افغانو فوبیا، ایک بھیانک ریاستی کھلواڑ اور مارکسی نقطہ نظر

|تحریر: پارس جان|

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے جبری انخلا کی ظالمانہ پالیسی پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے یوں تو افغان مہاجرین کو 31 اکتوبر تک کا الٹی میٹم دیا گیا تھا، مگر پولیس جیسے ریاستی ادارے پہلے سے ہی متحرک ہو گئے تھے اور مہاجرین کی پکڑ دھکڑ شروع ہو چکی تھی۔ پاکستانی ریاست کی یہ پالیسی خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستانی ریاست کے مسلسل سکڑتے ہوئے کردار کے باعث ریاستی پالیسی سازوں کی فرسٹریشن کی عکاسی کرتی ہے۔

پرویز مشرف کے دور میں ریاست کی ڈبل گیم کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا بھرمیں پاکستانی ریاست پر کوئی بھی اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ریاست کو شدید’سفارتی تنہائی‘ کا سامنا ہے۔ اس ڈبل گیم میں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پشتونوں کے علاقوں میں جعلی آپریشنز کیے جاتے تھے جن میں ’گڈ‘ طالبان کو مکمل ریاستی پناہ میں رکھ کر عام پشتونوں کی لاشوں کو فروخت کر کے امریکہ سے اربوں ڈالر بٹورے جاتے تھے، دوسری طرف ملک میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کے نام پرملنے والی اربوں ڈالر کی امداد کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا تھا۔ پھر افغانستان میں جاری جنگ میں امریکی افواج کی اشیائے ضرورت اور لاجسٹک ہر طرح کی سامان کی ترسیل پاکستان کے ذریعے ہوتی تھی اور اپنے پالتو مسلح جتھوں کے ذریعے نیٹو کنٹینرز کی لوٹ مار سے بھی بھرپور استفادہ حاصل کیا جاتا تھا۔

اسی لیے پاکستانی ریاست افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے تصور سے بھی لرز جاتی تھی۔ سی آئی اے اس ریاستی پالیسی سے قطعاً انجان نہیں تھی مگر ان کے پاس اس جنگ سے نکلنے کا کوئی باعزت راستہ بھی نہیں تھا۔ بالآخر امریکہ کو دو دہائیوں سے طویل افغان جنگ میں عبرتناک شکست کے بعد دنیا بھر میں شدید خجالت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اس شکست کا ملبہ اپنی پالتو پاکستانی ریاست کی ’بے وفائی‘ پر ڈال دیا اور پاکستان کی فوجی اور مالی معاونت بند کر دی۔ اب بہت سارے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ یہی مذکورہ صورتحال مزید سنگین ہو کر ریاست کے حالیہ اقدامات کو قوت محرکہ دے رہی ہے۔ مگر اس صورتحال میں نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی سیاست کے لیے انتہائی پیچیدہ مضمرات پنہاں ہیں جن سے مزدور تحریک بھی براہِ راست متاثر ہو گی۔ ایسے میں جہاں ایک طرف زیادہ تر بائیں بازو کی پارٹیوں کی طرف سے انتہائی موقع پرستانہ ردِ عمل یا مجرمانہ خاموشی دیکھنے میں آئی ہے، وہیں بھانت بھانت کے نومولود دانشوروں اور قوم پرستوں کی طرف سے انتہائی رجعتی اور غیر انسانی مؤقف اپنایا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر انتہائی دائیں باز و کے رجعتی تصورات کو ’مارکسزم‘ اور لینن ازم کا لبادہ پہنا کر انہیں عین فطری، انقلابی اور وقت کی اہم ترین ضرورت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

ان حالات میں مارکس وادیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ مارکسی اور طبقاتی بنیادوں پر صورتحال کا جائزہ لے کر حقیقی انقلابی نقطہِ نظر محنت کش طبقے اور بائیں بازو کے ہراول دستوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو موجودہ حکومتی اقدامات کے درپردہ محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

افغان مہاجرین کے انخلا کے محرکات

پاکستانی ریاست کو چین ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت کے طور پر امریکہ کا متبادل دکھائی دیتا تھا اور وقتی طور پر چینی امداد اور سرمایہ کاری سے ریاستی اشرافیہ کے کمیشنز اور لوٹ مار کی ہوس پوری بھی ہوتی رہی مگر اس سے معیشت پہلے کی نسبت تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف لڑھکتی رہی، ریاستی اندرونی خلفشار میں بھی شدت آتی گئی اور ریاستی پالیسی سازوں کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ امریکی سامراج کی گماشتگی اور کاسہ لیسی کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

اسی لیے امریکی سامراج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے ہی پاکستانی ریاست دوبارہ امریکی سامراج سے ’پرانی تنخواہ‘ کی بحالی کے لیے ہر ممکن پاپڑ بیل رہی ہے مگر اب چین کے مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی و سٹریٹیجک اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی سامراج بھارت پر انحصار کرنے پر مجبور ہے جس کے باعث پاکستانی ریاست کو اپنے آقاؤں کی طرف سے مسلسل دھتکار اور بے نیازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سعودی عرب نے بھی چین کی ایما پر ایران سے ایک مصنوعی معاہدہ کر لیا ہے اور بھارت کے ساتھ بھی اس کے معاشی و سفارتی تعلقات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور عالمی معیشت کے بحران کے دباؤ کے باعث وہاں سے بھی پاکستان کوڈالرز کی فراہمی میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔اس کے متوازی افغان طالبان بھی اب پاکستانی ریاست کے مڈل مین کے کردار کو مسترد کر چکے ہیں اور مغربی قوتوں، چین، روس اور بھارت کے ساتھ اب براہ راست ’بات چیت‘ اور ’لین دین‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

یہ درست ہے کہ افغان حکومت میں پاکستانی کٹھ پتلیاں آج بھی موجود ہیں مگر ان کا کردار اور مجموعی صورتحال پر ان کا کنٹرول اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ طالبان کی پرورش کرنے والے پاکستانی ریاستی اداروں نے جب طالبان حکومت کو ماضی کی طرز پر اپنی پراکسی کے طور پر چلانے کی کوشش کی تو طالبان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا اور سرحد پر نا خوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے باعث تحریکِ طالبان پاکستان پر بھی ان کے روایتی آقاؤں کی پکڑ کمزور ہوئی ہے اور ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔ ملکی معیشت اور سیاست کے بحران کی کیفیت میں خود ریاستی پالیسی سازوں کو خوف و ہراس کی فضا قائم رکھنے کے لیے دہشت گردی کی اس لہر کی ضرور ت بھی ہے لیکن یہ حالیہ لہر بے قابو ہو کر پورے ریاستی ڈھانچے کے لیے دردِ سر بھی بن سکتی ہے۔

اس صورتحال میں پاکستانی معیشت کے ممکنہ دیوالیہ پن نے ایک عمل انگیز کا کام کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے آخری لمحات میں ہونے والی ڈیل کی شرائط کے باعث ملک کی عوام کو تاریخی مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالمی تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی عوام کے برداشت کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور پاکستانی ریاست کو سوڈان اور سری لنکا جیسی عوامی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں سیاسی بحران اور ریاستی اداروں کی داخلی رسہ کشی بھی عروج پر ہے اور ’عمران خان پراجیکٹ‘ کے فائر بیک کرنے کی وجہ سے ریاستی اداروں کی تاریخی ’جگ ہنسائی‘دیکھنے میں آ رہی ہے۔

مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی حملوں کے باعث درمیانے طبقے کی سیاسی ریڈیکلائزیشن بڑھ رہی ہے اور وہ ’حب الوطنی‘ کے جھانسے سے نکل کر ریاست کی پالیسیوں پر کھلی ’انگشت نمائی‘ کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں لمز یونیورسٹی میں نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کو طلبہ نے شدید تضحیک کا نشانہ بنایا، مگر سوشل میڈیا پر اب یہ معمول بن چکا ہے اور حکمران طبقے اور ریاستی اداروں سے نفرت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تھوڑی بہت کمی اور ڈالر کی قیمت میں قدرے ’استحکام‘ کے باعث درمیانے طبقے کی معمولی سی پرت تھوڑی بہت خوش فہمی کا شکار ضرور ہوئی ہے مگرریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز خوفزدہ ہیں کہ بہت جلد جب اس مصنوعی ’استحکام‘ کا غبارہ پھٹے گا تو عوامی ردِ عمل ان کے کنٹرول سے باہر ہو کر سارے نظام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

آئی ایم ایف اور سامراجی اداروں کی طر ف سے غیر پیداواری اخراجات کو کم کر نے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے مگر ریاستی اشرافیہ اور حکمران طبقہ اپنی مراعات سے کسی صورت دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایسے میں بحران کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

کشمیر میں بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کی شکل میں ایک عوامی بغاوت پنپ رہی ہے اور یہ چنگاری پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ پنجاب کے بعد اب کے پی کے کے سرکاری ملازمین کی شاندار تحریک بھی جاری ہے۔

مزدوروں، کسانوں اور طلبہ سمیت ساری عوام کے ذہن میں سوالات ہیں کہ ملک کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ ریاستی اشرافیہ کا گھناؤنا چہرہ دیکھ اور پہچان رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے۔ وہ ایک طرف تو امریکی سامراج اوراپنے مغربی آقاؤں سے ڈالرز کی ترسیل کی واپس بحالی کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں اور خطے میں اپنے اثرو رسوخ کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے افغان طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر نئے سمجھوتے کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی عوام کو دھوکہ دینے کی غرض سے انہیں یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ملکی معیشت کے دیوالیہ پن، دہشت گردی اور امنِ عامہ کی زبوں حالی کی وجہ اشرافیہ کی لوٹ مار پر مبنی یہ گلا سڑا نظام نہیں ہے بلکہ یہ لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین ہیں جو ہماری معیشت پر بوجھ ہیں اور ملک میں بدا منی اور دہشت گردی میں بھی یہی ملوث ہیں۔ یوں ریاست اپنی ناکامی اور تمام تر جرائم کا سارا ملبہ افغان مہاجرین پر ڈال کر ان کو بلی کا بکرا بنا رہی ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے آقاؤں سے جو ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی سامراجی پالیسی سیکھی ہے، اسے بھی بروئے کار لاتے ہوئے ملک میں نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دے رہی ہے تاکہ عوامی غیض و غضب کا رخ ریاست سے ہٹا کر مظلوموں کو اپنے جیسے ہی دیگر مظلوموں کے سامنے کھڑا کر دیا جائے تاکہ عوامی شعور کی انقلابی پیش رفت معطل ہو جائے اور کشمیر میں جاری عوامی بغاوت کراچی اور پشاور تک نہ پہنچ پائے۔ افغان مہاجرین کے جبری انخلا کو انہی محرکات کے پسِ منظرمیں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ریاستی جبر اور بھیانک انسانی المیہ

لگ بھگ دو ماہ قبل حکومت نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے تھے۔تب سے ہی افغان مہاجرین کو پولیس گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ملک بھر میں ہزاروں افغان محنت کشوں کو گرفتار کیا گیا۔ مالکان کو کہا گیا کہ وہ افغان مہاجرین سے گھر اور دکانیں وغیرہ فی الفور خالی کروا لیں۔ مساجد میں منادی کرائی گئی اور مقامی حکومتوں کی طرف سے حکم نامے جاری کیے گئے۔ پولیس نے اس آپریشن کی آڑ میں محنت کشوں سے ان کی تھوڑی بہت جو جمع پونجی تھی وہ بھی ہتھیا لی۔ 70، 80 سالہ بزرگوں، دس پندرہ سال کے بچوں کو پابندِ سلاسل کیا گیااور حتیٰ کہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔تشدد اور غیر انسانی برتاؤ کے بہت سے واقعات رپورٹ کیے گئے۔ پولیس کے خوف سے افغان محنت کش ادھر ادھر چھپتے پھرتے رہے۔ہزاروں کی تعداد میں افغان خواتین کو بھی Detention Centres میں رکھا گیا ہے جہاں انسانی حقوق کی کارکن اور افغان مہاجرین کی وکیل منیزہ کاکڑ کے مطابق خواتین کے ریپ، جنسی ہراسانی اور انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرائم کا اندیشہ ہے کیونکہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلا کی ان مراکز تک رسائی ممکن نہیں ہے۔

اب جب لاکھوں محنت کشوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا ہے تو سوشل میڈیا پر دل کو دہلا دینے والی تصاویر اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں۔ پھر سرحدی علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔یہ سیدھا سیدھا ننگا ریاستی جبر ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ نہ صرف پنجابی شاونسٹوں اور سندھی قوم پرستوں بلکہ بائیں باز وکی اکثریت اس ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانا تو کجا، اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے اور ریاست کی بی ٹیم بن کر سامنے آئے ہیں اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جو اس مشکل گھڑی میں ریاستی جبر کے خلاف مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، انہی پر ریاستی آشیر باد کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ لیکن وحشت اور بربریت کی یہ داستان یہیں ختم ہونے والی نہیں۔ ان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو برسوں نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہیں۔ جو افغانستان یہ چھوڑ کر آئے تھے، اب اس افغانستان کا شائبہ تک وہاں موجود نہیں۔ ان کو واپسی پر اپنی ہی سر زمین پر دربدری، بے گھری، اجنبیت اور بیگانگی کا سامنا کرنا ہو گا۔

تا دمِ تحریر ڈان اخبار کی رپورٹس کے مطابق 1 لاکھ 65 ہزار سے زیادہ افغان مہاجرین سرحد پار کر چکے ہیں جن میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو یہیں پاکستان میں ہی پیدا ہوئے تھے اور وہ پہلی دفعہ افغانستان جا رہے ہیں۔ سرحد کے اس طرف بھی ان کو خوش آمدید نہیں کیا جا رہا۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں جن کو معلوم ہی نہیں کہ انہوں نے کہاں جانا ہے۔ ان کے لیے سرحد کے اس پار کیمپس لگائے جانے کی اطلاعات ہیں جنہیں موجودہ حالات میں اذیت گاہیں ہی کہا جا سکتا ہے۔کچھ سیاسی طور پر نابلد جذباتی نوجوان صورتحال کی سنگینی کو یکسر فراموش کر کے یہ جملہ بے دریغ سوشل میڈیا پر دہرائے چلے جا رہے ہیں کہ ’یہ افغان اپنے ہی ملک تو واپس جا رہے ہیں‘ یا اپنے گھر واپسی پر رو کیوں رہے ہیں‘۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں ان کے گھر اور وطن کب کے اجڑ چکے۔ان کی زمینیں، روزگاراور گھربار سب جنگوں، خانہ جنگیوں اور قدرتی آفات کی نظر ہو چکے ہیں۔ آئندہ چند ماہ افغانستان میں شدید سردی اور کسمپرسی میں ان کو گزارہ کرنا ہو گا۔ اور اس کے بعد بھی افلاس، بھوک، بیماری اور وبائیں ہی ان کا مقدر ہوں گی۔یہ ہجرت بلاشبہ جدید تاریخ کے ایک بہت بڑے اور بھیانک انسانی المیے کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کے بارے میں سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ان سفاک ریاستی اقدامات کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اب افغانستان میں حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ مکمل امن قائم ہو چکا ہے اور ملک خوشحالی کے راستے پر چل پڑا ہے لہٰذا اب ان مہاجرین کے یہاں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچا۔حقیقی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔طالبان کی حکومت ایک بدترین اور حشی آمریت ہے جہاں عوام کی بھاری اکثریت کو کوئی بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ خواتین کی تعلیم اور روزگار وغیرہ پر پابندی عائد ہے اور ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی بہت سی خواتین قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور بین الاقوامی اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً ستانوے فیصد آبادی پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہے۔ بین الاقوامی معیارات کے پیمانے پر پرکھا جائے تو نوے فیصد کے لگ بھگ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کابل کی چند تصاویر اور ویڈیوز کی بنیاد پر سارے افغانستان کی خوشحالی کا ڈھنڈورواپیٹا جا رہا ہے جبکہ شہروں کی بھی بڑی آبادی اور دیہی علاقوں کی بھاری اکثریت غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک نوعمر بچوں اور بچیوں کی فروخت کی خبریں بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔ ایسے میں مزید لاکھوں لوگوں کے واپس جانے سے اشیائے ضرورت کی قلت کی وجہ سے چھینا جھپٹی، نفسا نفسی اور سماجی تناؤ اپنی انتہاؤں پر پہنچ جائے گا۔ ایسے حالات اور جبر کے خلاف اگر غصے اور اشتعال کو سیاسی اظہار نہ مل پائے تو وہ بنیاد پرستی اور رجعتی خیالات اور انتقامی جذبات کا خام مال بن جایا کرتے ہیں۔

ذمہ دار کون؟

اس المناک ہجرت نے ریاستِ پاکستان کی مصنوعی بنیادوں کو مزید آشکار کیا ہے۔ پاکستان کوئی قومی ریاست نہیں ہے بلکہ بہت سی اقوام کے تاریخ اور جغرافیے کو مسخ کر کے مذہب کے نام پر بنایا گیا جبری وفاق ہے۔ ایک طرف تو اس ملک کو ’اسلام کا قلعہ‘ قرار دیا جاتا ہے، فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے شکار مسلمانوں کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں، اسلام کے نام پر کشمیر کے جبری الحاق کی وکالت کی جاتی ہے تو دوسری طرف افغان باشندوں کو بے رحمی سے دربدر کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ واویلا بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ آپریشن صرف غیر قانونی مہاجرین کے خلاف ہے۔درحقیقت خود سرمایہ دارانہ نام نہاد عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کی روح سے بھی مہاجرین کبھی غیر قانونی ہو ہی نہیں سکتے۔ مہاجرین یا پناہ گزینوں کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ ایسے لوگ جو بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اور ناحق قتل کے خوف سے واپس اپنے وطن جانے کے خواہشمند نہ ہوں۔

یاد رہے کہ اس انخلا سے قبل پاکستانی ریاست، طالبان کی حکومت اور نام نہاد عالمی برادری کے مابین ان مہاجرین کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ بھی طے نہیں پایا ہے (اگر ہوتا بھی تو سامراجی منافقت کی رسمی کاروائی سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہ ہوتی) اور یوں یہ جلد بازی میں کیے جانے والا جبری انخلا بذاتِ خود غیر قانونی اور غیر انسانی ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے اٹھائے گئے ریاست کے تمام تر اقدامات سراسر غیر قانونی اور نا قابلِ قبول ہیں۔

جب یہ ملک قائم کیا جا رہا تھا، اس وقت بھی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی اور لاکھوں لوگ ناحق لقمہ اجل بنائے گئے تھے اب لگ بھگ آٹھ دہائیوں بعد پھر اسی طرح کے انسانی المیے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے انسانی المیے کا ذمہ دار کون ہے؟ آج نہ صرف افغانستان کی المناک صورتحال بلکہ پاکستان کی تباہی کی ذمہ داری بھی افغان عوام اور ان مہاجرین پر عائد کی جا رہی ہے۔جبکہ افغان عوام نہیں بلکہ افغانستان کو تاراج کرنے والے سامراجی اور ڈیورنڈ لائن کے آر پار ان کے مقامی گماشتے اس ہولناک بربادی کے ذمہ دار ہیں۔

اس وقت ریاستی بیانیہ یہ ہے کہ ملک میں منشیات، دہشت گردی اور بد امنی افغان مہاجرین کی وجہ سے ہے۔ قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ پنجابی اور سندھی انٹیلی جنشیہ اپنی پیٹی بورژوا طبقاتی ساخت کی وجہ سے نامیاتی طور پر اس ریاستی بیانیے کی آلہِ کار بن کر سامنے آئی ہے۔ جس طرح مغربی حکمران طبقات اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے اور اپنی فوجی مہم جوئیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے خلاف نفرت اور اشتعال پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور بالخصوص تمام مسلمانوں پر ہی دہشت گردی کا لیبل لگا دیتے ہیں (اسے اسلامو فو بیا کہا جاتا ہے)، ایسے ہی ریاستِ پاکستان اپنے تمام تر جرائم سے بری الذمہ ہونے کے لیے افغان مہاجرین کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے، یوں اسے منظم افغانو فوبیا قرار دیا جانا چاہیے۔

یہ درست ہے کہ افغان مہاجرین میں سے ان گنت لوگوں کو دہشت گردی اور منشیات کی صنعت کے لیے بطور خام مال استعمال کیا گیا مگر اس کی بنیاد پرپوری قوم کو دہشت گرد اور مجرم قرار دے دینا نری نسل پرستی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔اسی متعصبانہ سوچ کی بنیاد پر افغان مہاجرین کو ملکی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔لیکن ان مہاجرین کے نام پر تو اربوں ڈالر ملک میں آتے رہے ہیں،جن کا ایک فیصد بھی ان پر خرچ نہیں ہوا، پھر یہ معیشت پر بوجھ کیسے ہو گئے۔ اصل بوجھ تو وہ حکام بالا ہیں جو یہ سارے ڈالر ڈکار گئے اور ملکی خزانے کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے۔

حقیقت میں 80 سے 90 فیصد افغان مہاجرین اجرت پر کام کرنے والے محنت کش ہیں جوکارخانوں، ریستورانوں،زمینوں، بازاروں،ہوٹلوں،ورکشاپوں، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ اور دیگر خدمات کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ رکشہ، ٹیکسی وغیرہ چلاتے ہیں اور ریڑھی بانی کرتے ہیں۔یہ معیشت پر بوجھ ہر گز نہیں ہیں بلکہ انہوں نے سخت محنت اور جانفشانی سے وہ تمام سخت کام کر کے جو شاید کوئی اور محنت کش کرنے کے لیے راضی بھی نہ ہوتے ہوں،بے پناہ قدرِ زائد اور دولت پیدا کی ہے۔ معیشت پر بوجھ وہ سرمایہ دار اور ٹھیکیدار ہیں جن کی تجوریوں میں ان محنت کشوں کی پیدا کردہ وہ ساری دولت جمع ہوتی رہی ہے۔ان مجبور اور تارکینِ وطن محنت کشوں کی سستی ترین محنت عالمی سرمایہ داری نظام کے لیے بحران کے ایام میں دنیا بھر میں تریاق ہی ثابت ہوتی آئی ہے۔ یہ آپریشن بھی انہی کے خلاف کیا جا رہا ہے۔منشیات فروشوں، اسمگلروں، بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں اور جہادی تنظیموں کے سرکردوں کو تو نہ صرف شہریت کب کی مل چکی بلکہ ساری سیاسی پارٹیاں ان کو عام انتخابات میں اپنے پارٹی ٹکٹوں سے بھی نوازتی ہیں۔اور اگر ان کے پاس شہریت نہ بھی ہو تو کسی میں جرات نہیں کہ ان کا بال بھی بیکا کر سکے۔ یہی مافیا نہ صرف بیروزگاری کا شکار افغان بچوں بلکہ دیگر مقامی آبادی کے نوجوانوں کو بھی اس کالی صنعت کا ایندھن بناتا آیا ہے۔ دراصل دہشت گردی کی صنعت اور کالی معیشت خود اس ریاست کی مجموعی معیشت میں اتنی توانا اور وسیع الجثہ ہو چکی ہے کہ اس میں سے افغان ورک فورس سو فیصدنکل بھی جائے تو اسے زیادہ فرق نہیں پڑے گا، ان کے پاس ان کے متبادل پہلے سے ہی تیار ہیں۔ ہمارے جو پنجابی، اردو اور سندھی دانشور اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ اس آپریشن کے بعد دہشت گردی، بیروزگاری، منشیات اور کالے دھن سے نجات مل جائے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جسے دوزخ ثابت ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

تاریخ کو درست کر لیں

چند دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی بنیاد پر پوری افغان قوم کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا جہاں اخلاقی، سیاسی اور منطقی حوالے سے غلط ہے وہیں تاریخی حوالے سے بھی بہت بڑا بلنڈر ہے۔ ’مطالعہ پاکستان‘ کی غلاظت اور متعفن قومی شاونزم سے بھرے دماغوں کو آج بھی کچرا اٹھانے والے افغان میں ابدالی اور خلجی ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یوں برملا یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ افغانی تو آئے ہی حملہ آور بن کر تھے، وغیرہ وغیرہ۔ ان متعصب ذہنوں سے ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا صرف افغانیوں نے ہی اسلام کے لبادے میں برِ صغیر پر قبضے کیے تھے؟ ہر گز نہیں ترک، ایرانی اور مغل سب ہی اس تسلسل کا حصہ ہیں جس کا آغاز ان عربوں نے کیا تھا جن کی اولادوں کے ہاتھ پاؤں چومنے کو آج بھی بے حساب مقامی لوگ ایک سعادت سمجھتے ہیں۔

مسئلہ قدیم تاریخ کا ہے ہی نہیں، اس وقت قوم اور قومی شعور نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ اگر جدید تاریخ کا جائزہ لیں توہمیں انگریز سامراج کے خلاف خطے کی دیگر اقوام کے حریت پسندوں کی طرح افغانوں اور پشتونوں کی شاندار مزاحمت نظر آتی ہے۔اسی مزاحمت کو دو لخت کرنے کے لیے انگریز نے ڈیورنڈ لائن بنائی جس کے ذریعے افغانوں کے تاریخی وطن کو مصنوعی طور پر کاٹ دیا گیا۔ بعد ازاں ایک اور انقلابی تحریک کو خون میں ڈبو نے کے لیے ریڈ کلف لائن کھینچی گئی جس کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس وقت کہا تھا کہ میں یہ کیسے مان لوں کہ انگریز ایک لائن کھینچے گا اور ایک ہی سر زمین کا ایک حصہ پاک ہو جائے گا اور دوسرا ناپاک۔یہ ہے ان سرحدی لکیروں کی تاریخ جن کی حر مت کے ترانے سارے شاونسٹ اور قوم پرست گزشتہ کئی دنوں سے ہمیں سناتے آ رہے ہیں۔

بائیں بازو کے کنفیوزڈ لوگ اس ساری بحث کے اس اہم ترین پہلو کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ مہاجرین کے داخلے پر پابندی کی حمایت کر کے (اپنی مخصوص وجوہات کی بنا پر جن کا ہم آگے چل کر جائزہ لیں گے) وہ اس مصنوعی اور غیر فطری ریاست کے وجود کو تسلیم بھی کر لیتے ہیں۔ جن قانونی، سیاسی اور اخلاقی بنیادوں پر ریاستِ پاکستان کی سخت سرحدی کنٹرول کی پالیسی کو آج جواز اور حمایت فراہم کی جا رہی ہے، انہی بنیادوں پر ریاست بلوچوں اور سندھیوں کی آزادی کی تحریکوں پر جبر کوجائز اور ناگزیر قرار دینے کے لیے رائے عامہ کو اپنے حق میں بناتی ہے اور تحریر و تقریر پر قدغنیں لگا کر غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ قوم پرست ان لکیروں کا دانستہ یا غیر دانستہ جتنا بھی احترام کریں ہم مارکس وادی ان مصنوعی خونی لکیروں کے خاتمے کی جدوجہد ہر قیمت پرجاری رکھیں گے۔

تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ بالشویک انقلاب کے وقت افغانستان میں امان اللہ خان کا دور تھا اور امان اللہ بالشویکوں کی طرف دوستانہ رویہ رکھتا تھا۔ اپنی تاریخی محدودیت کے باعث وہ افغانستان میں اس وقت کوئی نتیجہ خیز انقلابی اقدامات نہیں کر سکتا تھا مگر بعد ازاں ویش زلمیان جیسی ترقی پسند تنظیمیں افغانستان میں بنائی گئیں۔ اگر بالشویک انقلاب سٹالنسٹ زوال پذیری کا شکار نہ ہوتا تو شاید اس پورے خطے کی تاریخ مختلف ہوتی مگر ان تمام عوامل کے باوجود اس خطے کا سب سے اہم کامیاب انقلاب 1978ء میں افغانستان میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے خلق دھڑے کے قائدین نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کی قیادت میں برپا ہوا تھا جسے تاریخ میں ثور انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس انقلاب کی چنگاری پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے کر سارے نظام کو ہی خاکستر نہ کر دے، اس خوف سے امریکی اور سعودی سامراج نے اپنے پاکستانی گماشتوں کے ذریعے افغانستان میں خونریز مداخلت کی اور مذہبی جنونیت کا غلیظ کھلواڑ شروع کیا جس کے باعث ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھتا ہوا افغانستان بربریت کی طرف دھکیل دیا گیا اور اس بربریت کا ننگا ناچ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔

یوں جہاں افغانیوں میں دہشت گرد ہیں (جو دراصل سامراجیوں اور ان کے مقامی گماشتوں کی کارستانی کا نتیجہ ہیں)، وہیں ترقی پسند سیاست کی عظیم اور قابلِ تقلید روایات بھی موجود ہیں۔ اور جو نسل پرست افغان عوام کی زبوں حالی کی خبریں سن کر کم ظرفی اور سرد مہری سے کہہ دیتے ہیں کہ ’ہم نے ان کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا‘ ان کو یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ جب جب پاکستان میں آمریتیں مسلط ہوئیں اور وحشیانہ جبر کیا گیا تو یہاں پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے انقلابیوں اور جمہوریت پسندوں کو افغانستان نے ہی پناہ دی۔ بالخصوص ضیاء کی خونی آمریت کے دوران جب سندھ ایم آر ڈی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور افغانستان میں سوشلسٹوں کی حکومت تھی تو کابل کے دروازے ہر خاص و عام سندھی جمہوریت پسند کے لیے کھلے تھے۔ مرتضیٰ بھٹو اور ال ذوالفقار کے دیگر بہت سے مہم جوؤں کا زندگی کا بڑا حصہ بھی افغانستان میں گزرا،حتیٰ کہ بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کی آماجگاہ بھی عام طور پر افغانستان ہی ہوتا تھا۔ اس لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ افغان مہاجرین لشکر کشی کر کے پاکستان نہیں آئے تھے بلکہ قدرتی طور پر کسی بڑی جنگ، قحط یا انسانی المیے کی صورت میں ہمسایہ ممالک ہی پناہ گاہیں ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ان مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا جائے اور اس کے لیے اس نوعیت کے دیگر مختلف ریاستوں میں بنائے گئے کیمپوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں، ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ اس نوعیت کے کیمپوں میں عام طور پر غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور یورپ بھرکے ترقی پسند اور کمیونسٹ اس طرح کے کیمپوں کے قیام اور ان میں ہونے والی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ہمیشہ سراپا احتجاج رہے ہیں، ہم بھی ان شاندار روایات کے امین ہیں۔

ڈیمو گرافی کا سوال

یہاں اب ہم اس ساری بحث کے سب سے دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ بائیں بازو کے کنفیوزڈ لوگ جو کہ اصل میں دائیں بازو کی قوم پرستی ہی کی کھائی میں جا گرے ہیں، ان کی مہاجرین کے خلاف سب سے مرغوب اور پسندیدہ ترین دلیل یہی ہوتی ہے کہ ’اس طرح تو مقامی لوگ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے‘اور وہ مارکس وادیوں پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مجرد بین الاقوامیت کے نام پر مہاجرین کو خوش آمدید کہہ کر مارکس وادی مقامی قومی سوال کو رد کر دیتے ہیں۔

جب یہ ملک قائم کیا جا رہا تھا، اس وقت بھی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی اور لاکھوں لوگ ناحق لقمہ اجل بنائے گئے تھے اب لگ بھگ آٹھ دہائیوں بعد پھر اسی طرح کے انسانی المیے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ آرٹ ورک، شہزل ملک

ہم جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں مسلسل بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے پسِ منظر میں ان خدشات کے سر اٹھانے کے در پردہ عوامل کو نظر انداز نہیں کرتے، وہیں ان خدشات کے عملی ثمرات اور سیاسی مضمرات پر بھی گہری نظر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ اعتراضات بہت منطقی اور درست معلوم ہوتے ہیں مگر جب ٹھوس حقائق کی روشنی میں ان اعتراضات کا معروضی تجزیہ کیا جاتا ہے تو ان کا بودا پن فوراً ہی عیاں ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ یہ دلائل بھی ہمارے مقامی دانشوروں کے ’عظیم‘ دماغوں کی اختراع نہیں ہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں میں عالمی سطح پر ان خیالات کی ترویج و تبلیغ بڑے منظم طریقے سے کی جا رہی ہے۔ اسے سامراجی توسیع پسندی کے ساتھ جوڑ کر یہ بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے کہ اب پسماندہ یا سابقہ نوآبادیاتی اور پچھڑے ہوئے ممالک میں اصل لڑائی طبقاتی نہیں ہے بلکہ مقامی (indigenous) اور غیر مقامی لوگوں کے بیچ ہے، مقامی مظلوم ہیں اور غیر مقامی قابض، سامراجی اور ظالم ہوتے ہیں۔یا یوں کہہ لیں کہ محنت کشوں کو اپنے مقامی سرمایہ داروں سے نہیں بلکہ بلا تخصیصِ طبقہ غیر مقامیوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ہو گا۔اس بیانیے کو ٹھوس حقائق کا ترجمان جبکہ مارکسی بین الاقوامیت اور طبقاتی جدوجہد کو مجرد اور فروعی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یوں روایتی بائیں بازو کے مقابلے میں ایک نیو لیفٹ اور آرتھو ڈوکس مارکسزم کے مقابلے میں ایک ’نیو مارکسزم‘ وسیع پیمانے پر مزدور تحریکوں اور عوامی بغاوتوں میں نئے نظریاتی رجحان کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔

گہرائی سے مشاہدہ کرنے پر یہ بنیادی دلیل کہ مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل کی جا رہی ہے، اپنی تمام تر افادیت کھو دیتی ہے اور اس میں تاریخی عمل کے داخلی تضادات سے شعوری اجتناب کے ساتھ ساتھ پیٹی بورژوا رومانویت اور قدامت پسندی کے جرثومے واضح نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مارکس کا تاریخی کارنامہ یہ تھا کہ اس نے عالمی معیشت کے ارتقا کے قوانین دریافت کیے تھے۔ عالمی معیشت اور تاریخ کی حرکیات مخصوص اقوام یا افراد کی موضوعیت کے تابع نہیں ہو سکتی۔

ہم جس عہد میں رہ رہے ہیں اس میں سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی کام کی تقسیم قومی حدود سے متجاوز ہو چکی ہے۔ اگر کسی بھی قوم کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کرنی ہے یا حتیٰ کہ محض اپنی بقا کو ہی یقینی بنانا ہے تو سرمائے، اشیا یعنی اجناس اور محنت کی نقل و حرکت پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی اپنی سرشت میں ناہموار ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام آگے بڑھتا گیا وہاں وہاں تارکینِ وطن محنت کشوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کشش اور رغبت پیدا ہوتی گئی۔ اور اب عالمی معیشت کے زوال کے عہد میں مواقع تو سکڑتے جا رہے ہیں لیکن عمومی رجحان بہرحال ایک قانون کا درجہ حاصل کر گیا ہے۔ اس تاریخی عمل اور اس کی منطق کو اخلاقی یا رومانوی بنیادوں کی بجائے اس کی ناگزیریت میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت مارکس کے دماغ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کی دریافت ہے اور جو کوڑھ مغز اور بوزنے اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں وہ بآوازِ بلند چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ ’دیکھو دیکھو مارکسزم تو یورو سنٹرک ہے اور ہمارے خطے کی بات ہی نہیں کر رہا‘ یعنی جو بات اپنی تاریخی لازمیت کے ساتھ سمجھ نہیں آ رہی، وہ ہمارے اور ہمارے خطے کے لیے ہے ہی نہیں۔ ہماری خواہشوں اور آرزوؤں سے یکسر بے نیاز عالمی منڈی میں مختلف ریاستیں باہمی طور پر مختلف النوع درجات کے تعلقات میں جڑی ہوئی ہیں۔ جہاں پاکستان کے ہنر مند محنت کشوں کے لیے یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی محنت کی منڈیاں پر کشش ہیں وہیں بے ہنر محنت کش مشرقِ وسطیٰ کے سرمایہ داروں کو قوتِ محنت فروخت کر کے آسودہ حال ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی افغانستان کے بے ہنر محنت کشوں کے لیے پاکستان کی محنت کی منڈی بھی ایک سب سے زیادہ آسانی سے دستیاب آپشن کے طور پر سامنے آتی ہے اور پھر جنگی بربادی کے باعث مخصوص حالات میں یہ واحد آپشن کے طور پر بھی سامنے آئی۔

پھر سندھی قوم پرستوں اور ان کے بائیں بازو والے رفقا کا یہ واویلا بھی حقائق کے بالکل برعکس ہے کہ افغان مہاجرین صرف سندھ میں ہی آباد ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو انتہائی ڈھٹائی سے ہم مارکس وادیوں کے مشہورِ زمانہ نعرے یعنی ’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘ کو طنزیہ ’دنیا بھر کے محنت کشو سندھ میں ایک ہو جاؤ‘ لکھتے اور طبقاتی کشمکش کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ در حقیقت اگر ہم اپنی گفتگو کو صرف افغان مہاجرین تک محدود کریں تو حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی کل تعدادتیرہ لاکھ ہے۔اور ایک محتاط اندازے کے مطابق غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 7 لاکھ 75 ہزار ہے۔ اس کے علاوہ افغان سیٹیزن کارڈذ ہولڈرز کی تعداد 8 لاکھ 40 ہزار ہے۔ یوں افغان مہاجرین کی کل تعداد 30 لاکھ کے قریب ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ تعداد 40 لاکھ یا اس سے بھی زیادہ ہے مگر اس سے ہمارے عمومی تجزیئے کے کردار پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

اب اگر ڈیموگرافی کی بنیاد پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تقسیم کا جائزہ لیں تو ان کا تقریباً 52 فیصد یعنی 7 لاکھ 1 ہزار 358 صرف خیبر پختونخواہ میں ہے جو خیبر پختونخواہ کی کل آبادی کا صرف 2 فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان میں 3 لاکھ 21 ہزار 677 رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جو افغان مہاجرین کا 24 فیصد اور بلوچستان کی کل آبادی کا 2.7 فیصد بنتے ہیں۔ پنجاب میں 1 لاکھ 91 ہزار 53 افغان مہاجرین ہیں جو کل افغان مہاجرین کا 14 فیصد اور پنجاب کی آبادی کا 0.14 فیصد ہیں۔ اسلام آباد میں 41 ہزار 520 مہاجرین ہیں جو کل مہاجرین کا 3 فیصد جبکہ مقامی آبادی کا صرف 4.15 فیصد ہیں۔ کشمیر میں 4352 افغان مہاجرین ہیں جو کل مہاجرین کا 0.3 فیصد ہیں اور مقامی آبادی کا 0.10 فیصد ہیں جبکہ سندھ میں 73 ہزار 798 رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جو کل مہاجرین کا 5.50 فیصد اور سندھ کی آبادی کا 0.15 فیصد ہیں۔ یوں سب سے زیادہ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً نصف پختونخواہ میں مقیم ہیں لیکن وہاں بھی وہ فی الوقت مقامی آبادی میں انتہائی کم ہے اور مقامی آبادی کے اقلیت میں بدلنے کا خطرہ دور دور تک موجود نہیں۔

اب اگر ہم سندھی انٹیلی جنشیہ کے پراپیگنڈے کی طرف واپس آئیں اور ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ سارے مبینہ غیر قانونی افغان مہاجرین یعنی طالبان کے واپس اقتدار میں آنے کے بعد ہجرت کرنے والے چھ لاکھ مہاجرین کاسو فیصد سندھ میں ہی آباد ہیں، جو کہ ظاہر ہے کہ ناممکن ہے، پھر بھی یہ سندھ کی کل آبادی کے دو فیصد سے تجاوز نہیں کر سکیں گے۔ اب کوئی انتہائی شاطر دانشور یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم صرف افغانیوں کی بات نہیں کر رہے بلکہ پشتون، اردو بولنے والے اور دیگر مہاجرین کو بھی شامل کریں تو اقلیت میں تبدیل ہونے کے خطرات بہرحال موجود ہیں۔ ہم یہاں ان تمام قومیتوں کے مہاجرین اور محنت کشوں کی تعداد اور اعدادو شمار کی طرف جا کر اپنے قارئین کو بور نہیں کریں گے۔ لیکن اس دلیل سے ان قوم پرستوں کے ذہنی ہیجان اور تعصب کی ہی مزید قلعی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہم تو پہلے سے ہی کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ صرف افغان باشندوں کا نہیں ہے، وہ اس لیے ان دنوں آسان ٹارگٹ ہیں کیونکہ ریاست نے خود ان پر دہشت گردی کی مہر ثبت کر دی ہے، ان قوم پرستوں کو دراصل تمام غیر سندھیوں سے مسئلہ ہے اور ان میں سے اکثر تو برملا یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین کو بھی واپس جانا ہو گا۔ اس نقطہِ نظر میں نسل پرستی اور لسانی فسادات کے جتنے امکانات چھلک رہے ہیں اسی سے ان نظریات کا انسان دشمن کردار واضح ہو جاتا ہے۔

دراصل ڈیمو گرافی کا سوال آج کی سرمایہ دارانہ دنیا میں نئی جہتیں اور مختلف معنی لیے ہوئے ہے۔ ہم آج ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں رشی سوناک یعنی ایک مہاجر برطانیہ کا وزیرِ اعظم ہے۔ لندن کا میئر بھی ایک مسلمان مہاجر ہے۔سکاٹ لینڈ میں بھی ایک مہاجر وزیرِ اعظم ہے۔ کینیڈا میں پنجابی اورسکھ اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کا ووٹ بینک بسا اوقات فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ دیگر بہت سارے ممالک کی یہی صورتحال ہے۔ اصل میں زیادہ اہم بات فیصلہ سازی کے اختیارات پر براجمان افراد کی قومی و نسلی شناخت نہیں ہے بلکہ زیادہ متعلقہ اور ضروری بات یہ ہے کہ فیصلے کیا لیے جا رہے ہیں اور پالیسیاں کیا بنائی جا رہی ہیں۔ کس طبقے کو حقِ حکمرانی حاصل ہے۔

ہمارے کچھ ذہین معترضین پھر آواز لگائیں گے کہ میاں آپ پھر یورپ پدھار گئے ہیں ہم تو پسماندہ ممالک کی بات کر رہے ہیں۔ آپ نو آبادیاتی ممالک کی بات کریں، یہاں تو حالات مختلف ہیں۔ در اصل یہ ہمارے فاضل دوست اب نو آبادیاتی نظام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو ان کے خیال میں ترقی یافتہ دنیا سے مختلف ہے اور یہاں کے لوگوں کا شعور، نفسیات اور مسائل بھی سامراجی دنیا سے یکسر الگ ہیں۔ یہ سراسر کوتاہ نظری اور کج فہمی ہے، نو آبادیات اور ان کا مبینہ نظام عالمی سرمایہ دارنہ نظام ہی ہے اور سامراجیت کا تصور قابلِ فہم ہی تب ہو سکتا ہے جب ان پسماندہ اور سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے وسائل کی لوٹ مار اور استحصال کے ساتھ ناگزیر تعلق میں اسے دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ دراصل نہ صرف سندھ بلکہ تمام محکوم اقوام اور خطوں کے عوم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کے وسائل کی لوٹ مار میں ان کے اپنے حکمران طبقات کی گماشتگی کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے اور سامراجی لوٹ مار سے نجات کے لیے انہیں اس طبقاتی سماج کی بنیادوں کا ہی خاتمہ کرنا ہو گا۔ سندھ کے وسائل کی لوٹ مار، زمینوں پر قبضے، ذوالفقار آباد اور بحریہ ٹاؤن جیسے پراجیکٹ کے ذمہ دار افغان مہاجرین نہیں ہیں بلکہ ان کا تو اس میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہی ہے، در اصل ریاستی سول و عسکری اشرافیہ اور پنجابی و سندھی حکمران طبقہ مل کر ان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور زمینوں پر قبضے جاری ہیں، اس سامراجی یلغار کو روکنے کے لیے سندھ کے محنت کشوں کو دیگر مظلوم قوام کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر منظم جدوجہد کی طرف بڑھنا ہو گا۔اس تاریخی مسافرت کا کوئی شارٹ کٹ دستیاب نہیں ہے۔

اسرائیل اور افغان مہاجرین

نسل پرستوں کی طرف سے ایک اور دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ سندھ میں ڈیموگرافک تبدیلیاں حادثاتی نہیں ہیں بلکہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت افغان آباد کاری کے ذریعے انہیں اقلیت میں بدل کر سندھ پر قبضہ کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ اس بیانیے کو بہت زیادہ عملیت پسندانہ (Pragmatic) ثابت کرنے کے لیے اسرائیل کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ کس طرح مغربی سامراج نے مشرقِ وسطیٰ میں مقامی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے وہاں یہودی آبادکاری (Settlements) کو باقاعدہ منصوبے کے تحت قائم کیا۔

اب یہاں اسرائیل کی مثال کو تاریخی سیاق سباق سے یکسر کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہودی بھی مظلوم تھے اور ان کا زار کے روس اور بعد ازاں ہٹلر کے جرمنی میں نسلی بنیادوں پر قتلِ عام ہوا جس کی بنیاد پر فلسطین کی طرف دنیا بھر کے یہودیوں کی ہجرت کی سیاسی نقشہ بندی کی گئی۔ اس حوالے سے افغان مہاجرین کی ہجرت میں یہودیوں سے صرف اس حد تک مماثلت پائی جاتی ہے کہ یہاں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور قتلِ عام سے بچ کر ہجرت کرنی پڑی۔ اس کے علاوہ ان دونوں سیاسی مظاہر میں کوئی ایک بھی مماثلت نہیں ہے۔ اسرائیل اپنے طرز کی ایک تاریخی استثنا ہے۔ افغانوں نے کسی باقاعدہ نظریئے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہجرت نہیں کی تھی جبکہ اسرائیل کے قیام کے پیچھے نصف صدی سے بھی زیادہ کی نظریاتی یا سیاسی کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ کیتھیوڈور ہرزل نامی یہودی دانشور نے 1895ء میں ’یہودی ریاست‘ نامی کتاب لکھ کر اسرائیل کا تصور پیش کیا تھا، اسی لیے اسے صیہونیت کے سیاسی نظریئے کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے خود ریاستِ پاکستان کے قیام کے محرکات کے ساتھ اسرائیل کی کچھ مماثلت ضرور مل جاتی ہے کیونکہ یہاں بھی ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کی ریاست کے لیے لاکھوں خاندانوں کو ہجرت کرنی پڑی تھی۔ اور جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام خطے کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے سامراج کی موثر آؤٹ پوسٹ بنانا تھا، ویسے ہی سٹریٹیجک اہمیت کے حامل اس خطے میں پاکستانی ریاست تشکیل دی گئی اور پھر ان مہاجرین کی بھاری اکثریت اور مقامی آبادی کے محنت کشوں نے طبقاتی جڑت کی بنیاد پر ایوب خان جیسے آمر کے خلاف شاندار انقلابی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اسی انقلابی تحریک سے خوفزدہ ہو کر اور طبقاتی یکجہتی کو شکست دینے کے لیے بعد ازاں سندھ میں لسانی اور نسلی سیاست کے بیج بوئے گئے۔

سندھی قوم پرستوں کا اصرار ہے کہ یہ ساری ہجرتیں سندھیوں کو اپنے تاریخی وطن میں اقلیت میں بدلنے کے لیے کی گئیں تاکہ سندھ پر قبضہ کیا جا سکے۔ گویا ریاستِ پاکستان کا قیام جس کی وجہ سے سندھ میں یو پی، دلی اور بہار سے بڑی تعداد میں مہاجرین آ کر آباد ہوئے،اور جس میں سندھ کے حکمران طبقے اور پیٹی بورژوازی کا خصوصی کردار تھا، کے باقی تمام تاریخی محرکات غیر اہم تھے اور اصل مقصد سندھیوں کو اقلیت میں بدلنا تھا، یوں سرد جنگ بھی شاید سامراجیوں نے اسی لیے لڑی ہو اور افغانستان کو تاراج کرنے کا بھی یہی مقصد ہو۔ یہ سراسر موضوعی عینیت پسندی ہے اور تاریخی عمل کا مضحکہ اڑانے کے مترادف ہے۔ سندھ میں بھارت کے علاقوں سے ہونے والی ہجرت ہو یا افغانستان سے آنے والے افغان مہاجرین، ان میں سے کوئی بھی منظم اور باقاعدہ منصوبہ بند سیٹلمنٹ کے زمرے میں نہیں آتے، ان تمام المیوں کے تاریخی محرکات ٹھوس اور واضح ہیں اور ان مہاجرین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں سے روزگار کی تلاش میں آ کر کراچی میں آباد ہونے والے محنت کشوں کا بھی یہودیوں کی فلسطین میں منظم سیٹلمنٹ سے موازنہ کرنا سوائے حماقت کے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ صنعتی مراکز اور بالخصوص بندرگاہوں کی طرف اربنائزیشن معمول کی بات ہے اور یہ عالمی معاشی و سماجی مظہر کے طور پر مسلمہ حقیقت ہے۔

نتائج

اب سندھ کے مقامی نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کی اصل وجوہات بڑھتی ہوئی بیروزگاری، مسلسل گرتا ہوا معیارِ زندگی اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی ہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کے براہِ راست نتائج ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مہاجرین نوکریاں چرا رہے ہیں بلکہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار کو ترقی دینے اور روز گار پیدا کرنے کی گنجائش ناپید ہو چکی ہے۔ بائیں بازو کے کنفیوزڈ خواتین وحضرات اس بنیادی وجہ کو دانستہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ سندھ میں طبقاتی تضاد سے لگ بھگ مکمل انکار کر چکے ہیں اور ہم مارکس وادیوں پر قومی سوال کے انکار کا جھوٹا الزام لگا کر اپنا کیتھارسس کرتے رہتے ہیں۔ سوشلزم کی محض لفظی جگالی کرتے ہیں اور عملاً قوم پرستوں کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔ اور پھر اپنے اس موقع پرستانہ نقطہ نظر کو لینن ازم ثابت کرنے کی ہٹ دھرمی کا تو جواب ہی نہیں۔

لینن مہاجرین کے مسئلے پر ہمیشہ غیر متزلزل بین الاقوامیت کی پوزیشن لیتا رہا اور وہ اس قسم کے جعلی سوشلسٹوں کے لیے جِنگو سوشلزم کی اصطلاح استعمال کرتا تھا۔ سوشلسٹ پروپیگنڈا لیگ کے سیکرٹری کے نام خط میں لینن رقمطراز ہے کہ ’Jingo-Socialismکے خلاف سچی بین الاقوامیت کے لیے ہماری جدوجہد میں ہم اپنے پریس  میں سوشلسٹ پارٹی امریکہ کے ان موقع پرست لیڈروں کا حوالہ دیتے ہیں جو چینی اور جاپانی محنت کشوں کے امریکہ میں ہجرت پر پابندیاں لگانے کے حامی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص عین اس وقت بین الاقوامیت پسند نہیں ہو سکتا جب وہ ایسی پابندیوں کی حمایت کرتا ہو‘۔ اسی طرح لینن کی قیادت میں کمیونسٹ (تیسری) انٹرنیشنل کی چوتھی کانگریس اپنے ’مشرق کے سوال پر تھیسز‘ میں یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی کمیونسٹ پارٹیوں کو ایسے قوانین کے خلاف ایک کیمپئین چلانی ہو گی جو محنت کشوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔اور انہیں اپنے اپنے ملک کے محنت کشوں کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ خود بھی ان قوانین سے پیدا ہونے والی نفرت اورنسلی تعصب کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں‘۔

افغان مہاجرین کے مسئلے پر ہمارا مؤقف دو ٹوک اور واشگاف ہے کہ مہاجرین کا جبری انخلا فی الفور بند کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک مقامی آبادی کی کچھ پرتوں میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا معاملہ ہے اس مسئلے پر بھی ہمارا تناظر غیر مبہم اور واضح ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقات اور ان کی نمائندہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی شعور کی حرکت کا سفر تیز ہو چکا ہے۔ کشمیر، پنجاب اور کے پی کے کی حالیہ شاندار تحریکیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہمیں ان تحریکوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ گوادر میں بھی ہم نے دیکھا کہ مظلوم قوم کی بڑی عوامی تحریک، جس کے محرکات میں جہاں قومی احساسِ محرومی بہرحال شامل تھا مگر اس کو پذیرائی روزمرہ کے مسائل اور بیروزگاری جیسے بنیادی ایشوز کے گرد ہی ملی۔ یہی معاملہ ایک بلند سطح پر کشمیر کی بجلی بلوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں دیکھنے میں آیا۔ ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ کشمیر، بلوچستان اور سندھ سمیت تمام مظلوم اقوام اور محنت کش طبقات کی جدوجہد وں میں جو علاقائی ’فرق‘ ہیں ان سے کہیں زیادہ اشتراک موجود ہے۔ ہم ان تمام مظلوم اقوام کے حقِ خود ارادیت اور آزادی کے حامی ہیں مگر اس آزادی کا حصول عوام کی وسیع تر پرتوں کو محنت کش طبقے کی قیادت میں منظم کیے بغیر ناممکن ہے۔ اور عوام کی وسیع تر پرتیں کسی بھی تحریک میں اس وقت ہی سرگرم ہو سکتی ہیں جب ان کے مسائل تحریک کے ایجنڈے کا حصہ ہوں۔ ان کے لیے آزادی کا مطلب روٹی، روزگار، امن، تعلیم اور علاج کی بآسانی فراہمی ہے۔ ان مسائل سے کٹ کر مجرد آزادی یا جمہوریت کی نعرے بازی کو وہ سنجیدہ نہیں لیتے۔ اس لیے قومی آزادی کے دریاؤں کو طبقاتی جنگ کے سمندر کی طرف موڑ دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔

Comments are closed.