|تحریر: زلمی پاسون|
افغانستان گزشتہ 40 سالوں سے عالمی اور علاقائی سامراجیوں کے سامراجی عزائم کی وجہ سے ظلم و بربریت، وحشت، تباہی اور دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ وہاں ہر روز ظلم اور بربریت کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے، جس میں ہمیشہ کی طرح مظلوم اور معصوم عوام برباد ہوتے ہیں۔عالمی معاشی بحران کے پس منظر میں پوری دنیا میں بدلتی ہوئی سیاسی اور عالمی تعلقات کی صورتحال کے نتیجے میں افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے،جس کی وجہ سے افغان عوام کا جینا محال ہوچکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت روزانہ 13 سے 15 لوگ دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بنتے ہیں،جو کہ 2014ء کے بعد ایک بہت بڑا اضافہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک تین ہزار کے قریب لوگ دہشت گردی کا شکار بنے ہیں،لیکن یہ رپورٹ بھی حقیقی صورتحال کی درست غمازی نہیں کرتی کیونکہ غزنی میں طالبان کے حالیہ حملے کے دوران عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں مظلوم افغان عوام موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ،مگر رپورٹوں میں ان اموات کی تعداد صرف چند سو بتائی گئی ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے 11امیدوار بھی دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں صوبہ ہلمند کے ضلع لشکرگاہ میں وطن پارٹی کے رہنما جبارقہرمان کی ہلاکت قابل ذکر ہے۔جبکہ 18 اکتوبر کو قندھار میں ایک انتہائی حساس سکیورٹی اجلاس میں پولیس چیف جنرل عبدالرازق کی ایک گارڈ کی فائرنگ سے ہلاکت کا واقعہ خطے اور بالخصوص افغانستان میں سیاسی حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے کیونکہ ان دونوں اہم شخصیات کے قتل کے پیچھے بہت سے سیاسی عوامل کارفرما ہیں ۔ ان دونوں شخصیات کے قتل میں سکیورٹی گارڈز ملوث پائے گئے ہیں اور یہ امر بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
افغان سماج کو آج پوری دنیا میں بنیادپرستی،دہشت گردی اور منشیات کی وجہ سے جانا جاتا ہے، مگر یہ سماج ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ افغان ثور انقلاب جس نے 1978ء میں ایک انتہائی پسماندہ نیم سرمایہ دارانہ اور نیم قبائلی سماج کی کوکھ سے جنم لیا اور سماج کی پسماندہ اور مظلوم پرتوں کو امید کی ایک نئی کرن عطا کی وہیں اس انقلاب نے پورے خطے بلکہ عالمی سطح پر رجعتی قوتوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردیا۔ اس انقلاب کے علاقائی اور عالمی دشمن اتنے زیادہ تھے کہ یہ مکمل طور پر پنپنے میں ناکام رہا۔ ایک جانب سوویت یونین کی زوال پذیر سٹالنسٹ بیوروکریسی کی بے جامداخلت اور دوسری جانب امریکی سامراج نے پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر ڈالر جہاد کے سامراجی وار کے ذریعے اس انقلاب کا گلا گھونٹ دیا۔ امریکی سامراج نے تاریخ کے مہنگے ترین خفیہ آپریشن سائیکلون کے ذریعے پورے خطے میں بنیاد پرستی اور مذہبی جنونیت کے بیج بو ئے جس سے نہ صرف افغانستان متاثر ہوا بلکہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار موجود پختون علاقے، جن کو افغان ثور انقلاب کے خلاف’’اسٹرٹیجک لانچنگ پیڈ‘‘ کے طور پر استعمال کیا گیا،بھی شدید متاثر ہوئے۔ 9/11 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستانی ریاست نے ڈالروں کی ہوس میں اس کا ساتھ دیا تو ماضی میں عالمی اور علاقائی سامراجی قوتوں کے بنائے گئے ’’اسٹرٹیجک اثاثہ جات‘‘ نے اپنے ہی آقاؤں کے خلاف ہتھیار اٹھالئے۔ یوں جہاں ایک طرف افغانستان میں ایک نئی جنگ اور قتل و غارت گری کے ایک نئے سلسلے کا آ غاز ہوا وہیں 2004ء میں سابقہ فاٹا میں پاکستانی آرمی نے باقاعدہ آپریشنز کا آغاز کیا جس میں ’کولیٹرل ڈیمیج‘ کے طور پر لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے،بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی برباد ہو گئی اور مظلوم عوام ریاستی جبر کا نشانہ بنے۔ مگر ان سب مظالم اور ریاستی جبر کے خلاف رواں سال کے اوائل میں پشتون تحفظ موومنٹ کی شکل میں ایک تحریک نے جنم لیا، جو کہ بنیادی طور پر تمام پختون قوم پرست اور دیگر سیاسی قیادتوں کی غداری کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء میں وجود میں آئی اور اس نے ریاست کی ان تمام تر پالیسیوں کو للکارا جو کہ 1978ء سے اس خطے کا امن برباد کئے ہوئے تھیں۔ گو کہ اس کی قیادت ابھی تک امریکی سامراج کی کھل کرمذمت نہیں کر سکی۔
افغانستان میں امریکی جارحیت کو مختلف سیاسی قوتوں، بشمول سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج کو اپنا قبلہ سیاست بنانے والے زوال پذیر سٹالنسٹوں، قوم پرستوں اور لبرل قوتوں نے خوش آمدید کہا۔ اس حوالے سے ان کا مؤقف تھا کہ امریکہ اور دیگر عالمی سامراجی طاقتیں افغانستان کو نئے سرے سے تعمیر کریں گی۔ یہ لوگ آج تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ امریکہ اور دیگر عالمی سامراجی قوتیں افغانستان کے اندر امن اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گی جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ افغان عوام آج بھی اسی حالت جنگ میں ہیں جیسا کہ وہ پہلے تھے بلکہ حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ افغانستان میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی نمائندہ ادارہ نہیں ہے جس سے عوام مستفید ہو سکیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 50 فیصد افغانی بچے اس وقت غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ سالانہ 61 ہزار کے قریب لوگ ٹی بی جیسی قابل علاج بیماری کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے بارہ ہزار لوگ سالانہ مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے 34 صوبوں میں ایسے صوبے بھی ہیں جہاں پر کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے اور وزیر صحت کے مطابق افغانستان کی حکومت سالانہ صرف پانچ ڈالر فی کس صحت پر خرچ کرتی ہے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان سے ہر 24 گھنٹے کے اندر 1200 لوگ تشدد اور بدامنی کی وجہ سے ہجرت کرتے ہیں جبکہ سالانہ تین لاکھ کے قریب مہاجرین زبردستی واپس افغانستان بھیج دیئے جاتے ہیں،جو کہ افغانستان میں بنیادی ضروریات جیسے روٹی، کپڑا اور مکان کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھا کر واپس مہاجر بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈھائی لاکھ افراد تو صرف پینے کے پانی کی تلاش میں ملک کے اندر یا باہر ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اسی طرح افغانستان کے ادارہ برائے مرکزی شماریات کے مطابق 40 فیصد لوگ بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ہر ایک ہزار میں سے 118 بچے سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ سالانہ ہر ایک ہزار میں سے 280 خواتین زچگی کے دوران موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مگر ہم مارکس وادیوں نے افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے وقت بھی یہی کہا تھا کہ یہ عالمی اور علاقائی سامراجی قوتیں صرف اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے افغانستان آئے ہیں اور ان کے سامراجی عزائم کے نتیجے میں افغانستان ہر حوالے سے تباہی سے دوچار ہوگا ۔آج یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے۔ لیکن ان سب سیاسی قوتوں بشمول زوال پذیر سٹالنسٹوں، قوم پرستوں اور لبرلوں نے مارکس وادیوں کی اس پوزیشن پر نہ صرف یہ کہ تنقید کی تھی بلکہ ان پر مختلف گھٹیا الزامات بھی لگائے تھے مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سچائی اور حقیقت کیا ہے۔
افغانستان اس وقت شدید خانہ جنگی کا شکار ہے اور پورے ملک کے اندر ایک زبردست انتشار کی کیفیت ہے۔ مگر لوگ کسی بھی خونخوار واقعے پر اپنے غصے کا اظہار کرنا بھی چاہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں جس کی مثالیں ہلمند سے کابل تک ہونے والے امن لانگ مارچ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بلیک اکانومی اور طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے ہلمند میں خواتین کے امن کیمپ سے ملتی ہیں۔ یہ سب تحرک بالعموم سماج کے اندر پنپتے ہوئے غم و غصے کا ایک اظہار ہے۔ مگر افغانستان کے تباہ شدہ سماج میں ایک بڑی عوامی تحریک کے پنپنے میں بہت سی معروضی مشکلات بھی حائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تباہ حال افغان سماج کے اندر یا کسی ہمسایہ ملک سے کوئی عوامی آواز اٹھتی ہے تو افغان عوام اس کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ اس کے برعکس مظلوم افغان عوام ایسی آواز کو اپنانے کی طرف جائیں گے۔
عالمی معاشی بحران کی وجہ سے دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والا لبرل ورلڈ آرڈر بکھر چکا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سامراج ٹرمپ کی سربراہی میں ان تمام معاہدوں سے یا تو نکل چکا ہے یا پھر ان سے نکلنے کا سوچ رہا ہے،جن کی بنیاد پر یہ ورلڈ آرڈر قائم تھا۔اس عالمی بحران کی وجہ سے دنیا میں تجارتی جنگ کا بھی آغاز ہوچکا ہے جس میں امریکی سامراج تحفظاتی پالیسیاں اپنا رہا ہے اور ان تحفظاتی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ کا دیگر ممالک بالخصوص چین کے ساتھ تجارتی ٹکراؤ بڑھ رہا ہے جبکہ یورپ، میکسیکو، کینیڈا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ ہونے والی تجارت میں بھی امریکہ اپنی تحفظاتی پالیسیوں کے تحت درآمدی ڈیوٹیاں لگا رہا ہے۔ معاشی بحران، سیاسی بحرانات اور عالمی تعلقات میں شدید اتھل پتھل کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ امریکی سامراج افغانستان میں ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ میں بری طرح پھنس چکا ہے۔مشرق وسطیٰ میں بھی امریکی سامراج کا خصی پن کھل کر واضح ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان کے اندر جنگ جو کہ امریکی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ ہے،جس کو اب شروع ہوئے دو دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں، میں بھی علاقائی سامراجیوں نے امریکی سامراج کے خصی پن کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے سامراجی عزائم کو کھل کر پورا کرنے کی کوشش کی،جس سے افغانستان کے اندر طالبان کے نام سے لڑنے والے گروپوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ بالخصوص پاکستانی سامراج نے جہاں ایک طرف اس جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی امداد اور بلیک اکانومی کے ذریعے خوب مال بنایا وہیں دوسری طرف طالبان جنگجوؤں کے مختلف دھڑوں کی سرپرستی کر کے افغانستان میں اپنے سامراجی عزائم کو بھی نہایت سفاکانہ انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے اندر داعش کے ساتھ ساتھ طالبان کے کم از کم 14 کے قریب دھڑے موجود ہیں جو کہ مختلف علاقائی سامراجی ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اس امر نے افغانستان کو مختلف علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتوں کی بالا دستی کی جنگ کا ایک اکھاڑہ بنا دیا ہے۔
عیدالفطر کے موقع پر (طالبان اور افغان حکومت) کے درمیان تین روزہ جنگ بندی ہوئی جس کو جنگ سے ستائی ہوئی عوام میں بہت زبردست پذیرائی ملی۔ خطے میں موجود مختلف سیاسی قوتوں نے بھی اس کو بہت سراہااور بعض سیاسی قوتوں بالخصوص قوم پرستوں اور لبرلز نے اس اقدام کو’’بین الافغانی‘‘ مذاکرات کا نام دیا۔لیکن ان کی خوشی اس وقت ماندپڑ گئی جب طالبان نے جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے فوراً بعد دوبارہ حملے شروع کر دیے۔ بالخصوص غزنی کے واقعے نے ’’بین الافغانی‘‘ مذاکرات کا راگ الاپنے والوں کو خوب مایوس کیا کیونکہ ان تمام سیاسی نابالغ قوتوں کو افغانستان کے اندر جنگ کی ٹھوس معروضی حرکیات اور خطے اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا کچھ علم نہیں ہے۔ افغانستان میں امن اور خوشحالی کے آنے کا خواہشمند ہر کوئی ہوگا مگر امن اور خوشحالی صرف خواہشات کے بل بوتے پر نہیں آسکتے بلکہ اس کیلئے اس پورے عمل کو ٹھوس سائنسی بنیادوں پر سمجھنا اور آئندہ کے لئے ایک قابل عمل طریقہ کار اور لائحہ عمل تشکیل دینا پڑے گا۔
ستمبر میں ماسکو کی طرف سے طالبان سے مذاکرات کے لئے انڈیا، چین، پاکستان اور ایران کے علاوہ افغان حکومت کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر غزنی واقعے کے بعد افغان حکومت نے اس مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور نتیجتاً یہ مذاکراتی عمل معطل ہو گیا۔ افغان کٹھ پتلی حکومت نے روس پر الزام لگایا کہ وہ طالبان کے ساتھ مختلف طریقوں سے تعاون کر رہا ہے۔ جس کو ماسکو نے مسترد کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف طالبان نے جنگ بندی سے پہلے اور بعد میں افغان حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا اور براہ راست امریکی سامراج سے مذاکرات کرنے کی بات کی جس پر حال ہی میں عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں قطر میں طالبان اور امریکی سامراج کے درمیان مذاکرات کے دو راؤنڈ ہوچکے ہیں جن میں امریکی سامراج کی نمائندگی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کررہاہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس پورے عمل میں افغان کٹھ پتلی حکومت کو بائی پاس کیا گیا اور امریکی سامراج براہ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے، جس کی وجہ سے افغان حکومت میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں اور اب تک چار وزرا مستعفی ہوچکے ہیں۔اس مذاکراتی عمل کے بعد افغانستان میں لڑائی اور اس میں مرنے والے لوگوں کا نقشہ تبدیل ہونے لگا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ 11 انتخابی امیدوار اب تک مارے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ غزنی اور قندھار میں الیکشن کا عمل ملتوی کردیا گیا ہے۔یہاں پر یہ بات بہت ضروری ہے کہ جبارقہرمان اور جنرل رازق کے قتل کی کڑیاں اس مذاکراتی عمل سے جاکر ملتی ہیں جس میں جنوبی افغانستان میں طالبان کو سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں حصہ دینا بھی زیر گفتگو ہے۔واضح رہے کہ ان مذاکرات میں طالبان نے یہ شرائط بھی رکھی ہیں کہ امریکی فوج کے مکمل انخلا سمیت اس کے سٹرٹیجک اڈوں کا بھی خاتمہ ہوگا،مگر امریکہ کبھی بھی یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے، بالخصوص سٹرٹیجک اڈوں کے حوالے سے امریکہ کا اخراج قریب ناممکن ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے عراق کے اندر بھی سخت مخالفت کے باوجودا بھی تک اپنے سٹرٹیجک اڈے قائم رکھے ہوئے ہیں۔ مگر یہاں پر یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ طالبان کے کونسے دھڑے کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان مذاکرات کی کامیابی طالبان کی آپسی لڑائی کو چھیڑ سکتی ہے کیونکہ طالبان اس وقت ایک کل کی حیثیت سے ایک پیج پر نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان، چین، روس، انڈیا، ایران اور دیگر سامراجی ممالک کے مفادات امریکی مفادات سے متصادم ہیں اور ان مذاکرات کی کامیابی ان سامراجی قوتوں کے مفادات پر بھی منحصر ہے۔ اس کے علاوہ اس تمام عمل سے موجودہ کٹھ پتلی افغان حکومت میں اختلافات اور انتشار مزید تیزی سے بڑھے گا جس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ افغانستان کے اندر اس وقت داعش کا ناسور بھی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور مذاکراتی عمل سے ناراض طالبان داعش کو بھی جوائن کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس خونخوار جنگ کی دلدل میں ایک بات بہت صاف ہے کہ یہاں پر کوئی کسی کا نہیں ہے۔ اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقائی سامراجی قوتوں میں بالخصوص پاکستان کا کردار سب سے بھیانک اور دوغلا ہے۔لیکن پاکستانی ریاست کو اس وقت شدید مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے انہیں بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہے جس کے لئے پاکستانی ریاست کو اپنے پرانے آقا امریکی سامراج کے زیر دست ادارے آئی ایم ایف کی طرف لوٹنا پڑا۔ اس حوالے سے مذاکرات کا عمل امریکی آشیرباد سے ہی آگے بڑھ رہا ہے مگر اس پورے عمل میں پاکستانی ریاست کو امریکی سامراج کی شرائط کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا چار گھنٹے کا دورہ اس حوالے سے اہم تھا حالانکہ اس سے پہلے امریکی سامراج نے پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے بیل آؤٹ پیکیج پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔مگر امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد وہ تحفظات دور ہوگئے اور ان تحفظات کے دور ہونے کی وجوہات میں پاکستانی ریاست کا افغانستان کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کا وعدہ بھی شامل تھا۔مگر پاکستانی ریاست ابھی بھی ایک طرف معاشی بحران اور دوسری طرف افغانستان کے اندر سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی سے وابستہ مفادات کے حوالے سے شش و پنج میں ہے۔ جبکہFATF کی گرے لسٹ میں شمولیت اور پھر بلیک لسٹ ہونے کی تلوار بھی پاکستانی ریاست کے سر پر لٹک رہی ہے۔ افغانستان کے اندر پاکستانی ریاست کی مداخلت کے بارے میں اس وقت بچہ بچہ جانتا ہے۔ اور افغان سماج کو تاراج کرنے میں امریکی سامراج کے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاست بھی برابر کی شریک ہے۔
ان سب حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے افغانستان میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس وقت کوئی بھی حل نظر نہیں آرہا ہے جبکہ مظلوم عوام نیٹو، طالبان اور افغان آرمی تینوں سے بیزار ہیں جس کا وہ اکثر ذکر بھی کرتے ہیں۔ جبکہ 20 اکتوبر کو ہونے والے الیکشن کے حوالے سے بھی عام عوام کی یہی رائے ہے کہ ہمارے حالات ان انتخابات سے بدلنے والے نہیں ہیں،مگر اس کے باوجود ایک متبادل نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان کے اندر 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں عوام نے شرکت کی۔ وہ اپنے زخموں کے لئے کوئی مرہم ڈھونڈ رہے ہیں مگر یہاں پر یہ بات بہت واضح ہے کہ موجودہ افغان کٹھ پتلی حکومت یا آنے والی حکومت انہی مجاہدین، طالبان اور جنگجو سرداروں پر مشتمل ہوگی جنہوں نے عام افغان عوام کی زندگی کو تباہ کرنے میں عالمی اور علاقائی سامراجی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے اندر ظلم، بربریت اور تباہی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ سرمایہ دارنہ نظام کی پیداوار ہے جس نے افغانستان کی کئی نسلوں کو تباہ کیا اور مظلوم افغان محنت کش عوام پوری دنیا میں دربدر کی ٹھوکریں کھا نے پر مجبور ہو گئے۔ افغان سماج میں ہر قسم کیبرائی، دہشت گردی، ظلم، جبر اور استحصال کا خاتمہ خطے کے محنت کش عوام کی ایک انقلابی تحریک کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ انقلابی ذمہ داری اس خطے کے محنت کش عوام کے کاندھوں پر ہے کہ وہ مظلوم افغان محنت کش عوام کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے سوشلسٹ سماج کی خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔
عالمی اور علاقائی سامراج مردہ باد!
مظلوم افغان عوام زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!