|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: اختر منیر|
الجزائر کے عوام صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کے استعفے کے بعد جشن منانے کے لیے سڑکوں پر امڈ آئے۔ بوتفلیقہ حکومت کے خلاف پچھلے ڈیڑھ ماہ سے جاری عوامی مظاہروں نے اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ مگر صرف اس(استعفیٰ) سے کوئی بہتری نہیں آئے گی اور عوام اب پوری حکومت کو گرانے کی بات کر رہے ہیں۔
To read this article in English, click here
منگل(2اپریل) کی رات کو بوتفلیقہ نے ٹی وی پر آ کر اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کے ساتھ قانون ساز کونسل کا صدر عبدالقادر بن صالح بھی موجود تھا، جس کے نئے انتخابات تک عبوری صدر بننے کی راہ ہموار ہوچکی ہے جو کہ 90 دن کے اندر کروائے جائیں گے۔ آخری وقت تک مزاحمت کے بعد بوتفلیقہ کے پیچھے کھڑے دھڑے نے اس تحریر میں ڈھکے چھپے الفاظ کے ساتھ فوج کو آڑے ہاتھوں لیا جس نے بوتفلیقہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا۔
’’میں نے یہ فیصلہ اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنے ہم وطنوں کے دل و دماغ کی تسکین کے لیے کیا ہے تا کہ وہ الجزائر کو ایک اچھے مستقبل کی جانب لے جا سکیں، جس کی وہ حق بجانب خواہش رکھتے ہیں (۔۔۔)‘‘
سڑکوں پر خوشی اور بغاوت
اس اعلان کے بعد ہزاروں لوگ معذور آمر کی معزولی کا جشن منانے دارالحکومت الجزائر کی سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگوں کا مزاج پر مسرت اور باغیانہ تھا اور وہ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’مبارک ہو، یہ محض آغاز ہے‘‘؛ ’’ہر روز ایک مظاہرہ ہو گا، ہم ہار نہیں مانیں گے‘‘؛ ’’عوام فیصلہ کریں گے‘‘؛ ’’ان سب کا احتساب ہو گا‘‘ اور ’’لوگ ان سب سے چھٹکارا چاہتے ہیں!‘‘ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 102 (جو اقتدار قانون ساز کونسل کے ہاتھوں میں دیتا ہے) پر عمل کی بجائے انہیں آرٹیکل 7 پر عمل کیا جائے، جس کے مطابق ’’اقتدار کا منبع عوام ہیں‘‘۔
الجزائر میں فرانس 24 کی ایک رپورٹر نے عوام کے مزاج کا درست اندازہ لگاتے ہوئے کہا:
’’ہم عوام کا جوش و خروش دیکھ کر یقیناً دنگ رہ گئے ہیں۔ ہم پچھلے چھ ہفتوں سے اسی بات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہی وہ بات تھی جس کے لیے لوگ پچھلے چھ ہفتوں سے احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین کا بنیادی مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے (۔۔۔)
’’ابتدائی ردعمل خوشی اور جوش سے سرشاری کا تھا۔ یہ فتح اور جیت کا ایک احساس ہے۔ لیکن لوگوں کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ یہ محض شروعات ہے۔۔۔ یہ حقیقی جدوجہد کا آغاز ہے جس کا مقصد صدر کے گرد موجود حکومت کا خاتمہ ہے نہ کہ محض ایک شخص کا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود فیصلے نہیں کیا کرتا تھا، کیونکہ وہ اس قدر بیمار تھا کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘
پچھلے کچھ ہفتوں میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت انقلابی تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتی، جو دن بدن پھیلتی اور آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف پچھلے مہینے کے دوران چار ایک روزہ احتجاج ہوئے جن میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا اور دو وسیع ہڑتالیں ہوئیں جن میں سے آخری ہڑتال میں پچھلے ہفتے سرکاری اداروں اور سرکاری ملکیت میں موجود کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد بند رہی۔ سب سے بڑے مظاہرے بجایہ اور ثیزی وزو جیسی جگہوں پر ہوئے جہاںUGTA کی مقامی شاخوں نے مکمل عام ہڑتال کی اور اقتدار ہاتھوں میں لے لیا۔ یہ قبائل کے علاقے ہیں جو ماضی قریب میں انقلابی تحریکوں کی تاریخ رکھتے ہیں۔ بہرحال پورے محنت کش طبقے کی طرف سے عام ہڑتال کا دباؤ موجود تھا، جس کی وجہ سے پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران ’’سیدی سید (UGTA کا جنرل سیکریٹری) مردہ باد!‘‘ مظاہروں کے بنیادی نعروں میں سے ایک بن گیا۔ بلاشبہ ان ہڑتالوں سے حکمران طبقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے، جو محنت کشوں کی ایک آزاد تحریک بنتے نہیں دیکھ سکتے۔
ساتھ ہی ساتھ تحریک کے مقاصد بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ وہ تحریک جس کا آغاز بوتفلیقہ کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے مطالبے کے ساتھ ہوا تھا، اب وہ یک زبان ہو کر پوری حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
حکمران طبقے میں دراڑیں
انقلابی تحریک کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اعتماد کی وجہ سے حکومت میں ٹوٹ پھوٹ اور اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اپنے عہدے چھن جانے کے خوف سے ایک ایک کر کے حکمران اشرافیہ کی پرتیں بوتفلیقہ اور اس کے قریبی حلقے سے دور ہونا شروع ہو گئیں۔ چوٹی کے کاروباری افراد، سرکاری اہلکار اور مالکان کی انجمن، یو جی ٹی اے ٹریڈ یونین فیڈریشن کا سربراہ، اتحادی پارٹیاں نیشنل لبریشن فرنٹ اور ڈیموکریٹک نیشنل ریلی سب بوتفلیقہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
پچھلے ہفتے آرمی چیف آف سٹاف، جو ابھی تک بوتفلیقہ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا تھا، نے بوتفلیقہ کو استعفیٰ دے کر اقتدار قانون ساز کونسل کے حوالے کرنے کا کہا۔ اس مطالبے کو لیفٹنینٹ جنرل احمد جید صلاح نے ایک بار پھر دوہراتے ہوئے صدر کو فوری استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ حکمران طبقے میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کا واضح اظہار تب ہوا جب آرمی چیف نے حکومتی اشرافیہ کے سب سے بالائی دھڑے سے کنارہ کرتے ہوئے ساتھ ہی طاقت کے مظاہرے کے طور پر فوج کے اعلیٰ افسران کی میٹنگ بھی طلب کر لی۔
اس طرح فوج کے اس معاملے میں کود پڑنے سے حکمران طبقے کی آپس کی چپقلش کھل کر سامنے آگئی ہے۔ وہ ٹولہ جو بوتفلیقہ کے ساتھ ہے، انقلابی عوام کو کسی قسم کی رعایت نہ دینے پر بضد ہے۔ یہ دھڑا بڑے سکون سے حکومت پر براجمان ہے اور جلد ہی حکمران طبقے کے باقی تمام دھڑوں کی حمایت کھونے والا ہے۔ اس کو یہ خوف لاحق ہے کہ کسی قسم کی رعایت دینے سے عوام کے حوصلے بلند ہوں گے اور تحریک مزید شدت پکڑے گی۔
اس کے برعکس فوج ایک اور دھڑے کی نمائندگی کرتی ہے، جسے فرانسیسی سامراج کی حمایت بھی حاصل ہے اور اسے نظر آرہا ہے کہ یہ تحریک ابھی ختم نہیں ہونے والی۔ معاملے کو طول دے کر پورے نظام کو ہی خطرے میں ڈالنے کی بجائے وہ تحریک کو متبادل راستہ دے کر ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ’’عوام اور فوج‘‘ کی بات کرتے ہیں اور یہ بات آسانی سے بھلا دیتے ہیں کہ ابھی تک فوج آمریت کا ایک اہم ترین ستون تھی اور صلاح، جو 22 فروری کو شروع ہونے والی تحریک کو آغاز سے ہی دھمکاتا رہا ہے، فوراً ہی عوام کا خادم کیسے بن گیا؟
ایک اور علامتی اشارے کے طور پر بڑے سرمایہ دار علی حداد کو، جو مالکان کی ایسوسی ایشن کا صدر بھی ہے، ایک بڑی رقم کے ساتھ ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیا گیا۔ سرمائے کو ملک سے باہر لے جانے والوں کی گرفتاری تحریک میں موجود درمیانے طبقے کی پرتوں کا ایک بڑا مطالبہ بھی رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے فوج یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ وہ انقلاب کی مرضی و منشا کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔
فوج پر عدم اعتماد
لیکن ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج اگر اس مرحلے پر بوتفلیقہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کر رہی ہے اور حداد جیسے لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے، تو وہ صرف سارے نظام کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں جرنیل انتخابات کروانے کی اجازت دے دیں، مگر ان انتخابات کو اس طرح ترتیب دیا جائے گا کہ ان سے حکمران طبقے کے مفادات کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔ اوپر سے کچھ سطحی مراعات دے کر وہ انقلابی عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ الجزائری سرمایہ داری کے بنیادی ستونوں کو بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ جرنیل آنے والے وقت میں زیادہ سے زیادہ طاقت اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنے کی سازش بھی کر رہے ہیں۔
فوج نے پچھلے ڈیڑھ مہینے میں تحریک کو کھلے عام دبانے کی کوشش کی تھی، جس سے یقیناً عام فوجی (جن کا تعلق زیادہ تر کسان اور محنت کش طبقے سے ہے) متاثر ہوتے اور اس سے علیحدہ ہو سکتے تھے اور اس طرح یہ جرنیل ہوا میں معلق رہ جاتے۔ فوج کا انہدام پورے نظام کے انہدام کا آغاز ثابت ہوتا۔ اس لیے جرنیل تحریک کی مخالفت کی بجائے اس پر سوار ہونے کی بہیمانہ کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن 2011ء میں مصر میں حسنی مبارک کی فوج کے ہاتھوں اقتدار سے بیدخلی کے بعد پھیلنے والے انتشار کو مدنظر رکھتے ہوئے جرنیل ابھی براہ راست حکومت حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کی بجائے وہ آرٹیکل 102 کے نفاذ کا کہہ کر سرمایہ دارانہ جمہوریت پسندی اور قانون کی حاکمیت کا ڈرامہ رچا رہے ہیں (جس پر تحریک میں موجود کچھ لبرل اور درمیانے طبقے کے عناصر نے زور بھی دیا ہے)۔ اس طرح ’’قانون کی پاسداری‘‘ کرتے ہوئے اور فوج کی ایک منظم قوت کے طور پر مداخلت سے، وہ عوام کا اپنی طاقت پر یقین ختم کرنے کے درپے ہیں۔
لیکن بوتفلیقہ کے استعفے سے کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ جس دوستانہ انداز میں اقتدار عبدالقادر بن صالح کے حوالے کیا گیا ہے اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے۔ دراصل، یہ حکومت کی طرف سے تبدیلی کا فریب دینے کی ایک سازش ہے، جب کہ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ عبدالقادر بن صالح، جو نیا صدر بنا ہے، آخر تک بوتفلیقہ کا مضبوط اتحادی رہا ہے۔ بوتفلیقہ کے علاوہ حکومت کی تمام اہم شخصیات اپنی جگہ پر موجود ہیں، جیسا کہ بہت سے مظاہرین نے نشاندہی کی کہ اب بھی حکومت میں موجود لوگ وہی ہیں جو بوتفلیقہ کے نام پر سالوں سے حکومت کر رہے ہیں۔
عوام فوراً اس فریب کو سمجھ گئے۔ اگر کوئی حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے تو وہ ان افراد کو ہٹا کر ہی آ سکتی ہے۔ اس لیے ساری حکومت کو ہی بدلنا پڑے گا۔ لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟ کئی جگہوں پر ابھی سے کمیٹیاں بننے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جو گلی محلوں، سکولوں اور کام کی جگہوں پر جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ نے احتجاج منعقد کیے ہیں، ریلیوں میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے فرائض سر انجام دیے ہیں اور یہاں تک کہ بعد میں صفائی کرنے کے لیے ٹیمیں بھی تشکیل دی ہیں، جو کہ ریاست سے معیار میں کہیں بڑھ کر ہیں۔
ثیزی وزو اور بجایہ جیسی جگہوں پر ہڑتالی کمیٹیوں نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ہڑتال سے عام لوگوں کا نقصان نہ ہو (مثال کے طور پر کھانا پکانے کے لیے گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا)۔ ان کمیٹیوں کو وسعت دے کر علاقائی اور قومی سطح پر آپس میں جوڑنے کی ضرورت ہے، اس طرح سے انقلاب نئی طرز کی حکومت کا بیج بو سکتا ہے جس کی بنیاد محنت کش طبقے، نوجوانوں اور غریبوں پر ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ اوپر بیٹھی جونکوں کے مقابلے میں معاشرے کو چلانے کی کہیں زیادہ قابلیت رکھتے ہیں۔
ان سب کو نکال باہر کرنا ہو گا!
کئی سالوں سے یہ لوگ الجزائر کے عام لوگوں کے خون پر پل رہے ہیں۔ کاغذوں کی حد تک الجزائر کے لوگ ایک بڑے سرکاری شعبے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور صحت اور تعلیم وغیرہ کے شعبوں پر بڑی رقوم خرچ کی جا رہی ہیں، لیکن دن بدن یہ سہولیات بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ ساری رقم کہاں جا رہی ہے؟ امراء عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ہر سال ہزاروں نوجوانوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ جو یہاں رہتے بھی ہیں انہیں ابتر حالات میں گزارا کرنا پڑتا ہے اور اگر ان کی قسمت اچھی ہو تو وہ بدل بدل کر چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہیں۔ نوجوان جو آبادی کی اکثریت ہیں، 30 فی صد سے زیادہ بے روزگاری کی شرح کا سامنا کر رہے ہیں۔ آبادی کا کم ازکم 24 فیصد حصہ غربت کی زندگی گزار رہا ہے اور 2014ء کے بعد سے اوسط قوت خرید میں 60 فیصد کمی آئی ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ریاستی ڈھانچے کے اوپر موجود لوگوں کو تبدیل کرنا ہی کافی نہیں ہو گا بلکہ پورے حکمران طبقے کو بے دخل کرنا ہو گا۔ اشرافیہ کی تمام املاک ضبط کرنا ہوں گی اور پہلے سے ریاستی ملکیت میں موجود سوناطراک جیسے اداروں سمیت انہیں محنت کش طبقے کے زیر انتظام چلانا ہو گا۔ ان سے حاصل ہونے والے منافعوں کو بدعنوان حکومت میں موجود افراد کی جیبوں میں ڈالنے کی بجائے انہیں الجزائر کے لوگوں کے معیار زندگی میں اضافے اور معاشرے کی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ آج سماج ٹوٹ کر بکھر رہا ہے مگر ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت کے ذریعے یہ اس قدر ترقی کر سکتا ہے جس کی نظیر بھی ملنا مشکل ہے۔
الجیریا کے عوام نے بے پناہ طاقت اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بغیر کسی تنظیم یا سوچے سمجھے منصوبے کے انہوں نے حکمران طبقے، ریاست اور فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب انہیں اپنے کام کی تکمیل کرتے ہوئے ان افراد کو تمام کلیدی عہدوں سے ہٹا کر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔
فوج پر عدم اعتماد!
آرٹیکل 102 نامنظور!
پورا نظام مردہ باد!
ہر جگہ عوامی کمیٹیوں کی تشکیل اور مندوبین کا قومی کنونشن!
سرمایہ دار طبقے کو بے دخل کرو!
تمام بڑی ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لو!
ایک آزاد قانون ساز اسمبلی کا قیام کرو جو محنت کش عوام کی معاشی اور سماجی مانگیں پوری کرے!