احد کی سوئی پھر وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ چلو تمہاری بات بھی مان لیں۔ تو پھر ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کے والدین ان دس پندرہ بچوں کی پوزیشنیں دیکھ کر انہیں اس نجی کالج میں داخل کروا دیتے ہیں؟ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن لوگوں کی اتنی حیثیت نہیں تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے بچوں کو اس کالج میں داخل کروایا۔ کسی نے بھینس بیچی، کسی نے حاطہ، اور کسی نے مکان بیچ کر فیس ادا کی۔ بعض لوگوں نے تو بچوں کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں داخل کروایا۔
سکندر بولا، تو کس نے کہا ہے ان کو کہ وہاں داخل کروائیں اپنے نالائق بچوں کو؟ کس کا قصور ہے یہ؟
احد نے کہا، ابھی تم ہی نے تو کہا ہے کہ وہاں سُپر کلاس پر سپیشل توجہ دی جاتی ہے۔
ہاں دی جاتی ہے، تو پھر؟
تو باقی بچوں پر توجہ کس طرح کی دی جاتی ہے؟
یار ان بچوں کو توجہ دیں یا نہ دیں، وہ نالائق ہیں اور نالائق ہی رہیں گے۔ اس بات کا کالج کی انتظامیہ کو بھی پتہ ہے۔ اسی لئے ان کو پڑھانے والے بہت سے ٹیچروں نے تو ماسٹرز بھی نہیں کیا ہوتا۔ بہت سے ایسے ہیں جو کہ ایم اے کا فرسٹ پارٹ کر کے یا امتحان دے کر آجاتے ہیں۔ ان کو یہ کالج جاب دے دیتا ہے۔ ایک تو یہ لوگ کم تنخواہ پر کام کرلیتے ہیں دوسرے محنت بہت زیادہ کرتے ہیں۔ خیر چھوڑو۔ ۔ تم بتاؤ کہ تم نے گورنمنٹ کالج میں پڑھ کر کیا تیر چلا لیا؟
مجھے لیپ ٹاپ ملا تھا۔
اچھا؟ پھر کہاں ہے لیپ ٹاپ؟
میں نے بیچ دیا۔
وہ کیوں؟
میں نے بیچ کرسپوکن انگلش کے کورس کر لئے۔
ویری گڈ!! یہ تم نے پہلا عقل مندی کا کام کیا ہے۔ آج کل تو جاب ہی اسے ملتی ہے جو انگلش بول سکتا ہے۔ اور سناؤ کیسے حالات ہیں؟
حالات تو اتنے اچھے نہیں ہیں۔ یار مجھے تنخواہ چار ماہ کے بعد ملنی ہے، ایک ٹیوشن پڑھا تو رہا ہوں لیکن مسئلے بہت زیادہ ہیں۔
اتنے میں پیریڈ کی گھنٹی بج اٹھی۔ احد اٹھا اور کہا میرا تو اب پیریڈ ہے۔ سکندر نے کہا کہ اسے پھر ملے۔ اس کے پاس اس کے مالی مسائل کا ایک حل ہے۔
چند دن اور گزر گئے۔ اس روٹین نے اس کو ہمیشہ کے لئے تھکا دیا تھا۔ اس دن وہ سٹا ف روم میں بیٹھا پڑھ رہا تھاکہ وائس پرنسپل صاحب نے آکر بتایا کہ انھوں نے گرینڈ ٹیسٹ لینے ہیں اور اسی مہینے میں رزلٹ کی لسٹیں بھی تیار کرنی ہیں اور رجسٹر پر ان کا اندراج بھی کرنا ہے۔ اس کو کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ پہلے ٹیسٹ بنانے میں ،پھر ڈیڑھ سو لڑکوں کے لمبے لمبے پرچے چیک کرنا اور شام کو جا کر ہوم ٹیوشن دینا اور پھر آدھی ادھوری نیند سے کالج جانا۔ یار! چھٹی کب آنے والی ہے۔ سٹاف روم میں بیٹھے سی۔ ٹی۔ آئیز آپس میں ڈسکس کر رہے تھے۔ اس چھٹی پر وہ خوب نیند پوری کرے گا۔ ایک نے بتایاکہ وہ تو اپنے گھرجائے گا۔ غرض کوئی کچھ کہہ رہا تھا اور کوئی کچھ۔ ۔ ۔ وہ انہیں خوابوں کی دنیا میں تھے کہ ایک سلیکٹی نے بتا یا کہ ان کا یہ سنڈے بھی آن ہے۔ سب کے چہرے پھیکے پڑ گئے۔ ۔ کیا؟ کل تو چھٹی ہونی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرنسپل صاحب نے میٹنگ کی۔ اور ان سے کہا کہ اتوار کو آنا بہت ضروری ہے۔ ڈینگی مچھر کو تلف کرنے کے لئے اتوار کو سب نے آنا ہے۔ پرنسپل صاحب کا اپنا چہرہ بھی مرجھایا ہوا تھا۔ انہوں نے بھی اتوار کو آنا تھا۔ وہ سب خاموش ہو گئے اور سب نے بڑی مایوسی سے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ اس چھٹی کے کینسل ہونے کا اثر سلیکٹیز اور سی۔ ٹی۔ آئز سب پر برابر تھا۔ سب ہی اس سے اداس تھے۔
اتوار کو ڈینگی ڈے آیا اور آ کر گزر گیا۔ ڈینگی ڈے کیا تھا، بزمِ ادب تھا۔ ملی نغمے گائے گئے۔ تقریریں ہوئیں۔ ایک صاحب نے تجویز دی کہ ان باتوں کے بجائے اگر قوالی کروالی جاتی تو شاید مچھروں پر زیادہ ہیبت طاری ہو جاتی۔ لیکن اس طرح کی تجویز کون سنتا ہے۔ البتہ احد دیر تک سوچتا رہا کہ قوالی کا ڈینگی سے کیا تعلق ہے۔ پھر اسے بات سمجھ آ ہی گئی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
پرچے چیک ہو گئے۔ انہوں نے سب کچھ بھو ل بھال کر لسٹیں بنائیں۔ شکر ہے کہ کام بھی ختم ہو گیا۔ پانچ تاریخ تک سب نے رجسٹر پر حاضریاں جمع کرنی ہیں۔ اور لیکچر ز بھی جمع کرنے ہیں۔ سب سر پھینک کر کام میں جٹ گئے۔ اور کام ختم بھی کر ڈالا۔
اس کوکالج میں جاب کرتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ وہ ابھی سونے ہی والا تھا کہ بچی آئی۔ بھیا! ماں کہ رہی ہے اس مہینہ کا کرایہ دے جانا ،ہمیں نانی اماں کا ختم دلوانا ہے۔ لیکن مُنی۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو تنخواہ نہیں ملی۔ اس نے بے بسی سے جواب دیا۔ بچی حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ پھر اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا کہ وہ کل کچھ کرے گا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ٹیوشن والوں سے کہے گا کہ کچھ ایڈوانس دے دیں۔ اوپر سے ایک پریشانی الگ سے آن پڑی تھی۔ اس کی ماں نے بھی روپوں کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے دو خط آچکے تھے اسے بھی پیسوں کی اشد ضرورت تھی۔ لیکن یہاں تو اس کو خود کے کھانے پینے کے لالے پڑے تھے وہ ماں کو کیا جواب دیتا۔ اچانک اسے سکندر کی بات یاد آئی۔ اس نے سوچا کہ کل وہ اس سے اس سلسلے میں بات کرے گا۔ دیکھتا ہوں اس کے پاس کیا حل ہے۔
اگلے دن وہ کالج پہنچا اور دوسرے پیریڈ کے بعد اس کا سکندر سے سامنا ہوا تو اس نے کہا کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ سکندر نے پوچھا کہ وہ کب فارغ ہے، تو اس نے اسے بتایا کہ اس کا چوتھا پیریڈ فری ہے۔ چوتھے پیریڈ میں اس نے سکندر کو سارا مسئلہ بتایا اور اس کا حل پوچھا۔ سکندر نے اسے بتایا کہ آج کل وہ کالج کے قریب والے نجی کالج میں پیریڈ لینے جا رہا ہے۔ اس کے وہاں اچھے تعلقات ہیں۔ تمہاری انگریزی اچھی ہے، میں تمہاری بات کرتا ہوں۔ ۔ لیکن میں کیسے جا سکتا ہوں؟ سی ٹی آئی کوتو اڑھائی بجے سے پہلے کالج سے ہلنے کی اجازت ہی نہیں۔ ۔ تو کون کہتا ہے کہ پہلے جاؤ؟ ارے احدمیاں، تم آرام سے کالج سے فارغ ہو کر وہاں پڑھانے جاؤ۔ *** کالج کی ڈیلی چار شفٹیں چل رہی ہیں۔ اڑھائی بجے تک تو ان کی تقریباً دوشفٹیں مکمل ہو چکی ہوتی ہیں۔ تم اس کے بعد اپنے پیریڈ ایڈجسٹ کروا لینا۔ احد نے سوچا۔ یہ ٹھیک رہے گا۔
چھٹی کے بعد وہ اس نجی کالج میں گئے۔ پرنسپل نے اس کا انٹرویو کیا اور اس کی قابلیت سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اسے اسی وقت اپنا پیریڈ شروع کرنے کو کہا۔ احد نے تنخواہ کا پوچھا، تو اس نے اتنی تنخواہ بتائی جو کہ اس کی کالج سے ملنے والی تنخواہ کا چار گناتھی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ وہ اڑھائی بجے کے بعد آکر باقی ٹائم اسی کالج کی باقی شفٹوں کو دے گا۔
احد نے بادلِ نخواستہ حامی بھر لی۔ اور بوجھل قدموں سے کلاس روم کی طرف چل پڑا۔ پہلے ہی دن میں اسے نانی یاد آگئی۔ ایک تو دو شفٹوں کے چارچار پیریڈ لے کر اس کا دماغ خراب ہو گیاتھا۔ اور اوپر سے ان نجی کالجوں کا سسٹم بھی گورنمنٹ کے کالجوں سے یکسر مختلف تھا۔ صبح آٹھ بجے سے لے کر رات دس بجے تک چار شفٹیں چل رہی تھیں۔ ساڑھے تین گھنٹے کی ایک شفٹ۔ ان کا ایک ایک سیکنڈ گنا ہوا تھا۔ وہاں اپنی یا طالبعلم کی زندگی سے متعلق بات کرنے کی گنجائش کہاں ہوتی، وہاں تو روز کے دیئے گئے لیسن پلان سے اگر ذرا سا ہٹ کے کوئی بات بھی ہو جاتی تو ’’کورس‘‘ کا کوَر ہونا ناممکن ہو جاتا۔ یعنی اگر آپ نے ایک لمحہ بھی ضائع کر دیا تو وہ دوبارہ پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔ وہاں اس طرح وقت کے ضائع کرنے پر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے تھے۔ ان جرمانوں اور سزاؤں سے بچنے کے لئے طلباء اور ٹیچرز سب روبوٹوں کی طرح کام کرتے تھے۔ احد نے پہلے ہی دن پڑھایا۔ اور اس کی تو چِیں بول گئی۔ لیسن پلان ایسا زبردست تھا۔ کسی ایسے جینئس نے ڈیزائن کیا تھا کہ اس کا ایک ایک سیکنڈ خود بخود استعمال ہوتا گیا۔ دس بجے تک وہ ایک سے دوسری کلاس ہی میں جاتا رہا۔ بچے اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوتے۔ رول کال کا ان کا کوئی اپنا ہی سسٹم تھا۔ اسے نہیں لینی پڑی۔ اسے فوراً ہی اس راز کی سمجھ آ گئی کہ کیسے ناتجربہ کار لوگ بھی اس کالج میں آرام سے پڑھا سکتے ہیں۔ اس قدر میکانی نظام ہے کہ ایک بی اے پاس تو کجا ان کلاسوں کو تو کوئی روبوٹ بھی پڑھا سکتا تھا۔ بس روبوٹ کے اندر آتما کا ہونا ضروری ہے۔ جو کہ کلاس کنٹرول کر سکے۔ ویسے تمام کے تمام طلباء بھی اس قدر سہمے سے تھے کہ وہ تو روبوٹ سے بھی کنٹرول ہو جاتے۔ صرف پہلے پیریڈ میں اسے ذرا مسئلہ ہوا۔ دوسرے پیریڈ ہی میں وہ بھی اسی مشین کا ایک پرزہ بن چکا تھا۔ رات دس بجے تک اسے ہر چیز کی حرکت ایک میکانی سی محسوس ہونے لگ گئی تھی۔ واپس کمرے میں آکر اس نے سوچ سوچ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اس نجی کالج میں نہیں پڑھا سکتا۔ اتنی بیگار وہ بھلا کس طرح سے کر سکتا ہے۔ کچھ دیر بعد اسے ٹیوشن کاخیال بھی آگیا۔ وہاں سے آج اس نے چھٹی کر لی ہے۔ اسے قصاب کا غصہ بھی یاد آگیا۔ خیر وہ ان سے معافی مانگ لے گا۔ کیوں کہ اب ٹیوشن پڑھانا اس کی مجبوری بن گیا تھا۔