|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ صبغت وائیں|
فلسفے کا ذکر کریں تو آج سائنسدانوں اور بہت سے دیگر لوگوں کا عمومی رویہ انتہائی بے حسی والا بلکہ سچ کہیں تو تحقیر آمیز ہے۔ ویسے جدید فلسفے کے حوالے سے تو یہ سلوک درست ہی لگتا ہے۔ پچھلی ڈیڑھ صدی سے فلسفے کی قلمرو کو ایک ایسے بنجر اور بے آب و گیاہ بیابان کی مانند دیکھا جا سکتا ہے جس میں شاید ہی کہیں کوئی زندگی کی رمق ملے۔ ماضی کے درخشندہ و تابندہ خزانے اپنے تمام تر جاہ وحشم کے ساتھ گویا کہیں دفن کر دیئے گئے ہیں۔ آج کوئی اس ظلمت کے پاتال میں کسی تابناکی کی تلاش میں بھٹکے بھی توکچھ حاصل نہیں۔
لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو فلسفے کے ساتھ یہ سلوک بے شک ناروا ہے۔ کیوں کہ اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ جدید سائنس کے حال کو دیکھیں۔۔۔ یا صحیح معنوں میں یوں کہیں کہ اس کی نظریاتی بنیادوں اور مفروضوں کو دیکھیں تو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں سائنس نے خود کو فلسفے سے کبھی آزاد کروایا ہی نہیں تھا۔ صدر دروازے سے راندہ درگاہ ہونے پر فلسفے نے خاموشی سے پچھلی کھڑکی کے راستے دوبارہ گھْس بیٹھ کرلی ہے۔
To read this article in English, click here
وہ سائنسدان جو کہ فخریہ انداز میں فلسفے سے اپنی مکمل لاتعلقی کے دعوے کرتے ہیں ان کے تمام تر تشکیل کردہ مفروضے درحقیقت اپنی نوعیت میں فلسفیانہ ہی ہیں۔ اور سچ بات تو یہ ہے کہ تنقید کی صلاحیت سے عاری یہ والا غیرشعوری اختیار کردہ فلسفہ پرانے والی روایتی قسم سے بالادست تو کیا ہوگا، یہ اس سے بے اندازہ گھٹیا تر ہے۔ مزید برآں عملی میدان میں یہ بہت سی ٹھوکریں کھانے کا موجب ثابت ہو رہا ہے۔
بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے فلسفے کی وہ قسم جو کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے اس کی بنیاد ہی جھوٹے اور گمراہ کْن نظریات ہیں جیسے کہ منطقی ثبوتیت، جو کہ تقریباً ساری کی ساری بیسویں صدی میں اپنے کسی ایک یا دوسرے سوانگ میں آج کا ایک غالب فلسفیانہ رجحان ہے۔ خاص طور پر اینگلو سیکسن ملکوں میں۔
اس مکتبہ فکر کی بے مائیگی اور قناعت پسندی نے اس کے گھمنڈی بغل بچوں کو بیجا نخوت اور لاف زنی کرنے سے روکا نہیں جو کہ ’’سائنس کے فلسفی‘‘ ہونے کے سنگھاسن پر خود سے جا براجمان ہو گئے۔ بہرحال، سائنس سے ان کے اس ثبوتیت پسندانہ معاشقے کا ان لوگوں سے کوئی ٹانکا نہیں جو کہ اس میدان میں حقیقی طور پر سرگرم ہیں۔
ثبوتیت پسندوں کے اپنے گھڑے ہوئے تواہماتی ’’سائنس کے ڈھانچے‘‘ کے وسواس کا خناس، معنی اور علم المعنی کے متعلق بے کار قسم کی دھما چوکڑی حیران کْن انداز میں قرونِ وسطیٰ کے تاریک دور اور اس کے مدرسانہ خطیبوں کی دقیق اور پیچدار بحثوں سے میل کھاتی ہے۔ ثبوتیت پسندوں کے جغادری پروہتوں کی ناقابلِ بردشت لن ترانیاں بالآخر انہیں وہاں لے گئیں جہاں سائنسدانوں نے بھی انہیں متنفر ہو کر دھتکار دیا۔
تاریخِ سائنس پر جدلیاتی طریقِ کار کے اطلاق کی زبردست پیش رفت 1962ء میں ٹی ایس کوہن کی شاندار کتاب ’’دی سٹرکچر آف سائنٹیفک ریوولیوشنز‘‘ کی اشاعت سے ہوئی۔ اس نے سائنسی انقلابات کی ناگزیریت کی وضاحت کی اور ان کی وقوع پذیری کی ترکیب و ترتیب کی وضاحت کی۔ ’’ہر موجود کے لئے فنا لازم ہے‘‘ صرف موجوداتِ زندگی ہی کے لئے درست نہیں بلکہ سائنسی نظریات بھی اس کی زد میں ہیں، بشمول ان کے جن کو ہم آج بطور مطلق سچائی اپنائے ہوئے ہیں۔
فلسفے کے ماخذ
تاریخ فلسفہ پڑھنے کی تکلیف جو بھی کرے اسے عمیق ترین خیالات کے دفینے ہاتھ لگیں گے۔ فلسفہ سوچنے کے ایک ایسے طریق کار کا نام ہے جو کہ ہماری روزمرہ کی سوچ سے مختلف ہے۔ یہ بڑے سوالات سے متعلق ہے جو کہ کسی ایک یا دوسرے وقتوں میں اٹھائے گئے جیسے کہ: زندگی کیا ہے؟ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے؟ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ یہ سارے وہ سوال ہیں جن میں بہت سوں کا خود سائنس نے جواب دیا ہے۔ ان سوالوں نے پچھلے دو ہزار سال سے عظیم مفکروں کو جکڑے رکھا ہے۔
اس طرح سائنس اور فلسفے کے تعلق کی کڑیاں ماضی میں بہت دور جا ملتی ہیں۔ ہماری جدید تہذیب اورثقافت کی طرح فلسفہ اور سائنس بھی یونان ہی میں پروان چڑھے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ ان میدانوں میں اہم دریافتوں کا سہرا ابتدائی تہذیبوں(وادئ سندھ، بابل اور مصر) کے سر ہی بندھتا ہے۔ انسانی فکر اس مرحلے پر مذہبی توہم پرستی سے بارآور ہوتی تھی۔
یونانیوں میں ہمیں پہلی بار مافوق الفطرت سے رجوع اور خداؤں کی مداخلت کے بغیر کائنات کو بیان کرنے کی کوشش کے سراغ ملتے ہیں۔۔۔۔ ایک ایسی کوشش جو کہ فطرت کو اس کے اپنے ہی پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ لفظ ’’فلسفہ‘‘ شاید پہلی بار چھٹی صدی قبلِ مسیح میں فیثاغورث نے استعمال کیا: ’’زندگی، وہ کہتا ہے کہ، ایک تہوار کی طرح ہے؛ بالکل اسی کی طرح اس میں کچھ لوگ آتے ہیں، کچھ نبرد آزما ہوتے ہیں، کچھ اپنے کاروبار کرتے ہیں، لیکن باقی تماشائیوں کی طرح آتے ہیں۔ لہٰذا غلامانہ فطرت کے لوگ دولت اور شہرت کے حصول کی تگ و دو میں چل نکلتے ہیں اور فلسفی سچائی کی۔‘‘ (ڈائیوجینس لائرٹیئس)
جزائر آئیونیا کے ابتدائی فلاسفہ نے جب سے فطرت کو خداؤں کی مداخلت کے بغیر دیکھا اوراس کی ایک تعقلی تشریح کی تب سے سائنس اور فلسفہ آپس میں گنجلک طریقے سے منسلک ہیں۔ یہ ابتدائی یونانی فلسفی مادیت پسند تھے۔ انہوں نے قدرتی مظاہر کی وجوہات کا مطالعہ کیا۔ جیسے کہ بجلی کے چمکنے کا، بادل کے گرجنے کا، زلزلوں کا، دمدار ستاروں کا اوردیگر ستاروں کا۔ ان تمام مظاہر کی تشریح انہوں نے تعقلی طور پر خداؤں یا دیگر مافوق الفطرت قوتوں کے کسی بھی عمل دخل سے آزاد رہتے ہوئے کی۔
اپنی کتاب ٹْسکلان کے مناظرے میں سیسیرو لکھتا ہے کہ قدیم یونانی فلاسفہ ’’ہندسے اور حرکت کا، اور ان مواخذ کا جہاں سے تمام چیزیں نمو پاتی ہیں اور جدھر کو واپس لوٹتی ہیں؛ اور یہ قدیم مفکر ستاروں اور تمام آسمانی اجسام کے چلن، فاصلے اور حجم کی انتہائی جوش اور جذبے سے تحقیق کرتے رہے‘‘۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قبل سقراطی فلاسفہ نے فطرت کا مطالعہ کیا۔ یہ وہ باہمت اور جرأت مند راہنما تھے جنہوں نے بعد میں ہونے والی تمام سائنسی پیش رفتوں کے لئے راستہ تیار کیا۔
انہوں نے حیرت ناک حد تک اہم دریافتیں کر لیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ زمین گول ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ چاند کی روشنی سورج سے انعکاس کردہ ہے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ انسان کا ارتقامچھلیوں سے ہوا ہے اور اس کا ثبوت انہوں نے انسانی جنین اور رکاز سے دیا۔ البتہ ان میں سے بہت سی دریافتیں قیاس آرائیوں پر مشتمل تھیں۔ لہٰذا لازمی طور پر ایک ایسا مرحلہ آیا جہاں انہیں اپنی اس وقت کی ٹیکنالوجی کی حدوں کے آگے بے بس ہو جانا پڑا۔
ایک مخصوص مرحلے پر مفکرین کی توجہ فطری مظاہر سے سماج کی طرف مڑی، جس میں اخلاقیات اور انسانی زندگی سے جڑے ہوئے تمام سوالات شامل ہیں۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں ارسطو نے لکھا: ’’فطرت کا مطالعہ ترک کر دیا گیا اور فلاسفہ نے اپنے غور وفکر کو عملی اچھائی اور پولیٹیکل سائنس پر مرکوز کر لیا۔’’ٹْسکلانی مناظرے میں سیسیرو کہتا ہے کہ ’’سقراط وہ پہلا شخص تھا جس نے فلسفے کو آسمان سے نیچے اتارا، اسے شہر کے گلی کوچوں میں اور یہاں تک کہ اسے گھروں میں لے گیا اور اس کو مجبور کیا کہ وہ زندگی اور اس کی اچھائی اور برائی کو مرکزِ توجہ بنائے۔
فلسفے کے سوفسطائی مکتبہ فکر کا اس وقت میں ابھرنا ایتھنیائی جمہوریت کے ارتقاسے مضبوطی سے جڑا ہے، جہاں عوامی ایوانوں میں کامیابی کے لئے بحث مباحثے اور خطیبانہ صلاحیتوں کا ہونا لازمی شرائط تھیں۔ سقراط اور افلاطون نے جدلیات کو استوار کیا اور سوفسسطائیت کو للکارا، اگرچہ انہوں نے فلسفیانہ عینیت پرستی کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا کیا۔ ’’جدلیات‘‘ کی اصطلاح یونانی لفظ ’’ڈائلیکٹک‘‘ سے، جو کہ ’’ڈایالیگومے‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب بات چیت کرنا یا بحث کرنا ہے۔ اصل میں یہ بحث کرنے کے فن کو ظاہر کرتا ہے جس کو اپنی اعلیٰ ترین شکل میں افلاطون کے سقراطی مکالمات میں دیکھا جا سکتا ہے۔
یونانی فلسفہ خود یونانی جمہوریت ہی کے ساتھ ایک زوال پذیری کے عہد میں داخل ہو گیا۔ تہذیب کی مشعل اب رومنوں کو تھما دی گئی جنہوں نے ان خیالات میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں کیا جو کہ ان کو یونانیوں سے ملے تھے۔ یونان اور روم غلامی کے معاشی نظام پر قائم تھے۔ ان سماجوں کی تمام عظیم الشان تمدنی اور سائنسی ترقی بالآخر غلاموں کی محنت کی بنیاد پر ممکن ہوئی۔
یہی چیز پچھلے دس ہزار سال کی ہر دوسری تہذیب کے بارے میں بھی سچ ہے۔ غلامی اپنی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی، اور آج بھی اجرتی غلامی کی شکل میں موجود ہے۔ آرٹ، کلچر اور سائنس کی بنیاد ہمیشہ سے ہی عوام کے استحصال پر قائم رہی ہے۔
غلامانہ سماج آخر کار انجام تک پہنچ گیا، بالکل اسی طرح جیسے کہ آج سرمایہ داری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور جب ایک سماج اپنے زوال میں داخل ہوتا ہے، اس کی نشانیاں ہر سطح پر دیکھی جا سکتی ہیں، یہاں تک کہ خود تہذیب و تمدن میں بھی۔ ایک انقلابی متبادل کی عدم دستیابی نے غلامانہ سماج کی توڑ پھوڑ کو تہذیب کی ایک ایسی ہولناک بربادی کی صورت میں پیش کیا جس کے اثرات اگلے ایک ہزار برس تک رہے۔
اس عرصے میں جسے ہم تاریک دور کے نام سے جانتے ہیں قدما کے سائنسی اور آرٹسٹک کارنامے یورپ میں بری طرح سے برباد کر دیئے گئے۔ علم کی مشعل بازنطین، آئرلینڈ اور ان سب سے بڑھ کر سپین کے ان حصوں نے تھامی جو کہ عربوں کے زیرِتسلط تھے۔ باقی تمام یورپ صدیوں تک جہالت اور بربریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا رہا۔
اس عہدِ قدیم کی آخری معلوم فلسفی ایک انتہائی غیرمعمولی عورت تھی جس کا نام ھائی پیشیا تھا، جو کہ سکندریہ کی یونیورسٹی میں سائنس اور ریاضی کی استاد تھی۔ جسے مسیحی دیندار بلوائیوں نے انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا اور اس کی لاش کو جلا دیا۔ مسیحیوں نے دیوی دیوتاؤں کو ماننے والوں کی عبادت گاہوں اور اکادمیوں کو تالے لگا دیئے اور ان کی لائبریریوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ 391 عیسوی میں شہنشاہ تھیوڈوسیئس کے ایک فرمان کے ذریعے ان مندروں کو دیکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی، حتیٰ کے ان کے کھنڈرات کو دیکھنا بھی جرم قرار دے دیا گیا۔ مسیحیوں نے سکندریہ کی عظیم لائبریری اور اس کے ہر بے دین نقش کو جلا دیا۔
تاہم، یورپ کے اس تمام تاریک دور میں تہذیب کی مشعل اسلامی سپین میں پوری آب و تاب سے روشن رہی جہاں قدماکے تہذیب و تمدن کو پورے وقار اور تکریم کے ساتھ محفوظ کیا گیا۔ صدیوں تک یورپ میں ارسطو کے کام صرف عربی سے کئے گئے ترجموں ہی کی صورت میں دستیاب رہے۔ آج بھی ہم قرطبہ کی مسجد اور غرناطہ کے الحمرا کے سامنے حیرت سے گنگ کھڑے ہیں جو کہ فنِ تعمیر کے عجوبے ہیں۔ اپنے یکتا حسن اور دلکشی میں یہ ایسے بے مثل ہیں کہ ان جیسی شئے دنیا کے کسی اور ملک میں کہیں اور نہیں ملتی۔
یہ اسلامی تہذیب اور تمدن کا نکتہ عروج تھا۔ جبکہ یورپ جہالت اور ظلمت میں ادھ مؤا ہوا پڑا تھا۔ عرب لوگ سپین میں شاندار یونیورسٹیاں بنا رہے تھے جہاں علم و حکمت ایک رواداری کی ایسی فضا میں پنپ رہے تھے جہاں یہودی، مسیحی اور مسلمان اِک دوجے سے کھْلے دِل تبادلہ خیال اور بحث مباحثہ کرنے میں آزاد تھے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کا شعور اگر تنگ نظری، توہم پرستی اور کٹر پن کے طوق و سلاسل سے آزاد ہو تو کیا کیا کر سکتا ہے۔
تجربیت
زمانہ قدیم میں جہاں سے ہماری آج کی سائنس کی تمام دھارائیں پھوٹتی ہیں ہمارے پاس ارسطو کی فطرت پر جانفشانی سے کی گئی تحقیقات موجود ہیں۔ یورپ میں تہذیب کا دوسرا جنم نشاۃِ ثانیہ کے ساتھ سرمایہ داری کے ابتدائی ابھار کے ساتھ ہوا جس کے ساتھ سائنس میں نئی دلچسپی پیدا ہوئی۔
بعد ازاں فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ نے جدید سائنسی منہاج کے بانی ہونے کا بلند و بانگ دعویٰ کر دیا، جبکہ انگلستان میں فرانسس بیکن نے تجرباتی سائنس اور استقرائی طریقے کی بنیاد ڈال دی جس نے مشاھدے، تجربے اور حقائق کے اکٹھا کرنے پر ایک انت کا دباؤ ڈال دیا۔
جرمن فلسفی لیبنیز اگر چاہے تو انٹگرل اور ڈفرینشل کیلکولس کو دریافت کرنے کا دعویٰ کر سکتا ہے(اگرچہ نیوٹن نے اسے بعینہ اسی زمانے میں دریافت کیا ہو گا) اسی لئے ہمیں اس بات پر قطعاً کوئی حیرت کا گمان بھی نہیں ہوتا کہ جب نیوٹن نے 1687 ء میں اپنا عظیم کام شائع کیا تو اس کا نام ’’فطرتی فلسفے کے ریاضیاتی اصول‘‘ رکھا۔ یہ مفروضہ کہ نظامِ شمسی ایک چرخ کھاتی گیسوں کے سدیم (نیبولا) سے جنما ہے سب سے پہلے فلسفی کانٹ نے دیا۔ اور جب ڈالٹن نے جدید جوہری تصور کو کیمیامیں متعارف کروانے کے لئے اپنی کتاب کو شائع کروایا تو اس کا نام ’’کیمیائی فلسفے کا ایک نیا نظام‘‘ تھا۔ (1808ء)
سولہویں اور سترھویں صدی نے کلیسا کی دم گھونٹ دینے والی تعقلی آمریت سے حتمی طور پر چھٹکارا پا لیا، اور جدید سائنسی طریقِ کار کی بنیاد رکھ دی جیسا کہ اینگلس کہتا ہے:
’’حقیقی فطرتی سائنس جو کہ پندرھویں صدی کے دوسرے نصف سے شروع ہوتی ہے اور تب سے لے کر اس نے دن بدن اپنی ترقی کی رفتار کو تیز تر ہی کیا ہے۔ فطرت کا اسی کے انفرادی اجزامیں تجزیہ، گونا گوں فطرتی عوامل کی تقسیم، اشیاکی واضح طور پر جماعت بندی کرنا، نامیاتی اجسام کی تہہ در تہہ صورتوں کی اندرونی اناٹومی کا مطالعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پچھلے چار سو سال سے فطرت کے بارے معلومات پر لگائی ہوئی ہماری عظیم جستوں کے لئے بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن اس نے فطرتی اشیاکو اور عوامل کو کاٹ کر، ان کو عمومی دھارے سے علیحدہ کر کے مشاہدہ کرنا، انہیں ان کی حرکت میں نہ دیکھنا، بلکہ اس کی بجائے انہیں سکون کی حالت میں دیکھنا، ان کو اپنی حقیقت میں متغیر عناصر کی بجائے مستقل اور ٹھہرے ہوئے عناصر کے بطور لینا ان کی زندگی کی بجائے انہیں مردہ تصور کرتے ہوئے۔ اور جب دیکھنے کے اس طریقہ کار سے گزر کر چیزیں بیکن اور لاک تک فطرتی سائنس سے فلسفے میں منتقل ہوئیں تو اس سے جنم لینے والے تنگ نظر مابعدالطبیعاتی طرزِ فکر نے جنم لیا، خاص طور پر ان آخری صدیوں میں۔‘‘ (اینگلس، قاطع دوھرنگ صفحہ نمبر 25)
اپنے وقت میں تجربیت (امپیریسزم) نے انسانی فکر اور سائنس کے ارتقامیں انتہائی ترقی پسند(یہاں تک کہ انقلابی) کردار ادا کیا تھا۔ تاہم تجربیت محض مخصوص حدود کے اندر اندر ہی کارآمد تھی۔ بہت سے لوگ صرف ’’حقائق‘‘ ہی کے حوالوں سے اطمینان پاتے ہیں۔ تو یقیناً، ’’حقائق‘‘ تو اپنا انتخاب کرنے سے رہے! ہمیں ایک بالکل واضح طریقہ کار درکار ہے جو کہ ہماری مدد کرے کہ ہم ان فوری عوامل کو دیکھ سکیں جو کہ ان ’’حقائق‘‘ کے پیچھے کارفرما ہیں۔
عظیم بزرگ فلسفی سپائنوزا جو کہ جدید فلسفیانہ مادیت پسندی کے آباؤ اجداد میں سے ایک ہے، نے ایک بار کہا تھا کہ فلسفے کا معینہ کام ’’ہنسنا یا رونا نہیں بلکہ سمجھنا ہے۔‘‘ اینگلو سیکسن دنیا نے خود کو عمومی طور پر فلسفے کے لئے نہایت ہی شدت سے نا اہل ثابت کیا ہے۔ یہاں تک کہ جس فلسفے تک انہوں نے رسائی پائی وہاں بھی امریکی اور ان کے انگریز کزنوں نے اپنی سوچ کی وسعت کو تجربیت اور اس کے ہم جنس نتائجیت (پریگمیٹزم) کی تنگ حدود کے دائرے سے باہر نہ جانے دیا۔ بہت زیادہ نظریاتی کردار کی وسیع عمومیت کاری کو ہمیشہ ہی سے وہم جیسی کسی شئے کے بطور لیاگیا ہے۔
لیکن عظیم جرمن فلسفی ہیگل کے الفاظ میں، یہ آرزو تعقلی بصیرت کے حصول کی ہے نہ کہ حقائق کے ڈھیر اکٹھے کرلینے کی جو کہ اس انسان کے دِل و دماغ کو اپنی جکڑ میں لے لیں جو سائنسی نقطہ نظر اپنانے کی خواہش لے کر چلا تھا۔
جدلیات کی اہمیت
اس طرح سائنس میں فلسفے کا عمل دخل قابلِ غور بات ہے۔ تاہم، لگتا کچھ یوں ہی ہے کہ گذشتہ صدی میں ہونے والی سائنس میں عظیم الشان پیش رفتوں نے فلسفے کو گویا فارغ ہی کر دیا ہو۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں ہم کائنات کے سب سے گہرے بھیدوں اور ’’سب اٹامک‘‘ ذرات کی گنجلک حرکات کی کھوج میں جا سکتے ہیں، وہ پرانے سوال جو کہ فلاسفہ کی توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیا کرتے تھے اب حل ہو چکے ہیں۔ فلسفے کا کردار نسبتاً گھٹ گیا ہے۔ بہرحال ایسے دو شعبے ضرور باقی بچے ہیں جہاں فلسفے کی اہمیت ہنوز جاری و ساری ہے: رسمی منطق اور جدلیات۔
جدلیاتی طریقِ کار کو اس کی انتہا تک ارتقادینے کا سہرا ہیگل کے سر ہے۔ تاہم، یہ ایک بعیدالفہم اور خیالی سی شکل میں ملتا ہے۔ اس کی اس مشکل سے خلاصی مارکس اور اینگلس کے انقلابی کام نے کروائی جنہوں نے ہیگل کی فکر میں موجود تعقلی مغز کی پہلی بار رونمائی کی۔ جدلیاتی طریقہ کار اپنی سائنسی(مادی) شکل میں ہمیں ایک ایسا ہتھیار فراہم کرتا ہے جو کارہائے قدرت کو، سماج کو اور انسان کی سوچ کو جاننے کے لئے لاینفک ہے۔
مارکسی جدلیات ہمیں لازمیت کے حامل ایسے تجزیاتی کیل کانٹے سے لیس کرتی ہے جو کہ فطرت اور سماج کے بارے میں معلومات کے ان انباروں کو قابلِ فہم بنا سکنے کے لئے ناگزیر ہیں جو کہ اب ہماری دسترس میں ہیں۔
مارکسی فلسفہ۔۔۔ وہ واحد ثابت قدم انقلابی فلسفہ ہے جو۔۔۔ طبقاتی جدوجہد کے لئے انتہائی طور پر عملی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن یہ حیرت انگیز گہرے خیالات خاص طور پر سائنس کے شعبے میں وسیع و عریض اطلاقی خصوصیات کے حامل ہیں۔
یہاں، تاہم، ہمیں ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔ جدلیات کی سب سے منظم تفصیل ہیگل کی تحریروں میں موجود ہے، خاص طور پر اس کی ضخیم کتاب ’’منطق کی سائنس‘‘ میں۔ لیکن پڑھنے والا جلد ہی اس بدرجہ اتم قسم کے ناقابلِ رسائی طرزِ تحریر سے ہمت ہار دیتا ہے ، جس سے ہیگل اپنے خیالات کو پیش کرتا ہے۔۔۔۔ اینگلس نے اس کو ’’تجریدی اور عسیرالفہم‘‘ کہا ہے۔
مارکس ہیگل کی فکر کا تعقلی مغز عام پڑھنے والے تک پہنچانے کے لئے جدلیاتی مادیت پر کچھ لکھنا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ ایسا کرنے سے پہلے ہی چل بسا۔ مارکس کی موت کے بعد اس کے ہمیشہ ساتھ نبھانے والے کامریڈ فریڈرک اینگلس نے جدلیاتی فلسفے پر کئی ایک شاندار کتابیں لکھیں(لڈوِگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ، اینٹی دوھرنگ، فطرت کی جدلیات)۔
ان میں سے آخری کام مارکسی فلسفے پر ایک طویل کام کی بنیاد کے طور پر تھا، لیکن بدقسمتی سے اینگلس کو اسے وہیں روک دینا پڑا تاکہ وہ ’’سرمایہ‘‘ کے دوسری اور تیسری جلد کی تکمیل کر سکے جسے مارکس اپنی موت پر ادھورا چھوڑ گیا تھا۔
مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی اور پلیخانوف کے کاموں میں اس موضوع پر بہت سا مواد ڈھونڈنے والے کو مل سکتا ہے۔ لیکن اس ساری معلومات کو نکالنے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ مارکسسٹ فلسفے کی کم و بیش سا ری تفصیل کو اکٹھا کرنے کا کام ابھی تک ادھورا پڑا ہے۔ میری بہترین معلومات کے مطابق میری اور ٹیڈگرانٹ کی بیس سال قبل لکھی گئی ’’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس‘‘، ’’فطرت کی جدلیات‘‘ کے بعد جدید سائنس کے نتائج پر جدلیاتی مادیت کے اطلاق پر پہلی کوشش تھی۔
اینگلس اپنی کتاب قاطع دوھرنگ میں یہ بات اپنے حتمی تجزیے کے مطابق بتاتا ہے کہ کہ فطرت جدلیاتی انداز میں کام کرتی ہے۔ ایک سو سال سے زیادہ ہو چکا ہے لیکن فطرتی سائنس کی تمام تر پیش رفتیں اس دعوے سے ابھی تک اپنی جان ذرا سی بھی نہیں چھڑوا سکیں۔ امریکی سائنس دان جدید سائنس کے چند اہم ترین شعبوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ میرے ذہن میں اس وقت خاص طور پر جنیٹکس کے شعبے میں آر۔ سی۔ لیونتین کا کام اور ان سب سے بڑھ کر سٹیفن جے گولڈ کی تحریریں ہیں۔
رکازیات (پیلیونٹولوجی، جس میں رکازوں یا فوسِلز کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مترجم) میں گولڈ کی دریافتیں ارتقاکے ایک نئے اور بالکل جدلیاتی نظریے کی بنیاد ہیں جسے وہ ’’پنکچوایٹڈ ایکوئی لبریا‘‘ سے موسوم کرتا ہے۔ اس نے ارتقاکے اْس پرانے نظریے کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس میں ارتقاایک دھیرے دھیرے ہونے والا ایسا بتدریج عمل سمجھا جاتا تھا جس میں اچانک جستوں اور ناگہانی انقلابات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ گولڈ بذاتِ خود بھی مارکسزم کے خیالات سے بہت متاثر تھا اور اس نے فریڈرک اینگلس کے کئے ہوئے اس چھوٹے سے شاہکار کی تحسین کی ہے جسے ہم ’’بن مانس سے انسان میں تبدیلی میں محنت کے کردار‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، جس میں انسان کی ابتداکی تحقیق کے بارے میں جدید ترین دریافتوں کی عالی شان پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔
بدنظمی کا نظریہ
بدنظمی کا نظریہ اور اس کی مختلف شکلیں واضح طور پر جدلیاتی اندازِ فکر ہی کی شکل ہیں۔ خاص طور پر، مقدار کی معیار میں تبدیلی کا تصور اس میں مرکزی نقطہ ہے۔ جدلیات کے بنیادی قوانین میں سے ایک مقدار کی معیار میں تبدیلی کا قانون ہی ہے۔ اسے ہم ایک آسانی سے سمجھ میں آنے والی مثال سے دیکھے لیتے ہیں۔
جب پانی کو گرم یا ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو اس کی مجموعی حالت میں ایک سے دوسری کی جانب ایک جست لگتی ہے: صفر درجے پر جا کر یہ ٹھوس (برف) کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور سو درجے کی حرارت پر یہ گیس (بھاپ) کی حالت اختیار کر لیتا ہے۔ اگر ہم اس کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ کرتے رہیں تو 550 درجے پر جا کر یہ پلازمہ بن جائے گا، جو کہ مادے کی ایک بالکل نئی حالت ہے، جہاں ایٹموں اور مالیکیولوں میں علیحدگی (ڈس ایسوسی ایشن) عمل میں آتی ہے۔ ان میں سے ہر حالت فیز ٹرانزیشن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ فیز ٹرانزیشن کا مطالعہ جدید فزکس کی ایک انتہائی اہم شاخ کی تشکیل کرتا ہے۔ اسی طرح کی تبدیلیاں سماج کی تاریخ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں ’’فیز ٹرانزیشن‘‘ کا متبادل انقلاب ہے۔
تاریخ ارتقا (سست، بتدریج ترقی) اور انقلاب(ایک معیاری جست، جہاں ارتقاکے عوامل غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتے ہیں) دونوں سے ہی شناسا ہے۔ ارتقاانقلاب کے لئے رستہ ہموار کرتا ہے، جو کہ اپنی باری آنے پر پہلے سے اونچے درجے پر جا کر ارتقاکے دور کے لئے رستہ بناتا ہے۔ ہیگل اس جدلیاتی عمل کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ ’’خیال کی مظہریات‘‘ کے دیباچے میں بیان کرتا ہے:
’’پھول کے کھلتے ہی کلی غائب ہو جاتی ہے، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعد میں آنے والے نے پہلے کو رد کر دیا، بالکل اسی طرز سے جب پھل آ جاتا ہے تو پودے کی ہستی کی شکل میں پھول کے ہونے کی تردید ہو جاتی ہے، کیوں کہ پھول کی جگہ اس کی حقیقی شکل میں پھل آن وارد ہو جاتا ہے۔ یہ مرحلے صرف ایک دوسرے سے الگ الگ ہی نہیں ہیں بلکہ یہ اک دوجے سے تضاد میں ہونے کی وجہ سے ایک کو نابود کر کے اس کی جگہ لیتے ہیں۔ لیکن اک دوجے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے والی فطرت کی جبلی سرگرمی بالکل اسی وقت اسے ایک زندہ کْلیت کے حرکی مرحلے بھی بنا رہی ہے۔ جہاں یہ اک دوجے سے محض تضاد نہ رکھنے کی حالت میں ہی نہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک ویسے ہی لازمی ہے جیسے کہ کوئی بھی دوسرا؛ اور تمام حرکی مرحلوں کی یہ مساوی لازمیت تشکیل پاتی ہے جس کی وجہ سے اس کْلیت کی زندگی ممکن ہے۔‘‘
ہم اکثر ارتقاکے ان مراحل کی نمایاں تکرار دیکھتے ہیں جو کہ عرصہ دراز قبل ہی شکست فاش سے دوچار ہو کر معدوم ہو چکے ہیں۔ یہی بات ہمیں جنین کے مطالعے میں نظر آتی ہے، جو کہ واضح طور پر ارتقاکے مراحل کو جھیلتا ہے۔ انسانی جنین بطور ایک اکیلے خلیے کے اپنا آغاز کرتا ہے جو کہ تقسیم ہوتے ہوئے پیچیدہ تر شکلیں اختیار کرتا ہے۔ ایک مرحلے پر اس کے مچھلی کی مانند گلپھڑے ہیں اور بعد ازاں اس کے پیچھے بندر جیسی دْم ہے۔ انسانی جنین کی دیگر جانوروں کے ساتھ یہ یکسانیت، جن میں مچھلیاں اور خزندے (ہوا میں سانس لینے والے رینگنے والے جاندار، ریپٹائلز) شامل ہیں انتہائی واضح ہے، اور قدیم یونانی پہلے سے اس کے بارے میں جان چکے تھے۔ اور یہ ڈارون سے کوئی دوہزار سال سے بھی پہلے کی بات ہے انہوں نے اس بات کو دریافت کر لیا تھا کہ انسان نے مچھلی سے ارتقاکیا ہے۔
ابتدائی حیات کی قدیم ترین شکلوں سے آغاز پانے والا ارتقاکا یہ عمل رکے بغیر چلتا رہا، جیسا کہ آج ہم زمین کی تاریخ کے حساب سے بہت ہی جلد یہ بات جان چکے ہیں۔ پہلے قدیمی جاندار غالباً ماقبل تاریخ کے مہا ساگروں کی سیج پرنمودار ہوئے ہوں گے۔ جو کہ اپنی توانائی سورج کی بجائے جوالا مْکھی کے دھانوں سے لیتے رہے ہوں گے، جو کہ زمین کی پرت کے نیچے سے حرارت پیدا کرتے ہیں۔ ابتدائی ترین پروٹوزوا ارتقاپا کر کورڈاٹا میں تبدیل ہوا، قدیم ترین خشکی پر رہنے والے جل تھلئیے، خزندوں میں، یہ بعد ازاں ممالیہ میں اور انسانوں میں ارتقا پائے۔
انسانوں اور چمپینزی کے درمیان جینیاتی فرق دو فیصد سے بھی کم ہے اور ہمارے جینز کا ایک بہت ہی بڑا حصہ ہوبہو وہی ہے جو کہ پھَل مکھی بلکہ اس سے بھی ابتدائی حیات میں ہے۔ تخلیق پرستوں کے آخری مایوسانہ جوابی حملے کو(جو کہ انہوں نے خود کو ’’انٹیلی جینٹ ڈیزائن‘‘ کی آڑ میں چھپا کر کیا) انسانی جینوم پراجیکٹ کے شاندار نتائج نے شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ بہرحال، وہ دو فیصد فرق جو ہمیں بن مانسوں وغیرہ سے ممتاز کرتا ہے ایک معیاری جست ہے جو کہ بنی نوعِ انسان کو یکسر مختلف اور اعلیٰ درجے پر فائز کرتی ہے۔
کیا انسانی سماج کو جانا جا سکتا ہے؟
جدلیاتی طریق کار فطرت تک ہی محدود نہیں ہے۔ انتہائی سطحی قسم کی نظر ڈالنے سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ انسانی سماج کئی ایک معین مرحلوں سے گزرا ہے اور یہ یقینی عوامل باقاعدہ وقفوں سے دوہرائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم فطرت میں مقدار کا معیار میں تبدیل ہونا دیکھتے ہیں، اسی طرح تاریخ میں ہمیں طویل سست وقفوں کے دوران غیر محسوس طور پر ایسے دور دکھائی دیتے ہیں جن میں اس عمل کو مہمیز ملتی ہے اور یہ ایک معیاری جست لگا دیتا ہے۔
فطرت میں سست رفتار تبدیلی کے طویل عرصوں کی مدت دسیوں لاکھ سال پر محیط ہو سکتی ہے۔ ان میں بڑے حادثے خلل انداز ہو سکتے ہیں، جنہوں نے ان جانوروں کی انواع کو صفحۂ ہستی سے معدوم کردیا جو کہ اس سے پہلے حکمران تھے ، اور ان جانورں کو سرفراز کیا جو کہ اس سے پہلے کسی نمایاں حیثیت کے مالک تو نہیں تھے لیکن وہ نئے حالات کو بہتر طریقے سے قبول کرتے ہوئے ان سے مستفید ہوئے۔ انسانی سماج میں جنگیں اور انقلابات اسی طرح کا اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم ایک تاریخی دور کو دوسرے سے ممیز کرنے کے لئے انہیں بحیثیت سنگِ میل کے استعمال کرتے ہیں۔
یہ مارکس اور اینگلس ہی تھے جنہوں نے یہ دریافت کیا کہ تاریخ کے دھارے کو حرکت دینے والی اصل محرک پیداواری قوتیں ہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں جیسا کہ مارکسزم کے دشمن اکثروبیشتر کہتے نظر آتے ہیں، کہ مارکس ہر چیز کو معاشیات تک محدود کرتا ہے۔ سماج کے ارتقاکے ذمہ دار اور بھی بہت سے عوامل ہیں: مذہب، اخلاقیات، فلسفہ، سیاست، حب الوطنی، قبائلی اتحاد وغیرہ۔ یہ تمام مل کر سماجی باہمی تعلقات کے ایک پیچیدہ جالے میں داخل ہو جاتے ہیں جو مل کر ایک عالی شان اور چکرا کے رکھ دینے والا مظاہر اور تراکیب کا ایک گھن چکر تخلیق کرتے ہیں۔
پہلی نظر میں اس سب کا کوئی معنی اخذ کرنا ناممکن ہی لگتا ہے۔ لیکن بالکل یہی بات فطرت کے متعلق بھی تو کہی جا سکتی تھی، لیکن کائنات کی پیچیدگی سائنسدانوں کو مختلف عناصر کو الگ الگ کرنے، ان کا تجزیہ کرنے اور ان کی جماعت بندی کرنے کی کوششیں روکنے سے قاصر رہی۔ آخر مردوں اور عورتوں کو کون سا حق حاصل ہے کہ وہ خود کو فطرت سے بالا تصور کریں، اور یہ کہ اس ساری کائنات میں بس تنہا وہ ہی ایسے ہیں کہ جن کو سائنس کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا؟ یہ تصور ہے ہی احمقانہ اور یہ انسانوں کی اسی ہیجان خیز خواہش کا ہی اظہار ہے کہ وہ کوئی خاص قسم کی مخلوق ہیں جن کا اس باقی ماندہ کائنات سے خدا کی طرف سے متعین کردہ کوئی خاص تعلق ہے۔ لیکن سائنس نے اس طرح کے نرگسی التباسات کو سفاکانہ انداز میں ادھیڑ پھینکا ہے۔
مارکس اور اینگلس نے پہلی بار کمیونزم کو ایک سائنسی خاصہ عطا کیا۔ انہوں نے یہ سمجھایا کہ عوام کی حقیقی آزادی پیداواری قوتوں(صنعت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی) کے ارتقاکی سطح پر انحصار کرتی ہے جو کہ دیہاڑی کے وقت کو کم کرنے کے لئے ضروری حالات پیدا کرے گا اور بطور واحد ایسے رستے کے جو کہ لوگوں کی سوچ کے انداز کو اور ان کے ایک دوسرے سے برتاؤ کو تبدیل کرنے والا ہے، ہر کسی کو ثقافت تک رسائی دے گا۔
مارکس نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ کوئی بھی سماجی نظام اس سے قبل معدوم نہیں ہوا جب تک کہ وہ اپنے اندر موجود تمام کی تمام توانائیاں پیداواری قوتوں کے ارتقاپر لگا کر تھک ہار نہ جائے۔ ہر بعد میں آنے والی سماجی معیشتی تشکیل پیداواری قوتوں کے پہلے سے کہیں بڑھ کر ارتقاکے دروازے وا کرتی ہے اور اس طرح انسان کا فطرت پر اختیار بڑھا دیتی ہے۔ اس طرز سے اینگلس کی وضاحت کردہ انسانیت کی جبریت کی اقلیم سے آزادی کی قلمرو میں جست کی مادی بنیادیں قائم کی گئی ہیں۔
تاریخی مادیت
سماجی ارتقاکے لئے پیداواری قوتوں کا ارتقاایک لازمی عنصر ہے۔ لیکن پیداواری قوتوں کی بنیاد پر ملکیتی تعلقات اور ان کے ساتھ جڑا ہوا قانونی، مذہبی اور نظریاتی تعلقات کا ایک انتہائی پیچیدہ بالائی ڈھانچہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ آخرالذکر بنتروں کی تشکیل کرتا ہے جس کے ذریعے بنتریں خود اپنا اظہار کرتی ہیں۔ بنتر اور مافیہا تضاد میں آ سکتے ہیں، لیکن آخری تجزیے میں مافیہا ہمیشہ بنتر کی تعیین کرتا ہے۔
مافیہا لازمی طور پر حل کر دیئے جانے والے تضادات کی تخلیق کرتے ہوئے بنتروں کی نسبت زیادہ تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ متروک ہو جانے والا بالائی ڈھانچہ پیداواری قوتوں کے ارتقامیں حائل ہوتا ہے۔ لہٰذا موجودہ زمانے میں، پیداواری قوتوں کے ارتقاکا واضح تضاد نجی ملکیت اور قومی ریاست سے کھْل کر اس طرح سے سامنے آیا ہے کہ گذشتہ تاریخ میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا گیا۔ پرانی بنتریں پیداواری قوتوں کے ارتقاکا گلا دبانے کے لئے سرگرم ہیں۔ تضاد کے حل کے لئے ان کے پرخچے اڑاتے ہوئے مکمل طور پر قلع قمع کرنا ناگزیر ٹھہرا ہے۔ دقیانوسی بنتروں کی بیخ کنی کرتے ہوئے ان کا صفایا کرنا ہے اور ان کی جگہ پیداواری قوتوں کی ضرورت کے ساتھ میل کھاتی نئی بنتریں لانی ہیں۔
وسیع نظر سے دیکھیں تو انسانی سماج کو چار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے(اگر ہم ایشیائی پیداواری طبعوں سے جو کہ تاریخی طور پر ایک بند گلی تھی) قطع نظر کر کے دیکھیں تو۔ ان میں سب سے پہلا قدیمی اشتراکی نظام تھا جو کہ قریب قریب دس لاکھ سال سے اوپر تک چلا، مغرب میں اس نظام پر غلام داری نے غلبہ پایا جو کہ تقریباً 10ہزار سال تک جاری رہی۔ سلطنتِ روما کا زوال، جو کہ غلام داری کی سب سے ترقی یافتہ شکل کی نمائندہ تھی، پہلے تو تہذیب کی بربادی کا باعث بنا اور اس کے بعد جاگیردارانہ نظام کے تحت ایک ہزار برس تک نہایت ہی سست روی سے آگے بڑھا۔ آخرکار، سرمایہ دارانہ نظام جو کہ دو سو سے تین سو سال تک دوام پذیر رہا۔
ان سماجی معاشی نظاموں میں سے ہر ایک کی حرکت کے اپنے اپنے اصول تھے جو کہ اسے دوسروں سے بنیادی طور پر ممتاز کرتے تھے۔ اس لئے سیاسی معیشت کے ’’عمومیت میں‘‘ اصول دریافت کرنے کی تگ و دو کرنا فضول کام ہے۔ ضروری کام یہ ہے کہ ہم ایسے مخصوص قوانین کھوجیں جو کہ ہر نظام کی بنیاد میں تھے، اور یہی وہ کام تھا جو کہ مارکس نے کیا۔ پیداوار کی افراتفری جدید صنعت، ٹیکنالوجی اور سائنس کی مانگ پوری کرنے سے قاصر ہے۔ سرمایہ داری کے تضادات جو کہ قحط، غربت، جنگوں اور دہشت گردی کی وجہ ہیں کا حل صرف سوشلزم سے سماج کی تبدیلی ہی میں ہے۔
اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ کس طرح سے انسانی ارتقانے مستقلاً اپنا سفر جاری رکھا۔ جاگیر داری غلام داری سے بہت کم عرصہ خود کو برقرار رکھ پائی جب کہ سرمایہ داری صرف دو تین سو سال سے وارد ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ سرمایہ داری کے تحت پیداواری قوتوں کی ترقی کی رفتار دوسرے کسی بھی سماج کی نسبت تیز تر ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں ہونے والی ایجادات تاریخ کی مجموعی ایجادات سے زیادہ ہیں۔ لیکن صنعت، سائنس اور تکنیک کا یہ مریضانہ ارتقانجی ملکیت اور قومی ریاست کے محدود دائروں سے تضاد میں آ گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنے زوال پذیر بڑھاپے میں پیداواری قوتوں کو بڑھاوا دینے کے مزید قابل نہیں رہا جیسا کہ یہ کبھی ماضی میں تھا۔ آج کے بحران کی یہ بنیادی وجہ ہے، جو کہ انسان کے وجود ہی کے لئے ایک چتاونی ثابت ہونا شروع ہو گئی ہے۔
سوشلزم یا بربریت
’’پورا سماج ہو، ایک قوم ہو یا پھر سارے کے سارے سماج اکٹھے ہو کر آ جائیں یہ اس کرہ ارض کے مالک ہرگز نہیں ہیں۔ یہ محض اس پر قابض ہیں، اس پر حقِ استفادہ کے دعوے دار، اور دیکھ بھال کے نگرانوں جیسے، ان کو لازمی طور پر اپنے سے بعد میں آنے والی نسلوں کو اسے پہلے سے بہتر حالت میں حوالے کرنا ہو گا۔‘‘ (مارکس)
مارکس نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ کھیتی باڑی نے جب ترقی کی تو یہ عمل خود بخود ہی تھا اس میں شعوری طور پر اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی کہ صحرا کے صحرا پیچھے چھوڑ دیئے جائیں گے۔ آج اکیسویں صدی کی سرمایہ داری اپنے کرتوتوں سے اس سیارے کو صحرا بنانے جا رہی ہے۔ قدرتی عوامل میں ہڑبونگ مچا دینے والی مداخلت، جنگلوں کی بے لگام کٹائی، بے روک ٹوک شکار اور مچھلیوں کی پکڑ، ماحول کی آلودگی، کھانے کی خوراک کو، پینے کے پانی کو اور سانس لینے کی ہوا کو زہر آلود کرنے نے فطرت کے توازن کو بڑے پیمانے پر برباد کر کے رکھ دیا ہے جس نے اس سیارے کے مستقبل پر اور ہو سکتا ہے کہ اس کرہ زمین پر زندگی کے امکان پر ہی ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
جب تک دنیا پر حکومت کرنے والے معاشی نظام منافعے کے زیرِ اثر چلیں گے اس سیارے کا بلاد کار کسی بھی طور رکنے کا نہیں۔ دنیا کی معیشت پر حکمرانی کا تقاضہ ایک منصوبہ بند معیشت ہے، یعنی ساری دنیا کا سوشلزم۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحول کی بربادی وغیرہ کے مسائل کسی اور طور سے سلجھ جائیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر قدرتی ماحول کا تحفظ کیا جا سکتا ہے اور سمندروں اور فضا کی آلودگی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے جس سے بڑے پیمانے کی ماحولیاتی ہلاکت خیزی سے بچا جا سکتا ہے۔ فطرت کا سوچ سمجھ کر استعمال، توانائی کے صاف ستھرے ذرائع کی دریافت اور ان کی تنصیب قابلِ قبول ترقی کے امکانات کے ضامن ہیں جن کے متعلق ماہرین ماحولیات بتاتے تو ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنے سے معذور ہیں۔ آج کی موجودہ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ساری دنیا کی آبادی کو کھلا پانا بالکل ممکن ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے قبضے میں وہ ذرائع نہیں ہیں جو کہ اس مسئلے کا حل کریں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ پیداواری قوتیں منافع خوری کی غرض کے آگے سرنگوں ہیں۔
ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت سائنس اور ٹیکنالوجی کو منافع خوری کے نظام کی زنجیروں سے آزاد کرے گی۔ یہ انسانیت کی معاشی ترقی کو، قدرتی دنیا کے خزانوں کی حفاظت کرتے ہوئے، جو کہ سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت سے خطرے سے دوچار ہیں، بہت زیادہ تیز کرے گی۔ مارکس کے لفظوں میں:
’’سوشلزم میں لوگ فطرت کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک ضابطے کے تحت لائیں گے، اس کو اپنے مشترکہ کنٹرول میں لے کر آئیں گے نہ کہ فطرت اور اس کی اندھی قوتوں کے تابع رہیں گے۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کم سے کم توانائی خرچ کریں گے اور یہ سب ان حالات کے تحت کریں گے جو کہ ان سے معاون و مددگار ہوں گے اور ان کی انسانی فطرت کے شایانِ شان بھی۔‘‘
کسی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو اس بات کی سمجھ آ جاتی ہے کہ سرمایہ داری اس دنیا کے لکھوکھا انسانوں کے لئے ایک وحشت ناک حد تک ظالمانہ اور غیر انسانی نظام ہے جس کے ذرائع بے پناہ بربادی، بیماری، ظلم اور موت ہے۔ یقیناً ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے نظام کے خلاف لڑائی کی حمایت کرے۔ تاہم، بہتر انداز میں لڑنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک سنجیدہ پروگرام، پالیسی اور تناظر پر چلا جائے جو کہ کامیابی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ صرف مارکسزم(سائنسی سوشلزم) ہی ایسا تناظر دے سکتا ہے۔
مارکس وادی مردوں اور عورتوں کو ان کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے اور ایک سچے انسانی سماج کی تشکیل کے لئے جو کہ نسلِ انسانی کو اوپر اٹھاتے ہوئے اس کے اصل مقام پر لے جائے، لڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ انسانوں کی صرف ایک ہی زندگی ہے، اور یہ ان کو اس زندگی ہی کو حسین اور تکمیلِ ذات کرنے والی بنانے پر لگا دینی چاہیئے۔ ہم اسی زمین پر ایک جنت بنانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں، کیوں کہ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کہیں اور بھی ہے۔
کارل مارکس نے کافی عرصہ پہلے یہ نشاندہی کر دی تھی کہ نسلِ انسانی کو سوشلزم یا بربریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اس پیشین گوئی کی سچائی پاکستانی لوگوں پر بالکل واضح ہے۔ رسماً آزاد ہو جانے سے کئی دہائیوں کے بعد بھی ایک خوبصورت اور وسائل سے مالامال ملک ایسی تباہی و بربادی، ظلم و جبر اور اذیت رسانیوں کی شکار ریاست بن چکا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ بربریت کے عناصر یہاں بالکل موجود ہیں اور یہ پاکستان کے وجود تک کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔
صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی پاکستان کو بربریت کے اندھے کنویں میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔ عوام پر جبر کرنے والے اور ان کو لوٹنے والے بینکاروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حاکمیت کو اکھاڑ پھینکنے ہی سے ہم لوگ حتمی آزادی پائیں گے۔ ہمارا مقصد لوگوں کو متحد کرنا اور سرمائے کی آمریت کو انجام تک پہنچانا ہے جس نے محنت کشوں اور کسانوں کو غلامی کی حالت میں رکھا ہوا ہے۔
ایک سوشلسٹ پاکستان محنت کش طبقے کے جمہوری اختیار اور انتظام کے تحت منصوبہ بند معیشت کو متعارف کروائے گا۔ سوشلزم مادی ضروریات کی روک کے بغیر انسانوں کو آزادانہ ترقی کرنے کا اختیار سونپے گا۔ یہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ملک کے وسیع وسائل کو استعمال کرنے کے قابل ہو گا۔
یہ بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا، افغانستان اور نیپال میں انقلابی تحریک کے لئے ایک طاقتور محرک دے گا۔ محنت کش طبقہ سامراج کی بنائی ہوئی تمام مصنوعی سرحدوں کو مٹا دے گا اور برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے لئے راہ ہموار کرے گا۔
یہ عالمی سطح پر سوشلزم کی کامیابی اور نسلِ انسانی کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرنے کے لئے ایک جست ہو گی۔ برِصغیر کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن پیداواری قوتوں کو ایک ایسی سطح تک ترقی دے گی جہاں غربت، بے روزگاری، جہالت اور بدحالی کی لعنتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سوشلزم تمدنِ انسانی کو اس نہج پر لے جائے گا جو کہ ماضی کے کسی بھی دور میں نہ کسی نے دیکھی نہ سنی۔ قرطبہ اور غرناطہ کی شان و شوکت ہیچ رہ جائیں گی اور شاعری، آرٹ، ادب، فلسفہ اور سائنس عظمت کی نئی بلندیوں پر پہنچیں گے۔ مارکس وادیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی آزادی کے اس عظیم مقصد کی خاطر لڑیں۔
آج کی اس جدید دنیا میں فلسفے کا کردار اس کام کو آسان بنانا، ہمارے خیالات کو واضح کرنا اور ہمارے دور کے سب سے اہم مظاہر کی تعقلی توضیح فراہم کرنا ہے۔
کارل مارکس کے لفظوں میں: ’’آج تک فلسفیوں نے مختلف طور طریقوں سے دنیا کی صرف تشریح ہی کی ہے، اصل کام (فلسفے دانوں کا) بہرحال اسے تبدیل کرنا ہے۔‘‘
لندن 17 نومبر 2016ء