|تحریر: بین کری، ترجمہ: ولید خان|
سال 2020ء میں مرکزی بینکوں نے کورونا وباء کے نتیجے میں گھمبیر ہوتے معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے 10 ٹریلین ڈالر چھاپ کر منڈی میں جھونک دیئے۔ پیسوں کی اس تاریخی بارش پر منڈیوں نے کس ذمہ داری اور متانت کا ثبوت دیا؟ سرمایہ داری کی تاریخ میں سٹے بازی کا سب سے بڑا ننگا ناچ ہوا!
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فنانشل ٹائمز کو ایک سرمایہ کار نے بتایا کہ ”ہمارا خیال ہے کہ سال 2021ء امریکی سٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ پاگل پن اور سٹہ بازی پر مبنی سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے سال 1929ء اور 1999ء کو بھی پیچھے چھوڑ دیا“۔ ایک بڑے ہیج فنڈ (سرمایہ کاری کے لئے مختلف ذرائع کا مشترکہ سرمایہ فنڈ) منیجر کے مطابق ”منڈی ایک ویڈیو گیم بن چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کینڈی کرش کھیلی جا رہی ہے“۔
لیکن یہ پروگرامرز کی جانب سے بنائی جانے والی کوئی موبائل گیم نہیں ہے جس میں ہر کھلاڑی کو ہر باری جیت کی گارنٹی ہو۔ یہ عالمی معیشت ہے اور اس کے اپنے قوانین ہیں۔ اس وقت سٹہ بازوں کو شدت سے سٹہ بازی کے پہلے قانون کی حدت محسوس ہو رہی ہے یعنی ”ہر عروج کو زوال ہے!“
سٹہ بازی کی بنیاد
سال 2020ء کے تاریخی بحران میں پوری دنیا کے مرکزی بینکوں نے سستے پیسوں کا سمندر کھول دیا۔ سرمایہ داروں نے سنجیدہ ٹھوس سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ان مفت پیسوں میں سے زیادہ تر ان اثاثوں میں جھونک دیے جن کی قیمتیں راکٹ کی رفتار سے آسمان پر جا رہی تھیں۔
سال 2021ء کے صرف ایک سال میں کرپٹو کرنسی مارکیٹ نے چھ گنا اضافے کے ساتھ اپنی مالیت میں 3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا۔ ہم یہاں محتاط انداز میں ”مالیت“ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ظاہر ہے ان ٹوکنز کی حقیقی مالیت صرف سٹہ بازی ہے۔
لیکن یہ واحد ٹوکن نہیں ہیں جن کے اچانک بے تحاشہ خریدار پیدا ہو گئے ہیں۔ سال 2021ء NFTs کا سال تھا۔۔کمپیوٹر کی.jpg تصاویر جو انسانی تاریخ کا بدصورت ترین نام نہاد ”فن پارہ“ ہیں۔ اب یہ کسی ایک گھر یا لگژری گاڑی کی قیمت پر آپ کا ہو سکتا ہے (فن پارے نہیں بلکہ ٹوکن)۔ لیونل میسی سے لے کر سنوپ ڈاگ اور ایرک اندرے تک ہمارے کئی محبوب سپرسٹار ان عجیب و غریب ”اشیاء“ کی خریدوفروخت میں مصروف ہیں۔
یہ پاگل پن کی انتہاء ہے اور سرمایہ داری کے لئے زہرِ قاتل۔ یہ مروجہ سٹہ بازی کا سب سے بلند تر اور عجیب و غریب اظہار ہیں۔ فنانشل ٹائمز نے خبردار کیا ہے کہ ”فنانشل سسٹم میں ابھی بھی کئی ٹریلین ڈالر ممکنہ بے پناہ منافعے کی معمولی رمق کی تلاش میں دیوانہ وار گھوم رہے ہیں“۔
ان حالات میں ہر سرمایہ کار ”اگلے دیو ہیکل مظہر“ کی تلاش میں پاگل ہوا پڑا ہے جس سے کسی قسم کے طویل مدتی منافعے کی امید ہو۔ سٹہ بازی کے اس طوفان میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی حصص توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ مارچ 2020ء سے جنوری 2022ء تک، زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیوں پر منحصر S&P 500 انڈکس میں 114 فیصد اضافہ ہوا۔
ٹیکنالوجی کمپنیاں چاہے کتنی ہی غیر منطقی اور دیوانے کا خواب ہوں، ان میں سرمایہ کار صرف ان وعدوں پر پاگلوں کی طرح سرمایہ کاری کر رہے ہیں کہ بلآخر وہ کوئی ایسی جنس بنائیں گی جو ”منڈی کو ہلا“ کر رکھ دے گی اور نتیجتاً انہیں بے پناہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔
سال 2021ء میں تقریباً ایک ہزار نئی کمپنیوں کی فی کس مالیت 1 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ تھی۔۔ان کو سرمایہ کار ”یونی کارن“ (ایک دیو مالائی گھوڑا نما جانور) کہتے ہیں۔۔جن میں سے زیادہ تر کچھ بھی نہیں بنا رہیں۔ پچھلے ایک سال کے مقابلے میں یہ 69 فیصد اضافہ ہے۔ ان ”یونی کارن“ میں سے 44 کی مالیت 10 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
ٹیکنالوجی حصص میں سب سے زیادہ سٹے بازی کرنے والے ایلون مسک کی کمپنی Tesla ہے۔ کورونا وباء سے پہلے اس کی کل مالیت 136 ارب ڈالر تھی۔ وباء کے آغاز کے بعد اب اس کی مالیت 1.1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کی مالیت کے مقابلے میں جنرل موٹرز کی مالیت اس کا دسواں حصہ ہے لیکن وہ اس سے دس گنا زیادہ گاڑیاں بناتی ہے! ایک تجزیہ کار نے طنز کیا کہ یہ مالیت اس وقت منطقی ہو گی اگر Tesla سال 2030ء تک الیکٹرک گاڑیوں کی منڈی کا 118 فیصد فتح کر لے!
ایک عہد کا اختتام
سال 2022ء کے آغاز سے سرمایہ کاروں کو واضح ہو رہا ہے کہ اس پاگل پن کا انجام انتہائی تکلیف دہ ہو گا۔
سال 2020ء سے سستے پیسوں کی مسلسل چھپائی کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت افراطِ زر کی شرح پچھلے 40 سالوں کا ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ مرکزی بینکوں نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے شرح سود میں اضافوں کے اعلانات کر دیے ہیں۔ امریکہ میں فیڈرل ریزرو (امریکی مرکزی بینک) نے اس سال مارچ سے چار یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ شرح سود بڑھانے کا اشارہ دیا ہے جبکہ پیسوں کی چھپائی کو بھی کم کیا جائے گا۔
یہ خبریں سب سے زیادہ ممتاز سٹہ باز اثاثوں کی قیمتوں میں گراوٹ کا باعث بنی ہیں۔ بڑے سرمایہ کار سمجھ چکے ہیں کہ سستے پیسوں کا عہد اب ختم ہوا چاہتا ہے۔ درحقیقت سال 2008ء کے بحران کے بعد سے ایک پورے دور میں مرکزی بینکوں نے پیسوں کے چھاپہ خانے بند نہیں کیے۔ اس بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو سستے پیسوں کی لامتناہی سپلائی کی لت پڑ چکی ہے۔ ان میں سے بہت سارے یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ کھلواڑ کبھی ختم نہیں ہو گا اور حکومتیں ہمیشہ فنانشل بحران کو ٹالنے کے لئے منڈی میں پیسہ جھونکتی رہیں گی۔
اس خام خیالی کو سال 2020ء میں اس وقت تقویت ملی جب مرکزی بینکوں نے اپنے نشئی مریض کو سستے پیسوں کا ایک آخری دیو ہیکل ٹیکہ ٹھوکا۔۔اور پھر منشیات مکمل طور پر بند کر دیں۔
اب مشہورِ زمانہ Bitcoin کریپٹو کرنسی نومبر 2021ء میں تقریباً 50 ہزار ڈالر فی ٹوکن کی بلند ترین سطح سے گر کر جنوری 2022ء میں 25 ہزار ڈالر فی ٹوکن ہو چکی ہے۔ پچھلے مہینے میں S&P 500 انڈیکس میں 10 فیصد گراوٹ واقع ہو چکی ہے۔ واضح طور پر بڑے سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ لیکن ایک طرف کچھ سرمایہ کار نوشتہ دیوار دیکھتے ہوئے خوفزدہ ہو رہے ہیں تو دوسری طرف دیگر اپنی سٹہ بازی کو اور زیادہ وسیع کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ اثاثے ڈوب نہیں رہے۔۔فی الحال۔
بینک آف امریکہ کے ایک تجزیہ کار کے مطابق ”ان کی تربیت پافلوف کے کتوں کی طرح ہوئی ہے“۔ (پافلوف نے ایک سائنسی تجربے میں سیٹی کی آواز پر کتوں کی تربیت کی تھی)۔ جب منڈی میں مندی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی منڈی کے اٹھنے سے پہلے سرمایہ کار گری ہوئی قیمتوں والے اثاثے اٹھانے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ درحقیقت پچھلی ایک دہائی میں یہ طریقہ کار منڈیوں کی سرشت بن چکا ہے۔
لیکن منڈیاں ہر باری ایک نئی اٹھان کے ساتھ نئی بلندیوں پر اس لئے پہنچتی تھیں کیونکہ مرکزی بینکوں سے مسلسل پیسہ آ رہا تھا۔ اب لامتناہی سستے پیسوں کا سیلاب بند ہو رہا ہے۔
میوزیکل چیئر میں آخر کون جیتے گا؟
یہ صرف بڑے سرمایہ کار ہی نہیں ہیں جو اس پُر ہیجان سٹہ بازی میں ملوث ہیں۔ سال 2021ء میں نام نہاد ”پرچون سرمایہ کاروں“ کی تعداد میں دیو ہیکل اضافہ ہوا۔۔عام درمیانے اور محنت کش طبقات جنہیں امید تھی کہ اس کھلواڑ میں شامل ہو کر پیسہ بنایا جا سکتا ہے۔
سال 2020ء اور 2021ء میں 1.5 کروڑ امریکیوں نے موبائل تجارتی ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کیں۔ اس دوران 16 فیصد امریکیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کرپٹو کرنسی خریدی ہے۔ یہ صرف امریکہ میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ یورپ سے فلپائن تک کروڑوں افراد اس پاگل پن کا حصہ بنے ہیں۔ انڈیا میں 1 کروڑ 87 لاکھ افراد نے اپریل تا دسمبر 2021ء کے مہینوں میں ”ڈی میٹ اکاونٹ“ (تجارت کے لئے چھوٹے سرمایہ کاروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے اکاؤنٹ)۔
وال سٹریٹ کے دیو ہیکل سرمایہ کاروں کے مقابلے میں ان چھوٹے سرمایہ کاروں کے پیسے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ لیکن جب کروڑوں چھوٹے سرمایہ کار یہ کام کر رہے ہوں تو پھر پیسے کا حجم دیو ہیکل ہو جاتا ہے۔ یاد دہانی کے لئے Reddit ویب سائٹ کے r/WallStreetBets پورٹل کے کروڑوں چھوٹے سرمایہ کاروں کا ذکر کافی ہے جنہوں نے مل کر سال 2021ء کے آغاز میں GameStop حصص کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی تھیں۔
لیکن اب وال سٹریٹ میں موجود بڑے سرمایہ کار پیچھے ہٹ رہے ہیں اور پیسہ نکال رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایلون مسک جیسا سٹے باز بھی مختلف حیلوں بہانوں سے سال 2021ء میں Tesla کے حصص بیچتا رہا۔ لیکن مسک کو ٹوئٹر پر لاکھوں چھوٹے کاروباری فالو کرتے ہیں جو اس کے ہر لفظ کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ اور دیگر کروڑوں چھوٹے سرمایہ کار اپنی ساری عمر کی جمع پونجی کھوبیٹھیں گے۔
مگر جب میوزک رُکے گا تو ان کے پاس صفر مالیت کی بیکار کرپٹو کرنسیوں، NFTs اور ”میم اسٹاک“ کا انبار ہو گا۔ اس دوران وال سٹریٹ کے قبضے میں ان کروڑوں سرمایہ کاروں کی ساری عمر کی جمع پونجی ہو گی۔ درمیانے اور محنت کش طبقے کے کروڑوں لوگ برباد ہو چکے ہوں گے۔ مسک کے لاکھوں پُرستار اس کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق ”سال 1929ء کے معاشی انہدام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک چیز مشترک ہے کہ گرتی منڈی میں پرچون سرمایہ کاروں کو سب سے آخر میں سمجھ آتی ہے۔ آج وہ مسلسل خریداری کر رہے ہیں جبکہ کارپوریٹ کھلاڑی ریکارڈ فروخت میں مصروف ہیں“۔
وال سٹریٹ کے انہدام اور اس سے جنم لینے والی عظیم کساد بازاری کی طرح معاشی افسانے کی دنیا میں اس پاگل پن کے حقیقی دنیا میں سیاسی اثرات مرتب ہوں گے جن کی ممکنات پر حکمران طبقہ پریشان ہو رہا ہے۔ ”وہ نہ صرف سرمایہ کاروں کا ایک نیا گروہ ہیں بلکہ ایک نیا ووٹر گروہ بھی ہیں اور اگر منڈی میں ایک نئی گراوٹ ہوتی ہے تو ایک پاپولسٹ ردِ عمل کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے“۔
”حقیقی معیشت“
موجودہ سٹہ بازی شائد کچھ اور دیر چلے۔ لیکن اس کا انجام دردناک ہی ہو گا۔ جب انجام ہو گا تو وال سٹریٹ کے انہدام یا سال 2008ء کے بحران کی طرز پر اس کا اثر حقیقی معیشت پر بھی پڑے گا۔
جدید سرمایہ داری کے جوا خانے میں یہ فرق کرنا ناممکن ہے کہ دیوانہ وار سٹہ بازی کہاں ختم ہوتی ہے اور حقیقی معیشت کہاں شروع ہوتی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کونسی نومولود ٹیکنالوجی کمپنیاں حقیقی ہیں اور کونسی مذاق ہیں۔ پچھلے مہینے جن اثاثوں میں فروخت کا رجحان دیکھا گیا ان میں سب سے زیادہ سٹہ بازی ہو رہی تھی۔ لیکن پوری عالمی معیشت میں کئی ٹریلین ڈالرز کا مصنوعی سرمایہ رگوں میں زہر بن کر گردش کر رہا ہے۔
افراطِ زر کا مقابلہ کرنے کے لئے فیڈرل ریزرو کی مانیٹری پالیسی میں سختی کے بعد یہ صرف ”میم اسٹاک“ نہیں ہوں گے جن کے پیروں تلے زمین کھسک جائے گی۔ تقریباً ہر اسٹاک اور ہر طرح کا اثاثہ اس وقت شدیدسٹہ بازی کے دیوانے پن کا شکار ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں ایک عمومی گراوٹ پورے فنانشل سسٹم کو ہلا کر رکھ دے گی جس کے بعد سال 1929ء یا 2008ء کی طرز پر ایک نیا فنانشل بحران شروع ہو سکتا ہے۔
دی اکانومسٹ کے ایک حالیہ اداریے میں سوال اٹھایا گیا کہ ”اگر فنانشل منڈیاں منہدم ہو گئیں تو کیا ہو گا؟“۔ اس میں مدیروں نے کوشش کی کہ ان عناصر کی نشاندہی کی جائے جو سر پر کھڑے ایسے ناگزیر فنانشل بحران کو جنم دیں گے۔ انہوں نے اپنے قارئین کو دلاسہ دینے کی کوشش کی کہ سال 2008ء کے بعد قوانین منظور کئے گئے تھے تاکہ بینک اور دیگر فنانشل اداروں کی فنانس کے حوالے سے صحت یقینی بنائی جائے۔ لیکن اسی اداریے میں مدیران پریشان بھی تھے کہ غیر منظم ”خفیہ بینکاری“ میں دیو ہیکل اضافہ ہوا ہے جس کے ذریعے سرمایہ دار منڈی کو منظم کرنے کی اس طرح کی ناکام کوششوں کو بائی پاس کر رہے ہیں۔
ان سب کے ساتھ عالمی معیشت کو دیگر خطرات بھی لاحق ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کے انہدام اور فنانشل بحران کے علاوہ اس وقت چین کے دیو ہیکل پراپرٹی سیکٹر میں سب پرائم مارٹ گیج بحران کی طرز کا بحران چل رہا ہے، سپلائی چینز میں انتشار بدستور موجود ہے اور عدم استحکام ایک ہزار ایک اَن دیکھی راہوں سے نازل ہو سکتا ہے جن میں کورونا وائرس کی نئی اقسام سے لے کر جنگوں اور سماجی بدامنی تک سب شامل ہے۔
کیا یہ ایک صحت مند اور زندگی سے بھرپور نظام کی تصویر ہے؟ بالکل نہیں۔ آج سرمایہ داری ایک ایسا پرانتشار نظام ہے جس میں بدمست دیوانہ وار ”بحالیوں“ کا خاصہ افراطِ زر، سپلائی چین انتشار اور سٹہ بازی ہے اور وہ نئے اور تیز تر انہدام کی راہیں ہموار کرتی ہیں جن میں پورا نظام منجمد ہو کر رہ جاتا ہے۔
اصلاح پسند سمجھتے ہیں کہ ریاستی سبسڈیوں کے ذریعے سرمایہ داری کو مستحکم کیا جا سکتا ہے، ان بحرانوں کی شدت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ”مینوفیکچررز کی مدد“ کر کے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ آج ہمیں یہ تمام ”حل“ دیوالیہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت معاشی نظام میں حکومتوں کے کارپوریٹ سیکٹر پرنچھاور کئے گئے کئی ٹریلین ڈالر گھوم پھر رہے ہیں۔ لیکن پیداواری سرمایہ کاری کے برعکس ہمیں سٹہ بازی کا ننگا ناچ نظر آ رہا ہے جبکہ اربوں انسانوں کی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری نہیں ہو رہیں۔
یہ واضح ہے کہ سرمایہ داری تاریخی طور پر متروک ہو چکی ہے۔ اس کو دفنانا پڑے گا اور اس کی جگہ ایک منطقی سوشلسٹ نظام تخلیق کرنا پڑے گا جس میں ہمارے سیارے کے تمام وسائل کو سیارے اور نسلِ انسانی کی تمام ضروریات کو بہترین انداز میں پورا کرنے کے لئے بروئے کار لایا جائے گا۔