|تحریر: اولیور برادرٹن، ترجمہ: یار یوسفزئی|
اگست کے شروع میں افغانستان سے امریکی افواج کے بدنظم انخلاء کے بعد، اب ہزاروں افغانی ملک سے ہجرت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بے مثال انسانیت سوز بحران امریکہ اور یورپ کے سیاست دانوں کا ہی پیدا کردہ ہے، جو مہاجرین کو بے یار و مددگار چھوڑ کر ان کی تکالیف پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
افغانستان میں عوام کی یہ در بدری امریکہ کے انخلاء سے شروع نہیں ہوئی۔ اس وقت افغانستان کے اندر 35 لاکھ آئی ڈی پیز (ملک کے اندر گھر بار چِھن جانے کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھانے والے) موجود ہیں، جن کے علاوہ 25 لاکھ افراد امریکی قبضے کے باعث دیگر ممالک کو ہجرت کر چکے ہیں۔ محض اس سال میں تنازعے کی شدت کی وجہ سے 5 لاکھ افغانی بے گھر ہوئے ہیں۔ بہرحال بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی وجہ سے، جو ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس تعداد میں ڈرامائی اضافہ آنے کے امکانات موجود ہیں۔
جنگ ان بے شمار عذابوں میں سے ایک ہے جو افغانیوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے۔ جنگ کے علاوہ اس وقت ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے جس سے 30 لاکھ افراد کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور 1 کروڑ 40 لاکھ افراد فاقوں کا شکار ہیں؛ حکومت کا فرار اختیار کرنے اور طالبان کے قبضے کے بعد دیوہیکل معاشی بحران کا سامنا ہے؛ اور کرونا وباء کے شدید اثرات کا بھی سامنا ہے جبکہ آبادی کی بڑی اکثریت کی ویکسین کی ڈوز تک بالکل بھی رسائی نہیں۔ جنگ، ماحولیاتی تبدیلی، قحط اور بیماریوں میں گھِرے ہوئے غریب افغانی نا قابلِ تصور تکالیف سے گزر رہے ہیں، جو آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کریں گی، اور جو لاکھوں افراد کو بیرونِ ملک پناہ لینے پر مجبور کر رہی ہیں۔
بیرونِ ملک ہجرت کرنے والے 25 لاکھ افراد کی بھاری اکثریت اس وقت ایران اور پاکستان (20 لاکھ سے زائد) میں موجود ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ امیر سامراجی ممالک، جن میں افغانستان پر چڑھائی کرنے والے ممالک بھی شامل ہیں، کے حکمران طبقوں کے پاس مہاجرین کو نیک خواہشات اور دعائیں دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جہاں وہ مہاجرین کو چند خیراتی ٹکڑے دیتے بھی ہیں، وہاں وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کی سخاوت کی تعریف میں آسمان سر پر اٹھایا جائے۔
مثال کے طور پر برطانیہ میں وزیراعظم بورس جانسن نے افغان مہاجرین کے لیے ایک ”خصوصی منصوبے“ کا وعدہ کیا جو اس کے مطابق ”ہمارے ملک کی تاریخ میں سب سے دریا دل اقدام ہوگا“۔ جانسن کا منصوبہ اس سال 5 ہزار افغان مہاجرین کو برطانیہ آنے کی اجازت دے گا۔ جن سامراجی قوتوں نے افغانستان پر بمباری کرتے ہوئے اسے ریزہ ریزہ کر دیا، ان میں سے ایک کی جانب سے اگر یہ دریا دلی کم پڑ گئی، تو جانسن نے مزید 15 ہزار مہاجرین کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔۔۔آنے والے پانچ سالوں کے اندر۔ ظاہر ہے کہ تب تک ہجرت کے خواہشمند افراد کو ایک لمبے عرصے کے لیے طالبان کی وحشت کے تحت جینا پڑے گا۔ یہ ایک کھوکھلے وعدے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ تعداد ان 60 لاکھ افراد کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے جو انہی بیرونی سامراجیوں نے بے گھر کیے ہوئے ہیں۔ اگر ہم بورس جانسن کی ’دریا دلی‘ کا حقیقی اندازہ لگانا چاہئیں تو یہ حقیقت قابلِ غور ہے کہ برطانیہ نے 2008ء سے لے کر اب تک 15 ہزار افغانیوں کو ملک بدر کیا ہے۔
برطانیہ میں پناہ گزین ہونے والے چند خوش قسمت افراد کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ وہ رہائش کا بندوبست کرنے میں خوار ہوں گے اور ریاست انہیں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گی۔ انہیں پسماندہ علاقوں میں رہنے پر مجبور کیا جائے گا، جہاں گھروں کا فقدان ہوگا اور وہ خطرناک حالاتِ زندگی سے دوچار ہوں گے۔ مہاجرین کی رہائش کا مسئلہ ’حل‘ کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ اپنایا گیا کہ انہیں فوجی بیرکوں میں رکھا گیا، جہاں ان کی ذہنی و جسمانی صحت کو تباہ کن خطرات لاحق ہیں، جیسا کہ کینٹ کاؤنٹی کے اندر اس قسم کی پناہ گاہ میں کرونا وائرس کے حالیہ پھیلاؤ سے ظاہر ہوتا ہے، جہاں 200 مہاجرین کا کرونا ٹیسٹ مثبت نکلا ہے۔
انہیں نا قابلِ خوراک کھانا، خستہ حال چھتیں، رہائش کے مسائل، لال بیگوں سے بھرے ہوٹل کے کمرے اور اسی طرح کی دیگر اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ جو لوگ پانچ سال انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں اور غیر قانونی طریقے سے برطانیہ آئیں گے، ان کے حوالے سے ہوم سیکرٹری پریتی پاٹیل نے پچھلے مہینے چار سال قید کی سزا کی تجویز پیش کی ہے۔ یہی برطانوی حکمران طبقے کی مشہورِ زمانہ ’دریا دلی‘ ہے، جو اپنے سامراجی جرائم کے متاثرین کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔
ایک جانب ٹوری سیاست دان اپنی ’انسان دوست‘ خدمات پر واویلا مچا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف ٹوری میڈیا ہجرت کی اس نئی لہر کو استعمال کرتے ہوئے سماج بھر میں خوف، تقسیم اور زینوفوبیا (غیر ملکیوں سے نفرت) پھیلا رہی ہے۔ برطانیہ میں دائیں بازو کے اخبار ڈیلی میل نے دعویٰ کیا ہے کہ مہاجرین کو ساحلِ سمندر پر واقع ہوٹلوں میں رہائش دی جائے گی، جس کی وجہ سے چھٹیوں کے دوران برطانوی خاندانوں کے تفریحی منصوبے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
یورپ کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے، یورپی یونین کے قائدین اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو ہیجان انگیز طور پر مہاجرین کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے مقبولیت حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ پچھلے ہفتے، آسٹریا کے وزیرِ داخلہ کارل نیہامر نے کہا کہ ”جہاں تک ممکن ہوا“ ہم لوگوں کو افغانستان واپس بھیجتے رہیں گے، جبکہ چانسلر سباستیان کرس نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والے عرصے میں آسٹریا ایک بھی افغانی مہاجر کو قبول نہیں کرے گا۔
جرمن پارٹی سی ڈی یو کی جانب سے چانسلر کا امیدوار ارمین لاشت نے بھی انہی جذبات کا اظہار کیا، جس نے سقوطِ کابل کے حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ”2015ء کو نہیں دہرانا چاہیے“۔ یہ شامی خانہ جنگی کے باعث پیدا ہونے والے ہجرت کے بحران کی جانب اشارہ تھا، جو سامراجی مداخلت کی پیدا کی گئی ایک اور انسانیت سوز تباہی تھی، جسے یورپ بھر میں دائیں بازو کے سیاست دانوں اور پارٹیوں نے خود غرضانہ طور پر استعمال کرتے ہوئے زینوفوبک جذبات کو بھڑکایا تھا۔ جرمنی کے اندر ستمبر میں نئی حکومت منتخب ہونے جا رہی ہے، جس کے پیشِ نظر لاشت اور دائیں بازو کی سی ڈی یو بلاشبہ رجعتی پارٹی اے ایف ڈی کے حامیوں سے اپیل کرنے کے لیے بیتاب ہیں، جس نے 2015ء کے اندر مہاجرین مخالف جذبات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تعداد میں اضافہ کیا تھا۔
اس دوران، رجعتی اخبار بیلد نے مرکل کی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہاجرین کے حوالے سے ”جرمن اقدار“ کی اہمیت پر زور دینے میں ناکام ہوئی ہے، اور دعویٰ کیا کہ افغانستان میں سامراجی مداخلت ”کافی دیر سے کی گئی اور وقت سے کافی پہلے اسے روک دیا گیا“۔
اس دوران، یونانی حکومت نے مہاجرین کی نئی لہر کے امکانات کے پیشِ نظر ترکی سرحد پر واقع 40 کلومیٹر خار دار تاروں کو مزید پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ یونانی حکومت کے ترجمان نے وعدہ کیا کہ وہ ”ہجرت اور مہاجرین کے مسئلہ کے شدید ہونے کے امکانات کو سنجیدہ لے رہے ہیں“ اور یورپی یونین سے ہجرت مخالف نئے اقدامات کی حمایت کرنے کی درخواست کی۔
حتیٰ کہ یورپی سیاست کے نام نہاد ’معتدل‘ لبرلز نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے معاملے میں رجعتی اور مہاجرین مخالف بیانیے اپنائے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانئیل میکرون نے پچھلے ہفتے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کو ”لازمی طور پر اپنا آپ غیر قانونی مہاجرین کی بڑی تعداد سے محفوظ رکھنا ہوگا“ اور افغانستان کے اوپر طالبان کے قبضے کے باعث ”غیر معمولی ہجرت“ کے خطرے پر بات کی، جس کا مزید کہنا تھا کہ فرانس محض ان مہاجرین کو خوش آمدید کہے گا جو ”ہماری اقدار سے موافقت رکھتے ہیں“۔ میکرون کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی بیان بازی کا مقصد کئی لوگ صحیح طرح سے سمجھ رہے ہیں، جو اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیشِ نظر شدت پسند رجعتی نیشنل ریلی (سابقہ نیشنل فرنٹ) کے حامیوں کے بیچ مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے صارفین نے میکرون کا مذاق اڑاتے ہوئے اس کا موازنہ نیشنل ریلی کے قائد میرین لی پین کے ساتھ کیا اور اسے ”ایمانئیل لی پین“ کا نام دیا، جو اسی کی طرح آنے والے عرصے میں افغانستان کی جانب سے ”حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرے“ اور ”ہجرت کی نئی لہروں“ کے بارے میں خوف و ہراس پھیلا رہا ہے۔
سب سے زیادہ منافقت سامراجی قوتوں میں سے افغانی عوام کی بربادی کے سب سے بڑے ذمہ دار، یعنی امریکہ کی جانب سے دیکھنے کو ملی۔ بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ پناہ لینے کے خواہشمند افراد اور مہاجرین کی مدد کے لیے ”ہر ممکن وسائل“ استعمال کیے جائیں گے، مگر اس کے باوجود وائٹ ہاؤس نے تجویز پیش کی ہے کہ محض تقریباً 50 ہزار افغانیوں کو ملک داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اور اس کے لیے فقط وہ افراد درخواست دے سکیں گے جنہوں نے ماضی میں امریکی فوج کے تحت نوکری کی ہو۔ جبکہ امریکی قبضے کے دوران کسی ایک یا دوسرے طریقے سے اس قسم کی نوکری کرنے والے افراد کی تعداد کا اندازہ 3 لاکھ لگایا گیا ہے۔ امریکی قبضہ گیروں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد، ان افراد کی اکثریت کو موت کی وادی میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس تعداد میں وہ افراد شامل نہیں جنہوں نے قبضہ گیر افواج کے تحت کام نہیں کیا، مگر ابھی انہیں سیاسی سرگرمیوں اور مذہبی عقائد وغیرہ کی بنیاد پر طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا خطرہ درپیش ہے۔
امریکی حکومت مہاجرین کے راستے میں ہر ممکنہ رکاوٹ حائل کرے گی۔ امریکہ جانے کے خواہشمند افراد کے لیے ملک میں داخل ہونے سے پہلے ’خصوصی مہاجر ویزہ‘ (ایس آئی وی) حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے، جس کے لیے انتہائی گہری جانچ پڑتال سے گزرنا لازمی ہے۔ اس عمل، جس کے انتظامات ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں، سے گزرنے کے لیے نوکری کا ثبوت، قومیت کا ثبوت اور منظوری کا خط درکار ہوگا۔ بعض لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ امریکی قونصلر کے عملے نے امریکی ایمبیسی خالی کرانے سے پہلے قیمتی دستاویزات برباد کرتے ہوئے اس قسم کے کئی دستاویزات جلا دیے تھے۔ مزید برآں، امریکہ جانے والے مہاجرین کے لیے ’بائیو میٹرک جانچ پڑتال‘ کروانی لازمی ہوگی، جس میں آواز، آنکھوں، ہاتھوں اور چہرے کی شناخت کی جائے گی۔
البتہ انٹرنیشنل ریفیوجی اسسٹنس پراجیکٹ کے مطابق جانچ پڑتال کا یہ عمل ’انتظامی نقائص سے بھرا پڑا ہے‘، یعنی کئی مہاجرین ”ایس آئی وی کے عمل میں کئی سالوں تک پھنسے رہیں گے“۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ داخل ہونے کی امید میں بیٹھے افغانی یا تو افغانستان میں محصور رہیں گے، یا پھر کاغذاتی کارروائی مکمل ہونے تک آنے والے عرصے میں انہیں فوجی اڈوں کے اندر مقید رکھا جائے گا۔ امریکہ ہزاروں افغان مہاجرین کو خطرناک اور نا قابلِ برداشت انتظار گاہ میں رہنے پر مجبور کرے گا، جن کا واحد جرم ویٹنگ لسٹ پر ہونا ہوگا۔
ایسی ویڈیوز وسیع پیمانے پر وائرل ہو چکی ہیں جن میں کابل ایئرپورٹ کے باہر جمع ہزاروں بے چین مہاجرین کو دیکھا جا سکتا ہے، جن کو امریکی سپاہی ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے ذریعے منتشر کر رہے ہیں۔ 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے وحشت ناک بم دھماکوں، جس نے 90 لوگوں کی جان لی، سے پہلے بھی فائرنگ اور جھڑپوں کے نتیجے میں درجنوں شہری مارے جا چکے تھے، اور اس سے کئی زیادہ ایئرپورٹ اور تحفظ تک رسائی حاصل کرتے زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ امریکی سپاہی انہیں ہر ممکنہ طریقے سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اڑان بھرتے امریکی جہازوں کے ساتھ لٹکتے ہوئے بیتاب شہریوں کی ویڈیوز خصوصی طور پر دل دہلا دینے والی ہیں، جو حفاظتی مقامات کا پیچھا کرتے موت کے منہ میں گر رہے تھے۔
The scene at Kabul airport several hours ago per source from an NGO who is trying to get people out. Main problem is that it's impossible to pass the gates and get to the planes even if you are on an evacuees list pic.twitter.com/b3bZn5B34Z
— Barak Ravid (@BarakRavid) August 21, 2021
ان حالات کے باوجود، بعض لوگوں کے نزدیک کابل کا بڑھتا ہوا بحران تھوڑا سا مزید منافع کمانے کا سنہرا موقع ہے۔ ’نجی سیکیورٹی‘ (یعنی پیشہ ور سپاہیوں) کی کمپنی بلیک واٹر، جس نے ماضی میں بھی افغانستان اور عراق کے اندر امریکی مہم جوئیوں میں بے تحاشا منافعے کمائے ہیں، ابھی مبینہ طور پر کابل سے باہر جانے والی کرائے کی فلائٹس کے ٹکٹ 6 ہزار 500 ڈالر فی کس پر بیچ رہے ہیں۔
اگر افغان مہاجرین کی تکالیف میں امریکی سامراجیت کمی کرنے سے قاصر ہے تو کوئی بات نہیں، وہ اپنے زخموں پر ہمدردانہ الفاظ کا مرہم رکھ سکتے ہیں۔ افغانستان پر چڑھائی کے منصوبہ ساز جارج بش نے فرار اختیار کرتے مہاجرین کے بارے میں ”شدید غمگین“ ہونے کا اظہار کیا ہے، جو ماضی میں امریکی امداد پر زندہ رہنے والے طالبان اور بش ہی کی شروع کی ہوئی جنگ سے بھاگ رہے ہیں۔ اس دوران، ٹونی بلیئر نے گہری پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن کے بارے میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے انہیں فرار حاصل کروانے اور پناہ گاہ فراہم کرنے میں ہمیں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ واقعی میں، ’مگرمچھ کے آنسو بہانے‘ کی اس سے شاندار مثال ہمیں نہیں ملے گی۔
دنیا بھر کے حکمران افغانستان کے بارے میں نیک خواہشات رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور مہاجرین کی اذیتوں پر جذباتی بیانات دے رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان عوام منافعوں کے بھوکے ان سامراجیوں سے کوئی بھی مدد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ بورس جانسن کی ’دریا دلی‘، میکرون کا ’فرض اور وقار‘، اینجلا مرکل کی ’بچاؤ مہم‘، بائیڈن کی ’دل شِگافی‘۔۔۔یہ ڈرامے بازیاں ان لاکھوں افغان مہاجرین کی تحقیر ہے جن کی زندگی برباد کر دی گئی ہے۔
سرمایہ داری کے تحت، حکمران طبقے کے نزدیک مہاجرین معاشی لحاظ سے رکاوٹ ہوتے ہیں، جنہیں قربانی کا بکرا سمجھا جاتا ہیں، سیاسی کھیلوں میں مہرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور سامراجیت کی حامی دائیں بازو والی پارٹیاں ان کے خلاف نفرت بھڑکا کر اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سامراجی جنگجوؤں سے افغان مہاجرین کی حمایت کرنے کی توقع نہیں کر سکتے جو بیرونِ ملک ہزاروں لاکھوں افراد کو مارنے، اپاہج کرنے اور بے گھر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ممالک کے محنت کشوں کی زندگی اور کام کے حالات کو بھی بد سے بد تر بناتے رہتے ہیں۔
موجودہ بحران سے ایک دفعہ پھر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سامراجیوں کو افغان عوام کی زندگی اور روزگار کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سامراجی مہم جوئیوں کے نتیجے میں گھر بار تباہ و برباد ہونے کے بعد در بدر ہونے والے معصوم متاثرین کے لیے سرحدیں کھول دی جائیں۔ مگر یہ صرف اور صرف اس حکمران طبقے اور سرمایہ ادرانہ نظام کا خاتمہ کر کے ہی ممکن ہے جس نے ان سرحدوں کو بنایا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی وجہ سے ہی مرد، خواتین اور بچے افغانستان سے فرار ہو رہے ہیں اور کسی اور جگہ میں سکون کی سانس لینے کے متلاشی ہیں۔ افغانیوں کے طبقاتی دشمن ہمارے بھی طبقاتی دشمن ہیں۔ سامراجی ممالک کے محنت کشوں کا یہ بین الاقوامی فریضہ ہے کہ افغانستان کے طبقاتی بہن بھائیوں کی خاطر اپنے اپنے حکمران طبقے کا تختہ الٹنے کی لڑائی لڑیں اور سامراجیت، سرحدوں اور جنگوں سے پاک ایک سوشلسٹ معاشرہ تخلیق کریں۔