[تحریر: ناصرہ وائیں]
اس کے د ھیرے دھیرے اٹھتے قدم دائی کو کمرے سے باہر نکلتا دیکھ کر یکایک رک گئے۔ ذکیہ نے ایک امید بھری نظر سے دائی کو دیکھا۔ ’’کیا ہوا، میری رانی کیسی ہے؟وہ ٹھیک تو ہے؟‘‘
’’ہاں ذکیہ!وہ بالکل ٹھیک ہے، شکر ہے اس ذات کا۔‘‘ دائی نے آسمان کی طرف دیکھااور تھپکی دی۔ ’’بیٹی ہوئی ہے۔ رب سوہنا اگلی دفعہ کرم کرے گا۔ اور تو پوتے کا منہ ضرور دیکھے گی‘‘ دائی نے اس کو تسلی دی۔ ذکیہ نے اس کی بات سن کر اپنے پھٹے پرانے آنچل سے چند روپے نکال کر اس کی مٹھی میں رکھ دیے۔ ’’اس وقت یہی کچھ تھا میرے پاس‘‘ اس نے منت کی اور آنکھوں میں ابھرتے ہوئے آنسوؤں کو آنچل میں جذب کرنے کی کوشش کرتی ہوئی سیدھی کمرے میں چلی گئی۔ پوتی کو پیار کیا اور بہو کو تسلی دی۔ ایک گھمبیر مسکراہٹ اس کے چہرے پر اچانک چھا جانے والے بادل کی طرح نمودار ہوگئی۔
ذکیہ کی آنکھیں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ جب کاشف فیکٹری سے لوٹا تو ذکیہ جلدی جلدی دروازے کی طرف بڑھی لیکن اس تیزی میں اس کا پاؤ ں ٹوٹے فرش سے پھِسل گیا بڑی مشکل سے اس نے دیوار کا سہارا لے کر سنبھلنے کی کوشش کی۔ اسی دوران دروازے پر دستک تیز ہو گئی۔ ’’ماں!ماں!۔ ۔ ۔‘‘ جواب نہ پا کر وہ چلایا ’’رانی۔ ۔ ۔ رانی۔ ۔ ۔‘‘
’’بیٹا!میں آ رہی ہوں‘‘ اس نے درد سے کراہتے ہوئے کہا۔
’’ماں!رانی کہاں ہے؟‘‘ کاشف نے اندر داخل ہوتے ہی چیختے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا!رانی کمرے میں ہے وہ اس وقت آرام کر رہی ہے‘‘ ذکیہ نے بیٹے کو پانی کا گلاس لا کر دیا اور اس کو گلے سے لگاتے ہوئے بولی ’’بیٹا!مبارک ہو، تم باپ بن گئے ہو!‘‘
’’کیا؟بیٹا ہواہے نا؟‘‘ کاشف نے خوشی سے پوچھا۔ ذکیہ اْٹھ کر کھڑی ہو گئی اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’نہیں، کاشف کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھلک سا گیا، اس پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔
صبح تک وہ اس حقیقت کو کسی حد تک تسلیم کر چکا تھا۔ بچی کے رونے کی آواز سن کر وہ کمرے میں داخل ہوا تواس کے سامنے نومولود بچی گیلے بستر پر پڑی رو رہی تھی۔ رانی شاید کْھرے میں تھی۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا لیکن بچی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ آخر آگے بڑھ کے اس نے بچی کو گود میں اٹھا لیااور اسے دکھ اور حیرت سے دیکھنے لگا۔ اتنے میں اس کی ماں رانی کو سہارا دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور آتے ہی یہ سوچ کر بچی کو گود میں لے لیا کہ وہ اس کو گیلانہ کردے۔ پھر اس نے بڑی آس سے پوچھا ’’کاشی!اس کا نام کیا رکھنا ہے؟‘‘
’’ماں جو تیرا جی چاہے رکھ لے، نام سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟لڑکا تو نہیں بن جائے گی نا یہ؟‘‘ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
وقت پنکھ لگا کر اڑنے لگا۔ آج رانی تین بیٹیوں کی ماں ہے۔ ان کی شادی کو سات سال ہوچکے تھے۔ اب سلونی چھ سال کی تھی جو کارپوریشن کے سکول پڑھتی تھی، دوسرے نمبر پر آسیہ پانچ سال کی تھی اور سب سے چھوٹی مافیہ دوسال کی تھی۔ بیٹے کی آس میں لڑکیوں کی تعداد تین ہو گئی تھی۔ گھر میں کھانے والوں کی تعدادبڑھ رہی تھی لیکن کمانے والا بس ایک ہی تھا۔
تیسری بیٹی کی پیدائش پر کاشف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ سارا دن فیکٹری میں کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا اور رات کو گھر آتا تو کوئی نہ کوئی بچہ رو رہا ہوتا۔ بیٹے کی خواہش ایک حسرت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وہ رونے کی آواز سن کر چلاتا ’’رانی!تم سے بچے نہیں چْپ کروائے جاتے۔ بس بیٹیاں ہی پیداکرنا آتی ہیں؟اب تک کھانا نہیں پکایا؟‘‘ کبھی کبھی تو وہ پاس پڑی کوئی تھالی اْٹھا کے دیوار پہ دے مارتا یا پانی کا گلاس اٹھا کر کچے فرش پر پٹخ دیتا۔
مافی جو برتنوں کو کھلونے بنا کر کھیل رہی تھی، رانی نے اس کے ہاتھ سے برتن لے کر تھپڑ لگایا۔ تم ہر وقت کھیلتی رہتی ہو۔ وہ معصوم نگاہوں سے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو ’’میراکیا قصور ہے؟‘‘ روتے روتے وہ دادی کے پاس بیٹھ گئی جو لکڑی کے تحت پوش پر بیٹھی دال چن رہی تھی۔
’’سوچا تھا کہ بیٹا ہوگا تو میرا ہاتھ بٹائے گا۔ کوئی کام کرے گا، چند پیسے کمائے گا تو آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ لیکن میری جنانی نے تو میری قسمت صرف بیٹوں کا بوجھ لکھ دیا ہے‘‘ وہ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے منیجرکو بتا کر غم غلط کررہاتھا۔
’’کوئی بات نہیں۔ اللہ میاں کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوگی۔ ویسے، کتنی بیٹیاں ہیں تمھاری؟‘‘ منیجر نے پوچھاو۔
’’تین‘‘ کاشف نے بیزاری سے جواب دیا
’’کتنے سال کی ہیں؟‘‘ منیجر نے ایک بار پھربڑی دلچسپی سے پوچھا۔
سب سے بڑی آٹھ سال کی ہے اور دوسری سات سال، تیسری چار سال اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘ کاشف کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
مہینے کا آخری ہفتہ تھا اور ساری تنخواہ ختم ہوچکی تھی۔ رانی نے باورچی خانے میں دال کے ڈبے دیکھے لیکن سب خالی تھے۔ صرف آٹے کی مَٹی میں تھوڑا سا آٹا تھا۔ ’’اتنا آٹا سب کے کھانے کیلئے کافی ہو گا؟‘‘ ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ آٹا اس کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرکے بکھر گیا۔ اس نے جلدی سے آٹا اٹھا کے پرات میں ڈال لیا۔
’’رانی کیا ہوا؟‘‘ ذکیہ چلائی
’’خالہ جی کچھ نہیں، بس ابھی روٹیاں پکا رہی ہوں‘‘
دو روٹیاں اس نے کاشف کے لئے سنبھال لیں اور باقی کی سب نے مل کر پانی کے ساتھ زہر مار کیں۔ ’’اماں!مجھے بھوک لگی ہے، کیا اور روٹی نہیں ہے؟‘‘ سلونی نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر التجا کی۔
’’نہیں!ایک تو تیرا پیٹ نہیں بھرتا۔ سارا دن تجھے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کیلئے چاہیے۔ چٹوری!لے بھر لے اپنا پیٹ‘‘ رانی نے اپنی آدھی روٹی اس کو دے دی اور خود پانی پی کے پیٹ کو جھوٹی تسلی دینے لگی۔
’’رانی!لے میرے حصے کی تو کھا لے‘‘ ذکیہ نے چھابے سے روٹی اس کی پلیٹ میں رکھ دی۔
’’نہیں خالہ، میں ٹھیک ہوں۔ تو کمزور ہے میں جوان ہوں ایک دن بھوکی رہوں گی تو مرتھوڑی جاؤں گی‘‘
پھر وہ برتن دھونے بیٹھ گئی۔
’’میں کردیتی ہوں، تو کپڑے دھو لے‘‘ ذکیہ گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر اٹھی اور کھرے میں بیٹھ کربرتن دھونے لگی۔
’’آٹا زیادہ گھوندلیتی‘‘ اس نے پرات دھوتے ہوئے تجویز دی۔
’’خالہ سب راشن ختم ہو گیا۔ یہی سوچ رہی ہوں کہ رات کو کیا پکاؤں گی‘‘ رانی کے غمزدہ چہرے پرچھائی پریشانی مزید گہری ہو گئی۔ وہ دل ہی دل میں نئے آنے والے بچے کا سوچ کر مری جا رہی تھی کہ اتنے روپوں میں گھر نہیں چلتا اگر ایک اور جان آگئی تو کیا ہوگا؟اے اللہ!میرا اور میرے بچوں کا کیا بنے گا اور اگر تو نے پھر سے بیٹی دے دی تو؟اس بار تو وہ یقینامجھے گھر سے نکال باہر کرے گا۔ کپڑے دھوتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھ اْٹھا کر پروردگار سے دعا مانگی۔ ذکیہ اس کو خاموش پا کر اس کی جانب دیکھ کر حیران ہوئی۔ ’’ارے!رانی۔ ۔ ۔ کیا ہوا؟کیا کررہی ہے؟‘‘
’’خالہ!پروردگار سے مدد مانگ رہی ہوں‘‘ اس نے کپڑوں کو ڈنڈے سے کوٹتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ کیا وقت ہوا دعا کرنے کا، نہ منہ دھویا، نہ نماز پڑھی اور مدد مانگ رہی ہے‘‘ ذکیہ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائی اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
اگلے دِن صبح صبح سلونی نے دادی کے بازو سے جھولتے ہوئے کہا ’’اماں!بھوک لگی ہے‘‘ ، پھر آسیہ بھی آنسو پونچھتے ہوئے آگئی ’’اماں!پیٹ میں درد ہو رہا ہے‘‘ ، مافیہ بھی بھوک سے بِلبلا رہی تھی۔ رانی بستر تہہ کر کے جھاڑ پونچھ میں لگ گئی لیکن بچوں کی بھوک سے زیادہ دیر لاپرواہ نہ رہ سکی۔
’’خالہ!کیا کریں؟‘‘
دادی ایک کونے میں کسی بت کی مانند پڑی تھی کہ رانی کی آواز سن کر اچانک اٹھ بیٹھی۔ سلونی تو چل میرے ساتھ۔ پوتی کا سہارا لیکر وہ گلی کی نکڑ پر بنیے کی دکان پر جا پہنچی۔ کریم دکان پر موجود نہ تھا لیکن اس کا مددگار موجود تھا۔
’’اے لڑکے!کریم کدھر گیا ہے؟‘‘ اس نے سیدھے کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ مالکن کی طبیعت اچھی نہیں ہے‘‘ لڑکا دال کی بوری کے منہ پر دال کی ٹیسی بناتے ہوئے لاپرواہی سے بولا ’’مائی تو کیوں پوچھ رہی ہے؟کیا کچھ خریدنا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ نہیں‘‘ ذکیہ لڑکے کے لہجے سے جزبز سی ہو گئی۔
’’کیا ہاں ہاں ناں ناں لگائی ہے؟صبح کے وقت دھندا کھوٹا کر رہی ہو۔ چل جا!مائی‘‘ لڑکے نے اناج کی بوریوں کو درست کرتے ہوئے تلخی سے کہا۔
ذکیہ کیلئے بھی اتنی دیر کھڑا رہنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے جانے کیلئے قدم بڑھایا ہی تھا کہ کریم بولا ’’اماں!کیسے آئی تھی؟کیا حال ہے؟تو کھڑا کیا منہ دیکھ رہا ہے، اندر جا، جا کے مالکن کو چائے بناکے دے‘‘
’’بیٹا!مہینے کے آخری دن ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں‘‘ بھوک کا لفظ موت سے کم ہیبت ناک نہیں تھاذکیہ کی بڈھی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اس نے اپنے بوسیدہ دوپٹے سے آنسو صاف کئے۔
’’اماں!تو رو کیوں رہی ہے؟میں ہوں نا، بتا کس چیز کی ضرورت ہے؟‘‘ کریم شفقت سے بولا۔
’’ایک کلو آٹا اور آدھا کلو دال، لیکن میرے پاس پیسے کم ہیں‘‘ اس نے دوپٹے کی گرہ کھول کر کچھ روپے بڑے ممنونانہ انداز میں کریم کو دئے۔
پہلے کریم نے کھاتہ لکھا اور پِھرآٹا تول کے ذکیہ کے تھیلے میں ڈالا۔ پھر دال شاپنگ بیگ میں ڈال کر تولی اوراضافی چند دانے اْٹھا کے واپس بوری میں ڈال کر راشن ذکیہ کے حوالے کردیا۔
سلونی کو پیار کرتے ہوئے کریم نے پوچھا ’’یہ کون ہے اماں؟ ’’میری بڑی پوتی ہے‘‘ ذکیہ نے مشفقانہ نگاہ سلونی پر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کتنے سال کی ہے؟ ’’آٹھ برس کی‘‘ دادی نے بتایا۔
کریم کچھ سوچتے ہوئے واپس مْڑا اور دکان میں جا کر کچھ سوچنے لگا۔
ایک دن گزر گیا، لیکن ابھی تنخواہ ملنے میں کافی دن باقی تھے۔ ایک دن کا راشن تو مل گیا اگلے دن کیا ہوگا؟باورچی خانے میں آٹا گوندھتی رانی برتن دھوتی ساس سے کہہ رہی تھی۔
’’بیٹی!آج کی روٹی تو پکا، کل کا خدا ہے‘‘ ذکیہ نے جواب دیا
’’ماں!مجھے سکول کی فیس دینی ہے‘‘ سلونی کتابوں سے بھرا تھیلا، بازو میں ڈالتی ہوئی بولی ’’آج مہینے کا آخری دن ہے، فیس نہ دی تو وہ میرا نام کاٹ دیں گے‘‘ اس نے روہانسی ہو کر بتایا۔
’’چل جا!میری بیٹی اگلے مہینے دونوں ماہ کی فیس دے دیں گے‘‘ ماں نے بہلانا چاہا سلونی تنگ آکے بولی ’’ماں!ایک ماہ کی فیس کیلئے پیسے نہیں ہیں دو ماہ کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘‘ اس نے ماں کو لاجواب کر دیا۔
’’کوئی بات نہیں، سکول جا، ور نہ استانی لیٹ ہونے پر مارے گی‘‘ یہ کہہ کر رانی اسے بازو سے پکڑ کر سکول چھوڑآئی۔ ساری رات سلونی کی ماں صبح کے بارے میں سوچ سوچ کر جاگتی رہی اور اس کی ساس اپنی چارپائی پر کروٹیں بدلتی رہی۔
’’ماں!میری فیس؟‘‘ سلونی نے اگلی صبح تھیلا تھامتے ہوئے پھر سے مطالبہ کیا۔
’’آج سکول سے چھٹی کر لے‘‘ رانی دکھیاری ہو کر بولی لیکن ماں کی تجویز سلونی کو ذرا نہ بھائی۔
’’ماں!میرا ٹیسٹ ہے سکول نہ گئی تو جرمانہ ہوگا‘‘ سلونی چلا کر بولی۔
’’اچھا!چل سکول‘‘ رانی اسے گھسیٹتے ہوئے ایک بار پھر سکول چھوڑ آئی۔
’’اب کیا کروں؟بچے دیئے تو ان کا رزق بھی دے دیتا‘‘ وہ کپڑے سیتی ہوئی سوچ رہی تھی۔ ’’گھر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں‘‘ اس نے ذکیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ذکیہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا ’’رانی بیٹا!اگر میری بڈھی ہڈیوں میں جان ہوتی تو کسی کے گھر برتن مانجھ لیتی، لیکن میری بوڑھی ٹانگیں میرا بوجھ اٹھا نہیں پاتیں‘‘ ۔ ذکیہ کی بات سن کی رانی بولی ’’میں کام کر لیتی ہوں۔ خالہ تو جا اور میرے لئے کام ڈھونڈ کر لا۔‘‘
’’رشید تو کیوں مٹھائی بانٹ رہا ہے؟‘‘ کاشف نے اس کے ہاتھ سے لڈو لیتے ہوئے پوچھا۔
’’میرے بیٹا ہوا ہے!‘‘ رشید نے کائنات کے تما م رنگ اپنی چہرے پہ یکجا کرتے ہوئے کہا۔
’’مبارک ہو، شکر ہے اس ذات کا جس نے تین بیٹیوں کے بعد مجھے اس نعمت سے نوازا ہے۔ بڑی دعا کی، میری بیوی ہر جمعرات دربار پہ جاتی تھی اور حکیم صا حب سے بیٹا ہونے کی دوا بھی کھاتی رہی، ا?خر اللہ نے ہماری سن لی۔ اب مجھے میرے بڑھاپے کا سہارا مل گیا ہے‘‘
’’اور مجھے؟‘‘ ایک آہ کاشف کے سینے سے نکلی۔ ’’تم لوگ یہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہو!کام کون کرے گا؟چلو جا کر مشین پر کام کرو‘‘
’’منیجر صاب ہم کام شروع کرنے ہی والے تھے کہ رشید مٹھائی لے آیا‘‘ کاشف نے وضاحت پیش کی۔
’’کس خوشی میں؟‘‘ منیجر نے جلدی جلدی لڈو منہ میں ٹھونستے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا ہوا ہے‘‘
’’مبارک ہو۔ تم اتنے کیوں اداس ہو؟‘‘ منیجر نے کاشف کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ فون سننے کے بعد منیجر
نے حکم دیا ’’رشید تم چلو ہم آ رہے ہیں۔ باقی کی مٹھائی چھٹی کے بعد بانٹنا، اور کاشف تم میرے پاس ٹھہرو مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے‘‘
سب چلے گئے تو منیجر بولا ’’دیکھو کاشف تو نے کہا تھا کہ اتنی تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا۔ میں نے میاں صا حب سے تیرے متعلق بات کی تھی۔ ان کی بیگم صاحبہ کو بچہ ہونے والا ہے اور ان کو ایک بچی کی ضرورت ہے۔ ان کوایک ایسی ملازمہ چاہیے جو ان کے بڑے بچے کو کھِلائے اور اسے اْٹھائے۔ وہ چوبیس گھنٹے انہی کے گھر میں رہے گی، لیکن بچی چھ سات سال سے زیادہ نہ ہو۔ جب آہستہ آہستہ کام کرنا سیکھ جائے گی تو تنخواہ بھی بڑھا دیں گے۔
’’لیکن منیجر صاحب آپ مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہو؟‘‘ کاشف نے ساری بات سن کر کہا۔
’’کاشف!اتنی عمر ہوگئی اور یہ آسان سی بات تیرے پلے نہیں پڑ رہی؟میاں صاحب کے گھر ملازمت ملنے کا مطلب ہے قسمت کھل جانا۔ پہلے جو بچی ان کے گھر میں تھی، پچھلے دنوں میاں نے بڑے ہی اچھے طریقے سے اْسے بیاہ دیا ہے۔ وہ بچی میری رشتے دار تھی۔ پچھلے تیرہ سال سے وہ ان کے گھر تھی۔ پوری ذمہ داری ان کی تھی، کھانا پینا، کپڑے لتے، اور اوپر سے ہر ماہ تنخواہ الگ۔ ایڈوانس بھی ملے گا‘‘ منیجر نے جتنی رقم ایڈوانس کی بتائی وہ کاشف کی تین ماہ کی تنخواہ کے برابر تھی۔ منیجر نے اپنی بات جاری رکھی ’’میری رشتے دار اپنا لڑکا رکھوانا چاہتی ہے اس کی لڑکی نہیں ہے، لیکن میاں صاحب لڑکی رکھنا چاہتے ہیں۔ اب تو ہی سوچ لے کیا کرنا ہے۔ چل!گھر جا کر جنانی سے بات کر لے، یہ نہ ہو کوئی اور آکے اپنی بچی رکھوا دے۔ ارے تْو تو قسمت والا ہے۔ لڑکیاں تو گھر کی برکت ہوتی ہیں، لڑکوں کو ہم جن کاموں پر بھیجتے ہیں، وہاں ایڈوانس کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا دوسرے سالہا سال کام سیکھناپڑتا ہے۔ تجھے تو معلوم ہی ہے صرف جمعرات کو چند روپے خرچہ ملتا ہے اورتیری بچی کو تو حاجی صاحب تنخواہ دے رہے ہیں۔ مزدورتو بچے ہی اس دن کے لئے پیدا کرتا ہے کہ وہ جلد از جلد اس کی زندگی کا بوجھ اْٹھا لیں‘‘ اس نے کاشف کو تسلی
دیتے ہوئے کام پر لگنے کا اشارہ کیا۔
یہ خیال تو رشید کوکبھی نہ آیا تھا کہ اس کی بیٹی اس کی مدد کرسکتی تھی۔ گھر جاکر اس نے اپنی بیوی سے بات کی تو اس کی مامتا در آئی، کہنے لگی کہ میرے ہوتے ہوئے سلونی کام نہیں کرے گی۔ میں کام کروں گی اور وہ سکول جائے گی۔ میں نے خالہ سے کہہ دیا ہے کہ وہ میرے لئے کام تلا ش کرے۔ ذکیہ نے بہو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ میری سلونی پڑھے گی۔ مجھے کام مل گیا ہے۔ ’’ماں تم سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جاتا، تجھے کون کام دے گا؟‘‘ کاشف نے بے بس ہو کر غصے سے کہااور باہر چلا گیا۔ ’’حاجی!حاجی دے گا مجھے کام‘‘ ذکیہ کی آنکھوں میں اْمید کے دیے روشن ہو گئے۔
لیکن آج کا دن کیسے گزرے گا۔ ذکیہ سلونی کا سہارا لئے کریم کی دکان پر جا پہنچی۔ کریم کا ملازم ان کوآتا دیکھ کر کریم کو فورا بلا لایا۔ کریم جلدی جلدی قمیض کے بٹن بند کرتا ہوا آیا۔ ذکیہ نے کریم سے کام دلانے کی بات کی تھی تو کریم نے اسے حاجی صاحب کے بارے میں بتایا تھا جن کا ایک سکول تھا جو کہ حاجی صاحب کارِ ثواب کے لئے چلا رہے تھے۔ حاجی صاحب کواپنے سکول کے لئے ایک مائی کی ضرورت تھی۔
’’اماں!تو نے مجھے کام کا کہا تھا، میں نے کہا تھا نا کہ تیرا کام ہو گیا۔ میں نے حاجی صاحب سے بات کی تھی، وہ تجھے یاد کر رہے تھے‘‘ کریم بولا
’’اچھا اچھا!کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ ذکیہ نے تجسس سے پوچھا۔
کریم نے پہلے کھاتا لکھا اور سودا تولتے ہوئے بتایا ’’اماں!تو ان سے خود مل آ۔ سلونی کو سودا تول دیتا ہوں‘‘
اماں فوراً حاجی صاحب کے پاس پہنچی، حاجی صاحب نے پیسے طے کئے اور ملازمت پر رکھ لیا۔ اور کچھ رقم، جو کہ حاجن صاحبہ نے خیرات کیلئے رکھی تھی اس میں سے اْٹھاکرذکیہ کو دیتے ہوئے کہا ’’اماں کاروبار نہیں ہے، دْعا کر دینا‘‘ اورمزید کہا کہ کل ہی سے کام شروع کر دو، صبح پانچ بجے سکول پہنچ جانا۔ پھر اس کو کام سمجھانے لگے۔
جب ذکیہ چلی گئی تو حاجی صاحب سوچنے لگے کہ پچھلی مائی نے تو تنگ کر رکھا تھا، زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کر رہی تھی، جب نہیں بڑھائی تو اب بلیک میل کر رہی ہے، ہفتہ ہو گیا ہے کام پہ نہیں آئی۔ محلے کے جمعدار سے بولا تھا، صفائی کردے۔ بدمعاش ایک دن میں اتنے پیسے مانگتا ہے کہ اتنے میں ان عورتوں سے ہفتہ کام کروا لو۔ ویسے بھی ملازم بدلتے ہی رہیں تو یہ قابو میں رہتے ہیں۔ اب ذکیہ کو ہی لو یہ پچھلی مائی سے کافی کم پیسوں پر کام کرنے کیلئے آمادہ ہوگئی ہے۔ ۔ ۔ اْدھر ذکیہ نے دِل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور حاجی صاحب کے کاروبار میں برکت کے لئے خاص طور پر دعا مانگتے ہوئے سوچا کہ اللہ کے ایسے نیک بندے دنیا میں ابھی موجود ہیں تبھی تو یہ دْنیا قائم ہے۔ پیسے دیکھ کر اس کا دل خوشی سے جھوم اْٹھا تھا، کیونکہ یہ رقم ان کے دس دن کے راشن کیلئے کافی تھی۔ اس نے بنیے کا ادھار چکایااور نیاز کیلئے چیزیں خریدیں۔ شام کو محلے میں نیاز بانٹی اوراللہ سوہنے کا شکر ادا کیا۔ رانی کو چند روپے دئے اور سلونی کو فیس بھی دے دی۔ بچے بہت خوش تھے، عید کے بعدآج ان کو کھانے میں کوئی اچھی چیز ملی تھی ورنہ ان کے ہاں تو سارا سال ہی رمضان کا سا سماں رہتا تھا۔
دوسرے دن علی الصبح اماں اٹھی، رات کا بچا کھانا کھایا اور سکول جا پہنچی۔ جھاڑو لیکر جب وہ کلا س روم میں پہنچی تو کمرے کے آخری کونے میں کوڑے کا ڈھیر لگا تھا۔ باقی سب کلاس روم بھی اتنے ہی گندے تھے۔ باتھ روم میں اس قدر بدبو اٹھ رہی تھی کہ اس کا دماغ پھٹنے لگا۔ بچوں نے ان کو گندا کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑٰی تھی۔ نیچے کی منزل پر کام ختم کرتے اس کو دو گھنٹے لگ گئے اور وہ ہانپتی ہوئی ہیڈ ماسٹر کے آفس میں بیٹھ گئی۔ ابھی تک سٹاف میں سے کو ئی سکول نہ پہنچا تھا۔ جب ہیڈ ماسٹر صاحب اور دیگر سٹاف سکول آئے تو سکول کو صاف ستھرا دیکھ کر اپنی حیرانی چھپا نہ سکے۔ حاجی صاحب نے آخر ایک ہفتے بعد صفائی والی کا انتظام کر ہی لیا۔
’’استانی جی!اوپر کی منزل کی صفائی کل کرلوں گی۔ ابھی میں بہت تھک گئی ہوں‘‘ ذکیہ نے ہانپتے ہوئے کہا۔
استانی کے بولنے سے قبل ہیڈ ماسٹر بولا ’’نہیں!آج ہی سارا کام مکمل کر نا ہے اور کل کی صفائی بھی آج چھٹی کے بعد کرنی ہے‘‘
اس کے جانے کے بعد استانی نے کہا ’’سر!اس نے پورے ایک ہفتے کا کام کیا ہے، اگر اس سے زیادہ کام لیا تو وہ کل کام نہیں کرسکے گی‘‘
’’کچھ نہ ہوگا۔ یہ لوگ بہت سخت جان ہوتے ہیں اور پھر پہلے ہی دن اس سے کم کام کروایاتو وہ روز ایسا ہی چاہے گی‘‘ ہیڈ ماسٹر کی صد کے سامنے استانی کو مجبوراً ہاں میں ہاں ملانی پڑی۔
اوپر کی منزل پرکام کرکے نیچے آتے ہوئے اس کا پاؤں پھسل گیااور موچ آگئی۔ اگلے دودن وہ چارپائی سے نہ اٹھ پائی۔ حاجی صاحب کے تقاضے آرہے تھے کہ کام پر نہیں آنا تو بتا دو ہم کوئی اور انتظام کر لیں۔ اب کیا کیا جاتا؟
آخر رانی نے کہاکہ خالہ جب تک تیرا پیر ٹھیک نہیں ہوجاتا، تب تک میں کام پر چلی جاتی ہوں۔ اگلے دن وہ صبح سویرے شرماتی لجاتی کام پر موجود تھی۔ صفائی شروع کی، سار ے سکول کی صفائی کرکے وہ ہلکان ہوگئی۔ سٹاف کے آنے سے قبل وہ سارا کام ختم کرچکی تھی۔
اگلے دن بھی اس نے پوری دیانتداری سے اپنا کام نپٹایا۔ سکول شیشے کی طرح چمک رہا ہے۔ ہیڈ ماسٹر حاجی صاحب کو فون پہ بتا رہاتھا کہ مائی کی بہو بہت اچھی صفائی کرتی ہے۔ آپ اسی کو کام پر رکھ لیں وہ بوڑھی عورت کیا کام کرے گی۔ رانی اسی طرح وہاں کام کرتی رہی۔ پہلے پہل تو اس نے خوب محنت کر کے سکول کو چمکایا، لیکن جب یہ دیکھا کہ بچے بڑے بے دریغ طریقے سے گند ڈالتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس نے بھی واجبی سی صفائی شروع کر دی جس طرح کہ کام والیاں کرتی ہیں۔ اس کو یہ راز بغیر سیکھے ہی معلوم ہو گیا۔
آج تنخواہ کا دن تھا۔ وہ ساری رات خواب میں پیسے خرچنے کے منصوبے بنا تی رہی، میں اپنی بیٹیوں کیلئے نئے کپڑے خریدوں گی۔ آسیہ کو جوتے اور سلونی کو بستہ لے کردوں گی۔ بیچاری رومال میں کتابیں لے کے جاتی ہے۔ راشن سے جو پیسے بچ گئے ان کی کمیٹی ڈال دوں گی۔ آ خر کو تین تین بیٹیوں کی ماں ہوں۔ کل کو ان کی بیاہنا بھی ہے کیا خالی ہاتھ سسرال جائے گی؟نیاز بھی دوں گی۔ اللہ سوہنے کا خیا ل بھی تو آخر ہم کو ہی رکھنا ہے۔ آخر اسی کی بدولت ہی تو یہ رزق ملا ہے۔
’’باجی بڑی خوش نظرآرہی ہو؟کیا بات ہے؟‘‘ استانی نے پوچھا۔
’’استانی جی!آج مجھے سارے مہینے کی محنت مزدوری کے بعد پیسے ملیں گے۔ سوچ رہی ہوں کہاں کہاں خرچ کروں گی؟‘‘ رانی خوشی سے بولی۔
پیسے لینے کے بعد جب اس نے رقم گنی توپیسے کم تھے۔ ’’روپے کم کیوں ہیں؟‘‘ اس نے پریشان ہوکر پوچھا۔
’’باجی!آپ کی ساس نے جو چھٹیاں کی تھیں ان کے پیسے کاٹ کر پیسے بھیجے ہیں حاجی صاحب نے‘‘ یہاں پر دستخط کر دیں، میرا مطلب ہے انگوٹھا لگا دیں۔
’’میں حاجی سے بات کروں گی‘‘ رانی نے قدرے غصے میں بولی۔
گھر جا کر ساس کے ساتھ حاجی صاحب کے گھر پہنچی۔ وہ نماز پڑھنے مسجدگئے تھے۔ لوٹنے پر انھوں نے دودن کی تنخواہ دے دی، وہ دونوں حاجی صاحب کو دعائیں دیتی گھر لوٹیں۔
’’یہ آپ نے کیا کیا؟آپ اس طرح ملازموں پر رقم کیوں لٹا رہے ہیں؟‘‘ حاجن بولی۔
’’تم کیوں پریشان ہوتی ہوبیگم!پہلی کام والی مہینہ ختم ہونے سے سات روز پہلے چلی گئی تھی۔ سات دن کا م اس کی ساس نے ایک دن میں کیا تھا۔ اس طرح چھ دن کے روپے بچ گئے۔ اس کی ساس نے تین چھٹیاں کیں۔ اور تین دن کا کام اس نے ایک دن میں کیا۔ اب سوچ ذرا!نو دن کے پیسے بچ گئے اور صرف اس کو دو دن کے پیسے دئے ہیں۔ سات دن کے پیسے بچ گئے ہیں۔ اور یہ پہلی کام والی سے کم تنخواہ پر کام کررہی ہے‘‘ حاجی نے بیگم کو ٹھنڈا کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’لیکن پھر آپ نے اْسے پہلے ہی پورے پیسے کیوں نہیں بھیج دیے؟‘‘ حاجن نے حیرت سے پوچھا
’’اری نادان!اس طرح سے اس پر ایک احسان چڑھ جائے گا کہ اس کا حق نہ ہوتے ہوئے بھی ہم نے اْسے نوازا ہے اور یہ غریب لوگ ایسی باتوں پر بہت خوش ہوتے ہیں، ایک تو کام اچھا کرے گی، دوسرے ہمارے حق میں دعا کرے گی۔ کیوں، ٹھیک کیا نا؟‘‘
’’ماشا ء اللہ۔ ۔ ۔ حاجی صاحب!‘‘ حاجن اپنے خاوند کے حسابی ذہن کی داد دیے بغیر رہ نہ سکی ’’اللہ تعالیٰ نے حاجی صاحب کو کیا کاروباری فہم عطا کی ہے۔ یا ربّ تیرا شکر ہے‘‘
آج پھر سے گھر میں عید کا سماں تھا۔ بچوں کو زردہ اور پلاؤ ملا تھا۔ ان کے معصوم اور کمزور چہروں پر خوشی رقصاں تھیں۔ ’’امی!تو اکتنی اچھی ہے۔ کتنا اچھا کھانا پکایا ہے‘‘ آسیہ بولی!
’’امی جی!آپ روز اس طرح کا کھانا کیوں نہیں پکاتیں؟‘‘ سب سے چھوٹی کا سوال تھا۔
’’بے وقوف امی بھول جاتی ہے، ورنہ روزروز ایسا کھانا ملے‘‘ دادی بولی ’’اب سارے بچے اللہ پاک کا شکریہ ادا کریں جس نے ہمیں مزیدار کھانا کھلایا‘‘
’’لیکن دادی!یہ کھانا تو امی نے بنایا ہے‘‘ سلونی کچھ سوچ کر بولی۔
’’معافی مانگ اللہ سے۔ ۔ ۔ ۔‘‘ دادی نے سختی سے کہا۔
’’لیکن کیوں دادی؟‘‘ سلونی نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہیں کرتے۔ ۔‘‘ دادی نے نصیحت کرتے ہوئے بتایا۔
’’کیوں دادی؟‘‘ سلونی کے سوال جاری رہے۔
’’دادی نے اس کی کمر میں ٹھوکا لگایا ’’بس چپ کر!کھا اور ہر وقت کیوں، کیوں نہ کیا کر۔ کیوں اللہ کو پسند نہیں ہے‘‘ دادی نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔
’’مگر یہ ’کیوں‘ اللہ کوکیوں پسند نہیں ہے؟‘‘ اب کے بار سلونی نے دل میں سوچا۔
اتنے میں آسیہ بولی ’’چپ کر جا!ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے، ہمیں کل سے ایسا کھا نا نہیں دیں گے دادی؟‘‘
اب پاس بیٹھی ماں نے اسے گھورا تو وہ تینوں ماں کے تیور دیکھ کرچپ چاپ کھانے میں مصروف ہو گئیں۔ پھر وہ نیاز بانٹنے میں لگ گئی۔
رات کو سوتے وقت رانی نے کاشف سے تنخواہ کے بارے پوچھاتو بتایا کہ دس تار یخ کو مل جائے گی۔
’’اور جو پیسے تجھے ملے تھے وہ کہاں گئے؟‘‘ اگلی صبح کاشف نے اس سے پوچھا۔
’’پیسے۔ ۔ ۔ وہ کیوں؟‘‘ رانی نے پوچھا۔
’’بجلی کا بل اور پانی کا بل ادا کرنا ہے‘‘ کاشف نے جواب دیا
’’میں نے بلوں کے بارے میں سوچا ہی نہیں‘‘ یک دم اس کے معصوم چہرے پر پریشانی نمودار ہوئی۔ ’’کیاہوا؟‘‘ اس نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کاشف نے قدرے اونچی آواز میں پوچھا ’’کہاں کھو گئی ہو؟‘‘
’’میں نے سارے پیسے خرچ کر دیے‘‘ رانی نے ماتھے پر نمودار ہوتے ہوئے پسینے کو آنچل میں سمایا۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہو؟کچھ پیسے تو بچائے ہوں گے‘‘ کاشف نے امیدبھرے لہجے میں کہا۔
’’نہیں سارے کے سارے خرچ ہوگئے‘‘ رانی پریشانی کے عالم میں بولی۔
’’یہ کیا کیا تم نے؟بجلی، گیس، اور پانی کا بل کون بھرے گا؟اب میں پیسے کہاں سے لاؤ ں گا؟‘‘ کاشف چڑچڑا ہورہا تھا۔
’’میں بھی کتنی بے عقل ہوں۔ میں نے بلوں کے بارے سوچا ہی نہیں۔ راشن پر خرچ کیا، اور نیاز بھی دی، اس کے بعد صدقہ دیا تھا۔ خالہ کو مولوی صاحب نے بتایا تھا کہ آپ کے گھر کو نظر لگ گئی ہے۔ مولوی صاحب کو کالا مرغا بھی دیا اور مسجد کی تعمیر کے لئے کچھ پیسے بھی دیے تھے۔ اب خرچے ہی اتنے ہیں۔ کوئی کیا کرے؟‘‘ وہ بولتی رہی اور کاشف غصے میں گھر سے نکل گیا۔
کاشف فیکٹری پہنچا تو مالک نے بتایا کہ ان کو اوور ٹائم کیلئے مزدوروں کی ضرورت ہے۔ اس نے حامی بھرلی اور رات کی شفٹ میں بھی کام شروع کردیا۔ وہ پورا ہفتہ اس نے اوور ٹائم کرتے ہوئے گزارا تاکہ بل ادا ہو سکیں۔ صرف چند گھنٹے کیلئے گھر آتا اور پھر کام پر چلا جاتا۔ ایک رات جب وہ نائٹ شفٹ میں کام کررہا تھااسکو بہت زور کی جھپکی سی آگئی۔ نیند سے وہ اس وقت بیدار ہوا جب اس کا ہاتھ چلتی ہوئی مشین میں آ چکاتھا۔ اس کا ہاتھ بری طرح سے زخمی ہو گیا تھا۔
رات کو وہ درد سے کراہتا ہوا گھر پہنچا۔ اس کا زخمی ہاتھ دیکھ کر رانی کے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ کاشف کو کھانا دیتے ہوئے آنکھوں سے بے اختیار بہتے ہوئے آنسوؤں کو اس نے بہنے دیا۔
’’اللہ پاک کا شکر ہے کہ ہاتھ صرف زخمی ہو ا ورنہ ہاتھ کٹ بھی تو سکتا تھا‘‘ ۔ اس نے یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔
’’اب جب تک ہاتھ ٹھیک نہیں ہوجاتا، کام کرنا ممکن نہیں‘‘ کاشف نے کہا۔
’’دوائی دی ہے ڈاکٹر نے؟‘‘ رانی نے پوچھا۔
’’ہاں پٹی کر دی ہے ڈاکٹر نے اور ہر دوسرے دن پٹی تبدیل کروانے کو کہا ہے‘‘ کاشف نے جواب دیا۔
’’چلو اللہ کا شکر ہے۔ میں کھلا دیتی ہوں‘‘ اس نے خاوند کے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے سوچا، شاید اللہ ہم غریبوں کی آزمائش چاہتا ہے۔
’’بیٹا!دکھی مت ہو، جس نے دکھ دیا ہے اس کا علاج بھی اسی کے پاس ہے‘‘ ذکیہ نے بہو کی حالت دیکھ کر اسے تسلی دی ’’خدا جس حال میں بھی رکھے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ رانی مجھے یاد کروانا صبح اْٹھ کر صدقہ دوں گی‘‘
ہاتھ کچلے جانے کے بعد کاشف کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ فیکٹری کے مالک نے کاشف کو نوکری سے نکال دیا اور اس کی جگہ نیا مزدور رکھ لیاگیا۔ کاشف کو اس بات پر بہت دکھ ہوا۔ وہ مالک سے ملنے کے لئے فیکٹری گیا۔ مالک نے اسے کہا کہ جب تک اس کا ہاتھ ٹھیک نہیں ہو جاتا اس کو کام نہیں مل سکتا۔ ہاتھ ٹھیک ہونے کے بعد وہ آ جائے، اسے کام مل جائے گا۔ ہاں اگر وہ پیسے کمانا چاہے تواس کے پاس ایک تجویز ہے۔ کاشف نے بے اختیار پوچھا ’’وہ کیا؟‘‘
’’تیری بیٹی کیسی ہے؟‘‘ مالک بولا۔
ٹھیک ہے‘‘ کاشف نے بددلی سے کہا۔
’’تمہیں یاد ہے نا ہمیں گھر میں بچی کی ضرورت ہے؟‘‘ مالک نے کاشف کو پرانا قصہ یاد کروایا۔
یک دم کاشف کو یوں محسوس ہواجیسے اس کے دِل سے ایک بھاری بوجھ ہَٹ گیا ہو۔ قارون کا خزانہ تو اس کے اپنے ہی گھر میں اس کا منتظر تھا۔
’’میں گھر جا کے بات کرتا ہوں‘‘ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ تیزی سے گھر کی جانب چل دیا۔
’’میرا مالک سلونی کو اپنی بچے کے ساتھ کھیلنے کیلئے اپنے گھر رکھنا چاہتا ہے‘‘ جب سب کھاناکھا رہے تھا تو کاشف نے بات چھیڑی۔
’’میں سکول جانا چاہتی ہوں‘‘ سلونی جلدی سے بولی۔
’’تْو چپ ہو جا‘‘ کاشف نے اسے ڈانٹ دیاوہ ماں کی گود میں چھْپ کے بیٹھ گئی۔
’’ان حالات میں ہمارے لئے کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک مالک نے کسی لڑکی کو نہیں رکھا۔ اس کے کپڑے باندھ دینا۔ کل مجھے اس کو مالک کے گھر چھوڑنا ہے‘‘ اس نے اپنا فیصلہ سب کو سنا دیا۔
رانی بیٹی کو گلے لگا کر بہت روئی۔ ساری رات سلونی ماں سے چپکی رہی۔ بار بار سپنے میں اس کی آنکھ کھلتی کہ ایک دیو جس کے بارے وہ دادی سے کہانی سنتی تھی اس کو ماں سے چھین کر دوراپنے دیس میں لے جا رہا ہے جس میں دیو کے بچے اس سے اسی طرح کھیلیں گے جیسے وہ اکیلی بیٹھ کے چوزوں سے کھیلتی ہے۔ وہ ماں کی آغوش میں چھپنے کی کوشش کرتی رہی۔ ساتھ ہی بڑبڑاتی رہی کہ اس کو پڑھنا ہے سکول جاناہے۔ ماں!میں تمھیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ دوسری طرف رانی کا دل کسی طرح بھی اس بات کو ماننے کے واسطے تیار نہ تھا کہ چند ٹکوں کی خاطر اپنی پہلوٹی کی اولاد اپنی آپ سے دور کردے۔ جب وہ آنے والی صبح کے متعلق سوچتی تواس کادل دھک سے رہ جاتا۔ اس نے کئی بارسوچاکہ ’’کاش!یہ کوئی خواب ہوتا!‘‘ لیکن یہ حقیقت تھی۔ تلخ حقیقت!صبح وہ دیر سے بیدار ہوئی تواس کی فجر کی نمازقضا ہوچکی تھی۔ اس کی سْوجی آنکھیں اس کے دل کی کیفیت بتا رہی تھیں۔ ذکیہ نے اس کو دیکھتے ہوئے بھی ان دیکھا کر دیا۔ ابھی وہ باورچی خانے میںآٹا گھوند رہی تھی کہ باہر ایک گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔ دستک سن کر کاشف تیزقدم اٹھاتا ہوا دروازے کی جانب لپکا۔
’’جناب!میاں صاحب نے بھیجا ہے‘‘ ڈرائیور بولا۔
’’لیکن اتنی صبح۔ ۔ ۔؟‘‘ کاشف نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’جی وہ ایک اورپارٹی لین دین کے لئے تیار تھی‘‘ اس نے سانس اندر کھینچتے ہوئے جلدی جلدی بتایا۔
’’اچھا!‘‘ کاشف اس کی بات سن کر رانی سے بولا ’’چل جلدی سے سلونی کو بھیج دے اور اس کے کپڑے لتے دے‘‘
’’لیکن وہ تو ابھی سورہی ہے‘‘ رانی نے بیچارگی سے بتایا۔
’’چل اْٹھا اسے جا کر۔ ۔ مہارانی کو۔ ۔ ابھی تک پڑی سو رہی ہے‘‘ آوازیں سْن کر سلونی اْٹھ بیٹھی۔ ’’ماں!میں نہیں جاؤں گی‘‘ وہ ضد کرنے لگی، لیکن غریب کے بچے کی ضدبھی کیا ضد ہوتی ہے؟کاشف نے اسے سمجھایا کہ میاں صاحب بہت اچھے انسان ہیں اور ان کے بچے کے ساتھ تم کھلونوں سے کھیلنا۔ ’’ذرا باہر تو دیکھو کتنی بڑی گاڑی تمہیں لینے آئی ہے‘‘ وہ سلونی کو بہلاتے ہوئے بولا۔ سلونی آخر بچی تھی اور وہ اس کا باپ، مان ہی گئی۔ خوشی خوشی کار میں بیٹھی اور کار چل دی۔
سارا خاندان سوگوار تھا مگر جب سے آسیہ نے سلونی کو چمکتی کار میں جاتے دیکھا تھا وہ خوش تھی۔ رانی کی ماں اس سوچ میں تھی کہ اس کی ننھی چڑیا کو ابھی پنکھ پھیلانے آئے نہیں تھے اورآشیانے کو وِداع کرناپڑا۔ ’’ابھی میری بچی بہت چھوٹی ہے کیا وہ اکیلی رہ پائے گی۔ اس کی مالکن جانے اس کے ساتھ کیا سلوک کرے‘‘ وہ ساس سے باتیں کر کے دکھ ہلکا کر رہی تھی۔ دوسری طرف دادی کے جذبات بھی ایسے ہی تھے۔ دونوں مجبور تھیں لیکن جانتی تھیں کہ اس صورتِ حال کی وجہ کاشف نہ تھا بلکہ کسی اور ہی کی رضا تھی کہ ایک بچی اس کے خاندان سے ہمیشہ کے واسطے دور ہو جائے۔
’’سلونی اتنی بڑی گاڑی میں سیرکرنے گئی ہے۔ میں تو خوش ہوں، مجھے کیوں نہیں بھیجا۔ میں سکول جانا نہیں چاہتی، مجھے بھی گاڑی میں بھیج دو‘‘ آسیہ ضدکرکے رونے لگی۔ کاشف آگے بڑھا اور اس کو سینے سے لگالیا۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ آسیہ تم ہمارے ساتھ رہنا۔ ہمیں چھوڑ کرکبھی مت جانا۔
دن تیزی سے گزرنے لگے اور ایک ماہ بعد سلونی گھر والوں سے ملنے آئی۔ رانی کی آنکھیں بچی کو گلے لگا کر ٹپ ٹپ بر سنے لگیں اور دادی کی بھی۔ اس دن رانی نے اس کی پسند کا کھانا پکایا۔ ابھی وہ کھانا ختم بھی نہ کر پائی تھی کہ گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔ کاشف نے منت کی کہ وہ کچھ گھڑیاں انتظار کر لے۔ ابھی بچی نے کھانا نہیں کھایا۔
’’مالک کا حکم ہے کہ اس کو فورا گھر پہنچایا جائے سات بجے انھوں نے شادی پر جانا ہے اور ابھی ساڑے چھ کا ٹائم ہوچکا ہے۔ جلدی لے کر آؤ‘‘ ڈرائیور نے حکم سنایا تو کاشف کو مجبوراً ایسا ہی کر نا پڑا۔
رانی آنسو چھپاتی اپنے بستر میں گھس گئی۔ دادی نے دعا دی۔ اللہ میری پوتی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور مصلّے پر نفل ادا کرنے بیٹھ گئی۔
اب کے ذکیہ کریم سے سودا لینے گئی تو اس کے ہمراہ آسیہ تھی، آسیہ کو دیکھ کر کریم نے پوچھا ’’اماں!آج تمہاری بڑی پوتی کیوں نہیں آئی؟‘‘
ذکیہ نے بتایا کہ اس کو میاں صاحب کی کوٹھی بھیج دیا ہے ’’بڑے اچھے لوگ ہیں۔ اس کے کھانے پینے کا خیال بھی رکھیں گے اور تنخواہ بھی دیں گے۔ اللہ کی ذات پاک کا شکر ہے جس نے ہمارے دن پھیر دیے۔ ورنہ ہمارے گھر کو تو کسی کی نظر لگ گئی تھی‘‘
’’کتنی تنخواہ طے کی اماں؟‘‘ کریم نے تجسس سے پوچھا۔
’’میرے بیٹے کو معلوم ہے، ویسے تْو کیوں پوچھ رہا ہے؟‘‘ ذکیہ شاکی ہو کر بولی۔
’’در اصل اماں میں بہت دن سے تجھ سے یہی بات کہنا چاہتا تھا۔ میرے ایک جاننے والے ہیں، شہر کے مانے ہوئے وکیل ہیں، اللہ نے کروڑوں دئے ہیں۔ انہیں بھی ایک بچی کی ضرورت ہے، کئی بار کہہ چکے ہیں۔ تو نے بتایا ہی نہیں کہ تو بچی کو کسی کوٹھی میں رکھوانا چاہتی ہے ورنہ میں اس کو وکیل صاحب کے ہاں میاں صاحب سے زیادہ تنخواہ پر رکھوا دیتا‘‘ کریم نے ایک ہی سانس میں سارا قصہ سنا دیا۔
’’بیٹا اگر تو مجھے پہلے بتا دیتا تو میں انکار تھوڑے کرتی؟‘‘ ذکیہ شفقت سے بولی ’’لیکن اب کیا ہو سکتا ہے، میاں صاحب نے بہت بڑی رقم پیشگی دی ہے۔ ہم اس واپس نہیں لے سکتے۔ اچھا میرا سودا تول دے‘‘
کریم نے سودا تولتے ہوئے بولا ’’اماں اللہ کی ذات بہت مہربان ہے، اس نے غریبوں کا رزق انہی دولت مندوں کے ہاتھ میں دیا ہے۔ اب تم ہی دیکھو کہ ہر کوٹھی والے نے چھوٹی بچیاں کام کے لئے رکھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے آج ہزاروں گھروں کے چولہے جل رہے ہیں۔ تم پریشان نہ ہونا۔ اللہ نے تم پر ابھی بڑا فضل کرنا ہے‘‘
ذکیہ نے سودا لیتے ہوئے دعائیں اور سو سو کے دونئے نوٹ دیتے ہوئے اس کی نیک تمناؤں کو سراہا۔
آج رات کھانے میں بڑا گوشت پکا تھا۔ سب نے نئے ٹی وی کے آگے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاتے ہوئے ذکیہ نے کریم سے ہونے والی ساری بات کاشف کو بتائی۔ کاشف نے کھانا چھوڑا اور سیدھا کریم کی دکان پر سگریٹ لینے کے بہانے جا پہنچا۔ اسے دیکھ کے کریم نے خود ہی بچی کی بات شروع کر دی ’’وکیل صاحب بہت پیسے والے اور بہت ہی نیک انسان ہیں۔ ان کی اپنی ایک این جی او ہے‘‘
’’یہ این جی او کیا ہوتا ہے؟‘‘ کاشف نے حیرانی سے پوچھا۔
’’بھائی میرے یہ لوگ انسانوں کی خدمت کرتے ہیں۔ جہاں کہیں دکھی انسانیت دیکھی نہیں کہ یہ مدد کو آن پہنچے۔ اللہ نے ان کو بہت دیا ہے اپنے بندوں کی مدد کرنے کے صلے میں۔ ورنہ یہ پہلے معمولی سے وکیل تھے اور غریب گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ میں انہیں تب سے جانتا ہوں‘‘ کریم راز دارانہ لہجے میں بولا۔
’’نیکی ویکی کو چھوڑو تم یہ بتاؤ کہ ایڈوانس کتنادیں گے وکیل صاحب؟‘‘ کاشف نے بے تکلف ہو کر کہا۔
’’ہاہا!یہ ہوئی نا کاروباری بات!‘‘ کریم نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’جتنا تو کہے گا، روپے پیسے کی کمی نہیں ہے‘‘
کاشف نے اس رقم سے تین ہزار زیادہ کا مطالبہ سامنے رکھ دیا جو کہ اس کو میاں صاحب نے دی تھی۔ کریم دل میں بہت ہنسا لیکن بظاہر فکر مند ہو کے بولا ’’اوہو!یہ تو بہت زیادہ ہیں‘‘
آخراس رقم سے ایک ہزار زائد پر بات پکی ہو گئی جو کہ کاشف نے میاں صاحب سے وصول کی تھی۔ اسی طرح تنخواہ بھی طے ہو گئی۔
کریم نے وکیل صاحب سے موبائل پر بات کی اور سارے پیسے اْسے فوراً ادا کردئے تاکہ وہ پکا ہو
جائے۔ کاشف نے جیب سے موبائل نکال کر اپنا نمبر لکھوا دیا۔ گھر آتے ہوئے اس نے سوچا کہ جب مافیہ بڑی ہو گی تو اس کا سودا سوچ سمجھ کر طے کرے گا اور اس کی تنخواہ بھی زیادہ رکھوائے گا۔ اگلے دن اس نے نیاز بھی دلوائی اور مولوی صاحب کو کچھ نقد بھی رقم دی۔ آخر اللہ نے اس کی سْن لی تھی۔
اب وہ کام پر بھی نہ جاتا تھا۔ بس گھر میں بیٹھ کر ڈی وی ڈی پہ سٹیج ڈرامے یا گانے فلمیں دیکھتا رہتا اور روشن مستقبل کے منصوبے بناتارہتا تھا۔ جب سے رانی کا پاؤ ں پھر سے بھاری ہوا تھا وہ بہت خوش تھا اور رانی کا زیادہ خیال رکھنے لگا تھا۔ رانی بھی فلموں ڈراموں کی شوقین ہو گئی تھی۔ سکول سے بھی معقول رقم مل جاتی تھی۔
دن گزرتے رہے، یہاں تک کہ ایک دن ذکیہ نے کاشف کوفلم دیکھتے سے اْٹھایا اور کہا ’’جا، جا کے دائی کو بلا لا۔ اللہ نے کرم کر دیا ہے اْسے درد یں شروع ہو گئی ہیں۔ انشاء اللہ آج تْو لڑکے کا منہ دیکھے گا، ویسے بھی تین لڑکیوں کے بعد لڑکا ہی ہوتا ہے‘‘
کاشف جلدی سے اْٹھا اور تیز تیز ڈَگ بھرتا دائی کو بلانے چل پڑا۔ وہ زیرِ لب دعا مانگتا جا رہا تھا کہ اس بار بھی بیٹی ہی ہو۔