افسانہ: ’’پروفیسر‘‘


پانچ بجے وہ ہوم ٹیوشن پڑھانے اپنے محلے کے قصاب کے ہاں چلا گیا۔ اسے قصاب کے بچوں کی ہوم ٹیوشن مل گئی تھی۔ وہاں سے واپس آ کے لیکچر کی تیاری میں جٹ گیا۔ اس نے لغت پاس رکھی تھی اور ساتھ ہی اپنی کتابو ں کاڈھیر بھی سجا لیا۔ وہ بڑے ہی انہماک سے پڑھ رہا تھا کہ بجلی داغِ مفارقت دے گئی۔ اس نے اُپلا جلایا اور سو نے کی کوشش کرنے لگا۔ رات پھر وہی بجلی کی آنکھ مچولی اور آنے والی کل کے سپنے چلتے رہے۔
اگلی صبح وہ سڑک پر چاند گا ڑٰی کے انتظار میں تھا کہ کل والا چاند گاڑی کا ڈرائیو ر وہاں آن رکا۔ اس نے سلام کیااور پوچھا باؤ جی۔ ۔ کیا حال ہے؟ کل آپ کو دیر تو نہیں ہوئی تھی؟ اس نے بیک مِرّر میں سے جاتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر بال سنوارتے ہوئے پوچھا۔ ہاں! بہت بہت شکریہ۔ میں وقت پر پہنچ گیا تھا۔ ذرا گانے کی آواز کم کردیں۔ پلیز۔ ۔ ۔ ضرور!!
آج وہ ان خیا لوں میں گم تھا کہ اب جلد اس کی شادی ہو جائے گی۔ اب تو مامو ں کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ ممانی کے خاندان میں سے کسی نے کالج کی شکل تک نہیں دیکھی۔ مریم تک جب میری اس ملازمت کی خبر پہنچے گی تو وہ سب سکھی سہیلیوں کو بتا ئے گی کہ اس کی شادی پروفیسر صاحب سے ہو رہی ہے۔ اور میری ماں جس نے مجھے اتنے جتن کرکے پڑھایا۔ اس کا سر تو فخر سے اونچا ہوجائے گا۔ آخر۔ ۔ ۔ ہمارے گاؤں کا پہلا پروفیسر تو میں ہی ہوں۔ وہ دل ہی دل میں شادی کے گیت سن رہا تھا کہ چاندگاڑی والے کی آواز آئی، باؤ جی۔ ۔ ۔ ۔ کالج آگیا ہے۔ اس نے ہلا کر اس کو جگایا۔ ۔ وہ۔ ۔ جی آنکھ لگ گئی تھی۔ ۔ ۔ اس نے کھسیانا سا ہو کر کہا۔
کالج میں ابھی تک کوئی سلیکٹی نہیں آیا تھا۔ صرف سی ٹی آئی ہی چہل قدمی کر رہے تھے۔ انہوں نے ایڈمن آفس میں جا کر پتا کیا کہ ان کو کیا کرنا ہے، تو وہاں موجود کلرک نے انہیں بتایا کہ گراؤنڈ میں جا کے انتظار کریں انہیں بتا دیا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ وہ سب گراؤنڈ میں چلے گئے۔ جب پیریڈ کا گھنٹا بجا توانہوں نے بعض پروفیسروں کو کلاسوں کی طرف جاتے دیکھا۔ دس بجے کے قریب ایک چپڑاسی کا ادھر سے گزر ہوا۔ تو اس نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کے لئے سٹاف روم ہے، وہاں جا کے بیٹھ جائیں۔ سب سٹاف روم کی جانب چل دئے۔ سٹاف روم میں جا کر جب ان لوگوں نے دوسرے پروفیسروں کے ساتھ بیٹھنا چاہا تو ان کے تاثرات سے معلوم ہو رہا تھاکہ سی ٹی آئیز کا وجود انہیں اپنے سٹاف روم میں ناگوار گزر رہا ہے۔ اس لئے سی ٹی آئیز نے ان سے کچھ ہٹ کر اپنی کرسیاں لگا لیں۔ اب احد سٹاف روم میں بیٹھ کر ادھر اُدھر کا جائزہ لینے لگا۔ ایک طرف کچھ سینئر پروفیسرز بیٹھے تھے۔ جن میں سے زیادہ تر پی ایچ ڈی تھے۔ ان میں گرما گرم بحث چل رہی تھی۔ اس نے غور سے سننے کی کوشش کی کہ یہ کیا بحث ہے۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ کچھ حساب کتاب لگا رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کو معلوم ہو گیا کہ یہ سب اپنی اپنی انکریمنٹوں کا، پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ کا حساب لگا رہے تھے۔
اتنی دیر میں سٹاف روم کے ایک کونے سے ایک قہقہہ بلند ہوا۔ اس نے اپنی توجہ اس طرف کر لی۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ سب باری باری آہستہ آواز میں کوئی بات کرتے اور پھر قہقہہ بلند ہو جاتا!! ان کے اشارے بتا رہے تھے کہ کوئی خاص قسم کے لطائف کا تبادلہ چل رہا ہے۔ ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے چند نوجوان سلیکٹی لنڈے میں آئے ہوئے شاندار کوٹوں، پتلونوں، ٹائیوں اور شرٹوں کے متعلق اپنی معلومات شیئر کر رہے تھے۔
ساڑھے دس بجے کے قریب سب کو ٹائم ٹیبل مل گیا۔ کچھ کو تین اور کچھ کو دودو پریڈ ملے تھے۔ وہ ابھی ٹائم ٹیبل دیکھ رہا تھا کہ چپڑاسی نے آکر پوچھا، احد کون ہے؟ اس کو پرنسپل صاحب بلا رہے ہیں۔
میں ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا۔ اور سوچ میں پڑ گیا کہ مجھے کیوں پہلے ہی دن بلا لیا گیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ خیر اس نے باہر سے اجازت لی اور آفس میں داخل ہو تے ہی سلام کیا۔ ۔ ۔ ہممم آپ کا نام۔ ۔ ۔ ۔؟ احد۔ ۔ ۔ احد! تم آج پہلے ہی دن کلاس میں نہیں گئے؟ تمہارا پیریڈ تو ساڑھے آٹھ بجے تھا۔

No, sir. I was here right at eight o clock, but I was not aware of my time table sir. I’ve got it a few minutes ago sir. Now I was
going to my class sir. When you called me.

(احد نے انگریزی میں کہا کہ وہ آٹھ بجے کالج میں موجود تھا، لیکن اس کے پاس ٹائم ٹیبل نہیں تھا۔ ابھی کچھ دیر قبل اسے ٹائم ٹیبل ملا ہے۔ اب وہ کلاس میں جانے ہی والا تھا کہ اسے پرنسپل صاحب نے بلوا لیا۔ )
پرنسپل صاحب اس کا شاندار انگریزی لب و لہجہ سن کر بہت متاثر ہوئے۔ ان کا غصہ فوراً ٹھنڈا ہو گیا۔ اور انہوں نے دل ہی دل میں اپنی سلیکشن کو داد دیتے ہوئے کہا، چلو کوئی بات نہیں، آئندہ ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیئے۔ تھینکس!سر۔ ۔ ۔ اور پرنسپل صاحب ایک فائل کھول کر اس پر کچھ لکھنے لگے اور اس کو جانے کا اشارہ کر دیا۔ وہ اپنے چہرے پر شرمندگی کے آثار لئے اپنی کلاس کی جانب چل پڑا۔

Comments are closed.