|تحریر: عامر رفیق|
میں کسی بڑے ماڈ ریسٹورانٹ میں ہوں اور اوپر کے فلور پر جانا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہو رہا ہے اوپر کی جگہ خاص لوگوں کے لیے مختص ہے۔ میں پہلے فلور پر پہنچ گیا ہوں اس سے بھی اوپر کا فلور آخری فلور ہے۔ اوپر سے نیچے وقفے وقفے سے لڑکیاں اُترتی نظر آتی ہیں جنہوں نے انتہائی جدید لباس جسموں پر سجا رکھا ہے۔ میرا تجسس اور بڑھتا ہے۔ میں اوپر جانے کے لیے اور بے چین ہو جاتا ہوں۔ میرے ساتھ دوست مجھے ڈراتے ہوئے ٹہوکا دیتا ہے کہ ہم اوپر کی نشست گاہ پر نہ جائیں ہمیں نکال دیں گے۔ میں اُس سے زیادہ سوسائٹی میں مُوو کرنے والا سمجھا جاتا ہوں لہذا میں اپنے ڈانواڈول ہوتے اعتماد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اپنی چال ڈھال اور دائیں بائیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے میں لاپرواہی اور بے فکری کا سا انداز لاتے ہوئے اُسے کہتا ہوں کیوں نکال دیں گے ہمیں؟ تم بس میرے پیچھے پیچھے اُوپر چڑھتے رہو۔ ہم آخری منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں کا منظر نامہ ہی مختلف ہے۔ ہمارے انتہائی عُمدہ لباس ہیں جو مشہور برانڈز سے خریدے ہُوئے ہیں پر ہم اُن سب میں پیوند لگے کپڑوں سے اپنے جسم چُھپائے ہُوئے دکھ رہے ہیں۔ یہاں پر آنا یوں معلوم ہوا ہے جیسے ہم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے ہال میں ہوں پر اسٹیج پر ابھی پردہ گرا ہوا ہواور پھر پردہ پرے ہٹ جائے اور ہال سے اُس طرف اسٹیج کی دُنیا جگمگا اُٹھے جبکہ ہال کی زندگی پر اندھیرا چھا جائے۔ ہمیں بیشتر نے چُبھتی آنکھوں سے ٹٹولا اور دو ایک جوڑے ناک منہ چڑھاتے باہر نکل گئے جن کے نکلتے ہی دو ویٹر مُختلف مشروبات لیے اندر داخل ہوئے جس پر مجھے کچھ خدشہ ہوا پر وہ ہمیں نظر انداز کیے کچھ پہلو بہ پہلو بیٹھے مردوزن کو یہ مشروبات پیش کرنے لگے۔ ایک وجیح مرد نے کسی حسین کے آگے بڑی دلربائی سے ہاتھ بڑھایا اور وہ حسین بھی بھرپور نازوادا سے اُس کا ہاتھ تھامے ڈانسنگ فلور پر چل دی اور دونوں دھیما دھیما جھومنے لگے، مجھے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنے کا موقع مل گیا۔
پھر منظر بدل گیا ہمارے شفیق دوست گرم چادر کی بُکل مارے فرش نشیں تھے اور ہم سب اُن کے اردگرد قریب قریب ہوتے ہوئے مل جل کر بیٹھے تھے جیسے دھیمے کوئلوں کی آنچ سے حرارت لے رہے ہوں اور وہ دُنیا جہاں کے علم وحقائق گھول کر پی جانے کے بعد سُچے موتی بکھیر رہے تھے جن کا ہر ہر جُملہ ایسی حقیقت پر مبنی گماں ہو رہا تھا کہ سُنہرے حرفوں میں لوحِ دل پر نقش کیا جائے۔ ہماری محفل کی جگہ ریسٹورانٹ کا یہ ڈانسنگ فلور تھا شاید ہم نے اس پر قبضہ کر کے اپنی محفل یہاں شروع کر دی تھی جبکہ دائیں کونے میں وہ تمام پُرکشش خواتین غُصے کو دبائے بیٹھی تھیں کہ ہمارے رنگ میں بھنگ ڈل گئی۔ پر ان میں اب کوئی مرد رہ گیا تھا نہ ہی کوئی عُمر رسیدہ خاتون۔ سب ہی نوخیز جواں سال خوبصورت اور ماڈرن لڑکیاں تھیں جنہیں جیسے رنگ رلیوں اور موج مستی و ہنگاموں کی ہی سوچ رہتی ہو۔ اور ہر لمحے سے مستی و سرور کشید کر کے خود میں بھر لیتی ہوں۔ پر اب کہ میں اس بات سے خائف ہو رہا تھا کہ ہمارے شفیق دوست کی باتیں جو مُجھے دُنیا جہان کی سب سے سچی باتیں لگتی ہیں ان لڑکیوں کو تو دقیانوسی ہی لگ رہی ہوں گی۔ اور ان میں سے ابھی کوئی لڑکی اُٹھ کر ہم سب پر برس پڑے گی اور ہمیں ذلیل و رُسوا کر کے یہاں سے نکلوا دے گی۔ پر وقت گُزرتا گیا اور مجھے گُمان ہونے لگا کہ وہ سب بھی اس سچائی کی گہرائی سے نکلی گُفتگو کے سحر میں آگئی ہیں اور پھر عجیب بات ہوئی کہ جیسے ہی گفتگو جو واعظ کی سی شکل کی ہوتی، اختتام پذیر ہوئی وہ سب لڑکیاں آگے بڑھیں اور اپنے اپنے موبائیل فونز سے اُن کی تصویریں بنانے لگیں اور اپنے اپنے سوالات پوچھتی ریکارڈنگز کرنے لگیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری آنکھ کھلی تو خود کو نیند سے اُٹھتے ہوئے پایاکہ جیسے رات بھر ہم سب اکٹھے گُھس گُھسا کر بیٹھے، لیٹے، باتیں کرتے کرتے وہیں سو گئے، جیسا کہ ہم بچپن میں سب کزن کیا کرتے تھے اور اب میری آنکھ کھلی تو وہ میرے بالشت بھر کے فاصلے پر سو رہی تھی۔
ہم دونوں بچپن میں اکیلے بھی کھیلتے رہتے تھے۔ بیشتر ایسا ہوتا کہ سب بچے تھکتے جاتے یا اُن کے ٹیوشن کا وقت ہوتا جاتاپر ہم دونوں کھیلتے رہتے۔ میں بہت چھوٹا تھا پر میں تب ہی اس سے پیار کرنے لگا تھا مگر میں اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتاالبتہ کسی بھی کھیل میں ساتھی یہ میری ہی بننے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ پھر وقت کی بہتی ندی، ہاں وقت کسی پُرسکون جزیرے میں ہلکورے لیتی ندی کی طرح ہی بہہ رہا تھا پہ ہم بہتے بہتے بڑے ہوتے گئے اور میری سوچ بدلتی گئی بالکل اس سوچ کی طرح کہ آپ کی کُٹیا چاہے چھوٹی ہو پر آپ کی دُنیا بڑی ہونی چاہیے۔ مجھے اسے پسند کرنے اور ہر وقت اس کے اردگرد مُنڈلانے میں کمی آنے لگی۔ پھر میں اس سے دُور ہوتا گیا پڑھائی کے سلسلے میں اور پھر ملازمت کے سلسلے میں۔ اسی دوران خبر ملی کہ اس کی شادی ہو گئی ہے پر مجھے کوئی ملال نہ ہوا اور نہ ہی میں اس کی شادی میں بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے شرکت کر سکا۔ اور آج مدّت بعد وطن لوٹنے پر ایک تقریب کے دوران ملاقات ہونے پر اس نے بڑی گرم جوشی سے اپنے شوہر کے ساتھ ملوایا تو جیسے میں نے زندگی میں پہلی بار ہی اسے غور سے دیکھا، توجانا کہ وہ ہونٹ، وہ رُخسار اور وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں جس کسی پر پل بھر کو ہی اُٹھ جائیں تو وہ دُنیا لُٹا بیٹھتا ہے جبکہ میں نے اپنے پیار کے مظبوط حصار میں ہونے کے باوجود انہیں اپنی دسترس سے جانے دیا تو مُجھے اُجڑ جانے کا دھچکا لگا۔ اور اب میری آنکھ کھلی تو وہ میری بالشت بھر کے فاصلے پر سو رہی تھی۔ اس کے بال آزادانہ کُھلے من مرضی سے گھومتے پھرتے اب بے ترتیب اس کی گردن، گالوں اور ہونٹوں کے کونوں پر سو رہے تھے۔ جن پر میری نظر پھسلتی پھسلتی اس کے شانوں سے ہوتی نیچے تک بہہ گئی تھی۔ میرے اُٹھنے پر تو نہیں پر میری نظر کے بہہ جانے پہ جیسے سرور بھری حرارت ملنے سے اس کی اندھیارے میں روشنی جگمگانے کی طرح، ٹمٹماتی ستارہ آنکھیں جھٹ سے کھلیں اور مجھے اپنی طرف محویت سے گھورتا دیکھ کر لبوں پر پیار بھری مُسکراہٹ پھیل گئی اور مجھے گداز سی شرارت کے ساتھ کہنے لگی، کیا دیکھ رہے ہو؟اور چھنکتی دُھوپ کی کرنوں کو دوپٹے کی سیاہ دبیز چادر میں پھر سے چُھپا دیا۔ لیکن اُس کے لہجے میں شکوہ تھا کہ تم نے اتنی دیر کیوں کر دی جبکہ میرے دیکھنے میں کرب کہ میں نے سب کچھ کھو دیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے بھائی جان کا فون آتاہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے چار گھنٹے ہو گئے اُسے بس اڈّے پر چھوڑے ہوئے، وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچا؟ جبکہ فاصلہ تو محض ایک گھنٹے کا ہے۔ میں بڑا حیران ہوتا ہوں کہ وہ سالوں بعد لوٹا بھی تو بتایا تک نہیں؟ میں بھائی جان پر بھی حیران ہوتا ہوں کہ آپ نے مجھے بتا دیا ہوتا میں خود آجاتا اُسے لینے۔ میں اُسے دائیں بائیں ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوتا ہوں، پر وہ کہیں نہیں ملتا۔ بھائی جان کا پھر فون آتا ہے اب کہ و ہ گھبرائی ہوئی آواز میں کہتے ہیں ٹی وی پر خبر چل رہی ہے فلاں جگہ دو بسوں کا آپس میں تصادم ہو گیا ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ میں اپنے ایک دوست کو کہنا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ چلو پر میں یہ سوچ کر اُسے نہیں کہتا کہ اُس کی تین چھوٹی بچیاں ہیں جن کی دیکھ بھال اسے خود کرنی پڑتی ہے، میری مشکل اپنی جگہ پر میں اپنی وجہ سے اسے تو مشکل میں نہ ڈالوں۔ پر وہ میرا دوست ہے لہذااگلے لمحے میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنے اسی دوست کے ہمراہ لوگوں سے پوچھتا ہوا اُسے ڈھونڈنے کے لیے دیوانہ وار آگے بڑھتا جاتا ہوں۔ بھائی جان کی کال پھر آتی ہے اور وہ روتے ہوئے کہتے ہیں وہ اس ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ میں گُم صُم ہو جاتا ہوں، مجھے یقین نہیں آتا، اب کہ میں روتا ہوا لوگوں سے اُس جگہ کا پوچھتا جاتا ہوں۔ یہ کوئی گاؤں ہے۔ اس کے پگڈنڈیوں کے سے راستے بڑے خوبصورت ہیں جو میرے سیاحت کے جنون کے پیشِ نظر مجھے اپنی طرف بُری طرح متوجہ کرتے ہیں پر میں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دے پاتا ہوں کیونکہ میں اُس کی فکر میں ہلکان ہو رہا ہوتا ہوں کہ زندگی کی بساط اچانک ہنستے کھیلتے، ترقی کرتے کیسے اُلٹ سکتی ہے؟بالآخر میں اُس جگہ پہنچ جاتا ہوں۔ وہاں لوگوں کا جمِ غفیر ہوتا ہے جسے میں چیرتا ہوا آگے بڑھتا ہوں تو ایک آدمی ملتا ہے جس نے ایک رجسٹر پکڑا ہوتا ہے۔ لوگ اُسے نام بتاتے جاتے ہیں، وہ پوری فہرست پر نظر ڈالتا ہے، سُنے ہوئے نام کو ڈھونڈتا ہے، بتاتا جاتا ہے اور پوچھنے والا دھاڑیں مارتا ہوا اپنے بال نوچ لیتا ہے۔ میں اُس تک پہنچتا ہوں تو وہ کہتا ہے سب لوگ مارے جا چکے ہیں۔ میں اُمید کی بجھتی شمع کو جلانے کی کوشش میں اُسے کہتا ہوں تم دیکھو تو سہی وہ بچ گیا ہو گا۔ وہ بڑی مایوسی اور ایک طرح کی لاپرواہی سے کہتا ہے۔ نہیں، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، دونوں بسوں کا کچومر نکل گیا ہے۔ اچھا تم نام بتاؤ۔ میں اُسے اپنا نام بتا دیتا ہوں۔ وہ کئی بار ساری فہرست پر نظر ڈالتا ہے اور حیران اور پریشان ہو جاتا ہے کہ اس میں تو یہ نام ہی نہیں، پھر جھنجھلا کر رجسٹر بند کر کے کہتا ہے کہا ناں کوئی بھی نہیں بچا؟ دونوں بسوں کا کچومر نکل گیا ہے۔ میں لُٹ جانے پر یوں دھاڑیں مارتا ہوں کہ ہر شے چیخ اُٹھتی ہے، میں ساتھ ساتھ ہوکے بھرتا جاتا ہوں کہ ابھی تو ہمارے پاس پیسے جمع ہونے شروع ہوئے تھے، ہم بڑے گھر اور بڑی گاڑی خریدنے کے قابل ہونے والے تھے، میں تو اُس کے وطن پہنچنے سے پہلے پہلے سب کچھ حاصل کر کے اُسے حیران کر دینے والا تھاپر۔ ۔ ۔ اب وہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ اتنے میں بھائی جان کی پھر کال آتی ہے اور وہ کہتے ہیں وہ گھر آگیا ہے۔ بس اسٹاپ پر اُس کے ایک دوست نے اُسے دیکھ لیا تھا اور اپنی کار میں اپنے ساتھ لے آیا اور اُس کے منع کرنے کے باوجود اپنے گھر کھانے پر لے گیا۔ میں خوشی سے چیخ پڑتا ہوں اور اپنے دوست کو چومتا چاٹتا خوشی سے گلے لگا لیتا ہوں اور اُونچی اُونچی چہکارتا ہوں، وہ بچ گیا ہے، وہ گھر ہے، وہ تو اس بدنصیب بس میں تھا ہی نہیں۔ روتے بلکتے بال نوچتے لوگ مجھے حسرت اور رشک سے دیکھتے ہیں پر اُنہیں میرا خوشی سے اُچھلنا اور قہقہے لگانا انتہائی ناگوار گُزرتا ہے پر وہ مجھے کچھ نہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ موبائل کی بیل پھر بجتی ہے۔ جو بجتی ہی جاتی ہے۔ میری آنکھ کُھل جاتی ہے۔ کال اُٹھانے پر وہ مجھے کہتا ہے کال کیوں رسیو نہیں کر رہے تھے؟ کب سے فون کر رہا ہوں۔ خیر میں نے آپ کے اکاؤنٹ میں کچھ اور پیسے بھیجے ہیں اُنہیں دیکھ لیجیے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں خود کو شہر کی مرکزی شاہراہ پر پاتا ہوں۔ گرمی کی شدت جسموں کو جُھلسا رہی ہوتی ہے۔ میں ایک سواری رکشہ کو روکتا ہوں اور بیٹھتے ہوئے خود کو آرام دہ رکھنے کے لیے تھوڑا سا پھیل کر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں تو میرے ساتھ بیٹھا ہوا خستہ حال لباس اور زرد رنگت کا حامل شخص مجھے بڑی رُکھائی اور غُصے سے کہتا ہے، یہ رکشہ صرف تم اکیلے کے لیے نہیں ہے۔ میں فورا اپنی طرف سرک کر بیٹھ جاتا ہوں۔ میں نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ گرمی کی شدّت ہوش اُڑا رہی ہے اور شہر میں ملازمت کے مواقع زیادہ ہونے کی بدولت پاس کے قصبوں اور دیہاتوں سے مزدور طبقہ روزگار کی آس لیے آتا ہے پر دو وقت کی ہی روٹی حاصل کر پانے کی اُجرت وصول ہونے پر بے زار اور اُکتایا ہوا رہنے پر مجبور ہے۔ چونکہ شہر میں لوگوں کی اکثریت مقامی نہیں رہی اس لیے آپس میں دید لحاظ بھی نہیں رہا۔ رکشہ والا اب ایک جگہ رکتا ہے اور سواریوں کے لیے آوازیں لگاتا ہے، بڑی مشکل سے ایک سواری آ کر بیٹھتی ہے، دو سواریوں کی جگہ اب بھی خالی ہے۔ ایک خستہ حال بوڑھی عورت آتی ہے پر کہتی ہے میرے پاس آدھا کرایہ ہے لیکن رکشہ والا اُسے نہیں بٹھاتا۔ اب وہ تیز اور خطرناک موڑ کاٹتا جاتا ہے، ساتھ میں بُڑبڑاتا بھی، میں آدھا کرایہ کیسے لے لوں؟ مالک نے تو مجھ سے پوری دیہاڑی لے لینی ہے اُسے کیا سواری ملی یا نہیں ملی؟
پھر مجھ سے کچھ اوجھل ہو جاتا ہے۔ اب کہ مجھے پتہ چلتا ہے رکشہ رُک گیا ہے کیونکہ آگے لوگوں کا جمِ غفیر ہے اور گزرنے کا راستہ نہیں۔ لوگوں کی تعداد اور شوروغوغا میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اِس طرف سواریوں اور رکشہ والے کا شور بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ سواریاں کہتی ہیں سفر ابھی باقی ہے جبکہ تم یہیں اُتار رہے ہو، ہم کرایہ آدھا دیں گے۔ رکشہ والا چلّاتا ہے کہ راستہ جلوس کی وجہ سے بند ہے میرا اس میں کوئی قصور نہیں، میں کرایہ پورا لوں گااور اب مجھے تو واپس بھی خالی جانا پرے گا، یہاں سے کوئی سواری نہیں ملے گی۔
میں ہجوم میں سے بچتا بچاتا آگے نکلنے کے لیے بڑھتا ہوں تو دیکھتا ہوں لوگوں نے بجلی اور گیس کے بل پکڑے ہوئے ہیں اور انہیں نذرِآتش کر رہے ہیں۔ بیشتر نے خاکی رنگت کے کاغذکے بنے لفافے پکڑے ہوئے ہیں جنہیں وہ پھاڑ پھاڑ کر ہوا میں اُڑا رہے ہیں۔ میں تھوڑا اور آگے بڑھتا ہوں تو حکمرانوں کے پُتلوں کو جلتے ہوئے دیکھتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ کالے بوٹوں کو کاٹتے، پھاڑتے آگ میں ڈالتے، اور ترازو کو اینٹیں مار مار کر بے رحمی سے توڑنے کے بعد پاؤں تلے روندتے دیکھتا ہوں۔ مجھے جیسے چکر سا آجاتا ہے، میرے کانوں میں کچھ ایسی آوازیں پڑتی ہیں، بجلی گیس کی چوری اور ملی بھگت کی وجہ سے خسارے کا بوجھ ہم سب، جو اکثریت میں ہیں پر ڈال دیا جاتا ہے ایسا کرنے والے حرام خور ہمارے پِّلے ہوئے جو ہمارے ٹکڑوں پر پلتے ہیں پر پل پل کر اتنے بڑے اور ہیبت ناک ہو چکے ہیں کہ اُلٹا ہمیں ہی ان کے سامنے ہاتھ باندھے، جُھک کر اور دُم دبا کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ میں شاید کچھ سنبھلتا ہوں پر پھر سے چکرا جاتا ہوں اور اب کہ سُنتا ہوں مظلوموں کے لیے کہیں انصاف نہیں ہے محض خود ساختہ باریکیاں اور اُلجھاؤ ہیں۔ کوئی بھی ترازو ہمارے لیے ناپ تول کرنے کا اہل ہے نہ ہی خواہاں۔ ۔ ۔ اب کہ پھر مُجھ سے کچھ اوجھل ہو جاتا ہے اور میں خود کو اپنے دوستوں کے پاس ٹھنڈی، خوشبو میں رچی فضا اور لذیذ کھانوں کی لَپٹوں میں پاتا ہوں اور اُنہیں ہجوم پر دُھتکارتے ہوئے سُنتا ہوں کہ کیا تماشا لگا رکھا ہے ان رذیلوں نے؟ کام کاج کریں جا کر۔ ۔ ۔ سڑکیں اور پُل بننا شروع ہونے لگے ہیں، اسٹاک ایکسچینج اپنی ریکارڈ سطح کو عُبور کرنے لگی ہے، جی ڈی پی بہتر ہوا ہے، غیر مُلکی امداد ملنی شروع ہو گئی ہے۔ سب کچھ ایک ہی رات میں تو ٹھیک نہیں ہو سکتا، حکومتیں مسائل میں گھری ہوتی ہیں، انہیں اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ پر ان باریکیوں کو یہ اَن پڑھ اور جاہل طبقہ کیسے سمجھ سکتا ہے بھلا؟
میرے دوست اور بھی انہی سے ملتی جُلتی باتیں کرتے ہیں، جبکہ میرے کانوں میں پھر وہ ہی آوازیں گونجتی ہیں۔ پہلے ہم جتنے پیسوں میں دال روٹی کھاتے تھے اب اُن سے زیادہ پیسوں میں کھانی پڑتی ہے، گھنٹوں بسیں نہیں آتیں، ٹرینیں نہیں چلتیں، ہسپتالوں میں ہمیں جگہ نہیں ملتی، ہمارے بچوں کو کتابیں مُفت تو دینی شروع کر دی ہیں پر اسکول جانے پر آدھی اُجرت کے برابر دیہاڑ ی نہ لگنے کا سدّباب نہیں کیا جا رہا۔ ۔ ۔ اب کہ پھر میرے دوستوں کی آوازیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں، فیول پرائسز کم ہوئی ہیں جس سے ائیر لائن کرائیوں میں فرق آیا ہے، ہفتہ آٹھ دن کے لیے دبئی نہ ہو آئیں؟
میں ایک بار پھر شاید چکر کھا جاتا ہوں یا میرے حافظے سے جیسے کچھ محو ہو جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں میری جگہ یہ نہیں مجھے ہجوم میں ہونا چاہیے پر باہر شدید گرمی، حبس اور چیتھڑوں میں لپٹے جسموں سے اُٹھتی بو کا خیال آتا ہے ساتھ ہی یہاں ٹھنڈی خوشبو دار ہوا کے جھونکوں کو خود کو چُھوتے ہوئے محسوس کرتا ہوں۔ ۔ ۔ اب کہ پھر جیسے سب کچھ یا کچھ، مجھ سے اوجھل ہو جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ ابھی میری آنکھ کھل جائے گی جیسے کہ ہر بار کھل جاتی ہے، میں تڑپتا ہوا ادھر ادھر کسمساتا ہوں۔ ۔ ۔ پر آنکھ نہیں کھلتی۔