|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
آج بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کے دور میں صنعتی مزدوروں کیلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مستقل روزگار کی ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے محنت کش فیکٹری مالکان کے کھلے جبر تلے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
فیکٹریوں میں بھرتی کے وقت مزدوروں سے فیکٹری کے اصول و ضوابط کے معاہدے پر دستخط کرایا جاتا ہے اور پھر اسی معاہدے کو فیکٹری مالکان بار بار توڑتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح گجومتہ کے صنعتی علاقے میں قائم فیکٹری علی مرتضیٰ کے مزدور وں کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں بھی فیکٹری مالکان اپنے ہی لکھے معاہدے کو پورا نہیں کر رہے۔
ان میں ایک شق یہ بھی ہے کہ مزدوروں کو تین ماہ کی مدت ملازمت کے بعد مستقل کر دیا جائے گا اور فیکٹری میں منافع ہونے کی صورت میں ہر مستقل ملازم کو سالانہ بونس الاؤنس دیا جائے گا، لیکن فیکٹری میں 8 سے 9 سال کی مدت ملازمت پوری کرنے والے مزدوروں نے ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کوئی بھی بونس الاؤنس نہیں دیا گیا۔
اس حساب سے 8 سال سے فیکٹری مستقل نقصان میں جا رہی ہے اور اگرفیکٹری نقصان میں جا رہی ہے جو کہ ایک ناقابل یقین بات ہے کیونکہ نقصان میں چلنے والے کسی بھی نجی ادارے کوبرقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس بات کی حقیقت کو جانچنے کیلئے فیکٹری کے کھاتوں کو مزدوروں کے سامنے لایا جائے اور شفافیت کے ساتھ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
اسی معاہدے میں اوور ٹائم کے حوالے سے بھی فیکٹری مالکان اپنے ہی اصول کے خلاف کھڑے ہیں جس میں یہ لکھا گیاہے کہ، اوور ٹائم پر کام کی صورت میں ورکر کو دُگنی اجرت ملے گی، جس کے حساب سے ایک گھنٹہ 210 روپے کا بنتا ہے۔ لیکن یہاں پر بھی مزدور کو اوور ٹائم کام کرنے پر ایک گھنٹے کے 130 روپے دیے جاتے ہیں۔ معاہدے کی اسی شرط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اوورٹائم قانون کے مطابق صرف مخصوص حالات میں ہی اوور ٹائم کی اجازت ہو گی لیکن مزدوروں کو مستقل بنیادوں پر اوور ٹائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اوور ٹائم نہ کرنے کی صورت میں فیکٹری سے نکال دیا جاتا ہے۔
یہاں مزدوروں کو صبح 8 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کام کروایا جاتاہے یعنی روزانہ کم ازکم 13 گھنٹے کی شفٹ لگوائی جاتی ہے۔ کچھ فیکٹریاں، جن میں یوحنا آباد میں موجود ”سوفٹ وڈ“ فیکٹری سرفہرست ہے، میں صبح 8 بجے سے رات کے 3 سے 4 بجے تک شفٹ چلائی جاتی ہے۔
مزید یہ کہ اس معاہدے میں پاکستان کے قانو ن کے مطابق میٹرنٹی کی چھٹیوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق خواتین ورکرز کو تین ماہ کی بمعہ اُجرت چھٹیاں دی جائیں گی، لیکن قانون بنانے والے ہی قانون کو کاغذوں تک ہی محدود کررہے ہیں اورریاست کا فیکٹری مالکان سے اس قانون پر عملدرآمدکرانا، سرمایہ داروں سے غداری کے مترادف ہے۔
اسی طرح علی مرتضیٰ فیکٹری میں بھی خاتون ورکرز کیلئے اس قانون کی اہمیت صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے جس میں خواتین کو چھٹی تو دی جاتی ہے لیکن تنخواہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ ان سب مسائل کے حل کیلئے مرد وخواتین محنت کشوں کومشترکہ پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ حتمی طور پر یہ تمام مسائل دونوں کیلئے یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
ریڈورکرز فرنٹ کے نمائندے ایک عرصے سے گجومتہ انڈسٹریل ایریا جا رہے ہیں اور فیکٹری مزدوروں کو اکھٹا کر رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مزدوروں کو مل کر اس جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا کیونکہ فیکٹری مالکان اور ریاستی ادارے صرف محنت کشوں کا خون ہی نچور سکتے ہیں اور صرف مزدوروں کا آپسی اتحاد ہی مسائل کو حل کرا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم گجومتہ انڈسٹریل ایریا اور بالخصوص علی مرتضیٰ فیکٹری کے مزدوروں کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے سٹڈی سرکلز میں شامل ہوں۔ ان سٹڈی سرکلز (تربیتی نشستوں) میں ہم موجودہ معاشی و سیاسی صورت حال، مزدور تحریک کی تاریخ، اور سرمایہ داروں کی کمزوریوں کا جائزہ لینے سمیت دیگر کئی موضوعات پر بات چیت کرتے ہیں۔ ان سٹڈی سرکلز کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کو نظریاتی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے تا کہ وہ اپنی جدوجہد میں موثر کردار ادا کر سکیں۔