|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
چاروں صوبوں اور وفاق کے چھوٹے سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم اگیگا (آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس) اور دیگر ملازمین و محنت کش تنظیموں کے مسلسل احتجاج کے دباؤ کے تحت وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں کچھ اضافے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اضافہ پچھلے کچھ عرصے میں آنے والے افراط زر اور مہنگائی کے طوفان کے مقابلے میں تو بہت کم تھا لیکن پھر بھی یہ اجرتوں میں اضافے کی مسلسل جدوجہد میں ایک اہم قدم ضرور تھا جو کہ صرف ملازمین تنظیموں، خصوصاً اگیگا کے احتجاجوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے چھوٹے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں رننگ بیسک پے کے 35 فیصد کے برابر اور پنشنوں میں رننگ پنشن کے 17.5 فیصد کے برابر اضافہ کیا۔ وفاقی حکومت کی پیروی میں کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے بھی تنخواہوں اور پنشنوں میں اتنا ہی اضافہ کیا لیکن پنجاب کی نگران حکومت نے ملازمین کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے تنخواہوں میں اضافے کو رننگ بیسک کی بجائے ابتدائی بیسک پے کے 30 فیصد اور اسی طرح پنشن میں اضافے کو رننگ پنشن کے پانچ فیصد تک محدود کر دیا جو کہ پنجاب کے چھوٹے سرکاری ملازمین کے ساتھ ایک سفاکانہ مذاق کرنے کے مترادف تھا۔
مزید برآں پنجاب حکومت نے مزدور دشمنی میں مزید ایک قدم آگے جاتے ہوئے ریٹائرمنٹ پر ملنے والے ایک اہم بینیفٹ (لیو انکیشمنٹ) کے قوانین میں بھی ایسی تبدیلیاں کیں جو ملازمین کے حقوق پر سیدھا ڈاکہ ڈالنے کے مترادف تھیں۔ پنجاب نگران حکومت کی اس مزدور دشمنی کے خلاف اگیگا پنجاب نے 10جولائی کو سول سیکرٹریٹ لاہور کے سامنے ایک زبردست احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا جس میں دیگر صوبوں سے اگیگا قائدین اور خاص کر فیڈرل اگیگا کی مرکزی قیادت نے بھی شرکت کی۔ اس دھرنے میں پنجاب کے طول وعرض سے آنے والے درجنوں سرکاری محکموں کے ہزاروں ملازمین و محنت کشوں نے شرکت کی جس میں لیڈی ہیلتھ ورکرز، کلرکس، آفس سٹاف اور اساتذہ قابل ذکر ہیں۔
یہ ملازمین شدید گرمی اور حبس کے موسم میں پانچ دن یعنی 14 جولائی تک دن رات دھرنے پر بیٹھے رہے۔ ابتدا میں تو پنجاب حکومت نے اس احتجاج کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور اس کا میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا، لیکن بالآخر ملازمین کی جرات، ثابت قدمی اور احتجاج کے صوبے کے دیگر شہروں میں پھیلنے سے خوفزدہ ہو کر پنجاب حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور تحریک کے دباؤ کے تحت وزیر اعظم کو بھی مجبوراً اس معاملے میں مداخلت کرنی پڑی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر اس کے مشیر خاص کی موجودگی میں اگیگا قیادت کے پنجاب حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں قیادت نے حکومتی یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر کسی نوٹیفیکیشن کے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیا جس پر دھرنے کے بیشمار شرکاء نے خاصی ناراضگی کا اظہار کیا۔
دھرنے کے خاتمے کے بعد حسبِ توقع صوبے کی نگران حکومت،وفاقی حکومت اور افسر شاہی نے ملی بھگت کیساتھ اپنے زبانی وعدوں سے پھرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ابتدائی بیسک پے پر اضافے کا نوٹیفیکشن بھی نکال دیا گیا۔ اس پر صوبہ بھر کے ملازمین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قیادت پر دوبارہ احتجاج کی کال دینے کے لئے زبردست دباؤ پڑنے لگا جس کا مثبت رد عمل دیتے ہوئے انہوں نے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔ اس پر پنجاب نگران حکومت اور وفاقی حکومت، دونوں خوفزدہ ہو گئیں اور بالآخر صوبائی حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں پنجاب کے چھوٹے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں وفاق اور دیگر صوبوں کے برابر اضافے کی منظوری دے دی۔ یہ بلاشبہ ایک شاندار کامیابی ہے جو صرف ملازمین اور محنت کشوں کے اتحاد اور جرات کی بدولت ہی ممکن ہوئی لیکن یاد رہے کہ لیو انکیشمنٹ رولز میں تبدیلی والا معاملہ ابھی باقی ہے اور غالب امکانات یہی ہیں کہ اس کے خاتمے کے لئے اگیگا پنجاب کو جلد یا بدیر ایک اور احتجاج کی کال دینا پڑے گی۔
مگر کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اگیگا قیادت کی کمزوریوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کریں۔ اس حوالے سے سب سے تشویشناک بات اگیگا قیادت میں ایسی مذہبی سیاسی پارٹیوں سے منسلک نام نہاد لیبر تنظیموں کی موجودگی ہے جو انتہائی دائیں بازو کے شدید مزدور دشمن نظریات رکھتی ہیں اور ان کی ریاستی دلالی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ قیادت میں ایسے مزدور دشمن عناصر کی موجودگی اگیگا کے پلیٹ فارم کے لئے نہایت نقصان دہ ہے جس کا فوری سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں اگیگا قیادت کی جانب سے احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی کوئی خاص کوشش دیکھنے میں نہیں آئی اور لاہور دھرنے کی یکجہتی میں راول پنڈی، ڈی جی خان، ملتان، وہاڑی وغیرہ جو بھی احتجاج ہوئے وہ وہاں کے ملازمین کے اپنی مقامی قیادتوں پر دباؤ کا نتیجہ تھے نہ کہ مرکزی اور صوبائی قیادت کی کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا۔ اسی طرح اگیگا قائدین نے ایسی ملازمین و مزدور تنظیموں، جو احتجاج کا حصہ نہیں بنیں، کے پاس جا کر انہیں احتجاج کا حصہ بننے پر قائل کرنے کی بھی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔
ہم یہ مانتے ہیں کہ اس میں غلطی صرف اگیگا قیادت کی ہی نہیں بلکہ احتجاج کا حصہ نہ بننے والی تنظیموں کی قیادت کی بھی ہے لیکن ایک بڑا اور متحرک پلیٹ فارم ہونے کے ناطے یہ اگیگا قیادت کا فریضہ تھا کہ وہ اس معاملے میں کھلے دل کیساتھ پہل کرتے۔ اسی طرح دھرنوں کی احتجاجی حکمت عملی کی محدودیت کے بار بار ثابت ہو جانے کے باوجود اگیگا قیادت طاقت رکھنے کے باوجود ایک عام ہڑتال کی بات کرنے سے گریزاں ہے اور اس کے متبادل کے طور پر ”دفتری تالہ بندی“ جیسے مبہم اعلانات کرنے تک ہی محدود رہتی ہے۔ ہماری رائے میں اگیگا جیسے ایک طاقتور اور بڑے پلیٹ فارم سے اٹھنے والا عام ہڑتال کا نعرہ نہ صرف پورے ملک کے ملازمین اور محنت کشوں کو اپنی جانب متوجہ کرے گا بلکہ نیچے سے پڑنے والے دباؤ کے کارن پبلک سیکٹر کی ان مزدور تنظیموں کو بھی اگیگا کا حصہ بننے پر مجبور کر دے گا جو ابھی تک اس سے الگ ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان اگیگا کے احتجاجی دھرنے میں اول تا آخر موجود رہے اور ملازمین و محنت کشوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ساتھیوں کی جوشیلی نعرے بازی، مضبوط مزدور دوست سیاسی موقف اور عام ہڑتال کی پوزیشن کو دھرنے کے شرکاء میں خوب پذیرائی ملی۔ مزدورٹی وی نے بھی احتجاج کو بھرپور کوریج دی جسے عام ملازمین اور قیادت دونوں کی جانب سے بہت سراہا گیا۔ دھرنے کے شرکاء نے ریڈ ورکرز فرنٹ اور مزدور تحریک کے ترجمان اخبار ’ماہانہ ورکرنامہ‘ کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس میں چھپنے والے مواد میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ ایک بار پھر اگیگا کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہے اور آئندہ بھی ہر جدوجہد میں ملازمین و محنت کشوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔