|تحریر: مارک رحمان، ترجمہ: ولید خان|
تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلزم کا خیال لاکھوں کروڑوں امریکی ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ ناگزیر طور پر کئی ذہنوں میں مختلف خیالات ہیں کہ ’’سوشلزم‘‘ کا مطلب کیا ہے۔
2008ء کے مالیاتی بحران اور تاریخ کی کمزور ترین بحالی نے محنت کشوں اور نوجوانوں کی شعور یافتہ پرتوں پر واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ داری اپنی تاریخی متروکیت سے بہت عرصہ پہلے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سمجھ بوجھ نے ابھی سوشلسٹ جدوجہد کی دیوہیکل اٹھان میں اپنا اظہار کرنا ہے، لیکن اس تحریک کے ابتدائی مراحل اپنے خدوخال واضح کر رہے ہیں اور اس بڑھتی مقبولیت کی بورژوا ذرائع ابلاغ آئے دن نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
دی گارڈئین اخبار نے ’’س والا لفظ: امریکی نوجوان کیوں سوشلزم کی محبت میں گرفتار ہو رہے ہیں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ مضمون کے مطابق: ’’امریکی نوجوان رہائش، شعبہ صحت اور گرتی اجرتوں کے بحران کا مورد الزام سرمایہ داری کو ٹھہراتے ہیں۔ عرصہ دراز تک ام الخبائث گردانے جانے کے باوجود آج لفظ ’’سوشلزم‘‘ ایک نئی سیاسی تحریک کے طور پر اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے‘‘۔
مسئلہ صرف لفظ ’’س‘‘ کا نہیں بلکہ ’’ک‘‘ کا بھی ہے۔ دائیں بازو کی ویب سائٹ victimsofcommunism.org کی پچھلے سال دسمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’نوجوان نسل کی بھاری اکثریت (44فیصد) ایک سوشلسٹ ملک میں رہنا پسند کرے گی جبکہ سرمایہ دارانہ ملک کی حمایت کم (42فیصد)ہے۔ کچھ (7فیصد)کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایک کمیونسٹ ملک میں رہنا پسند کریں گے۔اگر عام عوام سے موازنہ کیا جائے تو نوجوان نسل کی سرمایہ داری پر سوشلزم کو ترجیح پورے 10 فیصد زیادہ ہے‘‘۔
برنی سینڈرز کے نمودار ہونے کے بعد لاکھوں کروڑوں ذہنوں پر سوشلزم چھایا ہوا ہے۔ یہ اب ایک ’’اچھا‘‘ خیال ہی نہیں رہ گیا بلکہ ایک قابل جدوجہد نصب العین بنتا جا رہا ہے۔ وہ افراد جو مایوسی میں ڈوبے اعتراف کرتے تھے کہ ہاں وہ سوشلسٹ ہیں لیکن یہ نظریہ امریکہ میں کبھی نہیں پنپ سکے گا، غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ ان کی طرح اور بھی دیگر لوگ برنی سینڈرز کی ریلیوں میں شریک ہوئے اور ہمت وحوصلہ پکڑتے ہوئے اپنی مایوسی اور غیر فعالیت سے باہر آئے۔ نئی رابطہ کاریاں ہوئیں، ایسا لگتا تھا کہ ایک نئی سیاسی قوت جنم لے رہی ہے۔۔۔اگر سینڈرز ہمت کر کے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے لیتا۔ ایسا نہیں ہوا اوروہ لوگ جو پھر بھی جدوجہد جاری رکھنا چاہتے تھے، انہوں نے امریکی ڈیموکریٹک سو شلسٹس (DSA)میں شمولیت اختیار کر لی۔
سیاسی جدوجہد کی طرف راغب ہونے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں نے سڑکوں پر پولیس گردی اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسائی کے خلاف جدوجہد کی جبکہ کئی نوجوانوں نے شناختی سیاست کے مختلف رنگوں میں تعلیمی اداروں میں جدوجہد کی۔ لیکن شناختی سیاست کی تنگ نظری سے تنگ آ کر سماجی مسائل کے حل کے لئے سب سے زیادہ شعور یافتہ پرتیں ایک بار پھر سوشلزم کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ بنیادی مسئلے۔۔سرمایہ داری۔۔ کی نشاندہی ہو چکی ہے جس کا علاج صرف سوشلزم ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہر دروازے کے پیچھے اور ہر پلنگ کے نیچے ایک سوشلسٹ چھپا ہوا ہے۔ فوربز میگزین کو کہنا پڑا کہ: ’’سوشلسٹ جذبات دوبارہ پنپ رہے ہیں‘‘۔ دی ویک میگزین نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہم ’’امریکی سوشلزم کے طلوع‘‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس مضمون میں ریان کوپر نے حیران کن اعداد و شمار کے ذریعے ان امریکی نوجوانوں کی سوچ کا احاطہ کیا جو سوشلزم کی جانب راغب ہو رہے ہیں: ’’سوشلسٹ، ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت کے روایتی سوشلسٹ ہدف پر متحد ہونے کے بجائے اس بات پر زیادہ متفق ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں اپنی موجودہ حدود سے زیادہ سیاسی حدود کو بائیں بازو کی جانب دھکیلاجائے‘‘۔کوپر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے سوشلزم کے اس مخصوص مظہر کی حقیقی قوت کی شناخت کر لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس کی سب سے بڑی کمزوری کی شناخت کی ہے: یہ خیال کہ سوشلزم کا مبہم مطلب سیاسی حدود کو ’’بائیں‘‘ جانب دھکیلنا ہے۔
مارکس نے ڈیڑھ صدی پہلے وضاحت کی تھی کہ مادی حالات ہی شعور کا تعین کرتے ہیں۔ سوشلزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ برنی سینڈرز، زیزک یا آپ کے مقامی لبرل آرٹس سکول کا سماجی ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے بلکہ خود سرمایہ داری ہے۔ سرمایہ داری، لاکھوں کروڑوں امریکی محنت کشوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ شعور کا یہ سفر سست رو ی کا شکار رہا ہے گوکہ اب اس میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی بھی سفر طویل اور کٹھن ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد رونما ہونے والی معاشی خوشحالی کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ سرمایہ داری محنت کش طبقے کی اکثریت کے معیار زندگی کو بہتر اور خوشگوار بنا سکتی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں جب یہ بلبلہ پھٹا تو پھر 1980ء اور 1990 کی دہائیوں میں سرمایہ داری کو مصنوعی طور پر قرضوں کے انجیکشن دے دے کر چلایا گیا۔ سوویت یونین میں سٹالن ازم کے انہدام اور چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی کی وجہ سے سرمایہ داری کو اور بھی سانس لینے کا موقع مل گیا۔ تیکھی رجعت کی دہائیوں نے محنت کش طبقے کی کئی نسلوں پر اثرات مرتب کئے۔ محنت کش قیادت پر بھی خاطر خواہ اثرات پڑے۔ امریکہ میں بے مثال گراوٹ دیکھنے کو ملی جہاں AFL-CIO کی قیادت نے اپنے آپ کو سام گومپر کی ’’کارباری یونین ازم‘‘ کی مکروہ طرز پر مبالغہ کار حد تک استوار کرنے کی کوشش کی۔لیبر تحریک کی کئی دہائیوں کی شکست اور گراوٹ نے اہداف کے ممکنہ معیار کو برباد کر کے رکھ دیا۔
شعور اتنا پچھڑ چکا ہے کہ سوشلزم کے یوٹوپیائی نظریات کے خلاف مارکس اور اینگلز کی جدوجہد آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لئے کلیدی معاونت فراہم کرتی ہے۔ آج امریکی نوجوان نسل کے لئے یہ نظریات نئے ہیں اور ان میں مختلف رجحانات اور مظاہر کا ہونا نا گزیر عمل ہے۔کچھ کے لئے سوشلزم کا مطلب مفت علاج، کچھ کے لئے امراء پر ٹیکس اور دیگر کے لئے’’جو کچھ سویڈن میں ہے‘‘۔
اینگلز نے اپنی تاریخی تصنیف’’ سوشلزم: یوٹوپیائی اور سائنسی‘‘ میں اپنے دور کے اس قسم کے سیاسی رجحانات سے متعلق لکھا ہے:
’’ان سب (یوٹوپیائی سوشلسٹ رجحانات) کے لئے سوشلزم مطلق سچ، منطق اور انصاف کا اظہار ہے اور صرف اس کی دریافت ہی اس کی قوت سے پوری دنیا کو فتح کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور کیونکہ مطلق سچ وقت، خلاء اور انسان کے تاریخی ارتقاء سے آزاد ہے، اس وجہ اس کی دریافت کا وقت اور جگہ محض ایک حادثہ ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے مطلق سچ، منطق اور انصاف ہر رجحان کے بانی کے لئے الگ اور مختلف ہیں۔ اور کیونکہ ہر ایک کامخصوص مطلق سچ، منطق اور انصاف اس کی موضوعی فہم ، مخصوص حالات اوراس کے علم اور دانشورانہ مشک کا نتیجہ ہے، مطلق سچائیوں کی اس جنگ کا اور کوئی حل موجود نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ اور جدا موجود رہیں۔ لہٰذا اس کا نتیجہ ایک بے ربط خیالات پر مبنی، عامیانہ سوشلزم ہے جو اب تک فرانس اور برطانیہ کے اکثریتی سوشلسٹ ذہنوں پر سوار ہے۔ لہٰذا، ایک کھچڑی بنی ہوئی ہے جو رائے کے تمام رنگوں کا امتزاج ہے: تنقیدی بیانات، معاشی تھیوریوں، مختلف فرقوں کے بانیوں کی انسانی سماج کے مستقبل کے حوالے سے منظر کشی تاکہ کم سے کم مخالفت ہو؛ ایک ایسی کھچڑی جو بحث مباحثے کی ندی میں انفرادی جزوں کی مخصوص ساختوں کی آپسی ٹکراؤ کے نتیجے میں اور زیادہ آسانی سے تیار ہو جاتی ہے، جیسے کسی ندی میں گول مٹول پتھر(پانی کی کاٹ اور آپسی ٹکراؤ کی وجہ سے) پڑے ہوں‘‘۔
امریکہ میں ایک عوامی سوشلسٹ روایت کی عدم موجودگی اور ماضی کی کوتاہیوں کی وجہ سے ہمیں تکلیف دہ سیاسی بالیدگی سے گزرنا پڑے گا۔ لیکن حکمران طبقے کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ یونان کی PASOK یا اسپین کی PSOE کی طرز پر سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی اور سیاسی و سماجی نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے محنت کش طبقے کے بائیں جانب سفر میں کم سے کم رکاوٹیں حائل ہوں گی۔ لہٰذا بے ربط خیالات کے حاوی ہونے کے باوجود سوشلزم کیا ہے اور کیا نہیں ہے، یہ سیکھنے کا عوامی عمل جاری ہے۔ آنے والے چند مہینوں اور سالوں میں ہمیں شعور کی اور بھی بڑی جستوں کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔
کسی بھی کھیلوں کے ڈرامے میں ٹریننگ اور تیاری کا دورانیہ چند لمحوں کی عکس بندی میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ بیزار کن ہے اور اس سے کہانی میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن کوئی بھی کھلاڑی یا سیاسی تحریک اپنی مادی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ اگر ہمارا مقصد اپنی زندگیوں میں سرمایہ داری کا خاتمہ ہے تو ہمیں بالشویزم کو تعمیر کرنے کے سخت جان عمل سے گزرنا پرے گا: منظم ہونا، چندہ اکٹھا کرنا اور سب سے زیادہ اہم، سیاسی تربیت کرنا۔
بالشویزم کے تاسیسی دستاویز ’’کیا کیا جائے؟‘‘ (?What Is To Be Done) میں لینن، اینگلز کا حوالہ دیتا ہے:
’’یہ قائدین کا فرض ہے کہ وہ نظریاتی سوالات کے حوالے سے اور بھی زیادہ آگاہی حاصل کریں تاکہ وہ پرانی دنیا کی وارث روایتی لفاظی کے اثرات سے اور زیادہ آزاد ہوں اور ہر لمحہ ان کے ذہن میں یہ خیال رہے کہ جب سے سوشلزم ایک سائنس بنی ہے، اس کا یہ مطالبہ ہے کہ اس کو سائنس کے طور پر سمجھا جائے، یعنی اس کا مطالعہ کیا جائے‘‘۔
مارکسی نظریات سے لیس امریکی صرف سیاسی حدود کو بائیں جانب ہی دھکیلنے کا سبب نہیں بنیں گے۔ ایک ایسی سیاسی قوت جو آنے والی پر آشوب دہائیوں کی پیچیدگی کا مقابلہ کر سکے، کی تعمیر کے ذریعے ہی ہم انسانیت کے حتمی مقصد کو پورا کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کو سیاسی اور معاشی اقتدار تک پہنچا سکتے ہیں۔
Pingback: عامیانہ سوشلزم کے خلاف ،واضح نظریات کی جدوجہد۔۔۔۔تحریر مارک رحمان/ ترجمہ ولید خان| | مکالمہ