|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|
کہاوت ہے کہ کچھ جھوٹ ہوتے ہیں، ان کے اوپر اور جھوٹ ہوتے ہیں اور پھر نام نہاد اعدادوشمار ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں ہمیں ایک اور اضافہ کرنا لازمی ہے اور وہ ہے سفارتکاری ، جس نے جھوٹ کو فن کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔
سفارتکاری جنگ کا حصہ ہے اور جنگ کی متوازی سیاست ہے۔ سفارتکاری کے دو مقاصد ہیں: ایک یہ کہ جنگ کے اصل محرکات اور عزائم کی اپنی عوام سے پردہ پوشی کی جائے اور دوسرا جنگ کی تمام ہولناکی اور جرائم کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جائے۔
To read this article in English, click here
ہم اس کا سائنسی طریقہ کار سے اطلاق شام کے شہر حلب(الیپو)کے معاملے میں چیخ و پکار اور سینہ کوبی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ آئے دن مغرب میں عوام کے حواس پر دانستہ طور پر ہسپتالوں اور امدادی دستوں پر بمباری، زخمی بچوں کی دل سوز تکالیف اور ملبوں میں سے عام لوگوں کی لاشوں کو نکالنے کی تصاویر کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔
یہ قدرتی امر ہے کہ اس طرح کے مناظر کسی بھی عام انسان، جس میں انسانی جذبات ہوں، میں غم وغصے اورنفرت کے جذبات ابھاریں۔ لیکن یہ جذبات ان ماہرین کے ہاتھوں میں کھلونا ہیں جن کا کام ہی مخصوص مقاصد کیلئے عوامی رائے عامہ کو استوار کرنا ہے۔ یہ مارکس وادیوں کا بنیادی فریضہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کے گر دو غبار کو ہٹا کر اس کی سفاک خصلت اور پیچھے چھپے حقیقی مفادات کو بے نقاب کیا جائے۔
بورس جانسن کی گیدڑ بھبکیاں اور شاطر چالیں
برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس میں بورس جانسن، جو کہ کنزرویٹو پارٹی کا سرکاری مسخرہ ہے، نے کہا کہ وہ روسی سفارت خانے کے سامنے حلب میں عوامی اہداف پر بمباری کے خلاف احتجاج دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں پر یہ سوال کرنا لازمی ہے کہ اس نے کبھی سعودی سفارت خانے کے سامنے یمن میں سویلین اہداف، جن میں سکول اور ہسپتال بھی شامل ہیں، ان پر سعودی بمباری کے خلاف احتجاج کرنے کی خواہش کا اظہار کیوں نہیں کیا۔
روس کے خلاف اپنی ہرزہ سرائی میں برطانوی سیکرٹری خارجہ نے خبردار کیا کہ روسی ریاست ’’اچھوت‘‘ بن جانے کا خطرہ مول لے رہی ہے۔ اس نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ برطانوی حکومت شام کے معاملے میں ’’سب سے آگے بڑھ کر‘‘ ردعمل کا اظہار کر رہی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس نے یہ بتانا پسند نہیں کیا کہ اتنے امتیازی کھلاڑی کو لاؤزین، سوئٹزر لینڈ میں شام پر ہونے والے مذاکرات میں مدعو کیوں نہیں کیا گیا جن کا انعقاد آئندہ ہفتے میں ہونا تھا۔
اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ روسی ’’اچھوت‘‘ ریاست کو نہ صرف لاؤزین میں مدعو کیا گیا بلکہ اس نے اس سارے عمل میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ یہ چھوٹی سی تفصیل ہی بورس جانسن کی درجنوں تقریروں سے زیادہ مفصل اور معنی خیز ہے۔ اپنی حکومت کی اوٹ پٹانگ ڈینگوں کے باوجود، برطانیہ کی اب عالمی سیاست میں کوئی بھی فعال کردار ادا کرنے کی اوقات نہیں رہی اور بریگزٹ(یورپی یونین سے اخراج) کے بعد ویسے ہی امریکہ کی نظروں میں اس کی وقعت بہت حد تک ختم ہو چکی ہے۔
ایک سرکس کے مداری کی بطور برطانوی سیکرٹری خارجہ کی تعیناتی نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ جس کانفرنس کی میز پر تمام اہم فیصلے ہونے تھے اس پر برطانیہ اور یورپی یونین کو نظر انداز کرنے کے بعد کم از کم امریکیوں کو اتنی تمیز ضرور تھی کہ انہوں نے بعد میں لندن آ کر اپنے حلیفوں کو یہ بتا دیا کہ ان کی غیر موجودگی میں انہوں نے کیا فیصلے کئے ہیں۔
تہذیب جتنی اجازت دیتی تھی اس کے لحاظ سے بورس جانسن امریکی سیکرٹری خارجہ کے قریب ایسے کھڑا تھا جیسے ایک ملازم اپنے آقا کو چائے دینے کے احکامات لینے کیلئے کھڑا ہوتا ہے۔ جب تک جان کیری بولتا رہا، برطانوی وزیر خارجہ پاس کھڑا بے شرمی سے مکمل رضامندی میں سر ہلاتا رہا، اس بات سے قطع نظر کہ کیری کا ہر لفظ اس کے جسم کے حساس ترین عضو پر ایک ٹھڈے کی مانند تھا۔
شام میں فوجی مداخلت کے تمام مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کیری نے ترش لہجے میں کہا کہ’’میں نے یورپ میں جنگ پر جانے کیلئے لوگوں میں کوئی خاص گرم جوشی نہیں دیکھی۔ مجھے نہیں نظر آ رہا کہ یورپی پارلیمانیں اعلان جنگ کرنے کو تیار ہیں؛ مجھے زیادہ ممالک نظر نہیں آ رہے جن کا یہ فیصلہ ہو کہ اس معاملے میں جنگ بہترین حل ہے‘‘۔
اپنے ساتھ کھڑے آدمی کی ننگی سرزنش کرتے ہوے اس نے مزید کہا کہ’’یہ کہنا آسان ہے کہ عمل کہاں ہے، لیکن عمل بذات خود کیا ہے؟ میرے ارد گرد بہت سارے لوگ ہیں جن کیلئے اس کی تشریح کرنا بہت مشکل کام ہے‘‘۔ آخر میں اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ’’ہم سفارتکاری کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس یہی واحد اوزار ہے‘‘۔ اس دوران بورس کے چہرے پر مؤدبانہ چاپلوسی اور احمقانہ مسکراہٹ کے درمیان جدوجہد جاری رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک ایسا کتورا ہے جو اپنے مالک کی موجودگی میں مستقل دم ہلاتا رہتا ہے اور یہی برطانیہ اور امریکہ کے نام نہاد خاص تعلقات کی اصل حقیقت ہے۔
کون ذمہ دار ہے؟
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم ولادیمر پیوٹن کی حمایت کر رہے ہیں جو نہ تو روسی محنت کش طبقے یا شامی عوام کا نمائندہ ہے بلکہ وہ بدعنوان روسی سرمایہ دارطبقے کا نمائندہ ہے۔ مغرب میں اپنے ہم جنسوں کی طرح، روسی قیادت اپنے خود غرض نکتہ نظر سے عالمی سیاست میں مداخلت کرتے ہیں۔
بہرحال، ہمیں یہاں کہنا پڑے گا کہ یہ روسی نہیں تھے جنہوں نے مشرق وسطی کو خون میں نہلا دیا۔ اس وقت مشرق وسطی میں تمام تر بربادی کے ذمہ دار ایک امریکی صدر اور دوسرے برطانوی وزیر اعظم کے وحشی جارحانہ اعمال ہیں جنہوں نے لگاتار اپنی عوام سے جھوٹ بولا۔ اگر ہم خوفناک اقدامات، نسل کشی، ہسپتالوں اور سکولوں پر دانستہ بمباری، قیدیوں پر ٹارچر اور چھوٹے بچوں کے قتل کی بات کریں تو سب سے پہلے جن لوگوں کو ایک عالمی عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا چاہئے وہ جارج بش اور ٹونی بلئیر ہوں گے۔
حکومتیں اور ان کے کٹھ پتلی ذرائع ابلاغ نے تمام تر ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان جرائم کی پردہ پوشی کر رکھی ہے اور ان کی تمام تر توجہ کا مرکز کریملن میں موجود آدمی کی سنگدلی جیسا دلچسپ موضوع ہے۔ روس کے خلاف شور شرابے اور ننگے پراپیگنڈے نے چلکوٹ رپورٹ کے حقائق کو دفنا دیا ہے اور تمام تر توجہ برطانیہ اور امریکہ سے ہٹا دی ہے جو کہ اس سارے بحران کے ذمہ دار ہیں۔ جس طرح ایک مجرم ڈاکہ ڈالنے یا قتل کرنے سے پہلے دستانے پہنتا ہے، اسی طرح وہ، جو سب سے زیادہ گھناؤنی جارحیت کے مرتکب ہوتے ہیں، اپنے آپ کو انسانیت، امن اور جمہوریت کے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال حلب پر چیخ و پکار کی ہے۔ امریکی اور روسی حکمرانوں نے مشترکہ جنگ بندی پر اتفاق کیا جس کے مطابق شام کے مختلف شہروں، بشمول حلب،میں امدادی کاروائیوں کی آزادانہ پیش رفت ہونی تھی۔ لیکن اس جنگ بندی معاہدے کا شیرازہ چند ہی دنوں میں بکھر گیا۔ مغرب نے فوراً روس اور اس کے حلیف شام پر الزام تراشی کر دی۔ حقائق کیا ہیں؟
معاہدے کی پہلی شرط یہ تھی کہ امریکی، نام نہاد شامی اعتدال پسند حزب اختلاف پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ جہادی انتہا پسندوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کریں گے۔ لیکن یہ نا ممکن تھا کیونکہ اسد حکومت کے خلاف موثر انداز میں جارحیت کرنے والے تمام گروہ جیسے جبہت النصرہ(جس نے حال ہی میں اپنا نام تبدیل کر کے جبہت فتح الشام کر لیا ہے) جہادی انتہا پسند ہیں۔ اعتدال پسند حزب اختلاف خصی ہے اور جہادی گروہوں پر پوری طرح انحصار کئے بیٹھی ہے جن کے بغیر ان کی ایک دن بھی بقا ممکن نہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ فتح الشام کے القاعدہ سے روابط ہیں اور ان کے رجعتی نظریات اور طریقہ کار داعش سے قطعاً مختلف نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ کے اوائل میں فتح الشام کی بنیاد ہی داعش نے رکھی تھی تاکہ شام میں امریکی حمایت سے آنے والے جنگجوؤں اور پیسے میں اپنا حصہ رکھا جا سکے۔ فتح اور داعش کے درمیان فرق کی لکیر انتہائی معدوم ہے۔ نظریاتی اعتبار سے کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ جبہت فتح الشام کہاں ختم ہوتی ہے اور داعش کہاں شروع ہوتی ہے۔ ساتھ ہی نام نہاد ’’اعتدال پسند‘‘ حزب اختلاف اور اسلامی انتہا پسندی کے درمیان فرق ایک افسانہ ہی ہے۔
فتح الشام کی پشت پناہی ترکی اور مشرق وسطی کے ممالک کر رہے ہیں (خاص طور پر سعودی عرب اور قطر)جو انہیں ہتھیاروں اور نہ ختم ہونے والے پیسوں کی سپلائی فراہم کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی امریکہ نے جو انتہائی جدید ہتھیار اپنے ننھے منے حمایت یافتہ گروہوں کو فراہم کئے ہیں وہ بھی جہادی انتہا پسندوں کی حمایت کی پردہ پوشی کا ایک ڈرامہ ہے۔ یہ ننھے منے گروہ دیو ہیکل جہادی گروہوں کی چھتر چھایا میں کام کرتے ہیں جنہیں لمحہ بھر میں کچلنا انتہا پسندوں کیلئے مسئلہ نہیں۔ اکثر اوقات امریکی حمایت سے نکل جانے کا مطلب یہی رہا ہے کہ وہ جہادی تنظیموں میں ضم ہو گئے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جنگ بندی کو کچھ ایسے بیان کیا:
’’اس معاہدے کی پہلی شرط یہ رکھی گئی تھی کہ دہشت گردوں کو اعتدال پسند حزب اختلاف سے علیحدہ کیا جائے جن کے ساتھ امریکی اتحاد کام کرتا ہے۔ یہ شرط ابھی تک پوری نہیں کی گئی حالانکہ فروری 2016ء میں امریکیوں نے کہا تھا کہ وہ یہ کام دو ہفتے یا اس سے کم عرصے میں کر لیں گے۔ ‘‘
’’روسی۔ امریکی معاہدے میں کاسٹیلو سڑک کو کھولنے اور امدادی کاروائیوں کو مغربی حلب تک پہنچانے پر بڑی تفصیل سے کام کیا گیا جس میں حکومتی فوجوں اور حزب اختلاف کے پیچھے ہٹنے کیلئے مخصوص فاصلے بھی مختص کئے گئے۔ امریکہ نے پھر یہی کہا کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ حزب اختلاف ان کی بات نہیں سن رہی ۔ اس طرح کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ‘‘
ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی ایک وجہ سے کہ امریکہ کاسٹیلو سڑک پر فوجوں کو پیچھے ہٹانے کی ذمہ داری نہیں نبھا سکتا تھا، امریکہ نے ان معاہدوں سے نکلنے کا یا انہیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا، اگر انہوں نے مکمل طور پر ان کو دفن نہیں کر دیا۔ انہوں نے اس واقعے کو مختلف انداز میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ناکامی کے پیچھے ایک مخصوص وجہ موجود تھی: انہوں نے یہ ذمہ داری لی کہ حزب اختلاف 1500میٹر پیچھے تک پسپائی اختیار کرے گی۔ ‘‘
حکومتی فوجیں پسپائی کر رہی تھیں لیکن حزب اختلاف نے فوراً چھوڑی ہوئی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن، ان معاہدوں کی ناکامی کی مخصوص وجوہات پر بات کرنے کے بجائے امریکیوں نے عجب توجیح پیش کر دی۔ انہوں نے کہا کہ’’ روسی جارحیت ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمیں اس قسم کی تاویلوں کی عادت ہے، اسی لئے ہم پھر بھی کام کرتے رہتے ہیں‘‘۔
لاوروف کی بیزاری کی تصدیق رونما ہونے والے واقعات سے بھی ہوتی ہے۔ مغربی ٹی وی چینلوں نے نام نہاد باغی قوتوں کے ایک حملے کو دکھایا(جنگ بندی کے دوران) جس میں یہ بتایا گیا کہ وہ ایک علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو پہلے شامی فوجوں کے کنٹرول میں تھا۔ حقائق یہ ہیں کہ شامی فوج جنگ بندی کے معاہدے کے مطابق اس علاقے سے پسپائی اختیار کر رہی تھی۔ باغیوں نے کبھی اس جنگ بندی پر عمل ہی نہیں کرنا تھا۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے پر قبضہ کر لیا جسے کچھ عرصے بعد ہی شامی فوجوں نے چھڑا لیا۔ اسی قسم کے واقعات پر دیو مالائی کہانیاں اور پروپیگنڈے بنائے جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاوروف اور پیوٹن کے اپنے مفادات ہیں اور ان واقعات کی ان کی بتائی ہوئی تفصیلات پر یقین کرنا قطعی ضروری نہیں۔ لیکن بہت ساری باتیں واضح ہیں۔ پہلے تو یہ کہ سب کو پتہ ہے کہ باغی شروع سے جنگ بندی کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔ وہ شدت سے ایسی کیفیت سے بچنا چاہتے تھے جس میں امریکی اور روسی اکٹھے ہو کر انتہا پسندوں کے خلاف ایک مشترکہ کیمپین شروع کر دیتے۔
اسی لئے باغیوں نے شروع میں ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ جنگ بندی کو نہ تو مان سکتے ہیں اور نہ ہی مانیں گے۔ ’’اعتدال پسند‘‘ نہ تو انتہا پسندوں سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے اور نہ ہی ان کی اتنی جرات تھی اور امریکی اپنے ’’اعتدال پسند‘‘ حلیفوں کو تنہا چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ یہی وہ اصل وجہ ہے جس کی وجہ سے جنگ بندی ناکام ہوئی۔ سچ یہ ہے کہ جنگ بندی لاگو ہونے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر چکی تھی۔
جنگ بندی کے معاہدے کو کاری ضرب اس وقت لگی جب امریکیوں نے شامی فوج پر بمباری کر کے تقریباً 100 فوجی مار دیئے جو محاصرہ زدہ شہر’ دیار زور‘کے مضافات میں داعش کے خلاف لڑ رہے تھے۔ شامی فوجی یونٹوں پر امریکی جنگی طیاروں کی بمباری کھلی جارحیت تھی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کو توڑا جائے۔ امریکیوں کا یہ بہانہ کہ یہ’’غلطی‘‘ تھی انتہائی فضول اور نامعقول ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے پاس نگرانی کرنے کیلئے جدید ترین آلات موجود ہیں اور یہ بات سرے سے ہی غیر منطقی ہے کہ وہ شامی فوج اور باغیوں میں تمیز نہ کر سکیں۔ روسیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ اس حملے کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ہمیں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ ایسا ہی ہے۔
حلب اور موصل میں انسانی ڈھالیں
روسیوں نے پیشکش کی کہ ایک راستہ بنایا جائے جس سے نہ صرف عام لوگوں کو بلکہ جنگجوؤں کو بھی ہتھیار سمیت باہر نکلنے کا راستہ مل جائے۔ چینل 4 نیوز، جو کہ حزب اختلاف کا زبردست حامی ہے، نے بتایا کہ یہ طریقہ کار مختلف علاقوں میں پہلے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر اس پیشکش کو قبول نہیں کیا گیا تو صرف اس وجہ سے کہ باغیوں نے اسے رد کر دیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کے ایک چھوٹے سے ٹولے نے مشرقی حلب کی عوام کو یرغمال بنا یا ہوا ہے اور انہیں حکومت اور حلیف روس کے حملوں کے خلاف انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں کو وہ پروپیگنڈہ کے طور پر اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں حلب کی عوام کی خوشحالی یا بربادی سے کوئی سروکار نہیں۔
اقوام متحدہ کے شام کیلئے مخصوص نمائندے سٹافان دی مستورا نے پیشکش کی کہ وہ فتح الشام کے تقریباً 900 جنگجوؤں کا ساتھ دینے کو تیار ہے تاکہ وہ حلب سے باہر آئیں اور روسیوں کا شہر پر بمباری کرنے کا جواز ختم ہو۔ روسیوں نے فوراً اس کی حامی بھر لی لیکن باغیوں نے اس کو بھی پیشکش کو رد کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے ایسے راستے بنائے گئے تھے تاکہ عام لوگ حکومتی کنٹرول میں موجود مغربی حلب پہنچ سکیں لیکن ان سب کو باغیوں نے بند کر دیا ہے اور جن لوگوں نے پھر بھی نکلنے کی کوشش کی ان پر حملے بھی کئے گئے ہیں۔
مغربی ممالک کا دوغلا پن فوراًننگا ہو جاتا ہے اگر ہم ذرائع ابلاغ میں حلب اور موصل ، جس پر قبضہ چھڑانے کیلئے حالیہ دنوں میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا ہے، دونوں کی نشروتشہیر پر غور کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ حلب میں اپنی یقینی شکست کی خفت کو چھپانے کیلئے موصل پر یہ فوجی آپریشن کیا جا رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق، عراقی فوج، کرد قوتوں اور شیعہ ملیشیا کا اتحاد شہر پر امریکی اتحاد کی فضائی بمباری کی چھتر چھایا میں مستعدی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ موصل میں کامیابی ناگزیر ہے۔ لیکن یہ رپورٹیں کچھ زیادہ ہی خوش فہم ہیں۔ داعش کے پاس اپنے آپ کو قلعہ بند کرنے کیلئے کئی مہینے تھے اور حملہ آور جیسے جیسے شہر کے قریب آتے جائیں گے، انہیں خوفناک مزاحمت کا سامنا ہوتا جائے گا۔ موصل کی اصل جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی۔
حلب کی تقریباً 200,000 افراد کے مقابلے میں موصل کی 15لاکھ آبادی ہے۔ اسے حاصل کرنے کیلئے حملہ آور قوتوں کو بری اور فضائی دونوں طریقوں سے شدید بمباری کرنی پڑے گی۔ ’’سمارٹ بم‘‘ استعمال کرنے کے تمام تر دعوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تمام بمباری بلا تفریق ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے عوامی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ موصل میں رونما ہونے والے قتل عام کے سامنے حلب میں ہونے والی خونریزی شرما جائے گی۔ ابھی سے اقوام متحدہ تنبیہ کر رہا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے تاریخ کا بے نظیر انسانی بحران رونما ہونے والا ہے۔
اتحادی، موصل میں انسانی جانوں کے ضیاع سے بچنے کیلئے کیا تجاویز پیش کر رہے ہیں؟ حلب کے معاملے میں، روسیوں نے عام لوگوں اور باغی جنگجوؤں کیلئے محفوظ راستے کی پیشکش کی تھی۔ موصل میں اتحادی آسمان سے لیف لیٹ پھینک رہے ہیں کہ لوگ گھروں میں پناہ لیں اور باہر نہ نکلیں! ایک بچہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ ان گھروں میں چھپنے کی کوشش کرنا جن پر بمباری ہو رہی ہو، دیوانے کے خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
آنے والی تباہی کیلئے ساری دنیا میں رائے عامہ استوار کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ ابھی سے اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں: ’’اتنے گنجان آباد شہر میں عوامی ہلاکتیں ہونا تو نا گزیر ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی ذرائع موصل میں زندگیوں کے گل ہوجانے پر مگرمچھ کے آنسو روئیں گے لیکن ساتھ ہی اس پر انتہا پسندوں کا عوام کو بطور ڈھال استعمال کرنے کو ناگزیر افسوسناک نتیجہ کہہ کر’’ثانوی نقصان‘‘ کا لیبل چسپاں کر دیں گے ۔ یہ حقیقت ہے کہ حلب میں موجود انتہا پسند بالکل یہی طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں، اور اسے خاموشی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
شام پر پابندیاں
تفتیشی اشاعت دی The Intercept نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک کلیدی نمائندے کی لکھی ہوئی 40 صفحوں پر مشتمل خفیہ دستاویز شائع کی ہے جس کا نام ہے Humanitarian Impact of Syria-Related Unilateral Restrictive Measures. اس میں شام پر لگائی گئی پابندیوں کے شامی عوام پر تباہ کن اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس میں امریکہ اور یورپی یونین کے بدبودار دوغلے پن کو ننگا کیا گیا ہے اور ان الزامات کی سفاکی کو بے نقاب کیا ہے کہ شام اور روس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی امدادی کاروائیاں شام میں محاصرہ زدہ شہروں تک نہیں پہنچ رہیں۔
یورپی یونین نے شام میں تجارتی اور بینکاری سرگرمیوں پر وسیع پابندیاں لگائی ہیں اور ساتھ ہی ایسی اشیا پر بھی جن کا ’’دہرا استعمال ‘‘یعنی کوئی عسکری استعمال ہو سکتا ہے۔ امریکی پابندیاں اس سے بھی زیادہ جامع ہیں،جن میں شام کے ساتھ تمام تر برآمدات اور تجارتی معاملات پر مکمل پابندی ہے۔ ان میں بیرونی تیار کردہ اشیا بھی شامل ہیں جن کی کل قدر میں امریکہ کا زیادہ سے زیادہ10فیصد حصہ بنتا ہے۔
شام میں انسانی امداد پہنچانے کیلئے نام نہاد ذرائع موجود ہیں لیکن یہ سب سفید جھوٹ ہے۔ یہ پابندیاں صدر بشار الاسد کو نشانہ بنانے اور اقتدار سے ہٹانے کیلئے لگائی گئی تھیں، اس کے برعکس ان کی وجہ سے اشیا خورد ونوش، تیل اور صحت کی سہولیات محصور عوام تک پہنچانا تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔
افشاں ہوئی ای میل کے مطابق امریکی پابندیوں کا اصل اثر عوام پر پڑا ہے۔ پانچ سالہ خون آشام خانہ جنگی اور تباہ کن معاشی پابندیوں کی وجہ سے 80 فیصد شامی شدید غربت میں جا گرے ہیں جبکہ 2010ء میں یہ شرح 28 فیصد تھی۔ پابندیوں کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں 300فیصد اور چاول کی قیمت میں 650فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پچھلے 18 ماہ میں تیل کی قیمت دگنی ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پابندیاں ’’کلیدی وجہ‘‘ ہیں جن کی وجہ سے شام میں شعبہ صحت برباد ہو چکا ہے۔ ایک وقت میں شام دوا سازی میں خود کفیل تھا لیکن بہت ساری دوا ساز فیکٹریاں حلب میں تھیں جو اب جنگ کی وجہ سے یا تو برباد ہوچکی ہیں یا پھر ناکارہ ہو چکی ہیں۔ ای میل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت ساری دوا ساز فیکٹریاں مجبوراً بند ہیں کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے خام مال اور بیرونی کرنسی منگوائے نہیں جا سکتے۔
2013ء میں پابندیوں میں نرمی کی گئی لیکن صرف ان علاقوں میں جو حزب اختلاف کے کنٹرول میں تھے۔ دوسرے الفاظ میں ’’انسانی فلاحی‘‘ امداد بھی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ اسی اثنا میں سی آئی اے نے مسلح باغیوں کو1ارب ڈالر سالانہ کی مالیت کے ہتھیار براہ راست دینا شرو ع کر دیئے جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
11اکتوبر 2016ء کو countrpunch.org نامی ویب سائٹ پر پیٹرک کاکبرن، دی انڈیپنڈنٹ اخبار کا ایک ایوارڈ یافتہ لکھاری جو عراق، شام اور مشرق وسطی کے معاملات میں ماہر ہے، اپنے آرٹیکل’’ مغربی معاشی پابندیوں کے عام شامی شہریوں پر اثرات‘‘ میں لکھتا ہے:
’’امریکہ اور یورپی یونین شام کی معاشی ناکہ بندی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محاصروں میں(جس کو امریکی اور یورپی یونین کی قیادت جنگی جرائم قرار دیتی ہے) بھوک اور بیماریوں سے مرنے والے شامیوں سے کہیں ذیادہ ہے۔ ملک کے آدھے سے زیادہ سرکاری ہسپتال یا توبرباد ہو چکے ہیں یا شدید نقصان زدہ ہیں۔ دمشق میں شامی ڈاکٹروں نے ’دی انڈیپنڈنٹ‘ سے شکایت کی کہ دوائیوں اور جنگ سے پہلے خریدی گئی میڈیکل مشینری کے سپئیر پارٹس کا حصول انتہائی مشکل ہو چکا ہے‘‘۔
معیار زندگی تباہ ہو چکا ہے۔ دارالحکومت میں بھی بجلی تین گھنٹے آنے کے بعد تین گھنٹے جاتی ہیں کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے بجلی کے انفراسٹرکچر کیلئے ضروری سپئیر پارٹس اور مینٹینینس دستیاب نہیں۔ بجلی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ شامیوں کی اکثریت اب بجلی کے بغیر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ آرٹیکل کا اختتام کاکبرن یہاں کرتا ہے کہ:’’شامی اندھیرے میں بیٹھنے پر مجبور ہیں جبکہ امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیاں جنگ کے ساتھ مل کر ان کے ملک کو برباد کر رہی ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کا کردار
شامی فوج، روسی اور ایرانی حمایت کے ساتھ مستعدی سے آگے بڑھ رہی ہے اور حلب کا فتح ہونا اٹل ہے۔ اس کے بعد پوری جنگ کا پانسہ اسد اورحلیف روس کے حق میں پلٹ جائے گا۔ امریکی اس پیش قدمی کو روکنے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ صرف یہی وہ وجہ ہے جس کے لئے پروپیگنڈے کی بھرمار کی جا رہی ہے۔
اس پیش قدمی کو روکنے کی عسکری سکت نہ ہونے کی وجہ سے واشنگٹن نے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں استوار کرنے کی کوشش کی اور اقوام متحدہ کا پتا کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ نے نہ تو آج تک کبھی کوئی جنگ روکی ہے ، نہ وہ کبھی ایسا کرے گا اور نہ ہی اس نے آج تک عالمی سیاست میں کوئی ترقی پسند کردار ادا کیا ہے۔ یہ صرف ایک ایسا فورم ہے جہاں عالمی طاقتیں غیر اہم سوالات کے اوپر لاحاصل بحثیں تو کر سکتی ہیں لیکن کبھی کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ آخری تجزیے میں، بڑی طاقتیں وہی کرتی ہیں جو وہ چاہتی ہیں۔ چھوٹی قوتوں یا قومیتوں کی در حقیقت کوئی اوقات نہیں۔
جان کیری نے اپنے غصے اور بے چینی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ حلب میں لوگوں پر بمباری ’’جنگی جرم‘‘ ہو سکتے ہیں۔ کیری کی وفادارانہ پیروی کرتے ہوئے کم و بیش کچھ اسی قسم کے الفاظ بورس جانسن اور میتھیو رائکروفٹ(اقوم متحدہ میں برطانوی سفیر) نے برطانوی پارلیمنٹ اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے ادا کئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے سارے پہلے سے تیار شدہ تحریر سے پڑھ رہے ہیں اور در حقیقت ایساہی تھا۔
اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل نے دو متضاد قرار دادوں پر ووٹ کیا، ایک فرانس کی تیار کردہ جس میں بمباری بند کرنے کی تجویز تھی جبکہ ایک روس کی تیار کردہ جس میں جنگ بندی کی تجویز تو تھی لیکن اس میں افسوس کی بات یہ ہے کہ بمباری روکنے کی کوئی تجویز نہیں تھی۔ روس نے ظاہر ہے فرانس کی تیار کردہ قرار داد کو مسترد کر دیا۔ بمباری جاری رہی۔
کونسل نے روس کی تیار کردہ قرار داد پر ووٹنگ کی لیکن اتنے ووٹ ہی نہیں اکٹھے ہوئے کہ اس کو منظور کیا جاتا۔ روسی سفیر نے اسے ’’تماشا‘‘ قرار دیا جو ایک حقیقی تجزیہ ہے۔ اس نے کہاکہ ’’کسی کی بھی جیت نہیں ہوئی‘‘ اور ’’ہمیں دوبارہ سے سفارتکاری کی طرف جانے کی ضرورت ہے‘‘۔ لیکن سفارتکاری صرف لفاظی ہے جبکہ جنگ میں الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں جو فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ سفارتکار لفظوں کے ساتھ دھینگا مشتی میں لگے ہوئے ہیں جبکہ شامی۔ روسی۔ ایرانی اتحاد زمین پر جنگ جیتنے کی طرف جا رہا ہے۔ حتمی تجزیے میں حقائق یہی ہیں۔
ان کے جنگی جرائم، ہماری ’’غلطیاں‘‘
مغربی ذرائع ابلاغ میں زیادہ تر نشرو تشہیر حلب کے مشرقی حصے میں موجود عوامی تباہ کاریوں پر مرکوز ہے جس کا کنٹرول باغیوں کے پاس ہے۔ مغربی حلب میں موجود لوگوں کی حالت پر یا تو بات نہیں کی جاتی یا نہ ہونے کے برابر کی جاتی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جس پر دن رات بلاامتیاز فضائی بمباری ہو رہی ہے اور ساتھ ہی مشرقی علاقوں سے جہادیوں کے مارٹر شیلوں کی بارش۔
رہائشی علاقوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر اسلامی جنگجوؤں کی باقاعدگی سے مارٹر شیلنگ اور راکٹ بمباری جاری ہے۔ حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں بہت سارے بچے یا تو قتل ہو رہے ہیں یا ان کے اعضا برباد ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایلیمنٹری سکول، جو اگلے مورچوں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، مشرقی علاقوں سے باغیوں کے راکٹوں کی بوچھاڑ سے تباہ ہو گیا تھا۔
’’ہمارے سکول پر مستقل انتہا پسندوں کی بمباری ہو رہی ہے‘‘، ایک مقامی رہائشی نے Russia Today اخبار کو بتایا۔ ’’کل کی بات ہے، ایک گولہ سکول کے گراؤنڈ میں گرا۔ شکر ہے ہمارے بچے پہلے ہی کلاسوں میں موجود تھے اور کوئی زخمی نہیں ہوا‘‘۔
حسن ایک 10سالہ بچہ، جو کہ گونگا اور بہرا ہے ،بمباری میں اپنی ٹانگ گنوا چکا ہے لیکن وہ خوش قسمت ہے کہ زندہ بچ گیا ہے۔ ’’پرسوں وہ الہمدانیہ میں دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ ایک گولہ ان کے قریب آ کر پھٹا‘‘، حسن کے ایک رشتہ دار نے بتایا۔ ’’ایک بچہ اس دھماکے میں ہلاک ہو گیا جبکہ میرے بھانجے کا پیر ضائع ہو گیا‘‘۔
حلب میں موجودایک ہسپتال جسے عالمی انسانی فلاحی تنظیم (Medecins Sans Frontieres-MSF) چلا رہی تھی، جب اس پر روسی اور شامی ہوا بازوں کی بمباری سے 50لوگ قتل ہوئے تو اسے فوراً ہولناک جنگی جرم قرار دے دیا گیا۔ لیکن جب 3اکتوبر 2015ء میں امریکی فضائیہ کے ایک جہاز AC-130Uبمبار نے MSF کے قندوز، افغانستان میں موجود ٹراما سینٹر پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 42 لوگ ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، تو ایسے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
پینٹاگون نے اعلان کیا کہ یہ جنگی جرم نہیں ہے کیونکہ یہ ’’غیر دانستہ انسانی غلطی اور مشینری کے فیل‘‘ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ امریکی فوج نے بیان دیا کہ ہوا باز اس بات سے ’’بے خبر‘‘ تھے کہ وہ ایک ہسپتال پر بمباری کر رہے ہیں۔ لیکن امریکی فوج کے پاس انتہائی حساس اور جدید ٹیکنالوجی ہے اور وہ انتہائی چھوٹے اہداف میں بڑی درستگی سے تمیز کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پینٹاگون نے خود اعتراف کیا ہے کہ MSF نے تمام ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے امریکہ کو پہلے سے ہسپتال کی جگہ سے متعلق معلومات فراہم کی ہوئی تھیں۔
MSF نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ وہ صرف ایک فوجی تحقیق سے مطمئن نہیں ہوں گے۔ لیکن عالمی فلاحی معلوماتی کمیشن کے ذریعے واقعہ کی آزادانہ اور شفاف جانچ پڑتال کی درخواست پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہواہے۔
یمن میں سعودی عرب کی بے رحم سفاکی
یمن میں سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ نے ایک ایسی تباہ کاری پھیلائی ہے جس سے پورا ملک بربادی کی لپیٹ میں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 2015ء میں شروع ہوئی اس جنگ میں اب تک اندازاً 10,000 لوگ مارے جا چکے ہیں۔
سی این این پر ایک انٹرویو میں یونیسیف کے یمنی نمائندے میرٹزل ریلانو کے مطابق: ’’یمن میں جاری جنگ کی تباہ کاریاں اعصاب شکن ہیں۔ اندازاً 2.12کروڑ لوگوں کو، جو کہ آبادی کا 80فیصد بنتے ہیں،فلاحی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ ان میں سے تقریباً آدھے بچے ہیں‘‘۔ لیکن پچھلے 18ماہ سے مغربی رائے عامہ کی سمجھ بوجھ اس معاملے میں انتہائی کمزور رہی ہے، اگر اسے سمجھ بوجھ کہا جائے، کیونکہ سعودی عرب ہمارا حلیف ہے۔
سعودی باقاعدگی سے سکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ Yemen Postاخبار کے مطابق178سکولوں پر اب تک حملے ہو چکے ہیں۔ تمام اہم اور بنیادی انفراسٹرکچر برباد یا شدید بدحال کیا جا چکا ہے۔ ہدف صاف ظاہر ہے: انسانی تہذیب کی تما م نشانیوں کو مٹا دیا جائے اور یمن کی بمباری کر کر کے یمنیوں کو پتھر دھات زمانے میں پھینک دیا جائے۔
یمن عرب دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ یہاں پر خطے میں سب سے کم تازہ پانی موجود ہے اور اسی وجہ سے یمن کا تمام انحصار اشیا خورد و نوش کی درآمدات پر ہے۔ یمن اپنی 90فیصد غذا درآمد کرتا ہے۔ سعودیوں نے دانستہ طور پر اشیا خورد و نوش کے ڈپوؤں اور بندر گاہوں کو ہدف بنایا ہے۔ ان کے جنگی جہازوں نے تمام بڑی کرینوں کے کیبن برباد کر دیئے ہیں جن سے بحری جہازوں سے کنٹینر اٹھا کر بندر گاہوں پر ذخیرہ کئے جاتے تھے جس کی وجہ سے کرینیں اب ناکارہ ہو چکی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوا جب ہوائی جہازوں نے دانستہ طور پر ان اہداف کو نشانہ بنایا۔ کسی غلطی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ساتھ ہی اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا جاتا ہے کہ امریکی اور برطانوی افسر سعودی فضائیہ کی معاونت کر رہے ہیں تاکہ’’اہداف کی نشانہ بازی میں ان کی مدد کی جائے‘‘۔
UNICEF کی رپورٹ ہے کہ ملک میں 15لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 3,70,000 بچوں کی انتہائی تشویش ناک حالت ہے۔ بچے، جن کی حالت زندہ لاشوں سے زیادہ نہیں روزانہ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی فاقہ کشی کو یمن کی تباہی کیلئے بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ اگر یہ جنگی جرم نہیں ہے تو پھر یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جنگی جرم کیا ہے۔
طویل عرصے کے بعد ذرائع ابلاغ نے اب اس مجرمانہ جنگ کو تھوڑا بہت وقت دینا شروع کیا ہے، یہاں تک کہ ڈر ڈر کر امریکہ اور برطانیہ پر کچھ ہلکی پھلکی تنقید بھی ہوئی ہے جو سعودی عرب کو ہتھیار بیچ کر اس جنگ کو چلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن فی الحال گراں قدر جنگی ہتھیاروں کی فروخت جاری ہے۔
جس حقیقت کو پرکھا نہیں جاتا وہ یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ براہ راست جنگ میں شامل ہیں۔ امریکی فوجیں کمک آپریشنوں میں مکمل مدد کرر ہے ہیں اور امریکی بحری جہاز یمن کے اطراف سمندر میں مسلسل گشت کرتے ہوئے درآمدی و برآمدی بندش کی نگرانی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بچے فاقوں سے مر رہے ہیں۔ امریکی جہاز مسلسل سعودی جہازوں کو ہوائی ایندھن فراہم کر رہے ہیں تاکہ بمباری کمپین کا جہازوں کی لینڈنگ اور ایندھن بھرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔
امریکی اور برطانوی افواج آپریشن سینٹروں میں اہداف کے چناؤ اور بمباری میں معاونت کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی قابل تحسین ہے۔ سعودی ہوا بازوں کا نشانہ اب اتنا اچھا ہو گیا ہے کہ بے شمار سکولوں، ہسپتالوں اور اشیا خورد ونوش کے ڈیپووں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک جنازے پر بھی کامیاب بمباری کی جس کی وجہ سے یمنی دارالحکومت صنعا میں کئی سو لوگ مارے گئے۔
شروع میں انکار کرنے کے بعد سعودی حکام مان گئے کہ واقعی انہوں نے ایک جنازے پر بمباری کی ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک جنگی جرم نہیں تھا (صرف روس ہی اس معاملے میں مجرم ہے)بلکہ ایک ’’قابل افسوس سانحہ‘‘ تھا۔ امریکی اور برطانوی حکومتوں نے بھی اظہار تاسف کیا۔ ۔ اور ابھی بھی بموں، راکٹوں اور گولیوں کی فروخت سعودیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے سعودی عفریت اپنے من کی تسکین تک یمنیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
امریکی بحری جنگی جہاز ناکہ بندی میں مدد جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سعودی فاقہ زدہ لوگوں تک اشیا خورد نوش کی ترسیل روکے ہوئے ہیں۔ دیگر اشیا خورد ونوش اور گندم سے بھرے بحری جہاز طویل عرصے کیلئے روک لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے جب یہ سامان آخر کار بندرگاہوں میں پہنچتا ہے تو زیادہ تر گل سڑ کر خراب ہو چکا ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتے حوثی باغیوں نے امریکی جنگی بحری جہازوں پر راکٹ داغے۔ جنگی جہازوں نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے باغیوں پر راکٹ داغے۔ امریکہ اب یمنی عوام کے خلاف براہ راست جنگ میں داخل ہو چکا ہے۔
’’ہمیں کچھ کرنا چاہیئے!‘‘
بورس جانسن جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں شام کے معاملے میں ’’کچھ کرنا چاہیئے‘‘۔ سوال ہے، جس کا کیری صاحب نے تفصیلی اظہار کیا:’’کیا کرنا ہے؟‘‘۔ ایک تجویز بار بار پیش کی جاتی ہے کہ ’’ہوا بازی کیلئے ممنوعہ علاقے‘‘ نافذ کئے جائیں تاکہ عوام کو بمباری (روسی) کی ہولناکی سے بچایا جا سکے۔ اس تجویز کو ’’عوامی فلاح‘‘ کیلئے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ درحقیقت اس طرح کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔
’’محفوظ علاقے‘‘ جن کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان سے صرف روسی اور شامی بمباری سے باغیوں کو پناہ ملے گی اور باغیوں کو یہ موقعہ ملے گا کہ وہ ان علاقوں میں دوبارہ سے منظم ہوں۔ اسد اور پیوٹن کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دونوں بیوقوف ہیں۔ وہ کسی ایسے اقدام کی حمایت کیوں کریں جس سے ان کے ہاتھ بندھ جائیں اور ان کے دشمنوں کو دوبارہ منظم ہونے اور مسلح ہونے کا موقعہ مل جائے؟
پھر اس بظاہر معقول تجویز میں سنجیدہ مسائل ہیں۔ کس کے پاس اتنے جنگی ہوائی جہاز اور فوجی ذرائع ہیں، کس کے پاس اتنی کمک اور کمانڈ اور کنٹرول سینٹر ہیں جن کے ذریعے ان تجویز کردہ علاقوں کی حفاظت کی جا سکے، یعنی ان کی حفاظت غیر معینہ مدت کیلئے کی جا سکے؟ زمین پر ایک بہت بڑی فوج اتارے بغیر یہ ناممکن ہے۔ ایسی فوج کون اتارے گا؟ امریکہ، یورپ کو کہتا ہے: ہم آپ کے پیچھے ہیں جناب!۔ اس کا جواب یورپ دیتا ہے:نہیں، میرے عزیز محترم۔ ہم آپ کے پیچھے ہیں!
فوجی حوالے سے امریکہ کی فی الحال پالیسی اتنی ہے کہ سپیشل فورسز کے ذریعے عراقی فوج، عرب اور کرد قوتیں جو داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں، ان کی تربیت اور معاونت کی جائے ۔ تقریباً 300 امریکی سپیشل فورسز شام میں موجود ہیں جو کرد جنگجوؤں کو تربیت اور صلاح مشورے دے رہے ہیں۔ عراق میں تقریباً 5000 امریکی سپیشل فورسز مختلف کرد اور عراقی ملیشیا کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن میں سے بہت سارے کھلم کھلا امریکہ کے خلاف ہیں۔ ان حالات سے ہمیں امریکی سامراجیت کی کمزوری کا اندازہ ہوتا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر اوبامہ کردوں کو مسلح کرنے پر غور کر رہا ہے۔ لیکن حکومت بڑے لمبے عرصے سے اس معاملے پر تذبذب کا شکار ہے۔ کرد، داعش کے خلاف سب سے زیادہ سنجیدہ اور موثر طاقت ہیں لیکن ترکی ان کو انتہائی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کیونکہ ترکی امریکہ کا کلیدی حلیف ہے ، واشنگٹن ایک حد سے زیادہ انقرہ کو خائف نہیں کر سکتا۔ زیادہ سے زیادہ کردوں کو چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود مل جائے گا لیکن ٹینک شکن یا ہوائی جہاز شکن ہتھیار نہیں ملیں گے جن کی وجہ سے وہ ایک طاقتورلڑاکا قوت بن سکتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح کردوں کے حقوق اور ترکی میں جمہوریت کی جدوجہد کی حیثیت امریکی سامراجی مفادات کے سامنے ثانوی ہے۔
بائیں بازو کے کچھ خوش فہم افراد نے شام میں سامراجی پروپگینڈے کو انتہائی بیوقوفی سے سچ مان لیا ہے۔ وہ ہوا بازی کیلئے ممنوعہ علاقوں کے مطالبے کی، نتائج پر غوروفکر کئے بغیر حمایت کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ ہی خام خیالی اور رجعتیت پر مبنی ہے۔ یہ خام خیالی ہے کیونکہ سامراجی نہ تو اس کو نافذ کرنے کے اہل ہیں اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رجعتی ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شامی عوام کا تحفظ انہی سامراجیوں سے اپیل کر کے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ہم نے یہ تماشہ پہلے بھی دیکھا ہے۔ انہی لوگوں کا مطالبہ تھا کہ لیبیا میں ’’کچھ نہ کچھ تو ضرور ہونا چاہیئے‘‘۔ کچھ نہ کچھ ہو گیا۔ سامراجیوں نے مداخلت کرتے ہوئے قدافی کو ختم کر دیا۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ لیبیا کی عوام آج پہلے سے کہیں زیادہ رجعتی حکومت کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہے۔
ٹونی بلئیر نے پوری بحث بنائی کہ عراق میں صدام حسین کی آمریت کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے ’’کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا ہو گا‘‘۔ کچھ نہ کچھ ہو گیا۔ سامراجیوں نے فوج کشی کی اور عراق پر قبضہ کر لیا۔ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایسی تباہی و بربادی کی داستان شروع ہوئی جس نے نہ صرف عراق بلکہ آج پورے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مارکس وادیوں کا سب سے پہلا فریضہ اپنے حکمران طبقے، اپنے سامراج کے خلاف لڑنا ہے۔
برطانیہ میں ہمارا سب سے پہلا فرض کنزرویٹیو حکومت اور حلیف امریکی سامراج کے خلاف ایک غیر متزلزل اور ناقابل مصالحت جدوجہد ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دوغلے پروپیگنڈہ کے پیچھے کارفرما سفاک عزائم کو بے نقاب کریں، بیرون ملک فوجی مہم جوئیوں کی شدید مخالفت کریں اور یہ بتائیں کہ سامراجی کبھی بھی کسی بھی حال میں مشرق وسطی یا دنیا کے کسی اور خطے میں ترقی پسند کردار ادا نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ کچھ اور کرنا حکمران طبقے اور سامراج کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے، محنت کش طبقے کو گمراہ کرنا ہے اور رجعتیت کی اتھاہ گھرائیوں میں گر کر برباد ہو جانا ہے۔