تحریر : ایلن ووڈز:۔
(ترجمہ : آدم پال)
تغیر کا دور
’’مارکس سروینٹیز اور بالزاک کو باقی تمام ناول نگاروں سے زیادہ پسند کرتا تھا۔ ڈان کیخوٹے میں اسے پرانی رسمی شجاعت آخری سانسیں لیتی ہوئی نظر آئی جس کا ابھرتے ہوئے بورژوا سماج میں مذاق اْڑایا جاتا تھا۔‘‘(Paul Lafarague, Reminiscences of Marx)
ہر حکمران طبقہ اپنے بارے میں ایک ہی طرح کے دھوکے میں ہوتا ہے۔ اپنے خیالوں میں وہ فاتح اور ہیرو ہوتے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ انتہائی گھٹیا کاروبارِ زندگی میں ملوث ہوتے ہیں۔ مارکس جو کیخوٹے کو بہت پسند کرتا تھا، لکھتا ہے:
’’ یہ بات تو واضح ہے کہ عہدِ وسطیٰ کیتھولزم پر اور قدیم دنیا سیاست پرزندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ اس کے بر عکس یہ ان کی آمدن کے ذرائع میں سے ایک تھا جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیوں ایک جگہ پر سیاست اور دوسری جگہ پر کیتھولزم اہم کردار ادا کرتے تھے۔ باقی سب کے لئے ہمیں رومن ریاست کی تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت حاصل کرنا ہو گی، مثال کے طور پر یہ جاننا ہو گا کہ اسکی خفیہ تاریخ زمینی جائداد کی تاریخ ہے۔ دوسری طرف، ڈان کیخوٹے نے بہت عرصہ پہلے اس غلط خیال کی قیمت چکا دی تھی کہ سورما Knightکی شجاعت اور بہادری معاشرے کی تمام معاشی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔‘‘
لوپے ڈی ویگا پرانے جاگیرداری نظام میں غیرت کو انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے، جبکہ کیخوٹے میں یہ مذاق کا نشانہ بنتی ہے۔سروینٹیز آگے کی جانب دیکھ رہا ہے جبکہ لوپے ماضی کو دیکھ رہا ہے۔ سروینٹیز سرمایہ داری معاشرے اور اخلاقیات کا نمائندہ ہے، جس کی بنیادیں روپیہ ہے نا کہ عہدہ جبکہ لوپے پیچھے کی جانب حسرت کے ساتھ ختم ہوتے ہوئے نظام کی اخلاقیات کو دیکھ رہا ہے جہاں ہر انسان کو اس کے مقام کا پتہ ہے اور معاشرہ غیرت اور ایک دوسرے کے لئے فرائض جیسی طاقتور اقدار کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی لوپے کی تصنیفات میں ہمیں حقیقت کا ادراک ملتا ہے: یہ اس چیز کو مہارت کے ساتھ قبول کرنا ہے کہ یہ اقدار اس پرانے معاشرے کے ساتھ ختم ہو چکی ہیں جس نے انہیں پیدا کیا تھا۔
ڈان کیخوٹے کے مزاح کا جوہر دراصل وہ تضادات ہیں جو جاگیرداری سے سرمایہ داری کے تغیر کے دوران پیدا ہوئے۔ ایک ایسا معاشرہ جو جاگیرداری غلامی، غیرت اور وفاداری پر قائم ہو،ایسے مختلف معاشرے کی جانب جہاں معاشرہ صرف روپے کے تعلقات پر قائم ہو، ڈان کیخوٹے کی سورما Knightوالی شجاعت کا موجود معاشی اور سماجی حقیقتوں سے تضاد ہے، بالکل اسی طرح جیسے خوابوں کا حقیقت کے ساتھ تضاد ہے۔یہ دیوالیہ پن ہسپانوی بیوروکریسی کا ادبی اظہار ہے جس نے اپنی غربت کو اشرافیہ کا معزز لبادہ اوڑھا رکھا تھا۔ یہ اس سماجی طبقے کی بد قسمتی ہے جو یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا انجام آ پہنچا ہے اور پرانے رسوام و رواج کا اب معاشرے میں کوئی کردار نہیں۔
یہ تضاد ہمیں احمقانہ لگتا ہے اس لئے کہ یہ مضحکہ خیز ہے۔غریب لوگ اور وہ لوگ جنہیں جاہل سمجھا جاتا ہے اصل حقیقت جانتے ہیں اور اسی لئے سورما Knight کی حرکات کو پاگل پن کا نام دیتے ہیں۔ بے شک یہ پاگل پن کی ہی ایک قسم ہے، لیکن یہ ایک فرد کا پاگل پن نہیں بلکہ معاشرے کے ایک پورے طبقے کا پاگل پن ہے جس کی افادیت ختم ہو چکی ہے لیکن وہ حقیقت کو سمجھ نہیں پارہا اور اسی لئے اس سے دور ہے۔
در حقیقت اس وقت کا اسپین ایسے نامی آدمیوں اور با رعب خطابات سے بھر اپڑا تھا جن کے پاس محض رگڑنے کے لئے بھی دو سکے نہیں تھے۔ وہاں بڑے بڑے زمیندار تھے جن کی حالت بھکاریوں سے کچھ بہتر تھی۔ پہلے باب میں ہمیں ڈان کیخوٹے کے بارے میں پتہ چلتا ہے جو اشرافیہ میں سے ہے اور اب نیم غربت میں رہ رہا ہے اور زرعی پیداوار کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا۔
’’ تمہیں یہ پتہ ہونا چاہئے کہ جب معزز لوگوں کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ( جو تقریباً سارا سال ہی ہوتاہے)، وہ اپنا وقت سورما Knight کی شجاعت کے قصے پڑھ کے گزارتے ہیں اور وہ یہ کام انتہائی خوشی سے کرتاتھا اور آخر کا ر اسی سلسلے میں اس نے تمام دیہاتی مشاغل کو خیرباد کہہ دیا اور یہاں تک کہ اپنے بارے میں خیال کرنا چھوڑ دیا۔‘‘
ڈان کیخوٹے کو روپے کا کچھ پتہ نہیں۔وہ بے اعتنائی سے کہتا ہے ’’ کیا کبھی نائٹ نے بھی ٹیکس یا کرایہ ادا کیا ہے؟ کیا کبھی درزی نے اس کے کپڑوں کی سلائی مانگی ہے؟ یا کبھی کسی داروغہ نے اس سے محل میں ٹھہرنے کا کرایہ مانگا ہے؟‘‘۔ وہ کم از کم اپنے خیالات میں ہی سہی،لیکن روپے پیسے کی معیشت سے بے بہرہ ہے۔ اگر کیخوٹے کی معیشت کو نافذ کیا جاتا تو جلد ہی معاشرہ پھٹ جاتا کیونکہ اس وقت تک ادھار کا نام کسی نے نہیں سنا تھا اور کریڈٹ کارڈ کے مالک کو بھی کبھی نہ کبھی اپنے بِل ادا کرنے کا ناخوشگوار کام کرنا پڑتا ہے۔
سرائے والے تیسرے باب میں، ڈان کیخوٹے کو سرائے کے مالک سے جدید معیشت کا سبق سیکھنا پڑتا ہے، جو اس سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں جس کے جواب میں ڈان کیخوٹے کہتا ہے’’ ایک پیسہ بھی نہیں، میں نے شجاعت کی داستانوں میں کہیں نہیں پڑھا کہ تاریخ میں کبھی نائٹ نے اپنے ساتھ پیسے رکھے ہوں۔‘ سرائے کا مالک چیخ کر بولا ’تمہیں غلطی لگی ہے۔‘’ میں مانتا ہوں کہ تاریخ اس سلسلے میں خاموش ہے کیونکہ مصنف روپے اور صاف کپڑوں جیسی ضروری چیزوں کے ذکر کو اہمیت نہیں دیتا، لیکن اس بات میں کوئی منطق نظر نہیں آتی کہ نائٹ ان چیزوں کے بغیر [مہمات پر ]نکل جاتے ہوں گے۔اور تمہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ وہ تمام نائٹ جن کے ذکر سے تاریخ بھری پڑی ہے، ان کی جیبیں تمام ضروریات کی فراہمی کے لئے بھری ہوتی تھیں، اور وہ اپنے ساتھ کچھ کپڑے بھی رکھتے تھے اور دوائیوں کا ایک چھوٹا سا ڈبہ بھی تا کہ اپنے زخموں کا علاج کر سکیں۔‘‘
وہ یہ سبق اچھی طرح سیکھ گیا۔ اپنی مہمات کے دوسرے دور میں اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے پاس اس زمانے کا سکہ موجود ہو، جس کے نتیجے میں اسے بہت سا قرض بھی لینا پڑا۔ہمیں ساتویں باب میں یہ معلومات ملتی ہے کہ :’’ ڈان کیخوٹے پیسے کا بندو بست کرنے نکل پڑتا ہے، کسی چیز کو بیچ کر یا گروی رکھ کر، اور ہر دفعہ گھاٹے کا سودا کر نے کے باوجودوہ اچھی خاصی رقم اکٹھی کر لیتا ہے۔‘‘ یہ نہ صرف ہسپانوی اشرافیہ کی کہانی تھی بلکہ خود اسپین کی بھی۔
سانچو پانزا
کیخوٹے میں ایک نہیں دو ہیرو ہیں۔لمبے، دھان پان سے نائٹ کے ساتھ جو ایک بوڑھے لاچار گھوڑے پربیٹھا ہے،کے ساتھ ہمیں ایک چھوٹے قد کا موٹا سا مزارع خچر پر بیٹھا نظر آتا ہے۔ یہاں عالمی ادب کی عظیم جوڑی ہے، جو نمک اور مرچ کی طرح ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ ہم ناول کے اس دوسرے ہیرو کا کیاکریں؟ سانچو پانزا ایک غریب زرعی مزدور ہے جو ڈان کیخوٹے کا ہمسایہ ہے’’ ایک ایماندار آدمی( بے شک یہ خطاب ہر اس شخص کو دیا جا سکتا ہے جو غریب ہے)، لیکن جس کے پاس بہت تھوڑی عقل ہے۔‘‘ سانچو کی عقل کی کمی ہی اسے آدھے پاگل آقا کے ساتھ چلنے پر مجبور کرتی ہے۔لیکن اس کے باوجود ہر قدم پر یہ ان پڑھ زرعی مزدور ہی معاملے کی اصل حقیقت کو سمجھتا ہے اور اپنے آقا کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، جو اس پر یقین کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
یہاں فلسفیانہ باریکیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ سروینٹیز کے اسپین کا فلسفہ عہدِ وسطیٰ کے Scholasticismمذہبی فلسفیسے آگے ترقی نہیں کر سکا تھا۔ جس میں ارسطو کی بگڑی ہوئی شکل کے ساتھ افلاطون کی خیال پرستی ملی ہوئی تھی۔ عہدِ وسطیٰ کے فلسفے کواصل ترقی مسلمان فلسفیوں اور اندلس کے سائنسدانوں نے دی تھی، لیکن چونکہ عیسائی اسپین کچھ دیر پہلے ہی موروں Moorsکے ساتھ جنوب میں ایک لمبی جنگ سے گزرا تھااس لئے یہ خیالات وہاں قابلِ نفرت تھے۔فلسفہ اور باقی تمام علوم چرچ کے آہنی شکنجے میں تھے سوائے ادب کے۔
عیسائی فلسفی اور اسکالر اپنے وقت کا زیادہ ترحصہ اس بات پر بحث کرتے رہتے کہ فرشتوں کی جنس کیا ہے اور یہ کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے ناچ سکتے ہیں۔ سروینٹیز نے یونیورسٹیوں کے جھگڑوں کی ممبرینو کے ہیلمٹ کی بحث میں پیروڈی کی ہے۔بلاشبہ ڈان کیخوٹے خود بھی فلسفیانہ خیال پرست ہے۔ دسویں باب میں وہ نائٹ کی شجاعت کے اصولوں پر تقریر کرتا ہے جس میں وہ یہ ثابت کرتا ہے کی سفر کے دوران نائٹ (اور اسی طرح اس کے مصاحب کو )کھانے کی کوئی ضرورت نہیں، ڈان کیخوٹے کہتا ہے:
’’تم اس کے متعلق کتنا کم جانتے ہو، سانچو، مجھے تم کو سمجھانا ہو گا کہ یہ نائٹ کی شان ہے کہ وہ ایک مہینے تک کچھ نہ کھائیں اور جب وہ کچھ کھائیں تو صرف وہی جو سب سے پہلے ہاتھ میں آئے؛ اور تمہیں بھی اس بات کا پتہ ہوتا اگر تم نے بھی اتنی ہی کہانیا ں پڑھی ہوتیں جتنی میں نے پڑھی ہیں، اور میں نے جتنی بھی کہانیاں پڑھی ہیں ان میں نائٹ کے کھانے کا ذکر تک نہیں کیا گیا سوائے اس کے کہ حادثاتی طور پر یا پھر جب ان کے لئے کسی ضیافت کا ہتمام کیا گیا ہو اور باقی کا وقت وہ آوارہ گردی کرتے رہتے تھے۔ اور کیوں کہ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ کھائے پئے بغیر اور باقی تمام قدرتی احتیاجات کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ وہ ہماری طرح کے ہی آدمی تھے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جنگلوں اور بیابانوں میں باورچی کے بغیر گزار دیتے تھے۔ ان کی زیاد تر زندگی اسی طرح کی جڑی بوٹیوں پر گزرتی تھی جس طرح کی تم نے ابھی مجھے دی ہے، اسی لئے میرے دوست سانچو، کوشش کرو کہ تمہیں وہ چیزغم نہ پہنچائے جو مجھے خوشی دیتی ہے اور کوئی نئی دنیا بنانے یا نائٹ کی شجاعت کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرو ۔
لیکن سانچو پانز ا ایک پختہ فلسفیانہ مادیت پرست ہے اس لئے اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سنے گا، سانچو کہتا ہے:
’’بہت بہت شکریہ، لیکن میں عالی جاہ کو بتانے کی جسارت کروں گاکہ میرے پاس کھانے کو وافر مقدار میں موجود ہے، اور میں اسے کھا بھی سکتا ہوں اور بہتر یہی ہے کی میں اسے کھڑا ہو کہ خود کھاؤں بجائے اس کے کہ میں ایک شہنشاہ کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں۔ اور بلا شبہ، اگر سچی بات کی جائے تو جب میں کسی دکھاوے اور تمیز کے بغیر کونے میں بیٹھ کر چاہے روٹی اور پیازہی کیوں نہ کھاؤں مجھے زیادہ مزا آتا ہے بجائے اس کے اگر میں میز پر بیٹھ کر بھنا ہوا گوشت کھاؤں جہاں مجھے آہستہ آہتہ چبانا پڑے، چھوٹے گھونٹ لینے پڑیں، ہر منٹ بعد منہ صاف کرنا پڑے اور اگر چھینک یا کھانسی آئے تو اسے روکنا پڑے اور اسی طرح کے دوسرے کاموں سے رکنا پڑے جو صرف تنہائی میں ہی کئے جا سکتے ہیں۔ پس میرے آقا، آپ جو اعزازات مجھے نائٹ کا مصاحب ہونے کی وجہ سے دینا چاہتے ہیں ان کا تبادلہ ان اشیاء سے کر دیں جو میرے لئے زیادہ سود مند ہیں، اور یہ اعزازات، جنہیں میں پوری طرح قبول کرتا ہوں، لیکن ہمیشہ کے لئے ان سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سانچو پانز اتنا جاہل نہیں ہے۔اس کی باتوں میں عام آدمی کی کامن سینس جھلکتی ہے۔اس کے پاؤں مٹی میں جڑے ہوئے ہیں۔وہ حقیقی دنیا میں رہتاہے، جس کو ڈان کیخوٹے بہت پہلے چھوڑ چکا ہے۔ وہ کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے اور خراٹے لیتا ہے اور وہ تمام جسمانی کام کرتا ہے جنہیں اس کا خیال پرست مالک نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔بے شک سانچو کو سب سے زیادہ فکر اپنے پیٹ کی تھی( پانزا ہسپانوی زبان میں ’پیٹ ‘کو کہتے ہیں)۔ ایک جگہ وہ اپنے آقا سے پوچھتا ہے کہ آج کل نائٹ کے مصاحبوں کی کیا اجرت چل رہی ہے۔ ایک اور جگہ ڈان کیخوٹے کہتاہے:’’ میرا تجربہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ مزارع کے لفظ کا تعلق عزت سے نہیں بلکہ منافع سے ہے۔‘‘
چرچ
پندرھویں اور سولہویں صدی میں یورپی ردِ عمل کا علم کیتھولک اسپین نے اٹھایا ہوا تھا۔ یہ ریفارمیشن کا دور تھا اورCounter Reformation کا بھی۔مقدس رومن چرچ پورے نظام کا مرکز تھا اورنئے عہد میں اپنی طاقت اور مراعات کو بچانے کی بھرپور جنگ کر رہا تھا۔انسانوں کی روحوں کے لئے اس جنگ میں صرف تقریریں ہی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہوتی تھیں بلکہ تلوار اور آگ بھی اپنا کردار ادا کرتے تھے۔وہ انجیل کے ان الفاظ پر سنجیدگی سے عمل پیرا تھے:’’میں یہاں امن کے لئے نہیں،بلکہ تلوار لے کر آیا ہوں۔‘‘
اسپین میں رومن کیتھولک چرچ سب سے زیادہ طاقتور تھا۔یہ سچ اس حقیقت سے واضح ہو جاتا ہے کہ فرنینڈو کے انتقال کے بعد کارڈینل Cisnerosکو حکومت دے دی گئی۔حکومت میں رہنے کے صرف دو سال بعد اس نے کیتھولک بادشاہ فرنینڈ اور ملکہ ازابیلا کے پوتے چارلس کو بادشاہ بنا دیا۔ چارلس نے مرکزیت کی پالیسی کو اپنایا جس کے نتیجے میں میڈرڈ کو دارالخلافہ بنایا گیا۔اس نے Sierra میںE l Escorialکی تعمیر کا حکم دیا اور گاہے بگاہے اس کی تعمیر کو دیکھتا رہتا تھا۔
یہ پادریوں سے بھرپور معاشرہ تھا۔اس معاشرے میںnquisition I قائم ہوا اور یسوع کی سوسائٹی کا قیام بھی عمل میں آیاجس کو Basqueکے جنونی San Ignacio de Loyolaنے قائم کیا کیونکہ Counter Reformationکے عمل کو جنگجو نقصان پہنچا رہے تھے۔فلپ دوم پر مذہب کا اتنا زیادہ اثر تھا کہ وہ چھوٹا سا سیاسی فیصلہ کرنے سے قبل اپنے پادریوں سے مشورہ کرتا۔
میڈرڈ اور دوسرے ہسپانوی شہر مذہبی اداروں، گرجوں اور Dezcalzas جیسے اسکولوں سے بھرے پڑے تھے یا پھر وہاں ننگے پاؤں والی راہبائیں Nuns عام تھیں جو اپنے آپ کوکم تر درجے پر لے گئیں تھیں۔میڈرڈ میں نئے قائم شدہ پلازا مئیر میں شہریوں کی تفریح کے لئے ہر طرح کے کھیل اور میلے ہوتے تھے جس میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والاauto da feبھی شامل تھا۔
مذہب ہسپانوی معاشرے کے ذرے ذرے میں شامل ہو گیا تھا جس سے عوام کی اخلاقیات پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑا تھا۔ نچلے طبقے جو بظاہر نیک تھے لیکن اصل میں توہم پرستی کا شکار تھے جس سے ان کے برتاؤ میں کوئی بہتری نہ آسکی۔ہزاروں لوگ پلازا لا سیباڈا میں جمع ہو کے آدھے پاگل واعظ کا جنونی وعظ سنتے۔ کسی بھی شے کی پوجا کرنے کے جذبے کے تحت وہ گرجوں کا سیمنٹ تبرک کے طور پر گھر میں سنبھال کے رکھتے۔
لیکن پھر بھی مذہبی جنونیت کی فضا چوری، زنا، قتل اور لڑائی جھگڑے کی وباء4 4 کو پھیلنے سے نہ روک سکی اور یہ چیزیں معمول کا حصہ بنتی گئیں۔ تنگ نظر مذہبی جنونی فلپ دوم کی حکومت سے لے کربدعنوان اور بد کردار فلپ چہارم کے دور تک گناہ و شر پستیوں کی انتہاؤں کو چھورہے تھے۔چرچ بھی اس وقت کی عمومی اخلاقیات کا مظہر تھا۔ بعض اوقات پادری بھی چوری، قتل یا زنا میں ملوث پائے جاتے۔ہر روز درجنوں کے حساب سے جھگڑے ہوتے۔رات کے وقت گلی میں سے گزرنا تقریباً نا ممکن تھا۔ رات کے وقت شہر میں روشنی صرف اولیاء4 4 اور کنواری ماں کی شبیہوں پر ہوتی جو گھر سے باہر رکھی ہوتیں۔
چرچ جسے عوامی اخلاقیات کا محافظ بننا تھا دراصل سیاسی سازشوں کا مرکز تھا۔ اس کی جنونیت کا دباؤ دراصل اس بات کی کوشش تھی کہ زندگی کے ہر شعبے اور انسانوں کے تمام رویوں پر چرچ کا کنٹرول اور زیادہ طاقتور ہو۔یہ روحانی ڈکٹیٹر شپ، جس کو Inquistion( عہدِ وسطیٰ کا گسٹاپو)کی حمایت حاصل تھی، اسپین کی بیوروکریٹک ریاست کا ایک دوسرا رْخ تھی جو اسپین کو چلا رہی تھی اور اس کی بربادی کا سبب بنی۔
جنونیت اور رواداری کا فقدان گویا اس دور کا اصول بن چکے تھے۔گرینیڈا کی فتح کے بعد مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ یا تو اسپین چھوڑ دیں یا پھر مذیب تبدیل کر لیں۔ اکثریت نے اپنے وطن میں رہنے کے لئے مذہب تبدیل کر لیا، لیکن ان پر بہت سخت قدغنیں لگائی گئیں اور Inquisitionکی عقابی آنکھ ان پر مرکوز رہتی۔ وہ اس حد تک چلے گئے کہ ہر مورش خاندان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے باورچی خانے میں ہر وقت سور کو لٹکا کر رکھیں اور یہاں تک کہ ’’ سور پولیس‘‘ بھی قائم کی گئی جو اس بات کو یقینی بناتی کہ ان گھروں میں سور باقاعدگی سے استعمال ہو رہا ہے یا نہیں۔لیکن پھر بھی کیخوٹے میں سروینٹیز موروں کے بارے میں ہمدردانہ لہجے میں بات کرتا ہے۔
جب کیخوٹے سانچو کو یہ تاریخی الفاظ کہتا ہے’’سانچو، ہم یہاں پر چرچ کے مخالف ہیں‘‘۔ یہ ایسا جملہ ہے جو اسپین میں تقریباً محاورہ بن چکا ہے۔ کیخوٹے پن چکیوں سے لڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار تھا لیکن چرچ سے ٹکر لینے کے لئے اسے کئی بار سوچنا پڑا۔ظاہر ہے جہاں معمولی جرائم کی سزا میںInquisition عورتوں اور مردوں کو زندہ جلا دیتا تھا سروینٹیز کو کافی احتیاط کے ساتھ چلنا تھا اور اس نے ایمان والوں سے اپنی پیٹھ بچانے کے لئے کافی احتیاط برتی۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس کا مذہب کی طرف رویہ اگر مخالفانہ نہیں تو تنقیدی ضرور تھا۔ اگر کوئی کیخوٹے کو غور سے پڑھے تو یہ بات فوراً سمجھ میں آجاتی ہے کہ چرچ پر تنقیدسرخ دھاگے کی طرح ساری کتاب میں چلتی ہے۔ پانچویں باب میں کیخوٹے کی بھانجی کہتی ہے:
’’میں یہ سارا الزام اپنے سر لیتی ہوں کہ عالی جاہ کو اپنے ماموں کی بدمعاشیوں کا نہیں بتا پائی، کہ کہیں آپ ہر چیز کو اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی روک نہ دیں اور ان تمام غلیظ کتابوں کو جلا نہ دیں__ جن کی ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد ہے__ اور جو مکمل طور پر جلائے جانے کے قابل ہیں۔‘‘ اگلے باب میں بالکل اسی طرح دوبارہ ہوتا ہے جب ڈان کیخوٹے کی تمام کتابوں کو شعلوں کی نظر کر دیا جاتا ہے:
’’اس رات ملازمہ نے ان تمام کتابوں کو جلا دیا جو پورے گھر میں بکھری پڑی تھیں؛ اور کچھ کو تو ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا جانا چاہئے تھا، لیکن ان کتابوں کی قسمت یا inquisitorکی سستی نے اس بات کی اجازت نہ دی، اور اس طرح یہ ضرب المثل سچ ثابت ہوئی کہ ’’بے گناہ کو گناہگار کی سزا کاٹنی پڑی۔‘‘
یہ Inquisition کے autos da feکی بہترین پیروڈی ہے جہاں جلتے گوشت کی بو سونگھنے کے لئے اسپین کے شہروں کے مرکزی چوکوں پر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ان ظالمانہ تقریبات میں ہمیشہ بے گناہ ہی سزا کے حقدار قرار پاتے تھے جبکہ گناہ گار اس تقریب کی صدارت کرتے تھے۔ دوسرے مواقع پر بھی کیخوٹے چرچ کے بارے میں توہین آمیز لہجے میں بولتا ہے۔ ایسے عہد میں جب مقدسInquisition کو زندگی اور موت پر مکمل اختیار ہو یہ ایک دلیرانہ قدم ہے۔تیرہویں باب میں کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ کارتھوزین پادری بھی اسی طرح لوگوں سے دور زندگی گزارتے ہیں جیسے نائٹ، تو ہمارا ڈان کیخوٹے جواب دیتا ہے کہ’’شاید اتنی ہی دور، لیکن مجھے شک پڑتا ہے کہ ان کی دوری دنیا کے لئے ضروری نہیں۔‘‘
غور سے پڑھنے پر کیخوٹے کے ہر صفحے پر سماجی تنقید کے عناصر مل جاتے ہیں۔ شروع میں ہی بغاوت کی روح مل جاتی ہے۔ مصنف کے دیباچے میں ہم پڑھتے ہیں:
’’ تم نہ تو اس کے رشتہ دار ہو اور نہ ہی دوست، تمہاری روح تمہاری اپنی ہے اوراتنی ہی آزاد جتنی کسی بھی شخص کی، تم اپنے گھر میں ہو اور اس کے اتنے ہی مالک ہو جتنا بادشاہ اپنے ٹیکسوں کا اور تم اس عام محاورے کو تو جانتے ہو،’ میں اپنی قبا میں بادشاہ کو قتل کرتا ہوں‘۔یہ انہیں تمام پریشانیوں اور فرائض سے بری کرتا ہے، اور تم ڈرے بغیر وہ نہیں کہہ سکتے جو تم کہانی کے بارے میں کہنا چاہتے ہوکہ کہیں تمہیں برابھلا نہ کہا جائے یا تمہیں کسی اچھائی پر انعام نہ دیا جا سکے۔‘‘
ڈان کیخوٹے فطری کیمونسٹ ہے۔ گڈریوں سے اپنی ایک تقریر میں وہ ایک قدیم سونے کے عہد کی بات کرتا ہے جب تمام اشیاء مشترک ہوتی تھیں:
’’ اچھے تھے وہ دن، وہ عہدجنہیں قدیم لوگ سنہرا کہتے تھے، اس لئے نہیں کہ ان دنوں سونا اس طرح بغیر مشقت کے ملتا تھا جس طرح آج لوہا ملتا ہے بلکہ اس لئے کہ اس دور میں وہ یہ دو الفاظ نہیں جانتے تھے’’میرا‘‘ اور ’’ تمہارا‘‘۔اس سنہرے دور میں ہر شے مشترک ہوتی تھی، ہر روز روٹی کے لئے مزدوری نہیں کرنی پڑتی تھی بس ہاتھ بڑھا کر قریب کھڑے ہوئے برگد سے اس کا پھل اتا ر لیا۔‘‘
وہ اس دور، جب ہر چیز مشترک تھی،کا موازنہ اس دور سے کرتا ہے جب زندگی اور سوچ کے ہر پہلو کا تعین پیسے اور لالچ سے ہوتا ہے:
’’لیکن آج کے اس قابلِ نفرت دور میں کوئی بھی محفوظ نہیں، اس لئے نہیں کہ Creteکی طرح کی کوئی بھول بھلیاں اسے گھیرے ہیں، بلکہ وہاں بھی شجاعت کی وبااپنا رستہ بنا لے گی اور وہاں کی ہوا کو بھی غلیظ کر دے گی اور تمام تر تنہائی کے باوجود اسے تباہی کی طرف لے جائے گی۔ ان کے دفاع میں، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور عیاری بڑھتی گئی، نائٹ کے طبقے کا قیام عمل میں آیا، تا کہ کنواریوں کا تحفظ کیا جا سکے، بیواؤں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔ میں اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں، گڈریے بھائیو، میں تمہاری میزبانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میرے اور میرے مصاحب کے لئے تمہاری پیشکش کا ممنون ہوں؛ چونکہ فطرت کے قانون کے مطابق تمام جاندار نائٹ پر مہربانی کرنے پر مجبور ہیں لیکن اس مجبوری کے علم کے بغیر تمہاری اس دعوت نے مجھے بے حد خوش کیا ہے، اور یہ بالکل ٹھیک ہوگااگر میں اپنی تمام تر طاقت سے تمہاری میزبانی کا شکریہ ادا کروں۔‘‘ (12)
یہ سروینٹیز کی مہارت تھی جو اس نے اتنی بے باک سماجی تنقید کو ایک پاگل شخص کے منہ سے کہلوایا۔تاریخ میں ہر انقلابی کو اس کے ہم عصر پاگل کہتے ہیں۔اکثر لوگوں کے لئے موجود نظام کو قبول کرنا منطقی ہوتا ہے اور جو اس منطقی نظام کو قبول نہ کرے وہ غیر منطقی شخص ہے__پاگل۔
ہیگل لکھتا ہے:’’ جو کچھ حقیقی ہے وہ منطقی ہے۔‘‘ اور اس بیان کو status quoکی وضاحت کے لئے دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ لیکن اینگلز بتا تا ہے کہ ہیگل کے ہاں ہر چیز جو وجود رکھتی ہو حقیقی نہیں۔ہیگل کے لئے حقیقت کی خصوصیات صرف ان چیزوں میں ہیں جو ضروری ہوں: ’’ اپنے ارتقاء کے دوران حقیقت ضرورت ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے۔‘‘
اور جو کچھ ضروری ہوتا ہے آخری تجزئے میں منطقی بھی ہوتا ہے۔
مارکسسٹ کے لئے یہ عام سی بات ہے کہ جو چیز بھی وجود رکھتی ہے وہ ضرورت کے تحت ایسا کرتی ہے۔لیکن چیزیں مسلسل تبدیل ہوتی ہیں اور ارتقاء کے عمل سے گزرتی ہیں، پہلے سے بہتر شکل اختیار کرتی ہیں اور اپنے اندرونی تضادات کو باہر لا کر ختم کر دیتی ہیں۔اسی لئے وہ ضرورت کی خصوصیات کو ختم کر دیتی ہیں اور اس کے ساتھ تضاد میں چلی جاتی ہیں۔موجود نظام کے نیچے سے زمین کانپنے لگتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو انتہا درجے کا حقیقت پسند کہتے تھے بدترین یوٹوپیائی رجعت پسندوں میں بدل جاتے ہیں، اور وہ لوگ جنہیں خواب و خیال میں رہنے والے اور پاگل کہا جاتا تھا اس نئی دنیا میں صرف وہی لوگ عقلمند رہ جاتے ہیں، جبکہ دنیا خود پاگل ہو گئی ہے۔
ایسے تاریخی عہد جن میں پرانا سماجی،معاشی نظام زوال پذیر ہو، وہ نظریات، اخلاقیات، اقدار اور مذہب جنہوں نے پہلے معاشرے کو جوڑ رکھا تھا، اپنی کشش کھو دیتے ہیں۔ پرانے نظریات اور اقدار تضحیک کا نشانہ بنتی ہیں۔ جو لوگ ان سے جڑے رہتے ہیں، وہ ڈان کیخوٹے کی طرح مذاق بن جاتے ہیں۔ اخلاقیات کی تاریخی نسبتی فطرت عیاں ہو جاتی ہے۔ برائی اچھائی بن جاتی ہے اور اچھائی برائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اسپین کا لمبا اور تکلیف دہ زوال
’’امریکہ کی دریافت نے پہلے تو اسپین کو دولت اور عزت بخشی لیکن بعد میں یہ چیزیں اس کے الٹ چلی گئی۔ تجارت کے عظیم راستے آئبیریا کے جزیرہ نما سے کہیں اور چلے گئے تھے۔ ہالینڈ جو امیر ہو گیا تھا، اسپین سے علیحدہ ہو گیا۔ہالینڈ کے نقشِ قدم پر انگلینڈ یورپ کی عظمتوں کو چھونے لگا، اور ایک لمبے عرصے کے لئے،سولہویں صدی کے دوسرے نصف سے اسپین کا زوال شروع ہو گیا۔ عظیم آرمیڈا کی شکست کے بعد(1588) زوال سرکاری شکل اختیار کر گیا۔وہ حالات جنہیں مارکس ’’غیر عالی شان اور سست زوال‘‘ کہتا ہے بورژوا __جاگیردار اسپین پر منتج ہوئے۔‘‘( انقلابِ اسپین، ٹراٹسکی، 1931)
اسپین کی حیران کن کامیابیوں کے پس منظر میں بوسیداہ نظام کی بنیادیں لڑکھڑا رہی تھیں۔سارامعاشرہ درہم برہم ہو چکا تھا۔اسپین کی ریاست کے خزانے کی مخدوش حالت کے باوجود ہالینڈ سے دوبارہ جنگ چھیڑ دی گئی۔ اسپین اور جرمنی میں جنگجوؤوں کی فوج کھڑی کرنے کے لئے vellon کی شکل میں جعلی سکے بنائے گئے۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس سے مہنگائی کا زور دار دھماکہ ہوا۔ اور آخری تباہی سست روی اور تکلیف دہ انداز میں آئی۔
صرف روپے کی قدر میں ہی کمی نہیں کی گئی تھی۔ بادشاہت مکمل طور پر شکستہ ہو چکی تھی اور دربار غیر اخلاقی حرکات اور برائی کا جوہڑ بن چکا تھا۔ فلپ چہارم کے دور میں ہسپانوی دربار کی نا شائستگی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ بادشاہ خود جب ایل پارڈو، ایل اسیکوریل یا آرانوئیز میں شکار نہ کر رہا ہوتا تو جنسی معاملات میں الجھا ہوتا اور اس کے گرد ہر وقت بیگمات، محبوباؤں اور ناجائز بچوں کا جمگھٹاہوتا۔ وہ بہت سے ناجائز بچوں کا باپ تھا جن میں سب سے مشہور آسٹریا کا ڈان یوان یوزے تھا جو مزاحیہ اداکارہ لا کالڈونیرا میں سے تھا۔ دوسری طرف ملکہ نے بھی اپنے محبوب __ولالمیڈینا کے کاؤنٹ__کو خفیہ نہیں رکھا ہوا تھا۔
Counter-Reformationکی راہنمائی کرتے ہوئے اسپین پیچھے کی جانب دیکھ رہا تھا تا کہ تاریخ کے دھارے کو روکا جا سکے۔ وہ کیخوٹے کی پالیسی اختیار کر رہا تھا۔ اور ڈان کیخوٹے کی ہی طرح وہ وقت کی سوئیوں کو روکنے میں ناکام رہا اور صرف اپنے آپ کو ہی زوال، شکست اور بوسیدگی کی جانب لے جا سکا۔ اسپین ایک دیو کی طرح تھا جس کے پاؤں مٹی کے ہوں، او ر چھوٹے ممالک میں اس کی فوجی مہمات کی ناکامی اس کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ تھوڑے سے وقت میں ہالینڈ نے اپنے آپ کو اسپین کی خوفناک گرفت سے آزاد کر لیا، اور جلد ہی اسپین کو ان قوموں سے فوجی حملوں اور ناکامیوں کا سامنا پڑا جو پہلے اس کے زیرِاثر تھیں۔
Inquisitionاب زیادہ طاقتور ہو گیا، اور اس نے دہشت کے دور کا آغاز کر دیا جس میں جلانے اور تشدد کے روایتی ہتھکنڈے شامل تھے۔1680میں پلازا مئیر میں auto da feکا تماشہ ہوتاتھا۔جلے ہوئے گوشت کی بو نے اسپین کی روح کو زہریلا اور ذہن کو جکڑ لیا۔ریاست کے اعلیٰ ترین درجے تک غیر یقینی صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔ اس وقت کی فضا اس وقت کے آرٹ میں نمایاں ہے۔ وہ آرٹ جو کچھ کو چھوڑ کر تنگ نظری اور جنونیت سے پراگندہ ہے۔
اسپین کا زوال اس چیز کی منظر کشی کرتا ہے کہ جب کوئی معاشرہ ذرائع پیداوار کو ترقی نہیں دے سکتا تو وہ اپنی ہی کامیابیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ محاورہ ہمیں بتاتا ہے’’شکست سے پہلے تکبر آتا ہے۔‘‘ اسپین کے سامراج کا جدید ہم عصر آج کا متکبر امریکہ ہے۔ جس طرح اسپین سولہویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ دولت مند اور طاقتور قوم تھی اسی طرح آج امریکہ ہے۔ جس طرح اسپین عالمی ردِ انقلاب کا مرکز تھا، آج امریکہ ہے۔ اور جس طرح اسپین اپنی خارجی عسکری مہمات میں دور تک چلا گیا تھا جس نے اس کی طاقت کو تھکا اوراس کے خزانوں کو خالی کر دیا تھااسی طرح آج امریکہ عالمی سطح پر موجود ہے۔
یہ مماثلتیں واضح ہیں اور اور مذہب اور نظرئے تک جاتی ہیں۔جارج بش، فلپ چہارم کی طرح ایک تنگ نظر مذہبی انتہا پسند ہے اور ساری دنیا پر حاکمیت کے لئے ڈٹا ہوا ہے۔ یہ مماثلتیں حادثاتی نہیں ہیں۔ ہم تاریخی تبدیلی کے عظیم دور میں رہ رہے ہیں۔۔ایک تغیر کا دور، سولہویں صدی کی طرح۔لیکن اس وقت دنیا جاگیر داری کو ٹوٹتا ہوا اور سرمایہ داری کی طرف تحریکوں کو بڑھتا ہوا دیکھ رہی تھی اسی طرح ہم سرما یہ داری کی موت دیکھ رہے ہیں اور اسی جذبے کے ساتھ ایک نئے معاشرے کی جانب تحریک کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں جس معاشرے کو ہم سوشلزم کہتے ہیں۔
جن لوگوں میں حقیقت کو بیان کرنے کا حوصلہ ہے انہیںیوٹوپیائی، خوابوں میں رہنے والا اور پاگل کہا جاتا ہے۔ہم ڈان کیخوٹے کے ساتھ اس اعزاز کو قبول کرتے ہیں۔ہم سرمایہ دارانہ نظام میں اپنے آپ کواسی طرح اجنبی محسوس کرتے ہیں جس طرح ہمارا مشہور پیش رو،لیکن اس کی طرح ہم واپس اس سنہرے دور کی طرف نہیں جانا چاہتے جو کبھی تھا ہی نہیں۔ اس کے بر عکس ہماری شدید خواہش ہے کہ ہم آگے کی طرف جائیں جو انسانی ارتقاء کا معیاری طور پر بہتر درجہ ہے۔
ہمیں خوابوں اور فریبوں کی ضرورت نہیں، بلکہ ہم نے اپنے پاؤں زمیں پر گاڑے ہوئے ہیں۔اس طرح ہم اس کھلے دل کے اور کامن سینس رکھنے والے پرولتاری سانچو پانزا کے زیادہ قریب ہیں۔لیکن ہم لا منچا کے نائٹ کی طرح ناانصافی کی تمام شکلوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم اس کی اس اہلیت میں بھی شریک ہیں جو بورژوا دانشوروں کی تنگ نظری سے اوپر دیکھتا ہے،ا ورجس دنیا میں ہم اب رہ رہے ہیں اس سے ایک بہتر دنیا کی خواہش رکھتا ہے، اور اس تبدیلی کے لئے لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔