طبقے والی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ نام نہاد ”اینٹی امریکہ“ لفاظی سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح کافی بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے وہاں پھنسے ہوئے تھے۔ کچھ وقتی شغل میلے کیلئے بھی رُکے ہوئے تھے۔ خیر، پی ٹی آئی کی سپورٹ کی جو صورتحال ان احتجاجوں میں تھی کم و بیش ویسی ہی بالعموم سماج میں بھی ہے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ درمیانے طبقے کے کچھ نوجوان واقعتاً پی ٹی آئی سے آج بھی سنجیدہ تبدیلی کی امید لگائے بیٹھیں ہیں۔ مگر اس کی وجہ بھی ’حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ ہے‘۔
مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پورے پاکستان میں نوجوانوں کی کتنی تعداد پی ٹی آئی کی سپورٹ کر رہی ہے؟ چلیں ہم ضرورت سے زیادہ گنجائش دے کر کہتے ہیں کہ 30 ہزار لوگ احتجاجوں میں شامل تھے جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی تو بھی کل تعداد کے حساب سے یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بنتی۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی میں سے 64 فیصد 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اس وقت پاکستان کی کل آبادی 25 کروڑ کے قریب ہے،اگر ہم 25 کروڑ کے حساب سے بھی دیکھیں تو 16 کروڑ نوجوان بنتے ہیں۔ اس حساب سے 30 ہزار کی تعداد ایک فیصد سے بھی بہت کم بنتی ہے۔ یہ کیسی سپورٹ ہے جس میں فیصلہ کن موقع پر ایک فیصد لوگ بھی نہ نکل پائے!
درحقیقت نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہونے کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ حفیظ پاشا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 2 کروڑ 10 لاکھ سے زائد لوگ بیروزگار ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں اور خصوصاً محنت کش طبقے اور نچلے درمیانے طبقے کے نوجوانوں کی ہے۔ پاکستان میں بیروزگاروں کی حقیقی تعداد جاننے کیلئے بڑے پیمانے پر کوئی سنجیدہ سروے کیا ہی نہیں گیا لہٰذا اس بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقی تعداد اس سے بھی کہیں گنا زیادہ ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہے جو عارضی اور اپنی قابلیت سے کم درجے کی نوکریاں کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح بہت بڑی تعداد فری لانسنگ کا حصہ ہے، جنہیں برسر روزگار ہی سمجھا جا رہا ہے۔ جبکہ حقیقتاً فری لانسنگ کے ذریعے بھی بہت کم تعداد ہی اتنا کما پاتی ہے کہ جس سے گزارا چل سکے۔ بہت بڑی تعداد تو سافٹ ویئر ہاؤسز میں انتہائی کم تنخواہ پر نوکری کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی ایسا نوجوان جس کی جیب میں روٹی کھانے کے پیسے نہ ہوں بھلا موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوا کر یا رکشہ کروا کر کیوں کسی ایسی پارٹی کیلئے نکلے گا جو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے بھری پڑی ہو۔ جسے لانے والی بھی وہی اسٹیبلشمنٹ ہو جو باقیوں کو لاتی ہے۔ جس کی معاشی پالیسی بھی وہی ہو جو باقیوں کی ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیاں اور جرنیل سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے ہیں اور عالمی سامراج کے دلال ہیں۔ ان کا کام عالمی سامراجی اداروں جیسے آئی ایم ایف کے احکامات کو بروئے کار لا کر اپنا کمیشن بٹورنا ہے۔ ان سب کی جائیدادیں بیرون ممالک میں ہیں۔ ایسے کرائے کے ٹٹوؤں کیلئے بھلا کوئی ذی شعور انسان کیوں سڑک پر نکلے گا! پاکستان کے 16 کروڑ نوجوانوں کی بھاری اکثریت کی جانب سے رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں کو ٹھکرانا ایک اہم سیاسی پیش رفت ہے۔ اس وقت پوری دنیا ایک خوفناک معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جس میں ہر نئے دن مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان بھی اسی دنیا کا حصہ ہے جو سامراجی جکڑ بندیوں، حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار، کالے دھن، پسماندہ صنعت اور حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے اس بحران سے زیادہ شدت کے ساتھ متاثر ہو رہا ہے۔ مستقبل میں اس بحران میں مزید شدت آئے گی جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف لوٹ کے مال کی بندر بانٹ پر حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی آپسی لڑائیوں میں مزید اضافہ ہوگا وہیں دوسری جانب نوجوانوں، طلبہ اور محنت کشوں کی دیوہیکل بغاوتیں بھی جنم لیں گی۔ مال کی بندر بانٹ اور لوٹ مار کیلئے حکمرانوں کی آپسی لڑائیاں تو ابھی سے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں اور ان کا حقیقی گھناؤنا چہرہ سب کے سامنے آگیا ہے البتہ جلد ہی محنت کشوں کی ایک بڑی بغاوت بھی جنم لے گی جو حکمران طبقے کے پورے کے پورے نظام کو بہا لے جائے گی۔ اسی طبقاتی لڑائی کے عمل میں ایک انقلابی پارٹی بھی ابھر کر سامنے آئے گی جو اس تحریک کی قیادت کرتے ہوئے اسے سوشلسٹ انقلاب تک لے کر جائے گی۔ یہی وہ پارٹی ہو گی جس کی تعمیر نوجوان، طلبہ اور محنت کش اپنے خون پسینے سے کریں گے اور اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔آج اس پارٹی کی نظریاتی اور تنظیمی بنیادیں ڈالنا ہی مارکس وادی کارکنان کا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔