| تحریر: سعادت حسن منٹو |
یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔
پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظر میں اسکی بڑی توقیر تھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اور سمجھدار سپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ برآہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پرواہ صرف ایک ہی لگن تھی دشمن کا صفایا کر دینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا تو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست نظر آتے، بڑے بغلی قسم کے دوست جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمن سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔
صوبیدار رب نواز سوچتا تھا کہ یہ سب خواب تو نہیں۔ پچھلی بڑی جنگ کا اعلان۔ ۔ ۔ بھرتی، قد اور چھاتیوں کی پیمائش، پی ٹی، چاند ماری اور پھر محاذ۔ ۔ ۔ ادھر سے اُدھر، اُدھر سے ادھر، آخر جنگ کا خاتمہ۔ ۔ ۔ پھر ایک دم پاکستان کا قیام اور ساتھ ہی کشمیر کی لڑائی۔ اوپر تلے کتنی چیزیں۔ رب نواز سوچتا تھا کہ کرنے والے نے یہ سب کچ سوچ سمجھ کر کیا ہے تا کہ دوسرے بوکھلا جائیں اور سمجھ نہ سکیں۔ ورنہ یہ بھی کوئی بات تھی کہ اتنی جلدی اتنے بڑ ے انقلاب برپا ہو جائیں۔
اتنی بات تو صوبیدار رب نواز کی سمجھ میں آ تی تھی کہ وہ کشمیر حاصل کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کیوں حاصل کرنا ہے، یہ بھی وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس لیے کہ پاکستان کی بقا ء کیلئے اسکا الحاق اشد ضروری ہے، مگر نشانہ باندھتے ہوئے جب اسے کوئی جانی پہچانی شکل نظر آجاتی تھی تو وہ کچھ دیر کیلئے بھول جاتا تھا کہ وہ کسی غرض کیلئے لڑ رہا ہے، کس مقصد کیلئے اس نے بندوق اُٹھائی ہے۔ اور وہ یہ غالباً اسی لیے بھولتا تھا کہ اسے بار بار خود کو یاد کروانا پڑتا تھا کہ اب کہ وہ صرف تنخواہ، زمین کے مربعوں اور تمغوں کیلئے نہیں بلکہ اپنے مُلک کی خاطر لڑ رہا ہے۔ یہ وطن پہلے بھی اسکا وطن تھا، وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا جو اب پاکستان کا ایک حصّہ بن گیا تھا۔ اب اسے اپنے اسی ہم وطن کے خلاف لڑنا تھا جو کبھی اسکا ہمسایہ ہوتا تھا۔ جس کے خاندان سے اس کے خاندان کے پشت ہا پشت کے دیرینہ مراسم تھے۔ اب اسکا وطن وہ تھا جس کا پانی تک اس نے کبھی نہیں پیا تھا، پر اب اس کی خاطر، ایک دم اس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ حُکم دے دیا گیا تھا کہ جاؤ، یہ جگہ جہاں ابھی تم نے اپنے گھر کیلئے دو اینٹیں بھی نہیں چُنیں‘جس کی ہوا اور جس کے پانی کا مزا ابھی تک تمہارے منہ میں ٹھیک طور نہیں بیٹھا، تمہارا وطن ہے۔ ۔ ۔ جاؤ اس کی خاطر پاکستان سے لڑو۔ ۔ ۔ اُس پاکستان سے جس کے عین دل میں تم نے اپنی عُمر کے اتنے برس گزارے ہیں۔
رب نواز سوچتا تھا کہ یہی حال ان مسلمان فوجیوں کا ہے جو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں ان سب سے سب کچھ چھین لیا گیاتھا۔ یہاں آ کر انہیں اور تو کچھ نہیں ملا، البتّہ بندوقیں مل گئی ہیں۔ اُسی وزن کی، اُسی شکل کی، اُسی مارکہ اور چھاپ کی۔
پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن کے خلاف لڑتے تھے جن کو انہوں نے پیٹ اور انعام و اکرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کر لیا تھا۔ اب وہ خود دو حصّوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوجی کہلاتے تھے۔ اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوجی تھے، رب نواز جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کے دماغ میں ایک عجیب گڑ بڑ سی پیدا ہو جاتی۔ اور جب وہ کشمیر کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا۔ ۔ ۔ پاکستانی فوجی کشمیر کیلئے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مُسلمانوں کیلئے؟اگر انہیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کیلئے لڑایا جاتا تھا تو حیدر آ با د اور جونا گڑ ھ کے مسلمانوں کیلئے کیوں انہیں لڑنے کیلئے نہیں کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ جنگ ٹھیٹھ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی مُلک ہیں وہ اس میں کیوں حصّہ نہیں لیتے۔
رب نواز بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ باریک باریک باتیں فوجی کو بالکل نہیں سوچنی چاہئیں۔ اس کی عقل موٹی ہونی چاہیے۔ کیوں کہ موٹی عقل والا ہی اچھا سپاہی ہو سکتا ہے، مگر فطرت سے مجبور کبھی کبھی وہ چور دماغ سے ان پر غور کر ہی لیتا تھااور بعد میں اپنی اس حرکت پر خوب ہنستا تھا۔
دریائے کشن گنگا کے کنارے اس سڑک کیلئے جو مظفر آ باد سے کرن جاتی ہے، کچھ عرصے سے لڑ ائی ہو رہی تھی۔ ۔ ۔ عجیب و غریب لڑائی تھی۔ رات کو بعض اوقات آس پاس کی پہاڑیاں فائروں کی بجائے گندی گالیوں سے گونج اُٹھتی تھیں۔
ایک مرتبہ صوبیدار رب نواز اپنی پلٹون کے جوانوں کے ساتھ شب خون مارنے کیلئے تیار ہو رہا تھا کہ دور نیچے ایک کھائی سے گالیوں کا شور اُٹھا۔ پہلے تو وہ گھبرا گیا۔ ایسے لگتا تھا کہ بہت سے بھوت مل کر ناچ رہے ہیں اور زور زور کے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ بڑبڑایا: ’’خنزیر کی دُم…. یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘
ایک جوان نے گونجتی ہوئی آ واز سے مخاطب ہو کر یہ بڑی گالی دی اور رب نواز سے کہا ’’ صوبیدار صاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ اپنی ماں کے یار۔‘‘
رب نواز یہ گالیاں سن رہا تھا جو بہت اُکسانے والی تھیں۔ اس کے جی میں آئی کہ بزن بول دے مگر ایسا کرنا غلطی تھی، چنانچہ وہ خاموش رہا۔ کچھ دیر جوان بھی چُپ رہے، مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو اُنہوں نے بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر گالیاں لڑھکانا شروع کر دیں…. رب نواز کیلئے اس طرح کی لڑائی بالکل نئی چیز تھی۔ اس نے نوجوانوں کو دو تین مرتبہ خاموش رہنے کیلئے کہا، مگر گالیاں ہی کچھ ایسی تھیں کہ جواب دیے بنا انسان سے نہیں رہا جاتا تھا۔
دشمن کے سپاہی نظر سے اوجھل تھے۔ رات کو تو خیر اندھیرا تھا، مگر وہ دن کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ صرف ان کی گالیاں نیچے پہاڑی کے قدموں سے اُٹھتی تھیں اور پتھروں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر ہوا میں چلی جاتی تھیں۔ رب نواز کی پلاٹون کے جوان جب ان گالیوں کا جواب دیتے تھے تو اس کو ایسے لگتا تھا کہ وہ نیچے نہیں جاتیں، اوپر کو اُڑ جاتی ہیں۔ اس سے اس کو خاصی کوفت ہوتی تھی… چنانچہ اس نے جھنجھلا کر حملہ کرنے کا حُکم دے دیا۔
رب نواز کو وہاں کی پہاڑیوں میں ایک عجیب سی بات نظر آئی تھی۔ چڑھائی کی طرف کوئی پہاڑی درختوں اور بوٹوں سے لدی پھُدی ہوئی تھی اور اُترائی کی طرف گنجی۔ کشمیری بتو کے سر کی طرح۔ کسی کی چڑھائی کا حصّہ گنجا ہوتا تھا اور اُترائی کی طرف درخت ہی درخت ہوتے تھے۔ چیڑ کے لمبے تناور درخت، جن کے بٹے ہوئے دھاگے جیسے پتّوں پر فوجی بُوٹ پھسل پھسل جاتے تھے۔
جس پہاڑی پر صوبیدار رب نواز کی پلاٹون تھی، اس کی اُترائی درختوں اور جھاڑیوں سے بے نیاز تھی۔ ظاہر ہے حملہ بہت ہی خطرناک تھا مگر سب جوان بخوشی تیار تھے۔ گالیوں کا انتقام لینے کیلئے وہ بہت بے تاب تھے۔ حملہ ہوا اور کامیاب رہا۔ دو جوان مر گئے۔ چار زخمی ہوئے۔ دشمن کے تین آدمی کھیت رہے۔ باقی رسد کا کچھ سامان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
صوبیدار رب نواز اور اس کے جوانوں کو اس بات کا بڑا ہی دُکھ تھا کہ دشمن کا کوئی زندہ سپاہی ان کے ہاتھ نہ آ یا جس کو وہ خاطرخواہ گالیوں کا مزا چکھاتے۔ مگر مورچہ فتح کرنے سے وہ ایک بڑی اہم پہاڑی پر قابض ہو گئے تھے۔ وائر لیس کے ذریعے سے صوبیدار رب نواز نے پلاٹون کمانڈر میجر اسلم کو فوراً ہی اپنے اس حملے کے نتیجے سے مطلع کر دیا تھا اور شاباش وصول کر لی تھی۔
قریب قریب ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک تالاب سا ہوتا تھا۔ اس پہاڑی پر بھی تالاب تھا، مگر دوسری پہاڑیوں کے تالابوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا۔ اس کا پانی بھی بہت صاف اور شفاف تھا۔ گو موسم بہت سرد تھا مگر سب نہائے۔ دانت بجتے رہے مگر اُنہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ ابھی اس شغل میں مصروف تھے کہ فائر کی آواز آئی۔ سب ننگے ہی لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد صوبیدار رب نواز نے دوربین لگا کر نیچے ڈھلوانوں پر نظر دوڑائی، مگر اسے دشمن کی چھُپنے کی جگہ کا پتہ نہ چلا۔ اس کے دیکھتے دیکھتے ایک اور فائر ہوا۔ دور اُترائی کے فوراً بعد ایک نسبتاًچھوٹی پہاڑی کی داڑھی سے اسے دھواں اُٹھتا نظر آیا۔ اس نے فوراً ہی اپنے جوانوں کو فائر کا حُکم دیا۔
ادھر سے دھڑا دھڑ فائر ہوئے۔ اُدھر سے بھی جوابأ گولیاں چلنے لگیں …. صوبیدار رب نواز نے دوربین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ غالبأ بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی۔ زیادہ دیر تک وہ جمے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی اِدھر اُدھر ہٹتا، اس کا صوبیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔
تھوڑی دیر فائر ہوتے رہے۔ اس کے بعد رب نواز نے اپنے جوانوں کو منع کر دیاکہ وہ گولیاں ضائع نہ کریں صرف تاک میں رہیں۔ جونہی دشمن کا کوئی سپاہی پتھروں کی دیوار سے نکل کر اٖدھر یا اُدھرجانے کی کوشش کرے اس کو اُڑا دیں۔ یہ حُکم دے کر اس نے اپنے الف ننگے بدن کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا : ’’خنزیر کی دُم… کپڑوں کے بغیر آدمی حیوان معلو م ہوتا ہے۔‘‘
لمبے لمبے وقفوں کے بعد دشمن کی طرف سے اٖکّا دُکّا فائر ہوتا رہا۔ یہاں سے اس کا جواب کبھی کبھی دے دیا جاتا۔ یہ کھیل پورے دو دن جاری رہا…. موسم یک لخت بہت سرد ہو گیا۔ اس قدر سرد کہ دن کو بھی خون منجمد ہونے لگتا تھا، چنانچہ صوبیدار رب نواز نے چائے کے دور شروع کروا دیئے۔ ہر وقت آگ پر کیتلی دھری رہتی۔ جونہی سردی زیادہ ستاتی ایک دور اس گرم گرم مشروب کا ہو جاتا۔ ویسے دشمن پر برابر نگاہ تھی۔ ایک ہٹتا تو دوسرا اس کی جگہ دوربین لے کر بیٹھ جاتا۔
ہڈیوں تک اُتر جانے والی سرد ہوا چل رہی تھی۔ جب اس جوان نے جو پہرے دار تھا، بتایا کہ پتھروں کی دیوار کے پیچھے کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے، صوبیدار رب نواز نے اس سے دوربین لی اور اسے غور سے دیکھا۔ اسے حرکت نظر نہ آئی لیکن فورأ ہی ایک آواز بلند ہوئی اور دیر تک اس کی گونج آس پاس کی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی۔ رب نواز اس کا مطلب نہ سمجھا۔ اس کے جواب میں اس نے اپنی بندوق داغ دی۔ اس کی گونج دبی تو پھر اُدھر سے آ واز بلند ہوئی، جو صاف طور پر ان سے مخاطب تھی۔ رب نواز چلّایا:’’خنزیر کی دُم۔ بول کیا کہتا ہے تُو!‘‘
فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ رب نواز کے الفاظ دشمن تک پہنچ گئے۔ کیوں کہ وہاں سے کسی نے کہا۔ ’’گالی نہ دے بھائی۔‘‘
رب نواز نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا اور بڑے جھنجھلائے ہوئے تعجّب کے ساتھ کہا’’ بھائی؟…‘‘ پھر وہ اپنے منہ کے آگے ہاتھوں کا بھونپا بنا کر چلایا ’’بھائی ہو گا تیری ماں کا جنا…. یہاں سب تیری ماں کے یار ہیں!‘‘
ایک دم اُدھر سے ایک زخمی آواز بلند ہوئی۔ ’’رب نواز!‘‘
رب نواز کانپ گیا…..یہ آواز آس پاس کی پہاڑیوں سے اپنا سر پھوڑتی رہی اور مختلف انداز میں رب نواز… رب نواز دہراتی بالآخر خون منجمد کر دینے والی سرد ہوا کے ساتھ جانے کہاں اُڑ گئی۔
رب نواز بہت دیر کے بعد چونکا ’’یہ کون تھا۔‘‘ پھر آہستہ سے بڑ بڑایا: ’’ خنزیر کی دُم!‘‘
اس کو اتنا معلوم تھا ٹیٹوال کے محاذ پر سپاہیوں کی اکثریت 2/9 رجمنٹ کی ہے۔ وہ بھی اسی رجمنٹ میں تھا۔ مگر یہ آ واز تھی کس کی؟وہ ایسے بے شمار آدمیوں کو جانتا تھا جو کبھی اس کے عزیز ترین دوست تھے۔ کچھ ایسے بھی جن سے اس کی دشمنی تھی، چند ذاتی اغراض کی بنا ء پر۔ لیکن یہ کون تھا جس نے ا س کی گالی کا بُرا مان کر اسے چیخ کر پکارا تھا۔
رب نواز نے دوربین لگا کر دیکھا، مگر پہاڑی کی ہلتی ہوئی چھدری داڑھی میں اسے کوئی نظر نہ آیا۔ دونوں ہاتھوں کا بھونپا بنا کر اس نے اپنی آواز ادھر پھینکی ’’یہ کون تھا؟… رب نواز بول رہا ہے…. رب نواز… رب نواز۔‘‘
یہ رب نواز، بھی کچھ دیر تک پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتا رہا۔ رب نواز بڑ بڑایا۔ ’’خنزیر کی دُم !‘‘ فورأ ہی اُدھر سے آ واز بلند ہوئی’’ میں ہوں ….. میں ہوں رام سنگھ!‘‘
رب نواز یہ سُن کر یوں اُچھلا جیسے وہ چھلانگ لگا کر دوسری طرف جانا چاہتا ہے۔ پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’ رام سنگھ؟… اوئے رام رام سنگھا …. خنزیر کی دُم!‘‘
’’ خنزیر کی دُم‘‘ ابھی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر گُم نہیں ہوئی تھی کہ رام سنگھ کی پھٹی پھٹی آ واز بلند ہوئی۔ ’’ اوئے کمہار کے کھوتے!‘‘
رب نواز پھوں پھوں کرنے لگا۔ جوانوں کی طرف رعب دار نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بڑ بڑایا۔ ’’ بکتا ہے… خنزیر کی دُم!‘‘ پھر اس نے رام سنگھ کو جواب دیا۔ ’’ ارے بابا ٹل کے کڑاہ پرشاد… اوئے خنزیر کے جھٹکے۔‘‘
رام سنگھ بے تحاشا قہقہے لگانے لگا۔ رب نواز بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ پہاڑیاں یہ آ وازیں بڑے کھلنڈرے انداز میں ایک دوسرے کیطرف اُچھالتی رہیں…. صوبیدار رب نواز کے جوان خاموش تھے۔
جب ہنسی کا دورہ ختم ہوا تو اُدھر سے رام سنگھ کی آواز بلند ہوئی’’ دیکھو یار۔ ہمیں چائے پینی ہے!‘‘
رب نوازبولا ’’ پیو… عیش کرو۔‘‘
رام سنگھ چلایا ’’ اوئے عیش کس طرح کریں …. سامان تو ہمارا اُدھر پڑا ہے۔‘‘
رب نواز نے پوچھا ’’کدھر؟‘‘
رام سنگھ کی آواز آئی ’’ اُدھر…. جدھر تمہارا فائر ہمیں اُڑا سکتا ہے۔‘‘
رب نواز ہنسا’’ تو کیا چاہتے ہو تم… خنزیر کی دُم!‘‘
رام سنگھ بولا ’’ ہمیں سامان لے آ نے دے‘‘۔
’’لے آ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے جوانوں کیطرف دیکھا۔
رام سنگھ کی تشویش بھری آواز بلند ہوئی ’’ تُو اُڑا دے گا، کمہار کے کھوتے!‘‘
رب نواز نے بھنا کر کہا’’ بک نہیں اوئے سنتوکھ سر کے کچھوے۔‘‘
رام سنگھ ہنسا’’قسم کھا نہیں مارے گا!‘‘
رب نواز نے پوچھا ’’کس کی قسم کھاؤ ں۔‘‘
رام سنگھ نے کہا ’’ کسی کی بھی کھا لے!‘‘
رب نواز ہنسا’’ اوئے جا …. منگوا لے اپنا سامان۔‘‘
چند لمحات خاموشی رہی، دوربین ایک جوان کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے صوبیدار رب نواز کی طرف دیکھا۔ بندوق چلانے ہی والا تھا کہ رب نواز نے اسے منع کر دیا۔ ’’نہیں….نہیں!‘‘
پھر اس نے دوربین لے کر خود دیکھا۔ ایک آدمی ڈرتے ڈرتے پنجوں کے بل پتھروں کے عقب سے نکل کر جا رہا تھا۔ تھوڑی دُور اس طرح چل کر وہ اُٹھااور تیزی سے بھاگا اور کچھ دُور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ دو منٹ کے بعد واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا۔ ایک لحظے کیلئے وہ رُکا۔ پھر تیزی سے پتھروں کی محفوظ دیوار کی طرف بھاگا اور بالآخر وہاں پہنچ گیا۔ وہ نظروں سے اجھل ہوا تو رب نواز نے اپنی بندوق چلا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ہی رب نواز کا قہقہہ بلند ہوا۔ یہ دونوں آوازیں مل کر کچھ دیر جھنجھناتی رہیں۔ پھر رام سنگھ کی آواز آئی ’’ ’’تھینک یو۔‘‘
’’نو مینشن۔‘‘ رب نواز نے یہ کہہ کر جوانوں کی طرف دیکھا۔ ’’ ایک راؤنڈ ہو جائے۔‘‘
تفریح کے طور پر دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں …. پھر خاموشی ہو گئی۔ رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا۔ پہاڑی کی داڑھی میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ وہ پکارا۔ ’’ چائے تیار کر لی رام سنگھا؟‘‘
جواب آیا۔ ’’ ابھی کہاں اوئے کمہار کے کھوتے!‘‘
رب نواز ذات کا کمہار تھا۔ جب کوئی اس کی طرف اشارہ کرتا تھا تو غُصّے سے اس کا خون کھولنے لگتا تھا۔ ایک صرف رام سنگھ کے منہ سے وہ اسے برداشت کر لیتا تھا اس لیے کہ وہ اس کا بے تکلف دوست تھا۔ ایک ہی گاؤں میں وہ پل کر جوان ہوئے تھے۔ دونوں کی عمر میں صرف چند دن کا فرق تھا۔ دونوں کے باپ، پھر اُن کے باپ بھی آپس میں دوست تھے۔ ایک ہی سکول میں پرائمری تک پڑھے تھے اور پھر ایک ہی دن فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور پچھلی بڑی جنگ میں کئی محاذوں پر اکٹھے لڑے تھے۔
رب نواز اپنے جوانوں کی نظروں میں خود کو خفیف محسوس کر کے بڑبڑایا: ’’ خنزیر کی دُم …. اب بھی باز نہیں آتا۔‘‘ پھر وہ را سنگھ سے مخاطب ہوا ’’ بک نہیں اوئے کھوتے کی جوں۔‘‘
رام سنگھ کا قہقہہ بلند ہوا۔ رب نواز نے ایسے ہی شست باندھی ہوئی تھی۔ تفریحأ اس نے لبلی دبا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ رب نواز نے فورأ دوربین لگائی اور دیکھا ایک آدمی، نہیں، رام سنگھ پیٹ پکڑے، پتھروں کی دیوار سے ذرا ہٹ کر دوہرا ہوا اور گر پڑا۔
رب نواز زور سے چیخا’’ رام سنگھ!‘‘ اور اُٹھ کر کھڑا ہو گیا، اُدھر سے بیک وقت تین چار فائر ہوئے۔ ایک گولی رب نواز کا دایاں بازو چاٹتی ہوئی نکل گئی۔ فورأ ہی وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے فائر شروع ہو گئے۔ اُدھر کچھ سپاہیوں نے گڑ بڑ سے فائدہ اُٹھا کر پتھر کی عقب سے نکل بھاگنا چاہا۔ ادھر سے فائر جاری تھے۔ مگر نشانے پر کوئی نہ بیٹھا۔ رب نواز نے اپنے جوانوں کو اُترنے کا حُکم دیا۔ تین فورأ ہی مارے گئے مگر افتاں ہ خیزاں باقی جوان دوسری پہاڑی پر پہنچ گئے۔
رام سنگھ خون میں لت پت پتھریلی زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔ گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔ رب نواز کو دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتا اُٹھیں۔ مسکرا کر اس نے کہا۔ ’’ اوئے کمہار کے کھوتے، یہ تُو نے کیا کیا۔‘‘
رب نواز رام سنگھ کا زخم اپنے پیٹ میں محسوس کر رہا تھا۔ لیکن وہ مسکرا کر اس پر جھُکا اور دو زانو ہو کر اس کی پیٹی کھولنے لگا۔ ’’ خنزیر کی دُم، تم سے کس نے باہر نکلنے کو کہا تھا۔‘‘
پیٹی اُتارنے سے رام سنگھ کو سخت تکلیف ہوئی۔ درد سے وہ چلّا چلّا پڑا۔ جب پیٹی اتر گئی اور رب نواز نے زخم کا معائنہ کیا جو بہت خطرناک تھا تو رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ دبا کر کہا’’ میں اپنا آپ دکھانے کیلئے باہر نکلا تھا کہ تُو نے……. اوئے رب کے پتر فائر کر دیا۔‘‘
رب نوازکا گلا رندھ گیا۔ ’’قسم وحدہ لا شریک کی…. میں نے ایسے ہی بندوق چلائی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھاکہ تُو کھوتے کا سنگھ باہر نکل رہا ہے….. مجھے افسوس ہے!‘‘
رام سنگھ کا خون کافی بہہ نکلا تھا۔ رب نواز اور اسے ساتھی کئی گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ اس عرصے تک تو ایک پوری مشک خون کی خالی ہو سکتی تھی۔ رب نواز کو حیرت تھی کہ اتنی دیر تک رام سنگھ زندہ رہ سکا۔ اس کو امید نہیں تھی کہ وہ بچے گا۔ ہلانا جلانا غلط تھا، چنانچہ اس نے فورأ وائرلیس کے ذریعے پلاٹون کمانڈر سے درخواست کی کہ جلدی ایک ڈاکٹر روانہ کیا جائے۔ اس کا دوست رام سنگھ زخمی ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر کا وہاں تک پہنچنا اور پھر وقت پر پہنچنا محال تھا۔ رب نواز کو یقین تھا کہ رام سنگھ صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ پھر بھی وائرلیس پر پیغام پہنچا کر اس نے مسکرا کر رام سنگھ سے کہا ’’ ڈاکٹر آ رہا ہے… کوئی فکر نہ کر۔‘‘
رام سنگھ بڑی نحیف آواز میں سوچتے ہوئے بولا’’ فکر کسی بات کی نہیں …. میرے کتنے جوان مارے ہیں تم لوگوں نے؟‘‘
رب نواز نے جواب دیا’’ صرف ایک!‘‘
رام سنگھ کی آواز اور زیادہ نحیف ہو گئی’’ تیرے کتنے مارے گئے؟‘‘
رب نواز نے جھوٹ بولا’’چھ!‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے معنی خیز نظروں سے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔
’’چھ….چھ‘‘ رام سنگھ نے ایک ایک آدمی اپنے دل میں گنا۔ ’’ میں زخمی ہوا تو وہ بہت بد دل ہو گئے تھے…. پر میں نے کہا …. کھیل جاؤ اپنی اور دشمن کی جان سے…. چھ … ٹھیک ہے!‘‘وہ پھر ماضی کے دھندلکوں میں چلا گیا۔ ’’رب نواز… یاد ہیں وہ دن تمہیں…..‘‘
اور رام سنگھ نے بیتے دن یاد کرنا شروع کر دیئے۔ کھیتوں کھلیانوں کی باتیں۔ سکول کے قصّے۔ 2/9 رجمنٹ کی داستانیں…. کمانڈنگ افسروں کے لطیفے اور باہر کے ملکوں میں اجنبی عورتوں سے معاشقے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے رام سنگھ کو کوئی بہت دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ہنسنے لگا تو اس کے ٹیس اُٹھی مگر اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ زخم سے اوپر ہی اوپر ہنس کر کہنے لگا’’ اوئے سور کے نل…. یاد ہے تمہیں وہ میڈم…‘‘
رب نواز نے پوچھا ’’کون؟‘‘
رام سنگھ نے کہا ’’ وہ …. اٹلی کی…. کیا نام رکھا تھا ہم نے اُس کا…. بڑی مارخور عورت تھی!‘‘
رب نواز کو فورأ ہی وہ عورت یاد آ گئی۔ ’’ہاں، ہاں….وہ……میڈم منیتا فنتیو….. پیسہ ختم، تماشہ ختم…… پر تجھ سے کبھی کبھی رعایت کر دیتی تھی مسولینی کی بچی!‘‘
رام سنگھ زور سے ہنسا … اور اس کے زخم سے جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا نکل آیا۔ سرسری طور پر رب نواز نے جو پٹّی باندھی تھی۔ وہ کھسک گئی تھی۔ اسے ٹھیک کر کے اس نے رام سنگھ سے کہا ’’ اب خاموش رہو۔‘‘
رام سنگھ کو بہت تیز بُخار تھا۔ اس کا دماغ اس کے باعث بہت تیز ہو گیا تھا۔ بولنے کی طاقت نہیں تھی مگر بولے چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی رُک جاتا۔ جیسے یہ دیکھ رہا ہے کہ ٹینکی میں کتنا پٹرول باقی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی، لیکن کچھ ایسے وقفے بھی آتے تھے کہ اس کے ہوش و حواس سلامت ہوتے تھے۔ انہی وقفوں میں اس نے ایک مرتبہ رب نواز سے سوال کیا۔ ’’یار سچو سچ بتا، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیئے !‘‘
رب نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا ’’ ہاں، رام سنگھا!‘‘
رام سنگھ نے اپنا سر ہلایا۔ ’’ نہیں…. میں نہیں مان سکتا…. تمہیں ورغلایا گیا ہے۔‘‘
رب نواز کو اس کو یقین دلانے کے انداز میں کہا’’ تمہیں ورغلایا گیا ہے… قسم پنج تن پاک کی…‘‘
رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ قسم نہ کھا یارا …. ٹھیک ہو گیا۔‘‘لیکن اس کا لہجہ صاف بتا رہا تھا کہ اسے رب نواز کی قسم کا یقین نہیں۔
دن ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے پلاٹون کمانڈ نٹ میجر اسلم آیا۔ اس کے ساتھ چند سپاہی تھے، مگر ڈاکٹر نہ تھا۔ رام سنگھ بے ہوشی اور نزع کی حالت میں کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔ مگر آواز اس قدر کمزور اور شکستہ تھی کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ میجر اسلم بھی 2/9 رجمنٹ کا تھا اور رام سنگھ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ رب نواز سے سارے حالات دریافت کرنے کے بعداس نے رام سنگھ کو بلایا…….’’رام سنگھ…….رام سنگھ!‘‘
رام سنگھ نے اپنی آنکھیں کھولیں لیٹے لیٹے اٹینشن ہو کر اس نے سلیوٹ کیا لیکن پھر آنکھیں کھول کر اس نے ایک لحظے کے لیے غور سے میجر اسلم کی طرف دیکھا۔ اس کا سلیوٹ کرنے والا اکڑا ہوا ہاتھ ایک دم گر پڑا۔ جھنجھلا کر اس نے بڑبڑانا شروع کیا۔ ’’کچھ نہیں اوئے رام سایاں….. بھول ہی گیا تو سور کے نلّا……کہ یہ لڑائی…….یہ لڑائی؟‘‘
رام سنگھ اپنی بات پوری نہ کر سکا۔ بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے اس نے رب نوازکی طرف نیم سوالیہ انداز میں دیکھا اور سرد ہو گیا۔
17 اکتوبر 1951ء