تحریر : ایلن ووڈز:-
(ترجمہ : آدم پال)
اس سال ڈان کیخوٹے،اسپین کے ادب کی عظیم ترین تخلیق، کی پہلی اشاعت کو 400برس ہو گئے ہیں۔محنت کش طبقہ، یعنی وہ طبقہ جو ثقافت کے تحفظ میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، اسے اس سالگرہ کوجوش وخروش سے منانا چاہیے۔ یہ پہلاعظیم جدیدناول تھا، جو ایسی زبان میں لکھا گیا جسے عام لوگ سمجھ سکتے تھے۔ یہ مارکس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھا، جو وہ اپنے بچوں کو پڑھ کے سناتا تھا۔
’’بورژوا طبقے کا جہاں کہیں غلبہ ہوا، اس نے تما م جاگیر دار، سر قبیلی اور دیہاتی رومانوی تعلقات کا خاتمہ کردیا۔ اس نے بے دردی سے ان گونا گوں جاگیردار بندھنوں کو توڑ دیا جو انسان کو اس کے پیدائشی آقاؤں کا پابند کئے ہوئے تھے اور خالص تن پروری اور بے درد نقد لین دین کے سوا آدمی میں اور کوئی رشتہ باقی نہیں رہنے دیا۔‘‘(کمیونسٹ مینی فیسٹو)
’’اسپین نے عروج کے ادوار بھی دیکھے تھے، باقی تمام یورپ سے ممتاز حیثیت اور جنوبی امریکہ پر تسلط۔معیشت کا اندرونی اور عالمی ارتقاء،صوبوں کی جاگیرداری بنیادوں پر ٹوٹ پھوٹ اور قومی شناخت پر حاوی ہو رہا تھا۔ اسپین کی بادشاہت کی بڑھتی ہوئی طاقت اور افادیت تجارتی سرمائے کے مرکزی کردار اور ہسپانوی قوم کی تعمیرکے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔‘‘(ٹراٹسکی، انقلابِ اسپین،1931)
سوشلزم کے لئے جدوجہد نظریات اور ثقافت کی جدوجہد کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ صدر شاویز نے سروینٹیز کی اس عظیم تخلیق کے خصوصی ایڈیشن کی بیس لاکھ کی تعداد میں اشاعت کا حکم جاری کر دیا ہے جو مفت تقسیم کی جائیں گی۔ہم اس سالگرہ کو کیخوٹے کاتاریخی مادیت کے حوالے سے تجزیہ کر کے منائیں گے۔
سروینٹیز کی زندگی
مگوئل ڈی سروینٹیز(1547-1616)ہسپانوی ادب کی سب سے مشہور شخصیت ہے۔ ناول نگار،ڈرامہ نگار اور شاعرجس کی بہت سی ادبی تخلیقات ہیں،لیکن آج وہ صرف ڈان کیخوٹے کے خالق کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔سروینٹیز میڈرڈ کے قریب ایک قصبے،ایلکالا ڈی ایناریس، میں ایک قدرے کم عزت دارگھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ، راڈریگو ڈی سروینٹیز، ایک سرجن تھا ۔سروینٹیز نے اپنے بچپن کا زیادہ تر حصہ اپنے باپ کے ساتھ ایک قصبے سے دوسرے قصبے میں کام کی تلاش میں پھرتے ہوئے گزار دیا۔اس کا باپ ولاڈولڈ،ٹولیڈو،سیگوویا اور میڈرڈ میں اپنے قرضوں کی وجہ سے کافی معروف تھا۔ اس وجہ سے اسے کئی بار جیل جانا پڑا ۔۔۔ یہ ان دنوں کا عام چلن تھا۔
پہلی نظر میں سروینٹیز کی زندگی محض ناکامیوں کی ایک لمبی داستان ہے: وہ ایک فوجی کی حیثیت سے ناکام ہوا؛ وہ ایک شاعر اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ناکام ہوا۔بعد ازاں اسے ٹیکس کلکٹر کی نوکری بھی کرنا پڑی لیکن یہاں بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس پر کرپشن کے الزامات لگے اور اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔لیکن زندگی کے ان وسیع تجربات نے اسے انسانوں کی لاتعداد اقسام سے متعارف کرایااوراس وقت کے معاشرے کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
سروینٹیز کو سب سے پہلے لکھنے کا شوق1568میں ہوا، جب اس نے فلپ دوم کی تیسری بیوی، مرحومہ ازابیل ڈی ویلوئس کی شان میں کچھ شعر لکھے۔ ظاہر ہے یہ سب نظرِ التفات اور پیسے کے لئے کیا گیا تھا۔ لیکن اس ادبی سفر میں فوج کی نوکری کی وجہ سے وقفہ آگیا۔ میڈرڈ میں،ہیومنسٹ یوان لوپیز ڈی ہویوس کی زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کرنے(1568-69) کے بعد 1570میں وہ اٹلی جا کر اسپینش فوج میں شامل ہو گیا۔ اس نے لپینٹو کے مقام پرMarquesaنامی جہازپر سے ایک بحری جھڑپ(1571) میں بھی حصہ لیا۔اس جھڑپ میں اس کے بازو پر شدید چوٹ آئی جس کے بعد اس کا بایاں ہاتھ زندگی بھر کے لئے بے کار ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اگلے چار سال تک فوج میں کام کرتا رہا۔
جنگ سے تنگ آکر وہ 1575میں اپنے بھائی راڈریگوکے ساتھ ایل سول نامی کشتی میں اسپین کی جانب لوٹا۔ لیکن رستے میں ترکوں نے کشتی پر حملہ کر دیا اور اسے اور اس کے بھائی کو الجائرز میں غلام بنا کر لے گئے۔ سروینٹیز نے غلام کی حیثیت سے پانچ سال گزارے ۔ آخر کار اس کے گھر والوں نے اس کی رہائی کے لئے تاوان کی رقم اکٹھی کی اور اسے 1580میں رہا کر دیا گیا۔
میڈرڈ واپسی پر اس نے کچھ عرصہ انتظامی عہدوں پر نوکری کی اور اپنی زندگی کے اواخر میں لکھنے کی طرف لوٹا۔ اس نے GalateaاورLas Trates de Argelجیسی کتابیں لکھیں جن میں الجائرز میں عیسائی غلاموں کی زندگی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ ان تصنیفات سے اسے تھوڑی بہت کامیابی ملی۔اس کے ڈراموں کے علاوہ شاعری میں اس کا سب سے پسندیدہ کام Viaje Del Parnaso(1614) ہے۔ اس نے کئی ڈرامے بھی لکھے، جن میں سے دو باقی رہے، اس کے علاوہ ناول بھی لکھے۔لیکن اس کی کوئی بھی تصنیف اس کی زندگی گزارنے کا وسیلہ نہ بن سکی۔
آخر میں شادی کے بعد، سروینٹیز کو احساس ہوا کہ ادب کے ذریعے وہ اپنے خاندان کو پال نہیں سکے گا۔ اس لئے وہ سویل چلا گیا، جہاں اسے بحریہ کو رسد پہنچانے کا کام مل گیا۔ اس کی مہمات یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ اسے کامیابی تو ملی لیکن ساتھ ہی کئی دشمن بھی، جس کے نتیجے میں اسے قید کے لمبے ادوار گزارنے پڑے۔ اسی قسم کی ایک قید کے دور میں اس نے ایک کتاب پر کام شروع کیا جس نے اسے دائمی شہرت بخشنی تھی۔ ڈان کیخوٹے کا پہلا ایڈیشن 1605میں منظرعام پر آیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ La Manchaکی ایک جیل Argamasillaمیں لکھاگیا تھا۔ ڈان کیخوٹے کا دوسرا حصہ 1615میں منظرعام پر آیا۔
یہ کتاب بہت کامیاب ہوئی اور اس کے مصنف کو عالمی شہرت حاصل ہوئی، لیکن پھر بھی وہ غریب رہا۔1596سے لے کر1600تک وہ سویل میں رہا۔1606میں سروینٹیز میڈرڈ میں سکونت پذیر ہوا، اور باقی کی زندگی وہیں گزاری۔23اپریل1616کو، جس دن شیکسپئر فوت ہوا، اسی دن سروینٹیز انتہائی غربت کی حالت میں میڈرڈ کی ایک گلی،اب جس کانام اس کے نام پر ہے، میں فوت ہوگیا ۔ اس کی وفات سے صرف ایک سال قبل کیخوٹے کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔
سروینٹیز کی عظیم تخلیق میں بظاہر زندگی شجاعت کی داستانوں کے طنز سے شروع ہوتی ہے جو ان دنوں کافی مشہور تھیں، لیکن بعد میں وہ کلائڈوسکوپ کے عکس کی طرح سروینٹیز کے وقت کے پورے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ زندگی سے بھرپور ہے کیونکہ یہ پوری سچائی کے ساتھ اس وقت کی زندگی کو پیش کرتی ہے۔تغیراتی دنیا کا ایک رنگین عکس،مثالی تصورات اور رواجوں کا ایک نہ رکنے والا ٹکراو اور کرداروں کی مختلف اقسام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اس کے زیادہ تر کردار نچلے طبقوں سے لئے گئے ہیں۔ ڈان کیخوٹے ادب میں ایک نیا رجحان تھا، حقیقی زندگی کی تصویر اور طور طریقوں کو عام فہم زبان میں لکھا گیا تھا۔قارئین نے روزمرہ کی گفتگو کی ادب میں مداخلت کو خوش آمدیدکہا۔
اپنے بہت سے معاصرین کے برخلاف، سروینٹز کا کوئی امیر سرپرست نہیں تھا۔ وہ صرف اپنے قارئین پر انحصار کرتا تھا۔ یہ قاری اور عوام کے درمیان بالکل نیا رشتہ تھا۔ سروینٹیز صرف کتابیں بیچ کر ہی کھانا کھا سکتا تھا، اور کتابیں صرف اسی صورت میں بیچ سکتا تھا کہ کچھ ایسا لکھے جو عوام کے دل و دماغ میں سرایت کر جائے۔ اس سب میں وہ بہترین طریقے سے کامیاب ہوا۔ تاریخ میں بہت کم کتابیں ایسی ہیں جو معاشرے میں پیدا ہونے والی نئی روح کی اتنی سچائی کے ساتھ عکاسی کریں۔ اس حقیقت کی پذیرائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم سرسری طور پر یہ دیکھیں کہ اس وقت کے اسپین کا معاشرہ اصل میں کیسا تھا۔
سروینٹیز کے عہد کا اسپین
’’امریکہ کی دریافت اور افریقہ کے گرد جہاز رانی شروع ہونے کی وجہ سے ابھرتے ہوئے بورژوا طبقے کے لئے راہیں کھل گئیں ۔ ایسٹ انڈیا اور چین کی منڈیوں، امریکہ کی نو آباد کاری، نوآباد یوں کے ساتھ تجارت،ذرائع تبادلہ اور عام طور سے اجناس کی کثرت نے تجارت،جہاز رانی اور صنعت کو ایسی ترغیب دی جو کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے گرتے ہوئے جاگیردار سماج میں انقلابی عناصر کو تیزی سے بڑھنے کاموقع ملا۔‘‘( کمیونسٹ مینی فیسٹو)
سروینٹیز کا اسپین ایک تغیراتی معاشرہ تھا،ایراگون اور کاسٹایل کے شاہی خاندانوں کا اتحاد، جسے فرڈینینڈ اور ازابیل کی شادی کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، نے اتحاد کی بنیاد ڈالی اور مطلق العنان بادشاہت کی تخلیق کی۔ گریناڈا کی شکست، جو کہ مورش بادشاہت کی آخری ریاست تھی، نے Reconquistaکو اختتام تک پہنچا دیا جو کئی صدیوں سے جاری تھا۔ اس کے فورا بعدامریکہ کی دریافت ہوئی اور اسپین یورپ کی اقتصادی اور فوجی قوت بن کر ابھرا۔
جس وقت سروینٹیز پیدا ہوا، میڈرڈ کی آبادی 4000افراد پر مشتمل تھی جو کہ تقریبا ٹولیڈو، سیگوویا اورولاڈولیڈ جتنی تھی۔ میڈرڈ کی آبادی میں اضافے کی وجہ وہ حقوق تھے جو عہدوسطیٰ کے کاسٹیل اور لیون کے بادشاہوں نے نوزائیدہ اسپینش بورژوازی کو دئے تھے۔چودھویں صدی میں فرڈیننڈ چہارم نے اپنا دربار میڈرڈ منتقل کر دیا تاکہ وہاں پہ شکار، آب وہوا اور صاف پانی سے لطف اندوز ہو سکے۔ یہاں مطلق العنانیت کو صوبائی اشرافیہ سے دُور ایک آزاد بنیاد بھی مِل گئی۔
فلپ اول کے زیرِتحت مطلق العنان ریاست کی بیوروکریسی نے تکمیل حاصل کی۔ میڈرڈ ایک خستہ حال صوبائی گاؤں سے ایک لاکھ افراد کے شہر میں تبدیل ہو گیا جو کلیساؤں،گرجوں،محلات اور سفارت خانوں سے بھرا پڑا تھا۔شہر کی تعمیر کی خاطر تمام جنگلات کو کاٹ ڈالا گیا۔جو علاقہ اپنی صحت بخش آب وہوا اور شفاف پانی کے لئے مشہور تھاایک جوہڑ میں تبدیل ہو گیا۔میڈرڈ کی گلیاں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں اور ان میں ہر وقت کوڑے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے جہاں سؤر اپنی خوراک تلاش کرتے تھے۔بدنما گھر اور محلات، گند سے اٹی ہوئی گلیاں،مردہ جانوروں کے انبار، خستہ حال تحصیلیں جن میں عربوں کے دور کی فضا اب تک قائم تھی اور امیروں کے گھروں کو گھیرے میں لئے غریبوں کی کھولیاں ۔ہر طرف کوڑے کی بدبْو بھیلی ہوتی تھی اوراس سے بھی بدتریہ کہ یہ کوڑااندھیری گلیوں میں پڑا پڑا گلتا رہتا۔میڈرڈ کے دربار کی حالت زیادہ بہتر نہیں تھی،جو پورے یورپ میں اپنی گندگی کی وجہ سے بدنام تھا۔کئی سفارت کار تو اسے اندرون افریقہ کے کسی گاؤں سے تشبیہ دیتے تھے۔
یہ سماجی تبدیلی کی وہ بھٹی تھی جس میں پرانے طبقے اتنی تیزی سی پگھل رہے تھے کہ نئے ابھی ان کی جگہ لینے کے لئے تیار نہ تھے۔جاگیرداری کا زوال اور امریکہ کی دریافت نے اسپین کی زراعت پر تباہ کن اثرات ڈالے۔پیداواری مزارع کی جگہ،جومشقت کرکے اپنی روٹی کماتا تھا،ہمیں بھکاریوں،برباد ہوئی اشرافیہ، چوروں، شاہی ملازمین اور شرابیوں کی ایک فوج دکھائی دیتی ہے، جو اپنی زندگی کام کئے بغیر گزارنا چاہتے ہیں۔
زوال اوپرسے شروع ہوا۔ اس ساری غربت،گندگی،شور شرابے کے باوجود اسپین کے دربار کو یورپ کا ذہین ترین دربار مانا جاتا تھا۔ یہاں ثقافتی ڈانس اور موسیقی کی محفلوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔اسپین کا شاہی خاندان واقعی شاہی طریقے سے زندگی گزاتا تھا۔۔یعنی قرضے پر۔وہ اپنے تاجروں کوکبھی کبھار ہی پیسے دیتے تھے۔پیسے جیسی بے ہودہ چیز شاہی آداب کے سخت خلاف تھی۔
یہ طفیلی اشرافیہ اتنی بدنام اورفضول خرچ تھی کہ زیادہ مہنگے لباس،فرنیچر اور کاٹھیوں کے لئے باقاعدہ قانون بنانا ضروری ہوگیا۔انتظامیہ کو دیدہ زیب جوتوں، خواتین کے کڑھائی والے لباسوں کو عوام کے سامنے جلانا پڑتا۔کچھ نواب اپنے ساتھ سو کے قریب مصاحب رکھتے جنہوں نے ریشمی ملبوسات پہنے ہوتے۔یہاں تک کے فوجی افسران جب عوام کے سامنے آتے تو انہوں نے رؤسا والے لباس جن پر جواہرات جڑے ہوتے، زیب تن کئے ہوتے۔
باوجود اس کے کہ معاشرے میں مذہبی اخلاقیات کا زور تھا، کئی اشراف کھلے عام جوان اور خوبصورت راہبائنوں سے چھیڑ خانی کرتے۔یہ کہا جاتا ہے کہ ویلازقوئز کابنایا ہوا یسو ع کا مشہور پورٹریٹ بادشاہ فلپ نے ایسی ہی کسی جنسی بے راہروی میں تحفتاً دے دیا تھا۔اشرافیہ کی خواتین اپنے مردوں سے کسی طور بہتر نہیں تھیں۔جب ناجیرا کی نواب زادی اور میڈلین کی کاؤنٹس کے درمیان جھگڑا ہوا تو انہوں نے ایک دوسرے پہ ایسے الزامات کی بوچھاڑ کر دی کہ کوئی بازاری عورت بھی شرما جائے۔
کرپشن کا دور دورہ تھا، ایماندار افسر آٹے میں نمک کے برابر تھے۔چرچ اور حکومت میں طفیلیوں کی فوج ظفر موج بھرتی ہوچکی تھی، جو سرکاری خزانے سے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔اکثر افسران غیر یقینی زندگی بسر کرتے تھے اور چند سکوں کے لئے اپنی نانی کو بھی بیچ سکتے تھے۔دفتروں کو بیچنا معمول کی بات تھی۔ کرپٹ وزیروں کی اشعار کے ذریعے بے عزتی کی جاتی تھی، لیکن درحقیقت کوئی بھی کرپشن پر توجہ نہیں دیتا تھا اور اسے معمول کی بات سمجھا جاتا تھا۔
عظیم آرمیڈا
فلپ دوم کو وراثت میں ایک بہت ہی امیر ریاست ملی لیکن اس کی بنیادیں کمزور تھیں۔پھر اس نے اسے خارجی مہمات اور جنگوں سے مزید کمزور کر دیا۔ایل ایسکوریل (El Escorial) ایک روح سے عاری بیوروکریٹک حکومت کا مجسمہ تھا۔یہاں تنگ نظر افسرشاہی مذہبی جنونیت سے آکر ملتی تھی۔ تھوڑے محل، تھوڑی مذہبی درس گاہیں اور تھوڑے مزار: یہ ایک وسیع و عریض ریاست کا انتظامی مرکز تھا۔ El Escorial کی بلندو بالا دیواروں کے پیچھے فلپ دوم اپنے خوابوں اور خیالوں میں کھویا رہتا اور ہر وقت محلات کی تعمیر یا مرمت کا کام مہنگے ترین پتھروں سے کرواتا رہتا۔
اشرافیہ فورا اپنے حکمران کی نقل کرنے میں جت گئی اور اپنے لئے محلات تعمیر کروانے شروع کر دئے۔اتنے بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام شراع ہونے سے میڈرڈ کے گرد Sierraکا جنگل آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گیا۔اتنی بڑی اسکیموں کا نتیجہ دیوالیہ پن کی صورت میں نکلا۔یہی وہ تضاد ہے کہ اپنی طاقت اور دولت کی انتہا پر ہونے کے باوجود اسپین زوال کی طرف بڑھنے لگا۔ایک صدی بعد ایک متکبر شخص جس کے لباس میں جا بجا سوراخ ہوں اور جس کی جیب خالی ہو اور اس کا خاندانی پس منظر اس کے قرضوں کی طرح نہ ختم ہونے والا ہو، ادبی فن پاروں میں عام ملتا تھا ۔
گو اس وقت اسپین یورپ کی ایک غالب طاقت تھی۔ لیکن اس کا سماجی ارتقاء انگلینڈ سے بہت پیچھے تھا، جہاں زراعت میں سرمایہ دارانہ تعلقات، Black Deathاور چودھویں صدی کی کسانوں کی بغاوت کے بعد بہت زیادہ ترقی کر چکے تھے، جیسا کہ مارکس کہتا ہے:
’’ چودھویں صدی کے آخر میں زرعی غلامی کا نظام عملاً ختم ہو چکا تھا۔اس وقت اورپندرھویں صدی میںآبادی کا زیادہ تر حصہ کسان مالکوں پر مشتمل تھا، چاہے ان کے نجی ملکیت کے حق کا جاگیرداری نام کچھ بھی ہو۔ زیادہ بڑے جاگیر داری علاقوں میں پرانے دور کے زمینداروں کے منشی، جو خود ایک زرعی غلام ہوتے تھے، آزاد کسان کے آنے سے ختم ہو گئے تھے۔‘‘(Capital, vol. One, Chapter 27)
سولہویں صدی کے آغاز پہ، سرمایہ دارانہ نظام پہلے ہی اسپین اور انگلینڈ میں آچکا تھا۔لیکن خلافِ قیاس، امریکہ کی دریافت اور اسپین کی طرف سے اس کی لوٹ مار نے اسپین کے سرمایہ دارانہ نظام کا پیدا ہوتے ہی دم گھونٹ دیا۔نئی دنیا کی کانوں سے سونے اور چاندی کے سیلاب نے اسپین کی زراعت، تجارت اور پیداواری صنعت کے ارتقاع کو نقصان پہنچایا۔اس نے مہنگائی کے شعلوں کو ہوا دی اور خوشحالی کی بجائے پسماندگی پھیلائی۔
’’نئی دریافتوں نے انڈیا کے ساتھ زمینی تجارت کو بحری تجارت میں بد ل دیا؛اور جزیرہ نما کی قومیں، جو پہلے تجارت کی شاہراہ سے دور تھیں اب یورپ کا اہم جزو بن گئیں۔‘‘
(Prescot, History of the Reign of Ferdinand and Isabella, p. 740)
انگریز سرمایہ دارانہ نظام کی طاقت لازمی طور پر ہسپانویسلطنت سے ٹکرائی۔ انگریز بادشاہت نے، شروع میں چوری سے، اور بعد میں کھلے بندوں اسپین کی سمندروں پر حکومت کو چیلنج دیا۔ آہستہ آہستہ انگریز اور ڈچCarribeanمیں اپنے قدم جمانے لگے اور نئی کالونیوں کی بنیادیں رکھنی شروع کر دیں۔ انگلینڈ اور اسپین کے تضادات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب انگریزوں نے اسپینش حکومت کے خلاف ڈچ پروٹیسٹنٹ باغیوں کی حمایت کے لئے فوجیں بھجوا دیں۔یہاں سے جنگ شروع ہو گئی۔
اسپین کی طاقت کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا اور اس کی شان و شوکت کو تکلیف پہنچی، جب1588کی گرمیوں میں عظیم آرمیڈا کو خراب موسم اور بارود سے بھری ہوئی انگلش کشتیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راتوں رات اسپین کو نوآموز انگلش طاقت کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔اس شکست کا کردار علامتی تھا …. جاگیرداری کیتھولک ازم کی پرانی دنیاشمالی یورپ میں سرمایہ داری پروٹیسٹنٹ ازم کیساتھ تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی۔
فلپ دوم کے آخری ایام شدید ظاہری پستی، پریشانی اور تکلیف کے دن تھے۔فلینڈرز کی خونی جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ 1598میں مرا،آرمیڈا کی شکست کے آٹھ سال بعد، اور اس کے ساتھ ہی اسپین کا وہ دور بھی ختم ہو گیا جب اسپین پوری دنیا کے مقدر کا مالک تھا۔ اس کا بیٹا فلپ سوم ایک انتہائی نالائق اور بے وقوف شخص تھا، جو ریاستی امور سے زیادہ پیچھا کرنے میں( چاہے جنگلی جانوروں کا ہو یا خوبصورت اداکاراؤں کا) خوشی محسوس کرتا تھا۔اپنے باپ کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد، اس کے پاس ایک وزیر آیا اور پوچھا کہ’’ہم خط و کتابت کا کیا کریں؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ انہیں لرما کے ڈیوک کے ہاتھ میں دے دو۔‘‘
اس طرح مطلق العنان بادشاہ غیر حاظر بادشاہ بن گیا۔ اصل طاقت اس کے وزیر ڈیوک آف لرما کے پاس تھی۔ اسپین کا اندرونی زوال تخت شاہی کی نا اہلی اور نالائقی کی وجہ سے زیادہ تیز ہو گیا۔لیکن زوال کی اصل وجوہات کہیں اور تھیں۔اسپین کا شاہی خاندان تو بس اس کرپشن، اقربا پروری اور زوال کے ٹریجڈی_کامیڈی کھیل کے لازمی کردار تھے۔
اسپین نے، جو کہ یورپ کی پہلی متحدہ قومی ریاست اور وہاں کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت تھی،ان قوموں کے ہاتھوں شکست کھائی…ہالینڈ اور انگلینڈ ….. جو سرمایہ داری کے رستے پر چل پڑی تھیں اور جہاں بورژوازی سیاسی طاقت کی جدوجہد کر رہی تھی۔
وہ بے پناہ دولت جو ایک بر اعظم کے خون کا نچوڑ تھی تختِ شاہی اور درباریوں کی عشرت کا ساماں تھی۔محل کی دیواروں سے باہر بھوک، غربت اور مایوسی کا ایک سمندر تھا، جو اکثرمشتعل بغاوتوں کا باعث بنتا گیا۔
سنہرا دور
اس عہد میں اسپین تمام دنیا کا مرکز تھا۔ داخلی اور خارجی امور میں اتنا کچھ ہو رہا تھا کہ لوگ اسے حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔یہی اسپین کے سنہرے دور (El Siglo De Oro)کا اصل پس منظر تھا۔جتنا عروج اسپینش ادب کو اس دور میں ہوا اتنا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔اس دور کے بادشاہوں اور نوابوں نے بہت سے اعلیٰ پائے کے شاعروں، ناول نگاروں اور مصوروں کو اپنے زیرِ سایہ رکھا ہوا تھا۔ دنیا نے ادبی قابلیت کی اتنی بڑی کہکشاں کم ہی دیکھی ہے، جس میں سروینٹیز،فیلکس لوپے ڈی ویگا، فرانسسکو ڈی قویڈو، پیڈرو کالڈرن ڈی بارکا اور ٹرسو ڈی مولینا جیسے عظیم نام تھے۔ان اہم ناموں کا یہاں ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا۔
اس عہد کی ایک قابل، ذکر شخصیت لوپے ڈی ویگا ہے۔بے شک وہ سینٹانڈر کے ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن اس نے سروینٹیز کی طرح اپنی زندگی معاشی مشکلات میں ہی گزاری۔وہ اپنے دور کا آدمی تھا اور اس دور کی کامیابیوں اور ناکامیوں میں برابر کا شریک تھا۔اس نے ؑ ظیم آرمیڈا کینکام مہم میں بھی حصہ لیاتھا۔اس نے ایک میڈرڈ میں ایک نتیجہ کن ڈوئل لڑی جس کے بعد اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔اس نے دو شادیاں کیں ۔ دوسری بیوی کی وفات کے بعد اس نے رہبانیت اختیار کر لی۔وہ بہت سی دولت اکٹھی کر کے 1635میں وفات پا گیا۔
اس معلومات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ سروینٹیز کی طرح اس کی زندگی بھی مہمات، عشقیہ واقعات اور سفر سے بھرپور تھی۔ اس کی زندگی اتنی بھرپور تھی کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اسے لکھنے کا وقت کب ملتا تھا۔لیکن اس کے باوجود اس نے بہت بڑی تعداد میں لکھا__تقریباًدو ہزار ڈرامے جن کا ہسپانوی ادب میں کوئی ثانی نہیں۔ان میں سے آج 430موجود ہیں۔ ان میں Fuenteovejuna،El major alcalde،el Rey اور PErribanez o El Comendador de Ocanaجیسے کلاسیک شامل ہیں۔ اس نے نظموں، عشقیہ اور رزمیہ داستانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی کتابیں بھی لکھیں تھیں۔
ان میں سے کچھ کتابوں میں ہمیں اہم سیاسی اور سماجی عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔Fuenteovejunaمیں ہمیں ایک بغاوت کی حقیقی کہانی ملتی ہے اورPerribanez o El Comendador de Ocana دیہاتی اسپین میں جاگیرداری کے تعلقات کو سامنے لاتا ہے۔ اس میں عام لوگوں کو جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، لیکن بادشاہ کو لوگوں کی حمایت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔یہاں ہمیں قطعیت (absolutism)کا ادبی اظہار نظر آتا ہے۔ اسپین کے مطلق العنان بادشاہوں نے دوسروں کی طرح اشرافیہ کے بل بوتے پر طبقات میں توازن قائم کر کے اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔
لوپے کا ہم عصر میڈرو کالڈرن ڈی لا بارکا ایک ڈرامہ نگار، فلسفی اور مذہبی لکھاری تھا جس نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ’زندگی ایک خواب ہے‘(La Vida es Sueno) اور ’ زالامی کا مئیر‘(The Mayor of Zalamea)بھی لکھے۔ وہ اگر لوپے سے کم نہیں تو اس جتنا مشہور ضرور تھا۔ وہ 1600میں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ خزانے کا سیکرٹری تھا اور اس کی تعلیم سالامانکا اور الکالا ڈی ایناریس کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ہوئی۔بعد میں اس نے فلینڈرز اور 1640میں کیٹالان کی بغاوت کو کچلنے کی مہم میں حصہ لیا۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ اس کی کم از کم ایک ناجائز بیوی ضرور تھی جس میں سے اس کی ایک اولاد بھی تھی۔ لیکن 1651میں اس نے ایک مذہبی درسگاہ میں جانے کی خواہش ظاہر کی جسے فلپ چہارم کی ذاتی مداخلت کے باعث روکا گیا۔
کالڈرن کے ڈراموں میں ایک اخلاقی پہلو ضرور پایا جاتا ہے اور اس کے کردار اسی اخلاقی عنصرکے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔انہیں ایک خوشنما انداز میں لکھا گیا ہے۔ El Alcalde de Zalameaاور El Medico y su Honraکا بنیادی موضوع غیرت ہے۔یہ جاگیرداری دور کے دربار کا وہ آئیڈیل ہے جو نہ کبھی وجود رکھتا تھا اور نہ اس دور میں وجود رکھتا تھا۔ اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ فلپ چہارم جو رنڈیوں کا بادشاہ تھا اس کا بہت بڑا مداح تھا۔ اس کا سب سے مشہور کھیل ’زندگی ایک خواب ہے‘ کا عنوان اپنے دور کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔اسپین کا حکمران طبقہ ایک خواب میں زندگی گزار رہا تھا جس میں سے اس کو نہایت خوفناک انداز میں باہر آنا تھا۔
فرانسسکو ڈی قویڈو اسپین کے باہر اتنا مشہور نہیں ہے لیکن وہ اس سنہرے دور کا اہم ادیب ہے۔اس کا نام طنز سے جوڑا جاتا ہے۔اس نے اپنے پیچھے اپنے شاہکار ناول El Busconمیں اسپین کی ایک شفاف تصویر چھوڑی ہے جو غنڈوں اور بدمعاشوں کے ناول کے دور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی تصانیف کو ان کے ہلکے پھلکے مزاح اور تنقید کی وجہ سے جانا جاتا ہے جس کی جڑیں اسپین کے اس ٹریجک دور میں ہیں جس میں رہنا اور لکھنا اس کا مقدر تھا۔
قویڈو دیکھ رہا تھا کہ اسپین کا زوال دربار کی کرپشن اور نااہلی سے جڑا ہوا ہے۔وہ دربار میں اپنی نوجوانی کے تجربات کی بنا پر طفیلیوں کے اس گروہ سے بخوبی واقف تھا جس نے میڈرڈ میں آلیوارز پر قبضہ جمایا ہوا تھا۔31سال کی عمر میں اس نے اٹلی میں نیپلز جانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہاں پر آسونا کے ڈیوک کے سیکرٹری کا عہدہ سنبھال سکے، لیکن جب اس ڈیوک پر بدحالی کا دور آیا تو قویڈو کو قید اور جلاوطنی جیسے عذاب سہنے پڑے۔ایسے میں آلیوارز کا ڈیوک اس کی مدد کو پہنچا، جو مستقبل میں فلپ چہارم کا نائب بنا اور اس کے ساتھ قویڈو نے ساری عمر محبت اور نفرت کاعجیب سارشتہ بنائے رکھا۔
اس کی کتاب El Busconشاید سترھویں صدی کا سب سے بہترین غنڈوں اور بدمعاشوں کا ناول ہے۔اپنی کتاب’خواب‘(Suenos) میں وہ دربار او ر امراء کی زندگی بیان کرتا ہے۔یہ اس کے لئے اچھا ثابت نہ ہوا کیونکہ اس کے بعد اسے حکمران طبقے اورآلیوارز کے ڈیوک پر تنقید کے الزام میں قید کر دیا گیا۔ جب آلیوارز کے ڈیوک کا برا وقت آیا تو اسے رہا کر دیا گیا لیکن صرف دو سال بعد 1645میں وہ تنہائی کی حالت میں انتقال کر گیا۔
یہ فہرست کافی لمبی ہے۔ لیکن ہم اس دور کے صرف ایک اور ادیب کا ذکر کریں گے۔ٹرسو ڈی مولینا۔ یہ فریل گیبرئل ٹیلیزکا دوسرا نام تھا جو ایک پادری تھا اور جو ہمیں دنیا کے سب سے غیر اخلاقی شخص__ڈان یوان__کی لا فانی کہانی سناتا ہے۔ڈان یوان El Burlador de Sevillaکا مرکزی کردار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پادری عورتوں کی نفسیات سے بہت زیادہ واقف تھا۔اس کی Comedias de Enredoمیں مرکزی کردار ہمیشہ عورت کا ہوتا ہے۔
غنڈوں اوربدمعاشوں کے ناول
’’جاگیرداروں کے ملازموں کے گروہوں کے ٹوٹنے اوراور لوگوں کو زبردستی بے گھر کرنے کے نتیجے میں جس پرولتاریہ کی تخلیق ہوئی،اس آزاد پرولتاریہ کو نوزائیدہ مینوفیکچرر اپنے اندراتنی تیزی سے مدغم نہیں کر سکتا تھا جتنی تیزی سے وہ اس دنیا میں آ رہا تھا۔ دوسری جانب یہ لوگ اچانک روایتی زندگی سے علیحدہ ہونے کے باعث اپنے آپ کو نئی زندگی سے ہم آہنگ نہیں کر پا رہے تھے۔ وہ لوگ حالات کی ستم ظریفی کے باعث گروہوں کی شکل میں بھکاری، چور یا غنڈے بن گئے۔اس طرح پندرھویں صدی کے آخر میں اور پوری سولہویں صدی کے دوران پورے مغربی یورپ میں غنڈوں کے خلاف ظالم قانون بنائے گئے۔ آج کے محنت کشوں کے آباء کو مجبوراً غنڈہ اورمفلس بننے پر سزا دی گئی۔ قانون کے مطابق وہ ’’رضاکار‘‘ مجرم تھے، اور یہ فرض کر لیا گیا کہ انہیں نیک نیتی سے پرانے حالات میں کام کرنا چاہئے جو اب ناپید ہو چکے تھے۔‘‘(Marx, Capital, vol. one, chapter 28.)
یہ وہ دور تھاجب ادب میں ایک نئی ہسپانوی صنف کا جنم ہوا__ایسا ناول جس میں ہیرو ایک بدمعاش ہو اور قسط وار اس کی مہمات کو بیان کیا جائے۔ picaroایک دھوکہ باز ہوتاہے، ایک بدمعاش اور مہم جو ہوتا ہے جس کے پاس اپنی زندگی گزارنے کے لئے اپنی ذہنی قابلیت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ ایک خاص سماجی اور تاریخی دور کی پیداوار ہے،یعنی تغیر کا وہ دور جو جاگیرداری کے زوال کی وجہ سے آیا۔یہاں ہمیں دنیا کی تباہی کے عمل میں وہ سامان ملتا ہے جسے کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے پھینک دیا جاتا ہے۔ پرنی روایات کا زوال ایک بحران کو جنم دیتا ہے جس میں پرانی اخلاقیات دم توڑ رہی ہیں لیکن اس کی جگہ لینے کے لئے کچھ نہیں اس لئے ہمیںpicaro میں ایک خوشگوار nihilismملتا ہے۔
اس وقت کاہسپانوی معاشرہ ہمیں چوروں، بدمعاشوں اور دھوکہ بازوں کی ایک ایسی رنگ برنگی تصویر پیش کرتا ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پرت کا پورا فلسفہ ایک لفظ میں سمویا جا سکتا ہے__بقاء__زندگی ایک جنون ہے جو ہر ممکن طریقے سے اپنی بقاء کے ذرائع پیدا کرتی ہے۔ ان کا نصب العین ہے’’ہر انسان اپنے لئے ہے اور شیطان کو کمزور ترین لے جانے دو۔‘‘
پندرھویں صدی کے وسط کے بعدمیڈرڈایک ’’نہایت معزز اور وفادار شہر‘‘ اور اسپین کے دارالحکومت کے طور پر سامنے آیا۔ آبادی کا دباؤ بڑھنے لگاکیونکہ باہر کے لوگ اس طرح دربار کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے جیسے شہد کی مکھیاں شہد کی طرف آتی ہیں۔بدمعاشوں کا ناول اس وقت کے حالات کی درست تصویر پیش کرتا ہے جب جاگیر داری زوال پذیر تھی۔ تاجر کی دھوکہ بازی، سپاہیوں کا وحشیانہ پن، پادری کا جنون اور درباریوں کی کرپشنّّ__ یہ زندگی کی سادی حقیقتیں تھیں۔
یہ پیچیدہ عکس، درحقیقت، اس معاشرے کا اظہار ہے جب ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہو اور امتزاج ممکن نہ ہو۔ امراء کے ساتھ ساتھ، جن کے القاب بڑے بڑے تھے لیکن جیب خالی تھی وہاں فوج سے فارغ سپاہیوں،مہم جْو اور اپنے طبقے سے علیحدہ ہونے والے لوگوں کا ہجوم تھا ۔ دارالحکومت کی گلیاں ہر قسم کے مجرموں،فوج سے نکالے گئے سپاہیوں اور نام نہاد بہادروں سے بھری پڑی تھیں جو ہاتھ میں تلوار یا چاقو لئے ہوئے گھومتے تھے۔ وہ کسی لڑائی میں بھی اسی جذبے کے ساتھ شریک ہوتے جس جذبے کے ساتھ وہ کسی کی جیب اْڑاتے تھے۔چوروں کے گروہ کافی متحرک تھے اور رات کے اندھیرے میں باہر نکلنا بیوقوفی تھی۔ اس وقت کے تاریخ دان نے لکھا ہے:’’فرانس،جرمنی، اٹلی اور فلینڈرز کا کوئی بدقماش، لنگڑا، لولایا اندھا شخص نہ ہو گا جو کاسٹیل آکر آباد نہ ہو گیا ہو۔‘‘
اسی زمین سے Lazarillo de Tormes،Busconاور ڈان کیخوٹے جیسے شاہکاروں نے جنم لیا۔ ادبی صنف کے طور پر بدمعاشوں کے ناول کا آغاز بہادری اور جانبازی کے دور کے زوال کے ساتھ ہو،بالکل ویسے ہی جیسے ان انسانوں کا جنم جاگیرداری کے زوال کے ساتھ ہوا… یہ اسی خیال کو دوسرے انداز میں پیش کرنے کا طریقہ ہے۔ جاگیرداری کے زوال نے اس دور کی اقدار، اخلاقیات اور مثالی تصورات کے خلاف ردِ عمل پیدا کیا۔یہ ردِعمل اپنا اظہار طنز اور تضحیک میں کرتا ہے۔ ایک پرانانقطہ نظر، جو ختم ہو چکا ہوتضحیک کا نشانہ ہوتا ہے، اور اسی لئے مزاح کا باعث بھی بنتا ہے۔
ان صفحات پر ہر قسم کے لوگ جو مضبوط اور رنگ برنگے کردار رکھتے ہیں، بھرے پڑے ہیں۔بدمعاشوں کے ناول کے anti-hero،جیسا کہ Lazarillo de Tormesمیں ہے، بہادری اور جانبازی کی عشقیہ داستانوں کے ہیرو کامضحکہ خیز خاکہ ہے۔ ایک چمکتی ہوئی زرہ پہنے ہوئے نائٹ کی بجائے وہ ایک بد قماش بھکاری ہے–اس وقت کے اسپین کی عام شخصیت۔
یہاں ہمیں ادبی صنف کا ایک قابلِ پہچان حقیقی جنم ملتا ہے جو بعد میں لی سیج کے Gil Blas، فیلڈنگ کے Jonathan Wildeاور تھیکرے کےBarry Lyndonمیں بھی نظر آتا ہے۔کیخوٹے کے صفحات ان شخصیات اور مناظرسے بھرے پڑے ہیں جو زندگی کی کتاب سے لئے گئے ہیں۔ اس کتا ب کی اصل روح، اپنی حقیقت نگاری اور خوشگوار روشن خیالی کے باعث ردِ اصلاحات نہیں بلکہ انسانی نشاۃِ ثانیہ ہے ۔ یہاں ہماری آنکھیں اوپر آسمان کی جانب نہیں اٹھتیں بلکہ بلکہ نیچے زمین اور اس کے خزانوں کی طرف اٹھتی ہیں۔ اس کا نصب العین ہے’’ میں کسی انسانی عمل کو اپنے لئے اجنبی نہیں سمجھتا۔‘‘
کیخوٹے میں کوئی قومی عنصر نہیں ہے۔ یہ اپنی خالص ترین شکل میں ہسپانوی ہے۔ یہ کہیں اور نہیں لکھی جا سکتی تھی۔ یہاں دھوپ اور سائے کا وہ تضادد ملتا ہے جو اسپین کی زمین کا خاصہ ہے اور اسپین کی زندگی اور لوگوں کے کردار کا حصہ ہے۔لیکن یہ وضاحت، جو کہ صحیح بھی ہے، سوال کا جواب فراہم نہیں کرتی۔کوئی بھی سروینٹیز کی کردار نگاری کو قومی بنیادوں پر وضاحت نہیں کر سکتا۔ سروینٹیز کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے اس کے سماجی، معاشی اور تاریخی پس منظر میں دیکھیں۔
مارکس ہی وہ شخص تھا جس نے ہمیں بتایا کہ تاریخی تغیر کے ادوارکرداروں کے حوالے سے بہت زرخیز ہوتے ہیں۔ یہ شیکسپئر کے لئے بھی اتنا ہی صحیح ہے جتنا سروینٹیز کے لئے۔ شیکسپئر کا انگلستان اور سروینٹیز کا اسپین عظیم سماجی اور معاشی تبدیلی کے دور سے گزر رہے تھے۔ یہ نہایت تکلیف دہ اور تباہ کن تبدیلی تھی جس نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت میں دھکیل دیا اور قصبوں میں lumpenپرولتاریہ کے ایک بڑے طبقے کو جنم دیا یعنی بھکاری، چور، رنڈیاں اور اس طرح کے دوسرے لوگ جو بدحال امراء اور برخاست کئے گئے پادریوں کے شانہ بشانہ زندگی گزارتے تھے اور Sir John Falstaff اور Lazarillo de Tormesجیسے کرداروں کی تخلیق کی آماجگاہ بنے۔
ڈان کیخوٹے میں بادہ خانوں میں نچلے طبقے کی زندگی کے بے حد مزاحیہ اور غیر شائستہ مناظر ناول کو زندگی اور رنگ سے نوازتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس تاریخی دور کی صحیح عکاسی بھی کرتے ہیں۔اسپین کے عام لوگ اتنے ہی زندہ دل اور پْر جوش ہیں جتنی اس وقت کی اشرفیہ مردہ دل اور بد نما۔ ڈان کیخوٹے کا مرکزی خیال جاگیرداری کے زوال کے دور میں اسپین کے بارے میں ایک تاریخی سچائی رکھتا ہے۔ جانبازی کے خیالات نوزائیدہ سرمایہ داری معیشت کے دور میں مضحکہ خیز اور بوسیدہ لگتے ہیں جہاں تمام سماجی رشتے، اخلاقیات اور اقدار صرف پیسے کے برہنہ تعلق سے طے ہوتی ہیں۔