|تحریر: فرانچسکو مرلی، ترجمہ: یار یوسفزئی|
غزہ کے اوپر گیارہ دن تک سنگدلانہ بمباری کے بعد، جس نے 240 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لیں (جس میں تقریباً آدھے خواتین اور بچے تھے) اور ہزاروں کو زخمی کیا، اسرائیل بالآخر جنگ بندی پر راضی ہو گیا۔ بمباری کی وجہ سے 75 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان کے گھروں کو برباد کر دیا گیا اور انتہائی اہم عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، جن میں سکول، ہسپتال (بشمول کرونا کی تشخیص اور ویکسین کا واحد مرکز)، بجلی اور صاف پانی کی عمارتیں شامل ہیں۔ غزہ کی آبادی کو کئی سالوں تک اسرائیل کے اس حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
السیسی کی مصری حکومت، جس نے کئی سالوں تک اسرائیلی ریاست کے ساتھ مل کر معاشی ناکہ بندی کے ذریعے غزہ کے لوگوں کے ذریعہ معاش کا گلا گھونٹا، اب دعویٰ کر رہی ہے کہ جنگ بندی اس کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ ان دیگر رجعتی عرب حکومتوں سمیت، جو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو کر کھلے عام اس کی حمایت کر رہی تھیں، جن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب وغیرہ شامل ہیں، مصر کی حکومت بھی فلسطین کے حوالے سے اپنے مؤقف میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہے، جو امداد اور تعمیرِ نو کے منصوبوں کا اعلان کر رہی ہے، جس کو وہ یا تو حماس کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے استعمال کرے گی یا پھر جب چاہے گی اسے روک دے گی۔
مراکش سے لے کر سعودی عرب تک، تمام رجعتی عرب حکومتیں فلسطینی جدوجہد کے بڑھتے ہوئے لڑاکا پن سے چونک اٹھی ہیں۔ خاص طور پر وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ یہ جدوجہد پورے مشرقِ وسطیٰ کے اندر محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے بیچ انقلابی جذبات ابھارنے کا باعث بنی ہے۔ ان واقعات نے ان حکومتوں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان ممالک کے اندر پنپنے والے انقلابی بحران کے لیے آتش گیر مواد فراہم کیا ہے۔
بائیڈن کی نام نہاد ’ترقی پسند‘ حکومت کی حقیقت ایک دفعہ پھر عیاں ہو گئی ہے۔ اس نے بمباری کے دوران فوری طور پر ”اسرائیل کا اپنا دفاع کرنے کے حق“ کی حمایت کی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نیتن یاہو پر جنگ بندی پر راضی ہونے کے لیے چپکے چپکے دباؤ بھی ڈالتی رہی جب اسرائیل کافی حد تک تباہی پھیلا چکا تھا۔ امریکی سامراجیت کی غیر جانبداری کے دکھاوے کی منافقت مکمل طور پر عیاں ہو چکی ہے۔ امریکی ریاست کی جانب سے ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کی سبسڈیاں دی جاتی ہیں، جبکہ اس کے ساتھ اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ہتھیار بھی بر آمد کیے جاتے ہیں۔ امریکی سامراج کے مؤقف کے بارے میں کسی کو بھی شک نہیں ہونا چاہئیے، ہمیشہ کی طرح وہ ظالموں کا ساتھ دے رہا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بائیڈن اور امریکی سامراج کو فلسطینی عوام کی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں، نہ ہی وہ ان کے جائز مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔ انہیں نیتن یاہو کی مہم جوئیوں کی وجہ سے امریکہ اور خطے کے اندر موجود عرب حکومتوں، جن میں مصر، اردن، خلیجی ممالک وغیرہ شامل ہیں، کے بیچ تعلقات مزید خراب ہو جانے کی فکر ہے۔ امریکی ریاست کو دراصل اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں عرب بہار دس سال پرانی سطح سے بلند سطح پر ابھر کر سامنے نہ آ جائے۔
فلسطینی نوجوان غزہ میں موجود اپنے بہن بھائیوں کے اوپر جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف لڑاکا عوامی جدوجہد کی قیادت کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک قابلِ غور بات ہے کہ یہ جدوجہد گرین لائن (1948ء میں مقرر شدہ اسرائیلی حدود) کے اندر شروع ہوئی اور اس کی قیادت اور انتظامات کے فرائض کمیٹیوں نے ادا کیے، یعنی ایسی تنظیموں اور گروہوں نے جو روایتی فلسطینی”قیادت“ میں شامل نہیں تھے۔ اس عمل سے حماس سمیت الفتح اور فلسطینی نیشنل اتھارٹی پر گہرے عدم اعتماد کا اظہار ہوا۔ جب منظم نسلی تطہیر کے سلسلے میں انتہائی دائیں بازو اور صیہونی آبادکاروں نے اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے گھروں اور دکانوں کے اوپر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی پشت پناہی میں حملے کیے، تو اس کا سامنا کرنے کے لیے عوامی دفاعی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔
اس تحریک نے موجودہ تقسیم کو بالائے طاق رکھ کر قبضے، امتیازی سلوک اور غزہ، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، فلسطینی مہاجر کیمپ اور خاص کر گرین لائن کے اندر جاری جبر کے خلاف فلسطینی جدوجہد کو متحد کر دیا ہے۔ اس جدوجہد کی گونج دنیا بھر کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے بیچ سنائی دی ہے، اور اس نے عالمی سطح پر یکجہتی کے بڑھتے ہوئے سلسلے کو جنم دیا ہے۔ جدوجہد میں شامل فلسطینیوں نے مظاہروں، خوشی اور جشن کے ساتھ جنگ بندی کا خیر مقدم کیا مگر اس کے ساتھ وہ اس چیز سے بھی واقف ہیں کہ بنیادی طور پر کسی بھی چیز کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ بطورِ مارکس وادی، ہم گرمجوشی کے ساتھ متحدہ فلسطینی عوامی جدوجہد کے ابھار کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، جس کو ہم گزشتہ ہفتوں کی سب سے اہم کامیابی سمجھتے ہیں۔
نیتن یاہو کی شاطرانہ چال بے نقاب
نیتن یاہو اور اسرائیلی ڈیفنس فورس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے عسکری مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ البتہ یہ دعوے کھوکھلے اور نا قابلِ یقین ہیں۔ اگرچہ نیتن یاہو چاہ رہا ہے کہ سارے لوگ ان دعوؤں پر یقین کریں، یہ واضح ہے کہ اسرائیلی حکمران طبقے کے نزدیک کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکا ہے۔
جنگ بندی محض ایک شاطرانہ چال ہے، جبکہ صیہونی دائیں بازو کی جانب سے فلسطینی آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کی حکمتِ عملی اب بھی جاری ہے، جس میں ان کے گھروں اور ذریعہ معاش کو چھین کر ان کے حقوق کچل دیے جاتے ہیں۔
صیہونی آبادکاروں کے منصوبے کو یروشلم کے نائب میئر عریح کنگ نے ان الفاظ میں سمیٹا: ”میں چاہتا ہوں کہ یروشلم ہمیشہ کے لیے یہودیوں کے قبضے میں آ جائے، اور اسے شدت پسند مسلمانوں سے بچانے کا واحد طریقہ جبر ہے۔“ اس نے کہا ”ٹیمپل ماؤنٹ (جہاں مسجدِ اقصیٰ قائم ہے) یہودی قوم کے دلوں میں بستا ہے، اور اس کی حفاظت کرنے والی پرتیں یہودیوں میں سے ہوں گی۔“
حماس کی بربادی اسرائیل یا نیتن یاہو کا مقصد کبھی نہیں تھا، بلکہ وہ اس کو اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔ نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو کے اتحادیوں کو حماس کی ضرورت ہے۔
جنگی نقطہ نظر سے، حماس کے میزائل، جن کی تعداد اور نشانہ بازی میں اگرچہ بہتری آئی ہے، اسرائیلی ہتھیاروں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، جن میں سے 90 فیصد کو آئرن ڈوم کی دفاعی ٹیکنالوجی تباہ کر دیتی ہے۔ بہرحال، اسرائیل کے اندر خطرے کے سائرن کی آوازیں سیاسی اعتبار سے نیتن یاہو کے لیے فائدہ مند ہیں۔ اس سے خوفزدہ ہو کر بعض اسرائیلی یہودی ”غیر ملکی دشمن کے مقابلے میں“ ریاست اور حکومت کے ساتھ جا کھڑے ہوتے ہیں۔ نیتن یاہو نے بڑی عیاری کے ساتھ عین اس وقت رمضان کے مہینے میں مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز اقدامات کو بڑھاوا دیا جب اس کے بغیر ایک مخلوط حکومت بننے جا رہی تھی۔
مزید برآں، اسرائیل کی بھی یہ دلی خواہش ہے کہ غزہ کے اندر الفتح کی قیادت میں موجود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کے مقابلے میں حماس کا غلبہ پیدا ہو، جو نام نہاد فلسطینی قیادت کے بیچ ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنے گا۔ اس کے علاوہ حماس کو اسرائیل اس لیے بھی نہیں کچلنا چاہتا کیونکہ یہ غزہ کے اندر فلسطینی آبادی کو جبر اور قوانین و ضوابط کے ذریعے قابو میں رکھنے والی واحد قوت ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران، نیتن یاہو نے خفیہ طور پر قطر حکومت کے اوپر شدید دباؤ ڈالا ہے کہ حماس کی مالی امداد کو جاری رکھے۔
نیتن یاہو کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جس جنگ کو اس نے جان بوجھ کر شروع کیا، اسے بڑھتے ہوئے دباؤ سے خود کو بچانے کے لیے استعمال کرے، اور اپنی گرتی ہوئی حکومت کی ساکھ کو دوبارہ بحال کرے۔ نیتن یاہو کے پاس اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حماس مخالف جنگ کے آزمودہ طریقے سے بہتر راستہ نہیں تھا، جس کے بل بوتے پر اس نے قومی ایمرجنسی نافذ کر کے خود کو اسرائیل کے محافظ کے طور پر پیش کیا اور حمایت حاصل کی۔ البتہ اس دفعہ ایسا نہیں لگ رہا کہ نیتن یاہو کو اس چال کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہوئے ہیں۔
غزہ میں زمینی فوجیں کیوں نہیں بھیجی گئیں؟
نیتن یاہو نے اسرائیلی یہودیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ فلسطینی لوگوں کو کچل دیا گیا ہے، تقسیم کیا گیا ہے، وہ مایوس ہیں اور جنگ ہار چکے ہیں۔ اس نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ فلسطینی لوگوں کے اوپر مسلسل جبر اور ان کی زمینوں پر قبضوں کے باوجود پڑوسی عرب حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے انہیں اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اس کے آہنی پنجے کے تحت اسرائیل یہودیوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بن گئی تھی۔ اسرائیلی آبادی کے سامنے ان یقین دہانیوں کا جھوٹ بے نقاب ہو رہا ہے۔
اسرائیل کے اندر یا باہر موجود وہ لوگ جنہوں نے ”اسرائیلی جانوں کو حماس کے خطرے سے بچانے کے لیے“ غزہ کے اوپر بمباری کی حمایت کی تھی، اب خود سے سوال کر رہے ہیں؛ اسرائیلی حکومت کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ نام نہاد ”سرجیکل“ بمباری کے ذریعے حماس کی میزائل بنانے اور مارنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے؟ ماضی کے دوران غزہ کے اوپر اسرائیلی حملوں کے اہم اسباق میں سے ایک، جس کو اسرائیلی میڈیا بار بار دہراتا رہا، یہ تھا کہ زمینی فوج کی چڑھائی کے بغیر محض بمباری سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے، اگرچہ نشانہ بازی کے حوالے سے اسرائیل کے پاس سب سے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کی تصدیق اکتوبر 2020ء میں اسرائیلی چیف آف سٹاف افیف کوخافی نے کی، اسرائیلی اخبار ہاریتز کے مطابق اس کا کہنا تھا کہ: ”زمینی پیش قدمی اور بڑے پیمانے پر فورسز کے داخلے کے بغیر اپنے دشمنوں کو شکست دینا نا ممکن ہے۔“
ظاہر ہے کہ اس وجہ سے عام اسرائیلی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ایک دفعہ پھر بے چینی سے بھرپور جنگ بندی رہے گی، یہاں تک کہ اگلی نا گزیر جنگ کا آغاز ہو جائے۔ سرمایہ داری اور صیہونیت، چاہے اس کی مدد کے لیے نیتن یاہو کی شخصیت موجود ہو یا نہ ہو، اسرائیل کے اندر یہودیوں کے حالاتِ زندگی میں بہتری لانے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ صرف اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ قومی اور مذہبی بنیادوں پر موجودہ بھیانک صورتحال اور شدید جبر کو جاری رکھیں۔
غزہ کے اوپر بمباری کے دوران آئی ڈی ایف نے مختلف مواقع پر اعلان کیا کہ وہ غزہ کے اوپر چڑھائی کے بارے میں غور کر رہی ہے، جیسا کہ انہوں نے 2014ء میں کیا تھا (جب 2400 فلسطینیوں کو مارا گیا تھا)۔ مگر زمینی فوج کی چڑھائی کو عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
ہاریتز کے مطابق اس کی اہم وجہ نیتن یاہو کا اپنا غیر یقینی مؤقف تھا:
”جہاں تک وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کی بات ہے، اس وقت اس کو اتنی عوامی حمایت حاصل نہیں تھی کہ اس قسم کے فیصلے لے پاتا۔ جب آدھی آبادی آپ کے کہے ہوئے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں رکھتی تو اس قسم کی خطرناک فوج کشی کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس میں بڑے پیمانے پر جانوں کا ضیاع ہوگا، خاص کر جب آپ نے یروشلم کے اندر جبر میں اضافہ شعوری طور پر اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیا ہو۔“
جدوجہد کی اولین صفوں میں موجود عرب اسرائیلی
جنگ بندی کے فوری نتائج سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ صورتحال میں کافی ڈرامائی حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ نوجوانوں کی قیادت میں جاری فلسطین کی عوامی جدوجہد اسرائیلی جارحیت سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے اور مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے زور و شور سے جاری ہے اور توجہ کا مرکز بنی ہے۔
پچھلے عرصے کے دوران اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں کے اندر فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے دکھائے جانے والے عزم و ہمت سمیت 18 مئی کی حالیہ فلسطینی عام ہڑتال سے ظاہر ہوتا ہے کہ محنت کش طبقے کی تحریک واقعات کے اوپر کتنے گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
جو بات ہم لمبے عرصے سے کہتے چلے آ رہے تھے کہ قبضے اور جبر کے خلاف فلسطین اور اسرائیل دونوں کے اندر فلسطینی عوام کی متحدہ عوامی جدوجہد اہمیت کی حامل ہے اور یہ ایک تاریخی موڑ ثابت ہوگی، اسے کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ ہونے والی عام ہڑتال نے عملی میدان میں سچ ثابت کر دیا۔ یہ محض ممکنات میں سے نہیں رہا بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔
یہ کئی سالوں سے جمع شدہ نفرت کا نتیجہ ہے جس کی وجہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کے اوپر متعصب اور جابرانہ پالیسیوں کے ذریعے بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران، رجعتی صیہونی منصوبے میں تیز رفتاری دیکھنے میں آئی ہے، جو اسرائیل کے اندر فلسطینی اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، جس کے ساتھ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے اندر یہودی آبادکاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن کی تعداد اب 6 لاکھ 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
نیتن یاہو نے یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا تھا، جس کی ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے حمایت کی تھی کہ وہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل کا حق تسلیم کیا گیا۔ اس دوران، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے اندر اسرائیلی ریاست کی پشت پناہی میں جاری آبادکاری میں شدت آئی ہے، یہاں تک کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کے نوآبادیاتی علاقوں کا اپنے ساتھ الحاق کرنے کی دھمکی دی ہے۔ یہودی قومی ریاست کے نسل پرست قانون کی منظوری نے اسرائیل میں موجود عرب اسرائیلیوں کی وسیع اکثریت کی بچی کھچی پہچان کو ریزہ ریزہ کر دیا، جو فلسطینی آبادی کی سب سے وفادار اور قدامت پرست پرتوں، خاص کر دروز، کی جانب سے بھی کھلے عام بغاوت پر اتر آنے کا باعث بنا۔
اس نے اس سراب کا خاتمہ کر ڈالا کہ اسرائیل کسی آزاد فلسطینی ریاست کو برقرار رہنے کی اجازت دے گا۔ دو طرفہ مذاکرات کے دکھاوے کا خاتمہ کر کے یکطرفہ فیصلے مسلط کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے اندر فلسطینیوں کو کھلے عام حکومتی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اسرائیل کے اندر فلسطینی اقلیت دوسرے درجے کے شہری قرار دیے گئے۔
شیخ جراح سے فلسطینیوں کی بے دخلی اور رمضان کے آخری عشرے میں مسجدِ اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے اوپر اسرائیلی ریاست کے تشدد جیسے واقعات نے فلسطینیوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
اس کے بعد غزہ کے اوپر بمباری سب کی توجہ کا مرکز بن گیا، جس نے فلسطین کے اندر اور باہر فلسطینی جدوجہد کو یکجا کر دیا، اور وسیع پیمانے پر بین الاقوامی یکجہتی کی تحریک کے ساتھ اس کی جڑت قائم کی، جس کے گرد لاکھوں افراد متحرک ہوئے۔
18 مئی کی فلسطینی عام ہڑتال کے اثرات
عام ہڑتال کے لیے پہلے سے ہی سوشل میڈیا پر اپیل کی جا رہی تھی، جس کے بعد ’ہائی فالو اپ کمیٹی‘، عرب اسرائیلیوں کی متحدہ قیادت، نے بھی اس کی کال دے دی۔ 18 مئی کی ہڑتال کو منظم کرنے کے پیچھے اپنے طور پر منظم کی گئی کمیٹیوں اور نوجوانوں کے گروہوں کا ہاتھ تھا جو اس سے قبل احتجاجوں کی اولین صفوں میں رہے تھے۔ نام نہاد روایتی قیادت کی غیر فعالیت کی وجہ سے ان کمیٹیوں کا ابھار ہوا، جنہوں نے کئی مواقع پر کھلے عام اس کو مسترد کر دیا۔
’موندو ویس‘ ویب سائٹ نے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی جو حیفہ میں ان کارکنان میں سے ایک نے تحریر کی تھی، جس سے تحریک کی روایتی قیادت اور عملی میدان میں موجود کارکنان کے بیچ تعلق کی حقیقت واضح ہوتی ہے:
”کارکنان فالو اپ کمیٹی کی قیادت پر اعتماد نہیں کرتے، جن میں سے بعض کا خیال تھا کہ ایک روزہ عام ہڑتال کافی نہیں ہے۔ مگر جلد ہی اتحاد اور کامیابی کی خاطر تمام قوتیں ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے متحد ہو گئیں۔“
ہڑتال نے جاری عوامی بغاوت کے ساتھ جڑت قائم کی، اور غزہ کے اوپر بمباری، قبضے اور اسرائیلی ریاست کے تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر کے اپنے مطالبات میں با عزت زندگی، مساوات اور فلسطینیوں کا اپنے ذریعہ معاش کا دفاع کرنے کے بنیادی حق کو شامل کیا۔
عام ہڑتال میں غیر معمولی حد تک لڑاکا پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسرائیلی کمپنیوں کی جانب سے فلسطینی محنت کشوں کے خلاف جابرانہ اقدامات اور جوابی کارروائی کی دھمکیوں کے باوجود ہڑتال کے نمایاں اثرات مرتب ہوئے، جو اسرائیلی ٹریڈ یونینز کے قانونی معاونت کے بغیر کیا گیا۔
اسرائیلی بلڈرز ایسوسی ایشن نے تسلیم کیا کہ تعمیراتی کام کرنے والے 65 ہزار فلسطینی مزدوروں میں سے محض 150 کام کرنے آئے تھے، جس کی وجہ سے تعمیراتی شعبہ مکمل منجمد ہو کر رہ گیا۔ اس کے علاوہ ہڑتال نے اسرائیل کے اندر ٹرانسپورٹ، ڈیلوری سروس، صفائی اور شعبہ صحت کو بھی متاثر کیا۔ غرض جس بھی شعبے میں فلسطینی محنت کشوں کی اکثریت موجود تھی، وہاں ہڑتال کے اثرات محسوس کیے گئے۔
میڈیا میں ہڑتال کے خلاف شدید ردِ عمل دکھایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ یہودی اسرائیلی محنت کشوں کی اکثریت فلسطینی جدوجہد کی حمایت نہیں کر رہی اور اسے اپنے تحفظ کے لیے خطرہ جان کر اسرائیلی ریاست کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے، مگر طبقاتی جدوجہد کے اثرات اسرائیلی محنت کشوں کی دیگر پرتوں کے اوپر مرتب ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
ہاریتز نے ایک اسرائیلی کرین ورکر کے تجزیے کو رپورٹ کیا، جس سے صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔ عام ہڑتال کے دن خالی عمارتوں کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا: ”اگر ہم سب اس طرح سے مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑیں گے تو شاید ایک دن ہم کچھ حاصل کر پائیں گے۔“ فلسطینی جدوجہد کے حوالے سے اس محنت کش کے چاہے جو بھی خیالات ہوں، یہ قابلِ غور بات ہے کہ ہڑتال نے اس کے ذہن، اور اس کے علاوہ دیگر کئی محنت کشوں کے ذہن میں، یہ بات واضح کر دی کہ محنت کش طبقے کی ایک اجتماعی اور متحدہ جدوجہد کے ذریعے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سامراجی ”امن“؛ ایک ڈھکوسلا
اسرائیلی حکمران طبقے کی جانب سے یہودی اسرائیلی آبادی کو بیرونی دشمنوں کے خلاف ریاست کا ساتھ دینے کے اپیل کی جا رہی ہے، جو جبر کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ چنانچہ فلسطینی آزادی کی تحریک کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ آزادی کی عمومی جدوجہد کے تسلسل میں اسرائیلی ریاست کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرے اور یہودی آبادی کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرے۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کی سب سے با شعور اور مستقل انقلابی پرتیں خود کو محض جمہوری مطالبات تک محدود نہ رکھیں۔ ان مطالبات کا جدوجہد میں ایک اہم کردار ہے مگر یہ اپنے طور پر کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے بیباکی کے ساتھ سوشلسٹ حل پیش کرنا پڑے گا۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران، چھوٹے پیمانے پر متحدہ یہودی عرب مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے ہیں، جہاں نچلی سطح کی یہودی تنظیموں نے اسرائیلی جارحیت کو مسترد کر کے غزہ کے اوپر بمباری کی مخالفت کی۔ یہ مظاہرے نسبتاً چھوٹے پیمانے پر ہوئے، جن میں زیادہ سے زیادہ چند ہزار لوگوں نے شرکت کی، مگر اس کے باوجود یہ اہمیت کے حامل تھے۔ بطورِ مارکس وادی ہم اس قسم کی تحریکوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اسے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقے کے پھیلائے گئے قومی و مذہبی تعصبات کا جواب طبقاتی جڑت کی بنیاد پر دیں۔
اب جبکہ غزہ پر بمباری کو روک دیا گیا ہے، اس جنگ کو سامراجی ”امن“ کے ذریعے جاری رکھا جائے گا۔ اسرائیلی حکومت ان قوتوں کو دوبارہ اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کرے گی جو اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ فلسطینیوں کے حقوق کو بتدریج ختم کرنے اور کسی بھی احتجاج کو جابرانہ اقدامات کے ذریعے دبانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس ہفتے (یہ تحریر 26 مئی کو لکھی گئی تھی)، اسرائیل کے اندر سینکڑوں مزید فلسطینی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ بے دخلی کی پالیسی بھی جاری ہے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم کے اندر سلوان کے بطن الہویٰ کے علاقے سے فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ حالیہ عام ہڑتال اور عوامی مظاہرے ایک اہم پیش رفت ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان اقدامات کا مقابلہ کس طرح سے کیا جا سکتا ہے اور رجعتی اسرائیلی ریاست کو کیسے بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔
فلسطینی تحریک سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی جبر کے خلاف جاری عالمی انقلابی تحریک کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ فلسطینی آزادی کی جدوجہد فلسطین اور اسرائیل کی سرحدوں کے اندر محدود رہ کر نہیں کی جا سکتی۔ اس جدوجہد کو مشرقِ وسطیٰ کی رجعتی حکومتوں اور واشنگٹن میں موجود ان کے حامیوں کے خلاف جدوجہد کے ساتھ جڑنا پڑے گا۔
یکے بعد دیگرے وسیع پیمانے پر انقلابی تحریکوں کے ابھار سے مشرقِ وسطیٰ کی رجعتی حکومتوں کی بنیادیں لرز اٹھیں گی۔ 2011ء میں مصر کی انقلابی تحریک نے حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، اور 2013ء کے انقلابی ابھار نے مرسی حکومت کا، جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ داری برقرار رہے اور محنت کش طبقہ اقتدار حاصل نہ کرے تو محض رجعتی حکومتوں کا تختہ الٹنا کافی نہیں ہوتا۔
اسرائیل اور فلسطین کے اندر جدوجہد کی کامیابی محض سوشلسٹ بنیادوں پر ممکن ہے، جو مشرقِ وسطیٰ کی انقلابی تحریک کا جزو ہے۔ وہ تمام فلسطینی نوجوان اور تمام یہودی اسرائیلی جو جابرانہ صیہونی ریاست کو للکارنے کے لیے تیار ہیں، ان کو اسی تناظر کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کو آگے لے جانا پڑے گا۔
فلسطین اور اسرائیل کے اندر جاری جدوجہد سامراجی جبر اور سرمایہ داری کے خلاف اس عمومی انقلابی عمل کے ساتھ منسلک ہو رہی ہے جو پورے مشرقِ وسطیٰ میں جاری ہے۔ آنے والے عرصے میں، محنت کش طبقے کی طاقتور تحریکوں کی لہر در لہر دیکھنے کو ملے گی جو خطے کے اندر یکے بعد دیگرے جابرانہ حکومتوں کے تختے الٹ دیں گی۔ اسی تناظر کی مناسبت سے مارکس وادی اسرائیل اور فلسطین کی وفاقی سوشلسٹ ریاست کا پروگرام پیش کر رہے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہو، جہاں انقلابی اقدامات کے ذریعے جبر کا خاتمہ کیا جائے گا اور سارے لوگوں، بشمول یہودیوں اور مسلمانوں کے، اور خطے کے اندر موجود دیگر ساری قومیتوں، کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا، جو خوشحالی کی جانب اجتماعی سفر طے کریں گے۔