|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|
پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے 26 جنوری 2022ء کو اگیگا خیبر پختونخوا کی طرف سے سرکاری ملازمین کے حقوق کیلئے احتجاجی مظاہرہ کرنے پر اگیگا کے قائدین وزیر زادہ، سمیع اللہ خلیل، فضل غفار باچا، محمد سعید، نصراللہ خان، اسلام الدین اور دیگر افراد کے خلاف پشاور پولیس کی طرف سے امن عامہ کی خرابی کے نام پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
اگیگا خیبر پختونخوا میں شامل تمام تنظیموں نے 26 جنوری کو پشاور میں سٹی نمبر 1 سے اسمبلی ہال تک ہزاروں ملازمین کی ریلی نکالی اور صوبائی اسمبلی کے سامنے پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا۔ صوبائی سرکاری ملازمین نے اپنے کچھ دیرینہ مطالبات کو لے کر صوبہ بھر کے مختلف سرکاری اداروں سے اس احتجاج میں شرکت کی تھی۔ ان مطالبات میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تفریق کا خاتمہ، ایڈہاک ریلیف الاؤنسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنا، مہنگائی کے تناسب سے مہنگائی الاؤنس، سرکاری ملازمین کی اپ گریڈیشن، ٹائم سکیل پروموش اور کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی جیسے مطالبات نمایاں تھے۔
یہ وہی مطالبات ہیں جن کیلئے پاکستان بھر کے سرکاری ملازمین پچھلے ایک سال سے احتجاج کرتے آ رہے ہیں مگر حکومت کے وزیر و مشیر ملازمین کے مطالبات حل کرنے کی بجائے جبر و طاقت اور دھمکیوں، ایف آئی آرز، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور قید و بند کے ذریعے ان ملازمین کو دبانے اور خوف زدہ کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی واضح مثالیں دارالحکومت اسلام آباد میں پچھلے سال 10 فروری کو ان ملازمین پر پولیس لاٹھی چارج، آنسو گیس اور قید و بند کی شکل میں ملتی ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں پچھلے عرصے میں کئی دفعہ سرکاری ملازمین کے پرامن احتجاجوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ پرامن سرکاری ملازمین کے خلاف حکومت کی اس بدمعاشی اور جبر کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ واضح کر دینا چاہتا ہے کہ اس پوری ریاستی مشین کو وزیر و مشیر نہیں بلکہ یہی سرکاری ملازمین ہی چلاتے ہیں۔ مگر حکمران نہ صرف ان ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی سمیت دیگر ملازمین دشمن اقدامات بروئے کار لاتے ہیں بلکہ وقت آنے پر انہی سرکاری ملازمین پر ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے شدید جبر بھی کرتے ہیں۔ ان ملازمین کے بغیر کوئی سرکاری ادارہ نہیں چل سکتا، کوئی سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال نہیں چل سکتا۔ ان اداروں کو چلانے والے محنت کشوں سے آئی ایم ایف کے سامراجی احکامات پر ان کے حقوق چھیننا کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ سرکاری ملازمین کی اس جدوجہد میں ہر محاذ پر ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا اور اس جنگ میں ہر جگہ محنت کشوں کے حقوق کا دفاع کرتا رہے گا۔
مگر یہاں یہ بات بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ملازمین، اگیگا بحیثیت مجموعی اور خاص طور پر قائدین اپنے پچھلے ایک سال کی تمام کامیابیوں و ناکامیوں اور کمی بیشیوں کا ایک سنجیدہ جائزہ لیں اور پچھلے ایک سال سے چلے آرہے احتجاج اور دھرنے کے ایک ہی طریقہ کار میں کچھ رد وبدل یا نئے طریقوں کو استعمال کرنے کی طرف بڑھیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ پچھلے ایک سال سے احتجاجی دھرنوں کے طریقہ کار کو آزمایا گیا مگر حکومت کے وزیر و مشیر ان کے مطالبات کو تحریری معاہدوں کے باوجود حل کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں ہوئے، لہٰذا اب احتجاج کا اگلا مرحلہ ایک ہی دائرے میں گھومنے کی بجائے ایک قدم آگے کا ہونا کار آمد ہو سکتا ہے اور وہ مرحلہ اپنی اصل طاقت کا استعمال کرنا ہے، یعنی تمام سرکاری اداروں میں مکمل کام چھوڑ ہڑتال کے ذریعے اس وقت تک ان تمام اداروں کو بند کیا جائے جب تک ملازمین کے مطالبات حل نہیں کئے جاتے۔
دوسری طرف تحریک کے دائرہ کار کو بھی بڑھانے کی شدید ضرورت اور گنجائش موجود ہے۔ جہاں ایک طرف باقی ماندہ تمام سرکاری اداروں کے محنت کشوں کی اس تحریک میں شمولیت کی کوشش کی جائے وہیں دوسری طرف غیر سرکاری سیکٹر کے محنت کشوں اور عوام سے بھی اس جدوجہد میں شمولیت کی اپیل کی جائے۔ یہی اس تحریک کو آگے بڑھانے کا واحد راستہ ہوسکتا ہے کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری محنت کش ایک بھرپور عوامی مہم چلا کر ملک بھر میں ملازمین دشمن، مزدور دشمن اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف ایک عام ہڑتال کی طرف جائیں اور ان پالیسیوں کے خاتمے تک ملک بھر میں عام ہڑتال کی جائے۔